مونپا قبیلہ سے تعلق رکھنے والے بروکپا بنیادی طور پر تنہائی پسند چرواہے ہیں، جو اروناچل پردیش کے مغربی کیمانگ اور توانگ ضلعوں کے رہائشی ہیں۔ خانہ بدوش زندگی بسر کرنے والے یہ بروکپا متعینہ موسم کے حساب سے گردش کرتے ہیں، اور ۹۰۰۰ سے ۱۵ ہزار فیٹ اونچے پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ اکتوبر سے اپریل کے دوران لمبی سردیوں کے موسم میں وہ نچلے علاقوں کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں، اور مئی سے ستمبر کے دوران، جب گرمی اور بارش کا موسم آتا ہے، تو یہ اونچے علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔
نومبر ۲۰۱۶ کی ایک صبح کو، میں نے مغربی کیمانگ کے تھیم بانگ گاؤں کی جانب سفر کرنا شروع کیا۔ یہ گاؤں تقریباً ۷۵۰۰ فیٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں صرف مونپا قبیلہ کے لوگ رہتے ہیں، جن کے یہاں پر کل ۶۰ گھر ہیں۔ سب سے قریب شہر دیرانگ ہے، جو یہاں سے ۲۶ کلومیٹر دور ہے۔
اگلے دن میں وہاں سے لاگام گیا، جہاں بروکپا لوگ سردیوں کے موسم میں قیام کرتے ہیں۔ ۸۱۰۰ فیٹ کی بلندی پر واقع لاگام پہنچنے کے لیے، مجھے گھنے جنگلوں سے ہوتے ہوئے تقریباً ۱۱ کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑا، جس میں مجھے آٹھ گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔ شام کو ۶ بجے، جب میں وہاں پہنچا تو ۲۷ سالہ بروکپا چرواہے، پیم تسیرنگ نے مسکراتے ہوئے مجھے خوش آمدید کہا۔
اگلی صبح، میں نے دیکھا کہ لاگام دراصل سردیوں کے موسم میں رہنے کے لیے بروکپا خانہ بدوش چرواہوں کی ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ گاؤں میں بودھ مذہب کو ماننے والوں کی ایک چھوٹی سی عبادت گاہ (موناسٹری) ہے۔ گاؤں میں پتھر اور بانس کی دیواروں اور ٹن کی چھتوں سے بنے ۱۰-۸ گھر ہیں، جس میں تقریباً ۴۵-۴۰ لوگ رہتے ہیں۔ نومبر میں، اِن چرواہوں کے نچلے علاقوں میں آ جانے کی وجہ سے یہ بستی پوری طرح بھری رہتی ہے۔ مئی سے ستمبر کے دوران لاگام کا زیادہ تر حصہ خالی ہو جاتا ہے کیوں کہ نوجوان چرواہے یاک اور گھوڑے کے اپنے ریوڑ کے ساتھ ماگو گاؤں جیسے اونچے میدانوں کی طرف کوچ کر جاتے ہیں۔ بزرگ افراد عام طور سے لاگام میں ہی رک جاتے ہیں۔
میں نے تسیرنگ اور دیگر بروکپا لوگوں کے ساتھ کچھ دن گزارے۔ پیم کہتے ہیں، ’’ہمیں ہمیشہ کافی دور تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ گرمیوں میں چراگاہوں کی طرف جانے کے لیے ہمیں ہر سال جنگل سے ہو کر ماگو جانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے لگاتار ۵-۴ دنوں تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ راستے میں، ہم صرف رات میں ہی رکتے ہیں۔‘‘
۱۱۸۰۰ فیٹ کی بلندی پر واقع ماگو، شمال مشرقی ہندوستان کو تبت سے الگ کرنے والی متنازع میک موہن لائن کے کنارے پر ہے۔ گرمیوں میں ماگو جانے کے لیے، بروکپا لوگ کافی بلندی پر واقع کوہستانی سلسلہ اور درّوں کو پیدل پار کرتے ہیں – ان کے راستے میں پہلے لاگام، پھر ٹھونگری، چانگ لا، نیانگ، پوٹوک، لورتھِم، اس کے بعد ماگو آتا ہے۔
دوسرے لوگ اس علاقے میں صرف توانگ سے سڑک کے ذریعے آ سکتے ہیں۔ اس علاقے سے باہر کے ہندوستانی باشندے، انڈین آرمی سے خصوصی اجازت لینے کے بعد یہاں صرف ایک رات قیام کر سکتے ہیں۔ سرحدی تنازع کی وجہ سے، ماگو تک ہجرت کرنے والے بروکپا لوگوں کو بھی سرکار کے ذریعے جاری کردہ شناختی کارڈ لے کر چلنا پڑتا ہے۔
بروکپا لوگوں کی روزمرہ کی زندگی چھوٹے موٹے کاموں پر مرکوز ہے۔ ان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ یاک ہے۔ اس کے دودھ سے وہ مکھن اور پنیر بناتے ہیں، اور اسے مقامی بازار میں بیچتے ہیں۔ برادری کے اندر بارٹر سسٹم (سامان کے بدلے سامان) بھی موجود ہے۔ تھیم بانگ گاؤں کے ایک مونپا اور ڈبلیو ڈبلیو ایف – ہندوستان کے مغربی اروناچل لینڈ اسکیپ پروگرام کے پروجیکٹ آفیسر، باپو پیما وانگے بتاتے ہیں، ’’وہ یاک اور دودھ سے بنی اشیاء کا لین دین نچلے علاقے میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں، جہاں کا بنیادی پیشہ زراعت ہے۔ ہم [باپو قبیلہ کے لوگ] ان کے ساتھ بارٹر پر مبنی کاروبار کرتے ہیں؛ ہم اپنی مکئی، جو، میتھی اور خشک لال مرچ کے بدلے ان سے مکھن، چھُرپی اور یاک کا گوشت لیتے ہیں۔ بنیادی طور پر، وہ لوگ کھانے کے لیے ہم پر انحصار کرتے ہیں اور ہم لوگ کھانے کے لیے اُن پر انحصار کرتے ہیں۔‘‘
شاہی باپو قبیلہ کے لوگ وراثت میں ملی زمین کے بڑے بڑے ٹکڑوں کے مالک ہیں، اور دوسرے قبیلہ کے لوگوں سے مویشی چرانے کے بدلے ٹیکس (عموماً بھیڑ یا مکھن کی شکل میں) وصول کرتے ہیں۔ لیکن وانگے کا کہنا ہے کہ لاگام کے بروکپا کو ٹیکس سے چھوٹ ملی ہوئی ہے، کیوں کہ ’’وہ ہمارے دیوتا، لاگام لامہ (قدرتی پتھر کا ایک مجسمہ) کا خیال رکھتے ہیں۔‘‘
اس سال کے آخر میں، یعنی وسط اکتوبر میں، بروکپا اپنے گرمیوں کے چراگاہوں سے نیچے کی طرف اتریں گے۔ پیم کہتے ہیں، ’’ہم جنگل سے ہو کر گزرتے ہیں، گھاس کے میدان تلاش کرتے ہیں اور جنگل سے لکڑیاں چُنتے ہیں۔ یہ جنگل ہماری ماں ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز