بینک نے ’’(آپ سے) قرض کے پیسے واپس لینے کے لیے گاندھی گیری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لیے بینک نے درج ذیل میں سے ایک کرنے کا فیصلہ کیا ہے: ۱) احتجاج کے طور پر آپ کے گھر کے باہر ایک ٹینٹ لگا دیا جائے گا، ۲) بینڈ باجے کا استعمال کیا جائے گا، ۳) گھنٹیاں بجائی جائیں گی۔
’’ان اقدامات سے سماج میں آپ کی شبیہ اور مقام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘‘
یہ عثمان آباد ڈسٹرکٹ سنٹرل کوآپریٹو بینک (او ڈی سی سی) ہے جو اپنے ۲۰ ہزار صارفین کو عوامی طور پر بے عزت کرنے اور ان کا مضحکہ اڑانے کا اعلان کر رہا ہے۔ ان کسانوں نے، جن میں سے زیادہ تر کسان ہیں، کئی برسوں تک مایوسی کا سامنا کیا ہے۔ بعض دفعہ فصل برباد ہونے سے، کبھی قیمت گرنے سے۔ لگاتار قحط اور پانی کی کمی کے سبب ان کے قرض کی ادائیگی پر مزید اثر پڑا ہے۔ اور ان سب سے اوپر ۵۰۰ اور ۱۰۰۰ روپے کے نوٹوں پر پابندی کی وجہ سے اب وہ مزدوروں کی روزانہ کی اجرت بھی نہیں دے پا رہے ہیں۔ ’’کھیت پر کام کرنے والوں کو ۹ نومبر سے اب تک ایک بھی پیسہ نقد میں نہیں دیا گیا ہے،‘‘ ایس ایم گاولے بتاتے ہیں، جو کھیڑ گاؤں کے ایک چھوٹے کسان ہیں۔ ’’سبھی بھوکے ہیں۔‘‘
بینک کے لیٹر میں (جس کا ترجمہ اس اسٹوری کے اخیر میں دیا گیا ہے) کسانوں سے کہا گیا ہے کہ جمع کرنے والے بینک سے اپنے پیسے نہیں نکال پا رہے ہیں اس کے لیے یہ کسان ذمہ دار ہیں۔ اور انھیں وارننگ دی گئی ہے: ’’آپ کو معمول ہونا چاہیے کہ اگر بینک میں پیسے جمع کرنے والا کوئی آدمی اس کی وجہ سے خودکشی کر لیتا ہے، تو اس کے لیے ذمہ دار آپ کو مانا جائے گا ۔۔۔‘‘
ایسی حالت میں، بینک کی ’ری کوری ٹیموں‘ کا گاؤں کا دورہ کرنا اور پھر کسانوں اور ان کی فیملیز کو ڈرانے سے تناؤ اور مایوسی مزید بڑھی ہے۔ یہاں کے ۲۰ ہزار کسانوں نے او ڈی سی سی سے کل ملا کر ۱۸۰ کروڑ روپے قرض لے رکھے ہیں۔ جب کہ صرف دو شوگر فیکٹریوں، ٹیرنا اور تھلجا بھوانی نے اسی بینک سے کل ۳۵۲ کروڑ روپے کا قرض لے رکھا ہے۔ لیکن اس رقم کو واپس لینے کے لیے بینک نے جو پلان بنایا ہے، وہ اس وقت فیل ہو جاتا ہے جب طاقتور لوگوں کی کمپنیوں کا معاملہ آتا ہے اور صرف چھوٹے کسانوں پر چلتا ہے۔ ’’فیکٹریاں بند ہیں،‘‘ او ڈی سی سی کے ایگزیکٹو ڈائرکٹر وجے گھونسے پاٹل کہتے ہیں۔ اس لیے وہاں کوئی ’’گاندھی گیری‘‘ نہیں۔ نہ ہی بینک نے ان کی قیمتی زمینوں پر قبضہ کیا ہے اور نہ ہی ان کی نیلامی ہوئی ہے۔
’’اس ’گاندھی گیری‘ پلان کے پیچھے شری ارون جیٹلی کی تقریر کا ہاتھ ہے۔‘‘ گھونسے پاٹل کہتے ہیں، جو اس خط کو لکھنے والے ہیں جس نے گاؤں میں غصہ پیدا کر دیا ہے۔ عثمان آباد ٹاؤن میں بینک کے ہیڈکوارٹر میں ہم سے بات کرتے ہوئے، وہ اپنے اس قدم کا دفاع کرتے ہیں: ’’اسے پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران مرکزی وزیر خزانہ کے ذریعہ ڈیفالٹرس کو دی گئی وارننگ سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے۔‘‘
بائیں: وجے گھونسے پاٹل، اوڈی سی سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، عثمان آباد ٹاؤن میں بینک کے ہیڈکوارٹر میں۔ دائیں: لوہارا بلاک کا ایک کسان ان پریشانیوں کو بیان کر رہا ہے، جس کا وہ سامنا کرتے ہیں
’’میں نے وہ لیٹر تیار کیا،‘‘ گھونسے پاٹل کہتے ہیں۔ ’’اور میں اسے لے کر سنجیدہ ہوں۔ ہمیں مارچ ۲۰۱۷ تک نان پرفارمنگ ایسٹس (این پی ایز) کو (ٹوٹل ایڈوانس سے) ۱۵ فیصد نیچے لانے کی ضرورت ہے۔ مجھے اس پر سختی سے عمل کرنا ہے۔ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘‘ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس لیٹر کو بغیر کسی قانونی مشورہ کے تیار کیا گیا ہے اور ’’بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرس کو جمع کر دیا گیا، جس نے اسے او کے کر دیا۔‘‘
بہت سے خطوط پر اکتوبرکی تاریخ درج ہے، لیکن کسان اس پر اعتراض کرتے ہیں۔ ’’یہ خط ہمارے گھر پر ۱۵ نومبر کے بعد بھیجے گئے۔‘‘ بالفاظِ دیگر، نوٹ بندی کے بعد یہ خط ہمیں موصول ہوئے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ خط ۲ دسمبر کو موصول ہوا، ان میں سے ایک کا نام منوہر یلور تھا۔ وہ لوہارا گاؤں کے ایک چھوٹے کسان تھے، انھوں نے بینک سے جو ۶۸ ہزار روپے کا لون لیا تھا، اسے واپس نہ لوٹا پانے کی وجہ سے انھوں نے ۲۰۱۴ میں خودکشی کر لی تھی۔
عثمان آباد کے لوہارا بلاک کے ناگور گاؤں میں، متعدد گاؤوں سے جمع ہونے والے کسانوں نے ہمیں بتایا کہ وہ پوری طرح سے ہلے ہوئے ہیں۔ ’’اگر ہماری اس طرح سے کھلے عام بے عزتی کی گئی، تو ہمارے پاس اپنی زندگیوں کو ختم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔‘‘ خود ریاستی سرکار کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مہاراشٹر کے جس علاقے میں کسانوں نے سب سے زیادہ خودکشی کی، وہ عثمان آباد اور یوتمال کے علاقے ہیں۔ اور خود اس ریاست کو جتنا نقصان خودکشی سے اس ملک میں ہوا ہے اتنا کسی اور چیز سے نہیں ہوا، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق سال ۱۹۹۵ سے لے کر ۲۰۱۴ کے درمیان کم از کم ۶۳ ہزار کسانوں نے یہاں خودکشی کی۔
ناگور، کھیڑ، کاستی اور دیگر گاؤوں کے کسان او ڈی سی سی کا وہ لیٹر دکھا رہے ہیں، جس میں انھیں ’گاندھی گیری‘ طریقہ سے بے عزت کرنے کی دھمکی دی گئی ہے: ۲۹ نومبر، ۲۰۱۶
یہاں، نوٹ بندی نے بینک اور اس کے صارفین، دونوں کو ایک ہی طرح متاثر کیا ہے۔ نقدی کی کمی سے دونوں پریشان ہیں۔ کوآپریٹو بینکوں کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ پرانے نوٹوں کو نئے نوٹوں سے صرف تین دن تک بدل سکتے ہیں۔ جب کہ بقیہ سارے بینک یہ کام ۲۹ نومبر تک کر سکتے ہیں۔ عثمان آباد ڈسٹرکٹ سنٹرل کوآپریٹو بینک خود ہی بڑی پریشانی میں مبتلا تھا، کیوں کہ سب سے بڑا ڈیفالٹر ۳۵۲ کروڑ روپے کے لیے گئے قرض کا ایک بھی پیسہ واپس کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ’’اور وہ اپنا یہ غصہ ہم پر اتار رہے ہیں،‘‘ یہاں کے کسان کہتے ہیں۔ ’’ہم وہ لوگ ہیں، جنھوں نے کچھ نہ کچھ قرض تو چکا ہی دیا ہے۔‘‘
چونکہ نقدی بالکل نہیں ہے، اس لیے یہاں کے کسانوں، مزدوروں اور دکانداروں نے ۹ نومبر کے بعد زندہ رہنے کی ایک کمزور سی حکمت عملی بنائی ہے۔ کھیڑ کے ایس ایم گاولے اسے تفصیل سے بتاتے ہیں: ’’اگر مزدوروں کے پاس نقدی نہ ہو، تو انھیں کھانا بھی نہیں ملے گا۔ لیکن ہم دکانداروں کے پاس ان کے لیے گارنٹی کے طور پر کھڑے ہیں۔ وہ اپنا سامان اُدھار لے رہے ہیں۔‘‘
مقامی دکاندار خود بھی دوسری جگہوں کے ہول سیلر سے اُدھار سامان لا رہے ہیں۔ لہٰذا مزدور، کسان اور دکاندار سبھی ایک آنے والے خطرہ کے منتظر ہیں۔
ناگور گاؤں میں، ناراض کسان بتا رہا ہے کہ قرض کے پیسوں کو بڑھا دیا گیا ہے
ایک دوسرا بڑا مسئلہ بھی ہے۔ چند سال قبل، بینکوں نے ’کراپ لون‘ اور ’ٹرم لون‘ کو ختم کرکے کسانوں کے ذریعہ لی گئی رقم کو دوبارہ لکھنا شروع کردیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ او ڈی سی سی نے یہ کام کئی برسوں تک بار بار کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کسانوں نے بطور قرض جو پیسے لیے تھے، اس رقم میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا۔ اب اسی بڑھی ہوئی رقم کو واپس لوٹانے کے لیے بینک نے کسانوں کو لیٹر جاری کیا ہے۔ یہ جو ۱۸۰ کروڑ روپے ۲۰ ہزاروں کسانوں کے ذریعے قرض لینے کے بارے میں کہا جا رہا ہے، وہ دراصل شروع میں صرف ۸۰ کروڑ روپے ہی تھا۔
کراپ لون وہ قرض ہوتا ہے، جو کسان تھوڑے وقت کے لیے نقدی کی شکل میں بینک سے لیتے ہیں۔ یہ اس وقت یا موسم کی زرعی سرگرمی سے جڑا ہوتا ہے۔ اس پیسے سے وہ بیج خرید سکتے ہیں، کھاد، کیڑے مار دوا اور دیگر زرعی سامان خرید سکتے ہیں، اور ساتھ ہی اسی پیسے میں سے مزدوروں کو بھی ان کی اجرت ادا کرتے ہیں۔ وہ اس قرض کے بدلے نقدی پیسہ، متعینہ حد تک جب بھی ضرورت پڑے، نکال سکتے ہیں۔ کراپ لون پر سود کی شرح عام طور پر سات فیصد سے آگے نہیں بڑھتی (جس میں سے چار فیصد ریاستی حکومت برداشت کرتی ہے)۔ اس لون کی ہر سال تجدید کرانی پڑتی ہے۔
ٹرم لون وہ قرض ہوتے ہیں جو بڑی سرمایہ کاری کے لیے لیے جاتے ہیں، جیسے مشینری خریدنے، آبپاشی، اور اس قسم کے دیگر اخراجات کے لیے۔ اس قرض کے پیسے ۳ سے ۷ سال تک واپس جمع کیے جا سکتے ہیں۔ اسے سود کی کمپاؤنڈ ریٹ پر دیا جاتا ہے، جو کراپ لون سے دو گنا ہوسکتا ہے۔
بینک آف مہاراشٹر ایمپلائیز یونین، اورنگ آباد کے جنرل سکریٹری، دھننجے کلکرنی ہمارے ساتھ ہیں، انھوں نے او ڈی سی سی کے لیٹر اور نوٹس کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’او ڈی سی سی (اور دوسرے بینکوں) نے ان گاؤوں والوں کے کراپ اور ٹرم لونس کو ختم کرکے یا انھیں آپس میں ملا کر انھیں ’نئے‘ ٹرم لون میں بدل دیا ہے۔ اور اس کا عنوان ’ری فیزمینٹ‘ رکھا ہے۔ او ڈی سی سی، دوسرے بینکوں کی طرح، اس پر ۱۴ فیصد کا شرحِ سود رکھا ہے۔ تاہم، اضافی ۲ سے ۴ فیصد کا سود کوآپریٹو سوسائٹیز کی سطح پر جوڑا گیا، جن کے ذریعہ قرض کی رقم پہنچائی جاتی ہے۔ اخیر میں قرض لینے والے کو کل ملا کر ۱۸ فیصد سود دینا پڑتا ہے۔‘‘
کھیڑ گاؤں کے شیوا جی راؤ صاحب پاٹل نے ۲۰۰۴ میں ایک لاکھ ۷۸ ہزار روپے الیکٹرک موٹر اور پائپ لائن لگانے کے لیے قرض لیے تھے۔ شروع کے سالوں میں انھوں نے واپس ۶۰ ہزار روپے ادا کیے۔ لیکن اسے بعد میں ان کے کراپ لون کے ساتھ جوڑ دیا گیا، اور بینک کے ’ری فیز‘ میں ایک سے زیادہ بار جوڑا گیا۔ اور ’’اب وہ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں نے ۱۳ لاکھ روپے قرض لیے تھے،‘‘ وہ غصے سے کہتے ہیں۔ اچانک، درجنوں کسان اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایک ساتھ بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ او ڈی سی سی نے انھیں جو نوٹس بھیجا ہے، وہ سب اس نوٹس کو لے کر یہاں آئے ہیں۔
ناگور کا ایک کسان کریڈٹ کوآپریٹو سوسائٹی سے اپنے لون اکاؤنٹ کا ایک ٹکڑا پکڑے ہوا ہے؛ سوسائٹیز کی سطح پر ۲ سے ۴ فیصد کا سود اس میں مزید جوڑ دیا گیا ہے
’’ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے بینک کا پیسہ لیا ہے،‘‘ بالا صاحب وٹھل راؤ جادھو کہتے ہیں، جو ناگور کے کئی دہائیوں سے کسان ہیں۔ ’’اور ہمیں اسے واپس بھی کرنا ہے۔ لیکن ابھی ہم اسے ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اس سال اچھی بارش کی وجہ سے (لگاتار کئی خراب موسم کے بعد)، یہاں کے کسانوں کی خریف کی فصل اچھی ہوئی ہے اور انھیں امید ہے کہ ریبع کی فصل بھی اچھی رہے گی۔ لہٰذا، ہم اگلے سال سے قسط وار جمع کر سکتے ہیں۔ اس سال جمع کرنے کا مطلب ہے خود کو مار دینا۔ ’فی ریزمینٹ‘ ایک فراڈ تھا، جس سے خود بینک کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس نے ہمارے قرض کی رقم کو دوگنا، اور چار گنا تک بڑھا دیا ہے۔ سرکار کارپوریٹس (این پی ایز) اور دولت مندوں کو قرض معافی دے رہی ہے۔ لیکن مایوس و پریشان کسانوں پر ڈنڈے برسا رہی ہے۔‘‘
اس قسم کے بہت سے لون اور ان کی ’ری فیزنگ‘ بھی غلط وقت پر ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں مہاراشٹر میں زرعی بحران کے دور کو پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ شروعات ۱۹۹۸ کے آس پاس ہوئی، ۰۴۔۲۰۰۳ میں اس میں بے انتہا اضافہ ہوا اور ۲۰۱۱ میں تو یہ ایک دھماکہ کے طور پر پھوٹا۔ شیوا جی راؤ کہتے ہیں، ’’چار سالوں تک میرے پاس گنے کی فصل ۳۰۰ سے ۴۰۰ ٹن اضافی ہوا کرتی تھی، جنہیں میں فروخت نہیں کر پاتا تھا۔ فیکٹریاں گنّوں سے بھری رہتی تھی اور اسے اٹھانے سے منع کردیتی تھیں۔ میں دیوالہ ہو گیا۔ اب مجھ سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ میں نے اپنی فیملی کی (بغیر کاشت والی) ۱۵ ایکڑ زمین بیچ دی ہے۔ لیکن میں اب بھی بوجھ کو برداشت نہیں کر پا رہوں۔‘‘
ان گاؤوں میں ربیع کی فصل زیادہ تر ۸ نومبر کے بعد بوئی گئی تھی۔ لیکن اس کے بعد لین دین پر برا اثر پڑا۔ خریف فصل کی قیمتوں پر اثر پڑ رہا ہے، کیوں کہ کسانوں کا کہنا ہے کہ تاجر ’’صحیح قیمت تبھی دیں گے، جب ہم پرانے نوٹ قبول کریں‘‘۔
بینک میں اس وقت ماحول کافی مایوسی اور اداسی بھرا ہے، جب ہم او ڈی سی سی کے لیٹر کے نتیجہ پر بات کر رہے ہیں۔
خود ایگزیکٹو ڈائرکٹر گھونسے پاٹل کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے، جو ان کے ذریعہ دوسرے ضلع کے ایک کوآپریٹو بینک سے واپس نہ کیے گئے ایڈوانس کے لیے ہے۔ وہ اور ان کے کچھ سینئر افسران اب جاکر یہ قبول کر رہے ہیں کہ یہاں سے چیزیں آگے جاکر کافی خراب صورتحال اختیار کر سکتی ہیں۔ اگر کسانوں کی خودکشی میں اضافہ ہو گیا، تب کیا ہوگا؟ تب کیا ہوگا، جب یہ لوگ اس کا ذمہ دار بینک اور اس کے لیٹر کو ٹھہرائیں گے؟ لیکن جدا ہوتے وقت گھونسے پاٹل ہم سے کہتے ہیں، ’’ہمارے پاس اس ری کوری ابھیان کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمان آباد ضلع کے تقریباً ۲۰ ہزار کسانوں کو مراٹھی میں لکھے گئے او ڈی سی سی کے لیٹر کا ترجمہ
آداب۔
آپ کو عثمان آباد ڈسٹرکٹ بینک کی اقتصادی حالت کا علم ہوگا۔ چونکہ بینک کو اس وقت مالی مشکلوں کا سامنا ہے، بینک میں پیسے جمع کرنے والوں کا سارا فوکس اس وقت بینک پر ہے۔ واپس نہ کیے گئے قرض میں اضافہ کی وجہ سے بینک کے لین دین پر بہت برا اثر پڑنے کا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے بینک اس وقت کافی پریشان ہے۔ کم از کم اس وقت، بینک کے پاس اپنی حالت کو درست کرنے کا واحد راستہ ہے قرضداروں سے پیسے واپس لینا۔ ظاہر ہے، آپ کے پاس چونکہ قرض کی رقم رکھی ہوئی ہے، اس لیے بینک اپنے یہاں پیسہ جمع کرنے والوں کو ان کا پیسہ نہیں دے پا رہا ہے، جب بھی وہ ہمارے یہاں اپنا پیسہ نکالنے آتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں، پیسہ جمع کرنے والے بینک کے کام کاج سے کافی ناراض ہیں۔
اسی طرح، بہت سے پیسہ جمع کرنے والے، جب انھیں ایسا لگتا ہے کہ جب وہ اپنا پیسہ اپنے کھاتوں سے نہیں نکال پائیں گے تو وہ ہمیں یہ بیان لکھ کر بھیج رہے ہیں کہ اگر وہ پیسہ نہیں نکال پائے، تو وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر کسی پیسہ جمع کرنے والے نے اس وجہ سے خودکشی کرلی، تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے اور آپ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔
۔۔۔ آپ کے زیر التوا قرض کی وجہ سے بینک میں نقدی کی کمی ہوگئی ہے اور بینک اپنا کام ٹھیک ڈھنگ سے نہیں کر پا رہا ہے۔ بینک کی مینجمنٹ کمیٹی، سینئر افسر اور ایمپلائی ایسوسی ایشن نے قرض کے پیسے واپس لینے کے لیے گاندھی گیری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لیے، بینک نے فیصلہ کیا ہے کہ درج ذیل میں کوئی ایک راستہ اپنا یا جائے: ۱) احتجاج کرنے کے لیے آپ کے گھر کے باہر ایک ٹینٹ لگا دیا جائے، ۲) بینڈ باجے کا استعمال کیا جائے، ۳) گھنٹیاں بجائی جائیں۔
ان اقدام کی وجہ سے سماج میں آپ کا مقام اور شبیہ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اسی لیے، اس صورتحال سے بچنے کے لیے، آپ ۳۰ دونں کے اندر اندر متعلقہ بینک میں سود کے ساتھ اپنے قرض کی رقم فوراً چکا دیں اور ادائیگی کی رسید لے لیں، ورنہ ری کوری ٹیم اوپر بیان کیے گئے طریقے کے مطابق کارروائی کرے گی۔
ہم جان بوجھ کر یہ سب آپ کو لکھ رہے ہیں تاکہ آپ کو صورتحال کا علم ہو جائے۔
ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ آپ اپنا قرض واپس کر دیں گے اور کسی ناخوشگوار واقعہ کا سامنا کرنے سے بچیں گے۔
ہمیں آپ سے تعاون کی امید ہے،
بقایہ جات قرض کی تفصیلات
لون کی قسم، بنیادی رقم: ۱۳۶۳۰۰ سود: ۳۴۸۹۳۰ ۔ کل: ۴۸۵۲۳۰
(ہر کسان کے قرض کی تفصیل اوریجنل لیٹر میں موجود ہے)
آپ کا معتمد،
دستخط۔
وجے ایس گھونسے
ایگزیکٹو ڈائرکٹر
فوٹو : پی سائی ناتھ