لوک سبھا انتخابات شروع ہونے سے ایک ہفتہ پہلے، گڑھ چرولی ضلع کی ۱۴۵۰ گرام سبھاؤں نے کانگریس امیدوار ڈاکٹر نام دیو کیرسن کو مشروط حمایت دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ایک غیر متوقع قدم تھا، جو سات مراحل میں ہونے والے ۲۰۲۴ کے عام انتخابات کے پہلے مرحلہ میں، ۱۹ اپریل کو اس خطہ میں ہونے والی ووٹنگ سے سات دن پہلے اٹھایا گیا تھا۔

یہ ایک غیر متوقع قدم اس لیے تھا، کیوں کہ ایک ایسے ضلع میں جہاں قبائلی برادریاں مشکل سے کسی سیاسی پارٹی کی طرفداری کھل کر کرتی ہوں، ۱۲ تحصیلوں میں پھیلی ان گرام سبھاؤں کی حمایت نے جہاں کانگریس کو حیران کیا وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے پریشانی کا باعث بھی بنا۔ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے موجودہ رکن پارلیمنٹ (ایم پی) اشوک نیٹے یہاں سے لگاتار تیسری بار منتخب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان گرام سبھاؤں کے ہزار سے زیادہ عہدیداروں اور نمائندوں نے ۱۲ اپریل کو گڑھ چرولی شہر کے ایک بارات گھر، ’سوپربھات منگل کاریالیہ‘ میں ایک کھلی میٹنگ کرنے کے لیے دن بھر کانگریس امیدوار اور پارٹی کے لیڈروں کا بے صبری سے انتظار کیا۔ شام کے وقت، ضلع کے جنوب مشرقی بلاک بھامرا گڑھ کے انتہائی کمزور قبائلی گروپ ماڈیا سے تعلق رکھنے والے وکیل اور کارکن لالسو نوگوٹی نے انتہائی خاموشی سے کیرسن کو یہ شرطیں پڑھ کر سنائیں، جنہوں نے ان کی حمایت پر مبنی خط کو قبول کیا اور وعدہ کیا کہ اگر وہ پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوتے ہیں تو ان کے مطالبات کو ضرور پورا کریں گے۔

اس خط میں کئی شرطوں کا ذکر تھا، جن میں سے کچھ یوں ہیں: ضلع کے جنگلاتی حصوں میں بے لگام اور بے تحاشہ ہونے والی کانکنی پر روک لگائی جائے؛ جنگلات کے حقوق سے متعلق قانون (ایف آر اے) کے ضوابط کو آسان کیا جائے؛ زیر التوا دعووں کے ساتھ گاؤوں کو کمیونٹی جنگل کے حقوق (سی ایف آر) دلائے جائیں؛ اور ہندوستانی آئین پر سختی سے عمل کیا جائے۔

اس خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ ’’ہماری یہ حمایت صرف اسی الیکشن کے لیے ہے۔ اگر وعدے کی خلاف ورزی کی گئی تو ہم، یعنی عوام، مستقبل میں کوئی دوسرا رخ اپنائیں گے۔‘‘

گرام سبھاؤں نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟

’’ہم حکومت کو اس سے کہیں زیادہ رائلٹی فراہم کریں گے جو اسے ان کانوں سے ملتی ہے،‘‘ کانگریس پارٹی کے ایک سابق لیڈر اور مشہور آدیواسی کارکن سینو گوٹا کہتے ہیں۔ ’’اس خطہ میں جنگلات کو کاٹنا اور کانوں کی کھدائی کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔‘‘

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: لالسو نوگوٹی ایک وکیل اور کارکن ہیں، اور ان کا شمار گڑھ چرولی کی گرام سبھاؤں کے اہم لیڈروں میں ہوتا ہے۔ دائیں: توڈگٹّا کے قریب اپنے گھر میں، جنوب وسطی گڑھ چرولی کے ایک مشہور آدیواسی کارکن اور لیڈر سینو گوٹا، اپنی بیوی اور پنچایت سمیتی کی سابق صدر شیلا گوٹا کے ساتھ

گوٹا نے قتل و غارت گری، ظلم و تشدد، جنگلات کے حقوق حاصل کرنے کے لیے لمبا انتظار، اور اپنے گونڈ قبیلہ پر ہونے والے لگاتار ظلم و ستم – ان تمام چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ طاقتور اور لمبے چوڑے جسم اور سیاہ نوک دار مونچھیں رکھنے والے گوٹا (جن کی عمر ۶۰ سال سے زیادہ ہے) بتاتے ہیں کہ گڑھ چرولی کے درج فہرست علاقوں کی پنچایتی توسیع (پی ای ایس اے) کے تحت آنے والی ان گرام سبھاؤں نے متحد ہو کر بی جے پی کے موجودہ ایم پی کے خلاف جاتے ہوئے کانگریس کے امیدوار کو اپنی حمایت دو وجہوں سے دینے کا فیصلہ کیا ہے: پہلا، ایف آر اے  سے چھیڑ چھاڑ، اور دوسرا، جنگلاتی علاقوں میں کانکنی کا خطرہ جو ان کی ثقافت اور مسکن کو تباہ کر دے گا۔ ’’پولیس کی طرف سے لوگوں کو مسلسل ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’یہ بند ہونا چاہیے۔‘‘

آدیواسی گرام سبھا کے نمائندوں کے درمیان اتفاق رائے ہونے اور حمایت کے لیے شرطیں تیار کرنے سے پہلے صلاح و مشورے کا تین دور چلا۔

’’یہ ملک کے لیے انتہائی اہم الیکشن ہے،‘‘ نوگوٹی کہتے ہیں، جو ۲۰۱۷ میں آزاد امیدوارکے طور پر ضلع پریشد کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ وہ پورے ضلع میں ’وکیل صاحب‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ ’’لوگوں نے طے کیا کہ انہیں صحیح فیصلہ لینا ہوگا۔‘‘

پچھلے سال (۲۰۲۳) نومبر میں، گڑھ چرولی پولیس نے بلا اشتعال کارروائی کرتے ہوئے، خام لوہے سے مالا مال اس خطہ میں ایک اور کان کھولے جانے کے خلاف آدیواسی برادریوں کے ۲۵۳ دنوں سے چل رہے خاموش احتجاج کے مقام کو زمین دوز کر دیا تھا۔

مظاہرین پر جھوٹا الزام لگاتے ہوئے کہ انہوں نے سیکورٹی ٹیم پر حملہ کیا ہے، مسلح حفاظتی اہلکاروں کی ایک بڑی ٹکڑی نے مبینہ طور پر توڈگٹّا گاؤں میں دھرنے کی اس جگہ کو توڑ دیا تھا جہاں تقریباً ۷۰ گاؤوں کے مظاہرین سورجاگڑھ علاقے میں چھ مجوزہ اور نیلامی شدہ کانوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: سورجاگڑھ خام لوہے کی کان، جو تقریباً ۴۵۰ ہیکٹیئر کے رقبہ میں پھیلی ہوئی ہے، اُن پہاڑیوں پر واقع ہے جنہیں مقامی آدیواسی برادریاں مقدس مانتی ہیں، کسی زمانے میں یہ جنگلات سے بھرا علاقہ ہوا کرتا تھا جو اب ریت کے میدان میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سڑکیں لال ہو چکی ہیں اور ندیوں میں آلودہ پانی بہتا ہے۔ اگر حکومت نے لوہے کی ان کانوں کو کھولنے کی اجازت دے دی تو، توڈگٹّا گاؤں کے جنگل والے حصہ کو ختم کر دیا جائے گا۔ مقامی لوگوں کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ اس سے ان کے جنگلات، گھر اور ثقافت ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جائیں گے۔ اسی وجہ سے تقریباً ۱۴۵۰ گرام سبھاؤں نے لوک سبھا انتخابات سے قبل کانگریس امیدوار ڈاکٹر نام دیو کیرسن کو اپنی کھلی حمایت دینے کا فیصلہ کیا

فی الحال لائڈز میٹل اینڈ انرجی لمیٹڈ نام کی کمپنی کی دیکھ ریکھ میں سورجاگڑھ کان میں ہو رہی کھدائی سے ماحولیات پر پڑنے والے اثرات کو دیکھتے ہوئے، چھوٹے چھوٹے گاؤوں اور بستیوں کے لوگوں نے یکے بعد دیگرے دھرنے والی جگہ پر بیٹھنا شروع کیا؛ ہر چار دنوں میں ۱۵-۱۰ لوگوں نے، تقریباً آٹھ مہینے تک یہ کام کیا۔ ان کا بس ایک چھوٹا سا مطالبہ تھا کہ اس علاقے میں کوئی کانکنی نہ کی جائے۔ یہ صرف ان کے جنگلات کی حفاظت تک ہی محدود نہیں تھا، بلکہ ان کی ثقافتی روایت سے بھی جڑا ہوا معاملہ تھا – کیوں کہ اس علاقے میں کئی عبادت گاہیں ہیں۔

پولیس نے آٹھ لیڈروں کی نشاندہی کر کے انہیں اٹھایا اور ان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا، جس سے وہاں بے چینی پھیل گئی اور مقامی لوگوں نے بڑے پیمانے پر اس کی مذمت کی۔ یہیں سے جھگڑے کی شروعات ہوئی۔

اب وہاں پر خاموشی طاری ہے۔

گڑھ چرولی، سی ایف آر کو تسلیم کرنے کے معاملے میں ملک میں سب سے آگے ہے۔ ان علاقوں کے اندر اور باہر کی تقریباً ۱۵۰۰ گرام سبھائیں پی ای ایس اے کے تحت آتی ہیں۔

یہاں کی برادریوں نے اپنے جنگلات کا انتظام کرنا، چھوٹی چھوٹی جنگلاتی پیداوار جمع کرنا اور بہتر قیمت حاصل کرنے کے لیے بولی لگانا شروع کر دیا ہے، جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بات کے اشارے ملنے لگے ہیں کہ سی ایف آر اے نے سماجی اور اقتصادی استحکام فراہم کیا ہے اور کئی دہائیوں کے تصادم اور انتشار کے بعد اب اس علاقے کی تصویر بدلنے لگی ہے۔

لیکن سورجاگڑھ کی کانیں وہاں کے لوگوں کو پریشان کر رہی ہیں: پہاڑیوں پر کھدائی ہو رہی ہے؛ پہاڑیوں سے آنے والی ندیوں اور نالوں میں لال رنگ کا آلودہ پانی بہہ رہا ہے۔ آپ یہاں دور دور تک ٹرکوں کی لمبی قطاریں دیکھ سکتے ہیں، جو حفاظتی اہلکاروں سے پوری طرح محفوظ اور باڑوں سے گھرے کان کے علاقہ سے خام لوہا ڈھونے کے لیے وہاں موجود ہیں۔ کانوں کے ارد گرد جنگلات میں موجود گاؤں اب پوری طرح سکڑنے لگے ہیں۔

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

جھیل سے سورجاگڑھ کی کانوں تک پانی لے جانے کے لیے بڑی بڑی پائپیں (بائیں) بچھائی گئی ہیں۔ خام لوہا کو ضلع سے باہر کسی اسٹیل پلانٹ میں لے جاتا ایک بڑا ٹرک (دائیں)

PHOTO • Jaideep Hardikar
PHOTO • Jaideep Hardikar

بائیں: تقریباً ۷۰ گاؤوں کے لوگ مجوزہ لوہے کی کانوں کے خلاف توڈگٹّا میں پرامن طریقے سے احتجاج کرتے آ رہے ہیں۔ دائیں: سورجاگڑھ کی کانوں کے پیچھے کا ایک خاموش اور خوبصورت گاؤں  ملّم پڑ۔ اس گاؤں میں اوراؤں قبیلہ کے لوگ آباد ہیں، جن کے جنگلات اور کھیتوں کو تباہ کر دیا گیا ہے

مثال کے طور پر، ملّم پڑ گاؤں کو ہی لے لیجئے۔ مقامی سطح پر مالم پدی کے نام سے مشہور یہ اوراؤں برادری کی ایک چھوٹی سی بستی ہے، جو چامورسی بلاک میں سورجاگڑھ کانوں کے پیچھے واقع ہے۔ یہاں کے نوجوان بتاتے ہیں کہ کیسے کان سے نکلنے والی آلودگی نے کاشت کاری کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ وہ تباہی، بربادی، اور بڑے پیمانے پر موجود صحت کے مسائل کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ کئی چھوٹی چھوٹی بستیاں اپنے امن و امان کو تباہ ہوتے دیکھ رہی ہیں، جسے باہری لوگ ’ترقی‘ کہتے ہیں۔

گڑھ چرولی میں ریاستی سیکورٹی فورسز اور سی پی آئی (ماؤ نواز) کے مسلح گوریلاؤں کے درمیان تشدد اور جھڑپ کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے، جو خاص طور پر ضلع کے جنوبی، مشرقی اور شمالی حصوں میں کافی شدت اختیار کر چکی تھی۔

خون بہے۔ گرفتاریاں ہوئیں۔ تین دہائیوں سے بے تحاشہ قتل، پکڑنے کے لیے جال بچھانا، گھات لگا کر حملہ کرنا، اور مار کاٹ کا سلسہ جاری رہا۔ بھوک سے موت، ملیریا اور زچہ بچہ کی شرح اموات میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ لوگ مرتے رہے۔

اپنی کمیونٹی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی پہلی نسل سے تعلق رکھنے والے، اور ہمیشہ مسکرانے والے نوگوٹی کہتے ہیں، ’’کم از کم ایک بار تو ہم سے پوچھئے کہ ہمیں کس کی ضرورت ہے اور ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہماری اپنی روایات ہیں؛ ہمارے خود کے اپنے جمہوری نظام ہیں؛ اور ہمارے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی ہے۔‘‘

درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے لیے ریزرو اس بڑے حلقہ انتخاب میں ۱۹ اپریل کو ۷۱ فیصد سے زیادہ ووٹنگ ہوئی۔ آئندہ ۴ جون کو ووٹوں کی گنتی کے بعد، جب ملک میں ایک نئی حکومت بن جائے گی، تب جا کر ہمیں پتہ چلے گا کہ ان گرام سبھاؤں نے جو قدم اٹھایا تھا اس سے کوئی تبدیلی آئی بھی یا نہیں۔

مترجم: قمر صدیقی

Jaideep Hardikar

जयदीप हार्दिकर, नागपुर स्थित पत्रकार-लेखक हैं और पारी की कोर टीम के सदस्य भी हैं.

की अन्य स्टोरी जयदीप हरडिकर
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

सर्वजया भट्टाचार्य, पारी के लिए बतौर सीनियर असिस्टेंट एडिटर काम करती हैं. वह एक अनुभवी बांग्ला अनुवादक हैं. कोलकाता की रहने वाली सर्वजया शहर के इतिहास और यात्रा साहित्य में दिलचस्पी रखती हैं.

की अन्य स्टोरी Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique