’’مجھے مالک کو ۲۵ ہزار روپے دینے ہیں۔ اس قرض کو واپس ادا کیے بغیر میں ادھیا کسانی نہیں چھوڑ سکتا،‘‘ رویندر برگاہی کہتے ہیں۔ ’’اگر چھوڑ دیا تو یہ وعدہ خلافی مانی جائے گی۔‘‘
رویندر مدھیہ پردیش کے مُگواری گاؤں میں رہتے ہیں، جہاں وہ تقریباً ۲۰ سالوں سے بٹائی دار کسان کے طور پر کھیتی کر رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے سیدھی اور آس پاس کے ضلعوں، عام طور پر وندھیا علاقے میں، ادھیا کسانی کا مطلب ایک روایتی، زبانی معاہدہ ہے – جس میں زمین کا مالک اور بٹائی دار کسان کھیتی کی لاگت کو برابر برابر برداشت کرتے ہیں، اور فصل بھی آدھا آدھا تقسیم کرتے ہیں۔
آٹھ ایکڑ زمین پر، رویندر اور ان کی بیوی ممتا عام طور پر دھان، گیہوں، سرسوں، مونگ اور ارہر کی کھیتی کرتے ہیں۔ لیکن ادھیا – جس کا مدھیہ پردیش کے کچھ حصوں میں بولی جانے والی ہندی کی ایک بولی، بگھیلی میں مطلب ہے ’آدھا‘ – ان کی فیملی کے لیے بالکل برابر نہیں ہے۔
اس غیر رسمی معاہدہ میں، جو پورے ہندوستان میں الگ الگ شکل میں موجود ہے، زمین کے مالک کھیتی سے جڑے سبھی فیصلے خود ہی لیتے ہیں، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ کون سی فصل اُگانی ہے۔ لیکن جب بہت زیادہ ٹھنڈ، بے موسم بارش، ژالہ باری کے سبب فصلوں کو نقصان ہوتا ہے اور زمینداروں کو ریاست یا بیمہ کمپنیوں سے معاوضہ ملتا ہے، تو بٹائی دار کسانوں کو اس راحت میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا۔
مطالعات بتاتے ہیں کہ یہ نظام بٹائی دار کسانوں کو ہمیشہ غیر محفوظ رکھتا ہے، اور ادارہ جاتی قرض، بیمہ یا دیگر امدادی خدمات تک ان کی کوئی رسائی نہیں ہے۔ اس قسم کے ادھیا کسانوں کو اکثر قرض لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے – عام طور پر انہیں زمینداروں سے – تاکہ وہ اپنا حصہ اگلی فصل میں لگا سکیں۔
’’میری پوری فیملی کام کرتی ہے، پھر بھی ہم زیادہ نہیں کما پاتے،‘‘ ۴۰ سالہ رویندر (سب سے اوپر کور فوٹو کے اگلے حصہ میں) کہتے ہیں، جو او بی سی کے طور پر درج فہرست، برگاہی برادری سے ہیں۔ ان کے بیٹے، ۱۲ سالہ وویک اور ۱۰ سالہ انوج کھیت سے گھاس پھوس نکالنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ ’’اکیلے دَم پر تو کھیتی ہوتی نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’پچھلے سال، میں نے فصلوں پر ۱۵ ہزار روپے خرچ کیے تھے، لیکن صرف ۱۰ ہزار ہی کمائے۔‘‘ فیملی نے ۲۰۱۹ میں ربیع کے موسم میں دھان اور خریف کے موسم میں مونگ کی کھیتی کی تھی – وہ عام طور پر فصل کا ایک حصہ اپنے استعمال کے لیے رکھتے ہیں اور بقیہ بازار میں فروخت کر دیتے ہیں۔ لیکن کم بارش کے سبب دھان کی فصل برباد ہو گئی اور بہت زیادہ ٹھنڈ نے مونگ کی فصل کو نقصان پہنچایا۔
فیملی کے پاس آم کا ایک درخت ہے، جو ان کے گھر کے ٹھیک بغل میں ہے۔ ممتا اور ان کے بیٹے گرمیوں کے مہینوں میں – مئی سے جولائی تک – وہاں سے تقریباً دو کلومیٹر دور، کُچواہی گاؤں کے بازار میں امہری (اچار یا پاؤڈر بنانے کے لیے سوکھے آم) فروخت کرتے ہیں۔ وویک اور انوج گرے ہوئے کچے آم اکٹھا کرنے کے لیے گاؤں میں بھی گھومتے ہیں۔ ’’ہم انہیں پانچ روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کرتے ہیں اور گرمیوں میں ۱۰۰۰ سے ۱۵۰۰ روپے تک کما لیتے ہیں،‘‘ ۳۸ سالہ ممتا بتاتی ہیں۔ ’’اس سال آم بیچنے سے ہونے والی کمائی، ہمیں کچھ کپڑے خریدنے کے لیے کافی ہوگی،‘‘ رویندر کہتے ہیں۔
’مجھے جب پتا چلا کہ مالک کو حکومت سے معاوضہ ملا ہے، تو میں نے ان سے اپنا حصہ مانگا، لیکن انہوں نے منع کر دیا‘، جنگالی سوندھیا کہتے ہیں
رویندر فصلوں کی مدت کے درمیان، مئی اور جون میں، دہاڑی مزدور کے طور پر بھی کرتے ہیں۔ ’’ہم [بے زمین کسان] اس دوران [مُگواری گاؤں کے گھروں کی] ٹوٹی ہوئی دیواروں اور چھتوں کی مرمت کرکے کماتے ہیں۔ اس سے مجھے اس سال ۱۰ ہزار سے ۱۲ ہزار روپے ملیں گے،‘‘ رویندر نے کہا تھا، جب میں نے جون کے وسط میں ان سے بات کی تھی۔ ’’میں اس پیسے کا استعمال مالک کے پیسے واپس کرنے میں کروں گا،‘‘ انہوں نے پچھلی کھیتی کا ذکر کرتے ہوئے کہا، جب زمین کے مالک نے پانی، بیج، بجلی اور دیگر اخراجات کے پیسے ادا کیے تھے۔
’’اگر فصلیں برباد ہوتی ہیں، تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچتا،‘‘ مُگواری کے ایک دیگر ادھیا کسان، ۴۵ سالہ جنگالی سوندھیا کہتے ہیں، جن کی ارہر کی فصل اس سال فروری میں پالا (بہت زیادہ ٹھنڈ) کے سبب برباد ہو گئی تھی۔ ’’مجھے جب پتا چلا کہ مالک کو حکومت سے معاوضہ ملا ہے، تو میں نے ان سے اپنا حصہ مانگا، لیکن انہوں نے منع کر دیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ زمین کے مالک ہیں، اور اس لیے وہ پوری رقم کے حقدار ہیں۔‘‘ جنگالی کو معلوم نہیں تھا کہ معاوضہ کی رقم کتنی ہے۔ گاؤں میں جب بھی کوئی کام ملتا، دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرکے انہوں نے تقریباً ۶ ہزار روپے کے اپنے نقصان کو دور کرنے کی پوری کوشش کی۔ ان کے دو بیٹے سیدھی قصبہ میں تعمیراتی مقامات پر کام کرتے ہیں، اور پیسے گھر بھیجتے ہیں۔
حالانکہ، سیدھی بلاک کی گوپد بناس تحصیل – جہاں مُگواری گاؤں واقع ہے – کے تحصیل دار لکشمی کانت مشرا کا کہنا ہے کہ کسانوں کے لیے معاوضہ دستیاب ہے۔ ’’بٹائی داروں کو ریاستی حکومت سے [فصل کے نقصان کے لیے] معاوضہ ملتا ہے، اگر زمیندار انہیں ادھیا کسان ہونے کا اعلان کر دیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
وہ حکومت مدھیہ پردیش کے ۲۰۱۴ کے سرکولر، راجَسو پُستک پری پتر ۶-۴ ، کا ذکر کر رہے ہیں، جو یہ بتاتا ہے کہ اگر کسانوں کی فصل کا نقصان ہوا ہے، تو وہ حکومت سے مالی راحت کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے، زمینداروں کو اپنے تحصیل دار کو نقصان کے بارے میں تفصیلات جمع کرنی ہوں گی۔ مشترا بتاتے ہیں کہ بٹائی داروں کو اس معاوضہ کا ایک حصہ مل سکتا ہے اگر زمیندار انہیں ادھیا کسان قرار دینے کی دستاویز بھی جمع کر دیں۔ حالانکہ سرکولر میں اس کا ذکر نہیں ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ تسلیم شدہ روایت ہے۔
’’تقریباً ۲۰ ہزار بٹائی دار ہیں، جنہیں سیدھی ضلع میں معاوضہ ملتا ہے، لیکن ایک لاکھ سے زیادہ کسانوں کو نہیں ملتا ہے،‘‘ مشرا کہتے ہیں۔ ’’ہم زمینداروں کو اعلان کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے، کیوں کہ ادھیا ایک آپسی معاہدہ ہے۔ کسی بھی ریاستی قانون میں زمینداروں کے لیے ایسا کرنے کی لازمیت نہیں ہے۔‘‘
حالانکہ، مدھیہ پردیش بھومی سوامی ایوم بٹائی دار کے ہِتوں کا سنرکشن ودھیئک، ۲۰۱۶ کہتا ہے کہ زمیندار اور بٹائی دار دونوں کو، ان کے بٹائی کے معاہدہ کے مطابق، قدرتی آفت یا دیگر وجوہات سے ہونے والے فصل کے نقصان کے معاملے میں ریاست یا بیمہ کمپنیوں سے راحت ملے گی۔ اس قانون میں بٹائی کے معاہدہ کے لیے ایک ٹیمپلیٹ بھی شامل ہے۔
پوچھنے پر پتا چلا کہ اس قانون کے بارے میں نہ تو سیدھی ضلع کے کسانوں کو کوئی جانکاری نہیں تھی اور نہ ہی تحصیل دار لکشمی کانت مشرا کو۔
’’بیج بونے سے لیکر فصل کاٹنے تک – ہم سب کچھ کرتے ہیں، لیکن موسم کے آخر میں تھوڑا ہی کما پاتے ہیں،‘‘ جنگالی کہتے ہیں۔ بھاری نقصان کے باوجود وہ اب بھی ادھیا کسانی کیوں کر رہے ہیں؟ ’’ہم کھیتی سے ہی اپنا گزارہ چلاتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اس کے بغیر، ہم بھوکے مر جائیں گے۔ مالک سے لڑائی کرنے کے بعد ہم کہاں جائیں گے؟‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز