چترگُپت تمام پرائمری اور اپر پرائمری اسکولوں کے مارے گئے ٹیچروں اور معاون ملازمین کے ناموں کی گنتی کر رہے تھے، جیسا کہ کچھ ہفتہ پہلے ووٹوں کی گنتی کے وقت کیا گیا تھا۔ انہیں اس کام کے لیے مشینوں پر بہت زیادہ بھروسہ نہیں تھا۔ چیف سکریٹری اور وزیروں کو بھیجے جانے سے پہلے انہیں اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ ریکارڈ صحیح ہوں اور کوئی غلطی نہ ہوئی ہو۔

جو مارے گئے تھے وہ اپنے پھل کا انتظار کر رہے تھے، لیکن چترگپت گنتی میں غلطی ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ انہیں ایک بھی سیٹ سونپنے سے پہلے، زمین پر ان کے گزشتہ اعمال کے تمام ریکارڈ کی جانچ کرنی ضروری تھی۔ ہر غلطی کی قیمت کافی زیادہ ہونے والی تھی، اس لیے وہ بار بار گن رہے تھے۔ ہر بار جب وہ گنتی میں لگے ہوتے، تو گم شدہ روحوں کی اس لامتناہی فہرست میں کچھ اور نام شامل ہوچکے ہوتے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر وہ ان بھٹکتی روحوں کو پاتال لوک میں اپنے آفس کے باہر قطار میں کھڑا کر دیں، تو یہ لائن سیدھا پریاگ راج تک پہنچ جاتی۔

سدھنوا دیش پانڈے کی آواز میں یہ نظم سنیں

illustration
PHOTO • Labani Jangi

دو دُونی چار، ۱۶۰۰ سے زیادہ کی قطار...

دو دُونی چار
چار دُونی آٹھ
آٹھ دونی ہوا سولہ
اوپر سے جوڑا ۱۰...
۱۶۰۰ سے زیادہ تو ابھی قطار میں ہیں۔
اگر تم نے غصے کو جوڑنا سیکھ لیا ہے
اور اپنے ڈر کو گھٹانا جان گئے ہو،
تو اب گنتی سیکھو
اور بھاری بھرکم اعداد کا حساب کرو،
اُن لاشوں کو گنو
جو بھری ہوئی ہیں بیلٹ باکسوں میں۔
بتاؤ کہ کہیں تمہیں اعداد سے ڈر تو نہیں لگا۔

فروری، مارچ، اپریل، مئی
مہینوں کے نام یاد رکھو،
ہفتے کے وہ دن یاد رکھو جو اندیکھی کے شکار ہوئے،
موت، آنسو، اور غم کے موسموں کے نام،
ہر پولنگ مرکز، ہر ضلع کا نام،
گاؤں کے ہر بلاک یاد رکھو۔
کلاس کی دیواروں کے رنگ،
اُن اینٹوں کے گرنے کی آواز،
اسکولوں کے ملبہ میں تبدیل ہونے کا نظارہ یاد رکھو،
ہماری آنکھیں جلتی ہیں تو جل جائیں، یاد کرنا ہوگا ان ناموں کو
کلرکوں، چپراسیوں، اور سارے ٹیچروں کے –
گریش سر، رام بھیا
مِس سنیتا رانی
مِس جاونتری دیوی
عبدل سر، اور فریدہ میم۔
انہیں زندہ رکھنے کے لیے ہمیں یاد رکھنا ہوگا
تب بھی، جب سانس نہیں مل رہی اور یہ مر جا رہے۔

اب سانس لینے کا مطلب برداشت کرنا ہے
خدمت کرنے کا مطلب مر جانا ہے
سزا دینا ہی حکومت کی روایت ہے اب
جیتنا ہے تو قتل عام کرنا ہے
خاموشی کی خاطر اب مناسب ہے جان سے مارنا
لکھنے کا مطلب اُڑنا ہے
اب جینا ہے تو بولنا ہے
اور یاد میں رہنا، جینا ہے –
گریش سر، رام بھیا
مِس سنیتا رانی
مِس جاونتری دیوی
عبدل سر، اور فریدہ میم
یاد رکھنے کے لیے ضروری ہے سیکھنا،
سیکھ لو، طاقت اور حالیہ سیاست کی زبان۔
خاموشیوں اور تکلیفوں کی
اصطلاحیں رَٹ لو۔
ٹوٹ کر بکھر گئے خوابوں کو جمع کرو،
جو رہ گیا اَن کہا، اسے پڑھو۔

ایک دن تم جانوگے
جھوٹ میں دبا سچ۔
ایک دن تم جانوگے
کیوں مر گئے اتنے ٹیچر۔
کلاس روم کیوں سنسان ہوئے
اور کیوں اجڑ گئے کھیل کے میدان۔
شمشان میں کیوں تبدیل ہوئے اسکول
چتاؤں میں آگ کس نے دی۔
لیکن، تم کو یہ نام ہمیشہ یاد رکھنے ہوں گے –
گریش سر، رام بھیا
مِس سنیتا رانی
مِس ساونتری دیوی
عبدل سر، اور فریدہ میم

آڈیو: سدھنوا دیش پانڈے جن ناٹیہ منچ کے ایک اداکار، ہدایت کار اور لیفٹ ورڈ بُکس کے ایڈیٹر ہیں۔

مضمون کا عنوان: شاعر دانش علی گڑھی کے شعر کا ایک مصرع

مترجم: محمد قمر تبریز

Pratishtha Pandya

پرتشٹھا پانڈیہ، پاری میں بطور سینئر ایڈیٹر کام کرتی ہیں، اور پاری کے تخلیقی تحریر والے شعبہ کی سربراہ ہیں۔ وہ پاری بھاشا ٹیم کی رکن ہیں اور گجراتی میں اسٹوریز کا ترجمہ اور ایڈیٹنگ کرتی ہیں۔ پرتشٹھا گجراتی اور انگریزی زبان کی شاعرہ بھی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Pratishtha Pandya
Painting : Labani Jangi

لابنی جنگی مغربی بنگال کے ندیا ضلع سے ہیں اور سال ۲۰۲۰ سے پاری کی فیلو ہیں۔ وہ ایک ماہر پینٹر بھی ہیں، اور انہوں نے اس کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں حاصل کی ہے۔ وہ ’سنٹر فار اسٹڈیز اِن سوشل سائنسز‘، کولکاتا سے مزدوروں کی ہجرت کے ایشو پر پی ایچ ڈی لکھ رہی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique