جمہوریت کا میلہ
سال ۲۱-۲۰۲۰ میں دہلی کی سرحد پر ہوئے کسان آندولن کے دوران لکھی گئی یہ نظم جمہوریت میں احتجاج کی آوازوں کا جشن مناتی ہے۔ اسے پنجاب کے عوامی شاعر سرجیت پاتر نے لکھا ہے، جن کا ۱۱ مئی ۲۰۲۴ کو انتقال ہو گیا۔ ان کی یاد میں قارئین کے لیے پیش ہے یہ نظم…
۲۴ اگست، ۲۰۲۴ | سرجیت پاتر
انتخابات، نظمیں اور تصاویر
مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والی ایک رپورٹر اور ایک شاعر ہمیں ان حقائق سے رو برو کراتے ہیں جن کا مشاہدہ انہوں نے عام انتخابات ۲۰۲۴ سے قبل کے پانچ برسوں میں پوری ریاست کا دورہ کرتے ہوئے کیا ہے
۱ جون، ۲۰۲۴ | جوشوا بودھی نیترا اور اسمیتا کھٹور
ایک سو آٹھ فٹ لمبی اگربتی
بھگوان اور ان کے عالیشان مندر کے افتتاح کی رونق تھوڑی ماند پڑ چکی ہے، اور ایسے میں ایک شاعر کی مزاحیہ تخلیق ہمیں ملک کی بدلتی تصویر پر نظر ڈالنے کو مجبور کرتی ہے
۱۲ مئی، ۲۰۲۴ | جوشوا بودھی نیترا
کیا ہم نے شاعری سننا چھوڑ دیا ہے؟
ایسے دور میں، جب دنیا روشنی کی تلاش میں ہے اور اسے محبت کی سخت ضرورت ہے، دیہوَلی بھیلی میں لکھی یہ نظم ہمیں شاعری سے دور جانے کے خطرات سے آگاہ کرتی ہے
۱۷ مارچ، ۲۰۲۴ | جتیندر وساوا
شہر میں رہتے اور گاؤں کی آگ میں جلتے…
پنچ مہالی بھیلی زبان کا ایک شاعر اپنے تذبذب کو بیان کرتا ہے: جس شہر میں اسے نقل مکانی کے لیے مجبور کیا گیا، کیا اس کے حاشیہ پر اسے گھُٹ گھُٹ کر زندگی بسر کرنی چاہیے یا اپنے گاؤں واپس لوٹ جانا چاہیے؟
۱۲ ستمبر، ۲۰۲۳ | واجے سنگھ پارگی
ایک بوڑھے درخت کا گرنا
ماحولیاتی تبدیلی کے تئیں انسانوں کی غیر حساسیت کو بیان کرتی ایک نظم، جو ہندوستان میں تبدیل ہوتے سماجی و سیاسی ماحول کی بھی بات کرتی ہے
۲۷ جون، ۲۰۲۳ | پرتشٹھا پانڈیہ
ایک کتاب کا قصہ اور تین پڑوسی
انسان کہلانے کے لیے ضروری انسانی اقدار کو خود میں سمیٹے، یہ نظم دور حاضر میں ہندوستانی آئین کی حالت کو نو حصوں میں پیش کرتی ہے
۲۷ مئی، ۲۰۲۳ | جوشوا بودھی نیترا
انّ داتا اور سرکار بہادر
جب اقتدار میں بیٹھے لوگ سرکاری اعداد و شمار میں پھیر بدل کرتے ہیں اور عوام سے جھوٹ بولتے ہیں، تو ایک شاعر اس سچائی کو اپنے قلم سے بیان کرتا ہے۔ یہ نظم اتر پردیش اور ملک کے دیگر حصوں میں کسانوں کے ذریعے کی جانے والی خودکشی کو بیان کرتی ہے
۲۴ اپریل، ۲۰۲۳ | دیویش
مقتل میں تبدیل ہوتے ایک ملک کا خواب
شاعری کے عالمی دن، ۲۱ مارچ ۲۰۲۳ کے موقع پر، ایک شاعر اپنے ملک کا خواب دیکھتا ہے، اور اس خواب میں خود کو قید پاتا ہے
۲۱ مارچ، ۲۰۲۳ | دیویش
نفرت کے اس دور میں زندگی اور مادری زبانیں
تفرقہ بازی اور نفرت و عداوت کے اس دور میں، ایک شاعرہ عشق و محبت اور آزادی کی زبانوں کو تلاش کر رہی ہیں۔ تاریخ کے خاموش صفحات سے وہ مادری زبانوں کی کترنیں جمع کرتی ہیں اور ایک نظم لکھتی ہیں
۲۰ فروری، ۲۰۲۳ | سبیکہ عباس
جوشی مٹھ کی دراڑیں
جوشی مٹھ اور اس کے آس پاس کی زمین دھنسنے سے شہر کے سینکڑوں گھروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ اس حادثہ پر مبنی یہ نظم ملاحظہ کریں
۳ فروری، ۲۰۲۳ | پرتشٹھا پانڈیہ
معتوب زبانوں اور میناروں کے حوالے سے
ایک وزیر کے ذریعے مشترکہ قومی زبان کے لیے کی گئی زوردار اپیل سے شروع ہوئی بحث نے ایک شاعر کو بابیل کی مینار کی یاد دلا دی ہے
۲۳ نومبر، ۲۰۲۲ | گوکل جی کے
ایک رباری لڑکی کا گیت
جام نگر ضلع کی ایک نوجوان رباری لڑکی اپنی دنیا کے حقائق، خواہشات اور حقوق کو ایک مختصر نظم کی شکل میں بیان کر رہی ہے
۲۶ ستمبر، ۲۰۲۲ | جگنا رباری
درختوں، انسانوں اور تہذیبوں کے زوال پذیر دور میں
دیہولی بھیلی میں تحریر کردہ پانچ نظموں کے مجموعہ کی اس پانچویں اور آخری نظم میں، ایک آدیواسی شاعر خیالی ترقی کے نظریات سے متاثر معاشرے میں آدیواسی شناخت سے متعلق بڑھتے تنازعات کو بیان کر رہا ہے
۱۵ ستمبر، ۲۰۲۲ | جتیندر وساوا
وہ بچہ جس نے پیاس بجھانے کی جرأت کی
اپنے استاد کے ذریعے پیٹے جانے کی وجہ سے حال ہی میں ہوئی اندر کمار میگھوال کی موت نے شاعر کو اس نظم کے ذریعے ہزاروں سال سے ذات پات کے نام پر چلی آ رہی نا انصافی کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے پر مجبور کر دیا
۷ ستمبر، ۲۰۲۲ | جوشوا بودھی نیترا
بلقیس کے مجرموں کی رہائی سے ہوا انصاف کا قتل
انصاف حاصل کرنے کی خاطر تنہا لڑ رہی ایک بے بس عورت کی جدوجہد، اور سال ۲۰۰۲ کے گجرات فسادات کے دوران اُن کی عصمت دری کرنے والے ۱۱ مجرموں کی جیل سے حالیہ رہائی پر مرکوز ایک نظم
۲۴ اگست، ۲۰۲۲ | ہیمنگ اشون کمار
نام چھین لینے کی سازش
ہندوستان کی پہلی آدیواسی صدر کا یہ بیان کہ ’دروپدی میرا اصلی نام نہیں تھا‘، اس ملک کے آدیواسیوں، قدیم باشندوں کی دردناک تاریخی یادیں واپس لاتا ہے۔ انہوں نے جس درد کا اظہار کیا ہے اسے ایک شاعر کے ساتھ یہاں کے کئی آدیواسیوں نے شیئر کیا ہے
۹ اگست، ۲۰۲۲ | جیسنتا کرکیٹا
دنیا کی تہذیب سے تو کہیں بہتر ہے جنگل کی تہذیب
دیہوَلی بھیلی زبان میں لکھی پانچ نظموں کی سیریز کی اس چوتھی نظم میں، یہ آدیواسی شاعر ہماری نام نہاد تہذیب کی اپنے آپ کو ہی تباہ کرلینے والی فطرت اور امن کے بارے میں اس کی کھوکھلی سمجھ پر جم کر تنقید کرتا ہے
۳ اگست، ۲۰۲۲ | جتیندر وساوا
جب ہم خود کو ندی سے دور کر لیتے ہیں…
دیہولی بھیلی زبان میں لکھی پانچ نظموں کی سیریز کی اس تیسری نظم میں، نرمدا ضلع کا یہ آدیواسی شاعر قدرت اور انسانوں کے درمیان ہونے والے تصادم کی بات کرتا ہے اور مین اسٹریم سے الگ قدروں والی ایک دنیا کو سامنے لا کھڑا کرتا ہے
۸ جولائی، ۲۰۲۲ | جتیندر وساوا
پالتو جانور، فراموش کردہ بیگم، اور بلڈوزر
’ہر اُس دل کو جسے جانور نے توڑ دیا تھا، وہاں ایک نیا دل، ایک نیا پھول، ایک نئی زندگی، ایک نئی دنیا اُگ آئی تھی‘: ملک بھر میں امتیازی طریقے سے گھروں اور عمارتوں کے گرائے جانے کے سلسلہ وار واقعات سے متاثر ہو کر لکھی گئی ایک نظم
۲۹ جون، ۲۰۲۲ | گوکل جی کے
آدیواسی نظریۂ کائنات اور ’چاند کا باشندہ‘
گجرات کے نرمدا ضلع کا ایک آدیواسی شاعر اپنی پانچ نظموں کے ایک مجموعہ میں آدیواسی برادریوں کے لیے تجربات و عقائد کے بارے میں بتاتا ہے۔ پیش ہے اُس مجموعہ کی دوسری نظم
۱۳ مئی، ۲۰۲۲ | جتیندر وساوا
جمہوریۂ بُلڈوزر میں: جنگلی پھولوں کے کھلنے کی امید
ایک بلڈوزر نے اس کی زندگی کو تباہ و برباد کر دیا۔ حالانکہ، فسادات نے اسے جو زخم پہنچایا تھا، وہ ابھی تک بھرے نہیں تھے۔ لیکن، وہ جانتی ہے کہ اِن مشینوں سے تباہ کر دی گئی زمین پر نئی امید کی طرح جنگلی پھول کھلیں گے، جس کی گواہی میں پیش ہے یہ نظم
۴ مئی، ۲۰۲۲ | پرتشٹھا پانڈیہ
ایک بیج سے جنگل کا اُگنا: اور نظم ہو جانا
گجرات کا یہ آدیواسی شاعر کہتا ہے کہ زبانیں ہی ادب، علم، عالمی منظرنامے کے ساتھ ساتھ بہت سی باتوں کا گھر ہوتی ہیں۔ وہ اپنے خیالات کا اظہار دیہوَلی بھیلی بولی میں شاعری کے ذریعے کرتے ہیں۔ پیش ہے اس سلسلے کی پہلی نظم
۲۶ اپریل، ۲۰۲۲ | جتیندر وساوا
لامحدود جنسی ہوس اور محبت سے عاری محنت
دہلی کی ایک سیکس ورکر کے ساتھ پیار و محبت اور زندگی کے بارے میں بات کرنے کے بعد جب ایک رپورٹر اسے قلم بند کرنے کے لیے بیٹھتی ہے، تو اسے احساس ہوتا ہے کہ الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ وہ قلم تو اٹھاتی ہے، لیکن رپورٹ نہیں لکھ پاتی
۲۲ فروری، ۲۰۲۲ | شالنی سنگھ
میرے خوابوں کا بھارت
ایک قلم کار جس ملک سے محبت کرتی ہیں اور جسے وہ اپنا گھر کہتی ہیں، اس میں تشدد اور نفرت سے بھرے الفاظ سن کر اس قدر جذباتی ہو جاتی ہیں کہ نظم کی شکل میں اپنا رد عمل ظاہر کرنے سے خود کو روک نہیں پاتیں
۲۹ دسمبر، ۲۰۲۱ | نمیتا وائکر
آنکھ کے بدلے آنکھ، اور بادشاہت کی ہو شکست
اپنے اوپر زبردستی تھوپے گئے زرعی قوانین کی مخالفت میں جگہ جگہ اور متحدہ طور پر حیرت انگیز لڑائی لڑنے اور پھر حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنے والے کسانوں کے لیے ایک شاعر کی طرف سے بطور نذرانہ پیش کی گئی یہ نظم
۱۱ دسمبر، ۲۰۲۱ | جوشوا بودھی نیترا
عظیم سلطنت اور پولیس کے کٹہرے میں ہنسی
حالیہ دنوں انتظامیہ کی طرف سے کئی اسٹینڈ اَپ کامیڈین اور کچھ دیگر فنکاروں کے شو ردّ کر دیے گئے۔ ایسے ہر معاملے میں انتظامیہ کی طرف سے قانون اور نظم و نسق بگڑنے کے امکان کا حوالہ دیتے ہوئے ایسا قدم اٹھایا گیا۔ پیش ہے فنون لطیفہ کی وجہ سے قانون اور نظم و نسق پر منڈلاتے ’مبینہ‘ خطرے کے ان تمام واقعات سے متاثر ہوکر لکھی گئی ایک نظم
۸ دسمبر، ۲۰۲۱ | گوکل جی کے
جنگلی بکریاں اور ’گھر واپسی‘
پوری دنیا میں نسلی تشدد میں اضافہ اور مہاجرین کو روکنے، حراست میں لینے اور انہیں در بدر کرنے کے واقعات، اور خود اپنے ملک میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتی نفرت سے پریشان ایک شاعر ’گھر واپسی‘ کا مطلب سمجھانے کی کوشش کرتا ہے
۲۵ نومبر، ۲۰۲۱ | انشو مالویہ
کہ راجا کے ہاتھی جیسے کان ہیں
ایک ماں اس لوک کہانی کو یاد کر رہی ہے جو اس نے اپنی ماں سے سنی تھی، اور اسے اپنی اس نظم میں درج کرتی ہے۔ زندہ یا مردہ لوگوں سے اس کی کوئی بھی مشابہت پوری طرح سے قارئین کے اپنے خیال کی پیداوار ہے
۲۷ اگست، ۲۰۲۱ | پرتشٹھا پانڈیہ
میری ہم سفر، ننھی سی گڑیا
۱۱ اکتوبر کو بچیوں کے عالمی دن کے موقع پر ریل کے سفر کا ایک قصہ
۱۱ اکتوبر، ۲۰۲۱ | عامر ملک
بچوں کی موت، یتیم ہو چکے عوام، اور دیوتاؤں کی خاموشی
اتر پردیش کے فیروز آباد، متھرا، اور گورکھپور ضلعوں میں بڑی تعداد میں بچے جان لیوا بخار کی وجہ سے موت کے شکار ہو رہے ہیں۔ گورکھپور کا ایک شاعر اپنی نظم میں اس المیہ کی گواہی دے رہا ہے
۲۱ ستمبر، ۲۰۲۱ | دیویش
کیل وین منی: خاک ہوگئیں جھونپڑیاں، بدل گئیں راکھ میں
تمل ناڈو کی اس بستی میں، ۲۵ دسمبر ۱۹۶۸ کو زمینداروں نے ۴۴ دلت مزدوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ یہ نظم ایسے وقت میں شائع کی جا رہی ہے، جب اس دردناک حادثہ کو تفصیل سے قلم بند کرنے والی میتھلی شِو رامن اب ہمارے درمیان نہیں رہیں
۲ جون، ۲۰۲۱ | سیانی رکشت
اکیلی رات تھی، چاروں طرف اندھیرا تھا
وہ اُن کیڑوں سے نفرت کرتا تھا جو اَب متحد ہونا سیکھنے لگے تھے۔ آج کے دور کی گواہی دیتی نظم
۲۴ مئی، ۲۰۲۱ | جوشوا بودھی نیترا
ہو کے مجبور یہ بچوں کو سبق دینا ہے
کلاس روم کیوں سنسان ہوئے، ویران کیوں ہوئے کھیل کے میدان؟ اُن ٹیچروں کے لیے ایک نظم جنہیں ہم نے وبائی مرض کے دوران سرکاری لاپروائیوں کے سبب کھو دیا
۲۲ مئی، ۲۰۲۱ | پرتشٹھا پانڈیہ
عوام کی لاش پر تعمیر ہوا ایک راج محل
وبائی مرض کے اس مشکل دور میں عوام کی ناراضگی کو نظرانداز کرکے، مودی حکومت کا عالیشان سنٹرل وستا پروجیکٹ بنا کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔ اس منظر کو دیکھتے ہوئے، ایک شاعر ایک پرانی کہانی سنا رہا ہے
۱۲ مئی، ۲۰۲۱ | سیانی رکشت
بھارت جل رہا ہے، دھرم راج!
تاریخی کردار سانس نہ لے پانے کی وجہ سے لڑکھڑا رہے ہیں، لیکن دیو دوتوں کے ذریعے انہیں نرک (جہنم) میں دھکیل دیا جاتا ہے
۵ مئی، ۲۰۲۱ | انشو مالویہ
جلا وہ اُن میں جو اجنبی تھے
انسانی جانیں ہزاروں چتاؤں پر جل رہی ہیں اور ان کی لپٹوں میں پورا ملک گھر گیا ہے۔ وبائی مرض کے اس المیہ کو بیان کرتی ایک نظم
۳ مئی، ۲۰۲۱ | گوکل جی کے
پھول اس قبر پہ جاکر میں چڑھاؤں کیسے
یہ وہ نظم ہے جو ترشول سی چبھتی ہے، پینٹنگ ہے ایسی جو اندر دھنس جاتی ہے – اور وبائی مرض کا سامنا کرتی زندگی کی ایک کہانی ہے جس پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں
۲۹ اپریل، ۲۰۲۱ | جوشوا بودھی نیترا
آخری لمبی قطار میں ایک بار پھر انتظار
زندگی بھر قطاروں میں کھڑا رہا – پھر سب سے آخر میں ایک اور قطار۔ کووڈ- ۱۹ بحران پر ایک نظم
۱۹ اپریل، ۲۰۲۱ | پرتشٹھا پانڈیہ
دُکھ کے کھیتوں میں پھولوں کو کُچلنا
اتر پردیش میں نوجوان دلت خواتین کے خلاف مسلسل ہو رہے ظلم سے متاثر ہو کر لکھی گئی یہ نظم
۸ مارچ، ۲۰۲۱ | پرتشٹھا پانڈیہ
سلطان اور ٹڈیوں کا حملہ
تین زرعی قوانین سے متاثر ہونے والے ہزاروں کسان تقریباً ۶۰ دنوں سے دہلی کے دروازے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ نظم ان کی مخالفت پر سرکاری ردِ عمل سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے
۲۲ جنوری، ۲۰۲۱ | پرتشٹھا پانڈیہ
کماٹھی پورہ میں مایوسی کے ساتھ امید بھی
کماٹھی پورہ میں سیکس ورکر اپنے بچوں کو عزت بخش زندگی فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کرتی رہی ہیں۔ پیش ہے تکلیف کے وبائی مرض میں پھنسی ان عورتوں کی حقیقی زندگی کو بیان کرنے والی دو اسٹوریز سے متاثر ہوکر لکھی گئی یہ نظم
۲۸ دسمبر، ۲۰۲۰ | پرتشٹھا پانڈیہ
’قرض چُکانے کے لیے کچھ ایکڑ زمین‘
وبائی مرض اور لاک ڈاؤن کے باوجود، تین نئے زرعی قوانین کے خلاف ہزاروں کسانوں نے ۲۵ ستمبر سے پورے ہندوستان میں سڑکوں پر احتجاج کیا۔ یہ نظم ان کی جدوجہد کو بیان کرتی ہے
۵ نومبر، ۲۰۲۰ | سربجوت سنگھ بہل
اب تو بے شمار سالیہان، سبھی خواب دیکھنے والی
آدیواسی مجاہد آزادی دیمتی دیئی سبر، جنہوں نے ۱۹۳۰ میں اوڈیشہ کے نواپاڑہ ضلع کے سالیہا گاؤں میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کی قیادت کی تھی – اور اس علاقے کی مختلف نوجوان دیمتیوں کو خراجِ عقیدت
۱۵ اگست، ۲۰۲۰ | پرتشٹھا پانڈیہ
مزدور ہوں میں، مجبور نہیں
۲۵ مارچ کے لاک ڈاؤن کے بعد لاکھوں مہاجر مزدوروں کی اجتماعی مہاجرت شاعروں اور فنکاروں کے تصورات کو جلا بخشتی ہے۔ یہ نظم مزدوروں سے نمٹنے میں ہماری منافقت کو اجاگر کرتی ہے۔
۱۵ جون، ۲۰۲۰ | انجم اسماعیل
مہاجرین کا فولادی جگر
مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع کے قریب، ۸ مئی کو ایک ٹرین کے ذریعے کُچل کر مار دیے گئے ۱۶ مہاجر مزدوروں کا المیہ ہمیں آج بھی پریشان کرتا ہے۔ یہ دردناک نظم اور دلکش پینٹنگ ہمیں اس خطرناک حادثہ کی یاد دلاتی ہے
۳۱ مئی، ۲۰۲۰ | گوکل جی کے
لاک ڈاؤن میں خون سے سرابور ریل پٹریاں
مہاراشٹر میں اورنگ آباد ضلع کے پاس ۸ مئی کو جن ۱۶ مزدوروں – ان میں سے ۸ گونڈ آدیواسی تھے – کو مال گاڑی کے ذریعے کچل دیا گیا تھا ان سبھی کی عمر ۲۰ یا ۳۰ سال کے آس پاس تھی، اور وہ مدھیہ پردیش کے اُمریا اور شہڈول ضلع کے رہنے والے تھے
۱۰ مئی، ۲۰۲۰ | پرتشٹھا پانڈیہ
لاک ڈاؤن میں مہاجر چیونٹیوں کی ہجرت
جس شخص کے گھر پر چینی-تھائی ڈنر تیار ہو رہا ہو، وہ کب تک اپنے گاؤوں لوٹ رہے بھوکے مہاجر مزدوروں کو آدھے راستے میں پھنسا ہوا دیکھ سکتا ہے؟ امتیاز اور نابرابری کے ایشو پر دل کو چھو لینے والی ایک نظم
۶ مئی، ۲۰۲۰ | پرتشٹھا پانڈیہ
سر پر تھیلے، دلوں میں خوف
کووِڈ- ۱۹ لاک ڈاؤن بحران کے سبب ہونے والی مہاجرت نے شاعروں اور فنکاروں کو یکساں طور پر متاثر کیا ہے۔ ایک ایسا ہی ردِ عمل یہاں پیش کیا جا رہا ہے
۱۶ اپریل، ۲۰۲۰ | گوکل جی کے
اندھیری روشنی کا چراغ جلتا ہے
پچھلے سال ۵ اپریل کو وزیر اعظم کے کہنے پر لوگوں نے رات کے ۹ بجے، ۹ منٹ کے لیے تمام لائٹیں بند کرکے چراغ روشن کیے۔ اس واقعہ نے الگ الگ لوگوں پر الگ الگ طریقے سے اثر ڈالا۔ گجرات کے شہر احمد آباد کی رہنے والی ایک شاعرہ نے اپنا ردعمل کچھ یوں دیا…
۶ اپریل، ۲۰۲۰ | پرتشٹھا پانڈیہ