وہ اپنے بیگ میں ایک ریپڈ ملیریا ٹیسٹ کٹ تلاش کر رہی ہیں۔ بیگ میں دوائیں، سیلائن کی بوتلیں، آئرن کی ٹیبلیٹس، انجیکشنز، بی پی مشین، اور بہت سارا سامان بھرا ہوا ہے۔ جس عورت کے گھر والے اسے دو دن سے تلاش کر رہے تھے، وہ بستر پر پڑی ہوئی ہے۔ اس کا درجہ حرارت سے بڑھ رہا ہے۔ ٹیسٹ پازیٹو آتا ہے۔

وہ ایک بار پھر اپنے بیگ میں جھانکتی ہیں۔ اس بار وہ ۵۰۰ ایم ایل ڈیکسٹروز انٹراوینس (آئی وی) سالیوشن تلاش کر رہی ہیں۔ وہ عورت کے بستر کے پاس پہنچتی ہیں، بڑی مہارت سے ایک پلاسٹک کی رسی کو چھت پر لگی لوہے کی چھڑ پر لپیٹتی ہیں، اور تیزی سے اس پر آئی وی بوتل باندھ دیتی ہیں۔

۳۵ سالہ جیوتی پربھا کِسپوٹا گزشتہ ۱۰ سال سے جھارکھنڈ کے مغربی سنگھ بھوم ضلع کے گاؤوں اور آس پاس کے علاقوں میں اپنی طبی خدمات پہنچا رہی ہیں۔ ان کے پاس ڈاکٹر کی ڈگری نہیں ہے، وہ کوئی تربیت یافتہ نرس بھی نہیں ہیں۔ وہ کسی سرکاری اسپتال یا طبی خدمات کے مرکز سے بھی نہیں وابستہ نہیں ہیں۔ لیکن اوراؤں برادری کی یہ خاتون مغربی سنگھ بھوم کے آدیواسی اکثریتی گاؤوں کے لیے پہلا سہارا ہیں، اور اکثر آخری امید بھی۔ یہ گاؤں خستہ حال سرکاری طبی خدمات کے حوالے ہے۔

جیوتی ایک آر ایم پی ہیں۔ علاقائی سروے بتاتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں ۷۰ فیصد طبی خدمات تمام آر ایم پی کے ذریعے ہی مہیا کرائی جا رہی ہیں۔ یہاں آر ایم پی کا مطلب ’رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹشنر‘ نہیں، بلکہ ’رورل میڈیکل پریکٹشنر‘ ہے؛ عام بول چال میں ہم جسے ’جھولا چھاپ ڈاکٹر‘ کہتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں یہ نا اہل ڈاکٹر متوازی طور پر پرائیویٹ طبی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اکیڈمکس کی دنیا میں انہیں حقارت سے دیکھا جاتا ہے اور طبی خدمات پر مرکوز سرکاری پالیسیوں میں پس و پیش کے جذبے سے۔

آر ایم پی اکثر ہندوستان میں کسی بھی منظور شدہ ادارے سے رجسٹرڈ نہیں ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہومیو پیتھ یا یونانی ڈاکٹر کے بطور رجسٹر ہو سکتے ہیں، لیکن وہ ایلوپیتھی دواؤں کے ذریعے بھی مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔

جیوتی کے پاس ایلوپیتھی دواؤں کا ایک آر ایم پی سرٹیفکیٹ ہے، جسے ’کاؤنسل آف اَن امپلائیڈ رورل میڈیکل پریکٹشنرز‘ نام کے ایک پرائیویٹ ادارہ نے جاری کیا ہے۔ سرٹیفکیٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ادارہ بہار حکومت کے ذریعے رجسٹرڈ ہے۔ جیوتی نے ۱۰ ہزار روپے دے کر وہاں سے ۶ مہینے کا یہ کورس کیا تھا۔ اس ادارہ کا اب کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

Jyoti Prabha Kispotta administering dextrose saline to a woman with malaria in Borotika village of Pashchimi Singhbhum.
PHOTO • Jacinta Kerketta
Jyoti with a certificate of Family Welfare and Health Education Training Programme, awarded to her by the Council of Unemployed Rural Medical Practitioners
PHOTO • Jacinta Kerketta

بائیں: مغربی سنگھ بھوم کے بوروتیکا گاؤں میں ملیریا سے متاثر عورت کو ڈیکسٹروز سیلائن چڑھاتیں جیوتی پربھا کسپوٹّا۔ دائیں: کاؤنسل آف اَن امپلائیڈ رورل میڈیکل پریکٹشنرز کے ذریعے حاصل خاندانی فلاح و بہبود اور طبی تعلیم کے تربیتی پروگرام کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ جیوتی

*****

مریض کے دوست کو کچھ ہدایات کے ساتھ دوائیں سونپنے سے پہلے، جیوتی آئی وی بوتل کے خالی ہونے کا انتظار کرتی ہیں۔ ہم انک ی بائک تک پہنچنے کے لیے پیدل چلتے ہیں۔ سڑکوں کی خراب حالت کی وجہ سے انہیں اپنی بائک ۲۰ منٹ کی دوری پر کھڑی کرنی پڑی تھی۔

مغربی سنگھ بھوم ضلع معدنیات کے معاملے میں کافی امیر ہے، لیکن اسپتالوں، پینے کے صاف پانی، تعلیمی اداروں، اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات تک اس کی رسائی نہیں ہے۔ یہ جیوتی کا آبائی علاقہ ہے – جنگلوں اور پہاڑوں سے گھرا ہوا۔ اور یہ ریاست اور ماؤنوازوں کے درمیان تنازعات والے علاقے میں بھی آتا ہے۔ یہاں کی سڑکیں کافی خراب ہیں؛ موبائل یا انٹرنیٹ کنیکٹویٹی بہت کم یا نہ کے برابر ہے۔ اس وجہ سے انہیں اکثر پیدل چل کر ہی دوسرے گاؤں تک جانا پڑتا ہے۔ ناگہانی حالت میں، گاؤں کے لوگ جیوتی کو لانے کے لیے سائیکل سے کسی شخص کو بھیجتے ہیں۔

جیوتی، بوروتیکا گاؤں میں مٹی سے بنے گھر میں رہتی ہیں۔ ان کا گھر ایک پتلی سی سڑک کے کنارے ہے، جو آپ کو مغربی سنگھ بھوم ضلع کے گوئیلکیرا بلاک تک لے جائے گی۔ اس آدیواسی گھر کے درمیان میںایک کمرہ ہے اور چاروں طرف برآمدہ۔ برآمدے کے ایک حصے کی مرمت کرواکر اسے باورچی خانہ بنا دیا گیا ہے۔ پورے گاؤں میں بجلی کی سپلائی بے ترتیب رہتی ہے اور یہ گھر بھی اندھیرے سے گھرا ہوا ہے۔

اس گاؤں کے آدیواسی گھروں میں زیادہ کھڑکیاں نہیں ہیں۔ لوگ اکثر دن کے وقت بھی گھر کے کونے میں چھوٹی ٹارچ یا لالٹین لگا کر رکھتے ہیں۔ جیوتی یہاں اپنے ۳۸ سالہ شوہر سندیپ دھن وار، ۷۱ سالہ ماں جولیانی کسپوٹّا اور اپنے بھائی کے آٹھ سال کے بیٹے، جانسن کسپوٹّا کے ساتھ رہتی ہیں۔ جیوتی کے شوہر سندیپ بھی انہی کی طرح ایک آر ایم پی ہیں۔

ایک سائیکل سوار جیوتی کو تلاش کرتا ہوا گھر پہنچتا ہے۔ وہ اپنا کھانا چھوڑتی ہیں اور اس نئے معاملے کو دیکھنے کے لیے اپنا بیگ اٹھاتی ہیں۔ اپنی بیٹی کو جاتا دیکھ کر ماں جولیانی، سادری زبان میں زور سے پکارتی ہیں، ’’ ’بھات کھائے کے تو جاتے (یعنی جانے سے پہلے چاول تو کھا لیتی)۔‘‘ جیوتی گھر سے باہر نکلتے ہوئے کہتی ہیں، ’’انہیں میری اسی وقت ضرورت ہے۔ مجھے کھانا کہیں بھی مل جائے گا، لیکن مریض ضروری ہے۔‘‘ اس گھر میں یہ منظر اکثر دیکھنے کو ملتا ہے۔

Jyoti’s mud house in Borotika village in Herta panchayat
PHOTO • Jacinta Kerketta
A villager from Rangamati village has come to fetch Jyoti to attend to a patient
PHOTO • Jacinta Kerketta

بائیں: ہرتا پنچایت کے بوروتیکا گاؤں میں جیوتی کا مٹی سے بنا گھر۔ دائیں: رنگامٹی گاؤں کا ایک رہائشی کسی مریض کے علاج کے لیے جیوتی کو بلانے آیا ہے

جیوتی، ہرتا پنچایت کے ۱۶ گاؤوں میں کام کرتی ہیں۔ ان میں بوروتیکا، ہٹوتوا، رنگامٹی، میرڈینڈا، روما، کنڈی، اور اوسانگی گاؤں بھی شامل ہیں۔ یہ سبھی ۱۲ کلومیٹر کے دائرے میں واقع ہیں۔ ہر معاملے کو دیکھنے کے لیے انہیں کچھ دوری پیدل طے کرنی پڑتی ہے۔ کئی بار انہیں دوسری پنچایتوں، جیسے رونگھی کوچا اور روبکیرا کی عورتیں بھی فون کرتی ہیں۔

*****

۳۰ سال کی گریسی اِکّا بتاتی ہیں کہ کیسے مشکل وقت میں جیوتی نے ان کی مدد کی۔ وہ کہتی ہیں، ’’سال ۲۰۰۹ کا وقت تھا اور میں پہلے بچے سے حاملہ تھی۔‘‘ وہ بوروتیکا کے اپنے گھر میں ہم سے بات کر رہی ہیں۔ ’’آدھی رات کو بچہ ہوا۔ اس وقت میرے گھر میں میری بوڑھی ساس کے علاوہ، جیوتی اکلوتی عورت تھی جو وہاں میرے ساتھ موجود تھی۔ مجھے خطرناک دست لگے تھے اور بچے کے پیدا ہونے کے بعد بہت زیادہ کمزوری تھی۔ میں بیہوش ہو گئی تھی۔ اس پورے وقت کے دوران جیوتی نے ہی میرا خیال رکھا۔‘‘

گریسی یاد کرتی ہیں کہ کیسے اُن دنوں، وہاں نہ کوئی نقل و حمل کا ذریعہ تھا، نہ ہی گاؤں تک پہنچے والی کوئی سڑک تھی۔ جیوتی کوشش کر رہی تھیں کہ گریسی کو علاج کے لیے ۱۰۰ کلومیٹر دور، چائی باسا پہنچایا جا سکے۔ اس کے لیے جیوتی ایک سرکاری نرس، جرنتی ہیبرام سے مسلسل رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ جب تک رابطہ نہیں ہوا، جیوتی نے علاج کے لیے مقامی جڑی بوٹیوں کا سہارا لیا۔ نئی نئی ماں بنی گریسی کو واپس پیروں پر کھڑا ہونے میں تقریباً ایک سال کا وقت لگ گیا۔ گریسی کہتی ہیں، ’’جیوتی ہی تھی جو میرے بچے کو، گاؤں کی دیگر دودھ پلانے والی ماؤں کے پاس لے جا کر دودھ پلواتی تھیں۔ اس کے بغیر میرا بچہ زندہ نہیں بچتا۔‘‘

گریسی کے شوہر، ۳۸ سالہ سنتوش کچھپ بتاتے ہیں کہ گاؤں میں گزشتہ دو سالوں سے ایک ابتدائی طبی مرکز ہے۔ وہاں نرس ہفتے میں ایک بار بیٹھتی ہے۔ وہ طبی مرکز جیوتی کے گھر سے تین کلومیٹر دور ہے اور یہاں کسی طرح کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’نرس گاؤں میں نہیں رہتی۔ وہ آتی ہے اور چھوٹی موٹی پریشانیوں والے مریضوں، جیسے بخار وغیرہ کی شکایت دیکھ کر لوٹ جاتی ہے۔ نرس کو لگاتار رپورٹ بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن گاؤں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہیں ہے۔ اس لیے وہ گاؤں میں نہیں رہ سکتی ہے۔ جیوتی گاؤں میں رہتی ہے، اسی لیے وہ اتنی مدد کر پاتی ہے۔‘‘ حاملہ خواتین ابتدائی طبی مرکز (پی ایچ سی) نہیں جاتیں۔ وہ گھر پر بچے کو جنم دینے کے لیے جیوتی کی مدد لیتی ہیں۔

یہاں تک کہ آج بھی ضلع کے کسی بھی گاؤں میں ابتدائی طبی مرکز ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا۔ گوئیلکیرا بلاک میں واقع اسپتال بوروتیکا سے ۲۵ کلومیٹر دور ہے۔ اس کے علاوہ آنند پور بلاک میں حال ہی میں ایک ابتدائی طبی مرکز کھلا ہے، جو ۱۸ کلومیٹر دور ہے۔ ۱۲ کلومیٹر کا ایک پتلا راستہ بوروتیکا سے سیرینگدا گاؤں ہوتے ہوئے جاتا ہے اور کوئل ندی پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ گرمیوں کے موسم میں لوگ کم گہرے پانی میں اتر کر، ندی پار کرتے ہوئے آنند پور پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن بارش کے موسم میں ندی طغیان پر ہوتی ہے اور راستہ بند ہو جاتا ہے۔ ایسے میں لوگوں کو مجبوراً ۴ کلومیٹر لمبا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ ندی سے آنند پور تک کا راستہ پتھریلا، کیچڑ بھرا ہے۔ ۱۰ کلومیٹر لمبے اس راستے پر بیچ بیچ میں سڑکیں بنی ہوئی ہیں، لیکن اکھڑی ہوئی۔ یہ راستہ جنگل سے ہو کر بھی گزرتا ہے۔

Graci Ekka of Borotika village says, “It was Jyoti who used to take my newborn baby to other lactating women of the village to feed the infant. My baby would not have survived without her.
PHOTO • Jacinta Kerketta
The primary health centre located in Borotika, without any facilities. Government nurses come here once a  week
PHOTO • Jacinta Kerketta

بائیں: بوروتیکا گاؤں کی گریسی اِکّا کہتی ہیں، ’جیوتی ہی تھی جو میرے بچے کو، گاؤں کی دیگر دودھ پلانے والی ماؤں کے پاس لے جا کر دودھ پلواتی تھی۔ اس کے بغیر میرا بچہ زندہ نہیں بچتا۔‘ دائیں: بوروتیکا کے ابتدائی طبی مرکز میں کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ سرکاری نرس یہاں ہفتے میں ایک بار بیٹھتی ہے

ایک بس ہوا کرتی تھی، جو لوگوں کو چکردھر پور شہر تک لے جاتی تھی۔ لیکن ایک حادثہ کے بعد وہ بند ہو گئی۔ لوگ سائیکل یا بائک کے ہی بھروسے ہیں یا پھر پیدل ہی جاتے ہیں۔ یہ راستہ طے کرنا عامطور پر کسی بھی حاملہ خاتون کے لیے ناممکن ہے۔ ایسے میں صرف آنند پور ابتدائی طبی مرکز میں ہی ’نارمل ڈیلیوری‘ ہو سکتی ہے۔ اگر معاملہ پیچیدہ ہے یا آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے، تو عورت کو آنند پور سے ۱۵ کلومیٹر دور منوہر پور یا پھر ریاست کی سرحد پار کرکے ۶۰ کلومیٹر دور اوڈیشہ کے راؤرکیلا جانا پڑتا ہے۔

جیوتی کہتی ہیں، ’’میں نے بچپن سے دیکھا ہے کہ عورتیں سب سے زیادہ بے سہارا تب ہوتی ہیں، جب وہ بیمار ہوتی ہیں۔ مرد کمانے کے لیے باہر جاتے ہیں (قصبوں اور شہروں میں)۔ قصبے اور اسپتال گاؤں سے بہت دور ہیں اور عام طور پر عورتوں کی طبیعت مزید بگڑ جاتی ہے، جب وہ اپنے شوہر کے لوٹنے کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ کئی عورتوں کے لیے ان کے شوہر کا گاؤں میں رہنا بھی مدد نہیں کرتا، کیوں کہ مرد اکثر شراب پیتے ہیں اور حمل کے دوران بھی اپنی بیوی سے مار پیٹ کرتے ہیں۔

جیوتی آگے کہتی ہیں، ’’پہلے اس علاقے میں ایک دائی ماں تھیں۔ وہ ڈیلیوری کے وقت عورتوں کا اکلوتا سہارا تھیں۔ لیکن گاؤں کے میلہ میں ان کا قتل کر دیا گیا۔ ان کے بعد، گاؤں میں اس ہنر والی کوئی عورت نہیں ہے۔‘‘

ہر گاؤں میں آنگن واڑی سیویکا اور سہیا ہے۔ سیویکا گاؤں میں پیدا ہونے والے بچوں کا ریکارڈ رکھتی ہیں اور حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی ماؤں، اور ان کے بچوں کی طبیعت کی جانچ کرتی ہیں۔ سہیا ، حاملہ خاتون کو اسپتال لے کر جاتی ہیں، لیکن مریض کو سہیا کے کھانے، آنے جانے اور دیگر اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اسی لیے لوگ اکثر سہیا کے پاس جانے کی بجائے جیوتی سے رابطہ کرتے ہیں۔ جیوتی دواؤں کے علاوہ لوگوں کے گھر جانے کا کوئی پیسہ نہیں لیتی ہیں۔

لیکن اس گاؤں میں کئی خاندانوں کے لیے یہ بھی بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگ بارش سے ہونے والی پیداوار اور دہاڑی مزدوری پر منحصر ہیں۔ ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، مغربی سنگھ بھوم کے دیہی علاقوں میں ۸۰ فیصد سے زیادہ آبادی، آمدنی کے لیے اسی قسم کے کاموں پر منحصر ہے۔ زیادہ تر خاندانوں کے مرد کام کی تلاش میں گجرات، مہاراشٹر اور کرناٹک چلے جاتے ہیں۔

The few roads in these Adivasi villages of Pashchimi Singhbhum are badly maintained. Often the only way to reach another village for Jyoti is by walking there.
PHOTO • Jacinta Kerketta
Jyoti walks to Herta village by crossing a stone path across a stream. During monsoon it is difficult to cross this stream
PHOTO • Jacinta Kerketta

بائیں: مغربی سنگھ بھوم کے ان آدیواسی گاؤوں میں کچھ ہی سڑکیں بنی ہیں اور بہت بری حالت میں ہیں۔ اکثر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک پہنچنے کے لیے جیوتی کو پیدل ہی جانا ہوتا ہے۔ دائیں: جیوتی، ہرتا گاؤں جانے کے لیے پتھروں سے بنے راستے سے ندی کو پار کر رہی ہیں۔ مانسون کے دوران اس ندی کو پار کرنا مشکل ہوتا ہے

*****

نیتی آیوگ کی قومی کثیر جہتی غریبی کا اشاریہ رپورٹ کے مطابق، غریبی کے اشاریوں کی بنیاد پر مغربی سنگھ بھوم کے ۶۴ فیصد دیہی ’کثیر جہتی طور پر غریب‘ ہیں۔ یہاں لوگوں کے پاس دو ہی متبادل ہیں۔ یا تو وہ اونچی قیمتیں ادا کرکے مفت سرکاری سہولیات تک پہنچیں یا پھر جیوتی کی طرح کسی آر ایم پی سے مہنگی دوائیں خریدیں، جس کی فیس بعد میں قسطوں میں بھی دی جا سکتی ہے۔

تاخیر کو روکنے کے لیے ریاستی حکومت نے ضلع اسپتالوں کے کال سینٹرز کے ساتھ، مفت سرکاری طبی سہولیات ’ ممتا واہن اور سہیاؤں ‘ کے لیے ایک نیٹ ورک قائم کیا ہے۔ حاملہ خواتین کو طبی نگہداشت کے مرکز تک پہنچانے والی گاڑی کے بارے میں بات کرتے ہوئے جیوتی کہتی ہیں، ’’لوگ ممتا واہن کے لیے فون نمبر پر کال کر سکتے ہیں۔ لیکن گاڑی کے ڈرائیور کو اگر اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ حامہ خاتون کی جان بچنے کی گنجائش بہت کم ہے، تو اکثر وہ آنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ ایسا اس لیے کیوں کہ اگر عورت کی موت گاڑی میں ہو جاتی ہے، تو گاڑی کا ڈرائیور مقامی لوگوں کے غصے کا شکار ہو جاتا ہے۔‘‘

دوسری طرف، جیوتی عورتوں کو گھر پر بچے کو جنم دینے میں مدد کرتی ہیں اور وہ اس تعاون کے لیے ۵ ہزار روپے لیتی ہیں۔ وہ ایک سیلائن کی بوتل لگانے کے ۷۰۰-۸۰۰ روپے لیتی ہیں، جو بازار میں ۳۰ روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ بغیر ڈرپ کے ملیریا کے علاج میں کم از کم ۲۵۰ روپے کا خرچ آتا ہے اور نمونیا کی دوائیں ۵۰۰-۶۰۰ کی۔ اس کے علاوہ پیلیا (یرقان) یا ٹائیفائیڈ کے علاج میں ۲-۳ ہزار روپے تک کا خرچ آتا ہے۔ ایک مہینہ میں جیوتی کے ہاتھ میں تقریباً ۲۰ ہزار روپے آتے ہیں، جس میں سے آدھی رقم دوائیں خریدنے میں خرچ ہوتی ہے۔

سال ۲۰۰۵ میں پراتیچی (انڈیا) ٹرسٹ کے ذریعے شائع کردہ ایک رپورٹ میں، دیہی ہندوستان میں پرائیویٹ ڈاکٹروں اور دوا کمپنیوں کے درمیان ایک تشویش ناک ساز باز دیکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’’جب ابتدائی طبی مراکز اور صحت عامہ کی خدمات کی اکائیوں میں دواؤں کی بے حد کمی ہوتی ہے، تو اس وسیع دوا بازار میں ڈاکٹر غیر اخلاقی طور طریقوں کا استعمال کرتے ہیں اور انہیں فروغ دیتے ہیں۔ اور کسی ایک قاعدے یا قانون کی غیر موجودگی میں عام لوگوں سے ان کے پیسے ہڑپ لیے جاتے ہیں۔‘‘

Jyoti preparing an injection to be given to a patient inside her work area at home.
PHOTO • Jacinta Kerketta
Administering a rapid malaria test on a patient
PHOTO • Jacinta Kerketta

گھر پر کام کاج کے لیے متعینہ حصے میں جیوتی ایک مریض کو انجیکشن دینے کی تیاری کر رہی ہیں۔ دائیں: ایک مریض کا ریپڈ ملیریا ٹیسٹ کر رہی ہیں

سال ۲۰۲۰ میں جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ نے ۲۰۱۱ کی مردم شماری کی بنیاد پر، ریاست کا صحت سے متعلق جائزہ لیا ۔ اس رپورٹ نے رسائی اور تقسیم کے معاملے میں ریاست کی طبی نگہداشت کے نظام کی افسوس ناک تصویر پیش کی۔ اس میں ’ہندوستانی صحت عامہ کے معیار‘ کے مقابلے ۳۱۳۰ طبی ذیلی مراکز، ۷۶۹ ابتدائی طبی مراکز اور ۸۷ کمیونٹی طبی مراکز کی کمی پائی گئی۔ ریاست میں ہر ایک لاکھ کی آبادی پر صرف ۶ ڈاک،ر ۲۷ بیڈ، ۱ لیب ٹیکنیشین اور تقریباً ۳ نرس ہیں۔ ساتھ ہی ماہر ڈاکٹروں کے ۸۵ فیصد عہدے خالی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ حالت گزشتہ ایک دہائی سے نہیں بدلی ہے۔ جھارکھنڈ اقتصادی سروے ۲۰۱۳-۱۴ میں پی ایچ سی کی تعداد میں ۶۵ فیصد، ذیلی مراکز میں ۳۵ فیصد، اور سی ایچ سی میں ۲۲ فیصد کی کمی درج کی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہر ڈاکٹروں کی کمی سب سے تشویش ناک بات ہے۔ سی ایس سی میں دایہ، خواتین اور بچوں کے امراض کے ماہرین کی ۸۰ سے ۹۰ فیصد تک کی کمی درج کی گئی ہے۔

یہاں تک کہ آج بھی ریاست کی ایک چوتھائی خواتین کے پاس اسپتال میں جا کر بچے کو جنم دینے کی سہولت نہیں ہے۔ اور ساتھ ہی، ۵۲۵۸ ڈاکٹروں کی کمی بنی ہوئی ہے۔ ۳ کروڑ ۷۸ لاکھ کی آبادی والی اس ریاست میں، تمام سرکاری طبی مراکز میں صرف ۲۳۰۶ ڈاکٹر موجود ہیں۔

ایسے غیر مساوی طبی نظام میں آر ایم پی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ جیوتی گھروں میں ہونے والی ڈیلیوری کرواتی ہیں اور زچگی کے بعد کی نگہداشت کرتی ہیں، اور حاملہ خواتین کو آئرن اور وٹامن کی خوراک دیتی ہیں۔ وہ انفیکشن اور چھوٹے موٹے زخم کے معاملے بھی دیکھتی ہیں اور فوری طبی مدد کرتی ہیں۔ پیچیدہ معاملوں میں، وہ مریض کو سرکاری اسپتال لے جانے کی صلاح دیتی ہیں اور یہاں تک کہ گاڑی کا انتظام بھی کرتی ہیں یا سرکاری نرس سے رابطہ کرواتی ہیں۔

*****

’جھارکھنڈ رورل میڈیکل پریکٹشنرز ایسوسی ایشن‘ کے رکن ویرندر سنگھ کا اندازہ ہے کہ اکیلے مغربی سنگھ بھوم میں ۱۰ ہزار آر ایم پی پریکٹس کر رہے ہیں۔ ان میں ۷۰۰ خواتین ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’آنند پور جیسے نئے پی ایچ سی میں ڈاکٹر نہیں ہیں۔‘‘ وہ پوچھتے ہیں، ’’وہ پوری جگہ نرسوں کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔ یہ جیوتی جیسے آر ایم پی ہیں جو اپنے گاؤوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، لیکن سرکار سے کوئی مدد نہیں ملتی ہے۔ لیکن وہ علاقے کے لوگوں کو اس لیے سمجھتے ہیں، کیوں کہ وہ ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ عوام سے جڑے ہوئے ہیں۔ آپ ان کے کام کو نظر انداز کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘

Susari Toppo of Herta village says, “I had severe pain in my stomach and was bleeding. We immediately called Jyoti."
PHOTO • Jacinta Kerketta
Elsiba Toppo says, "Jyoti reaches even far-off places in the middle of the night to help us women."
PHOTO • Jacinta Kerketta
The PHC in Anandpur block
PHOTO • Jacinta Kerketta

بائیں: ہرتا گاؤں کی سسری ٹوپو کہتی ہیں، ’میرے پیٹ میں بہت درد تھا اور خون بھی بہ رہا تھا۔ ہم نے فوراً جیوتی کو فون کیا۔‘ درمیان میں: ایلسیبا ٹوپو کہتی ہیں، ’جیوتی ہم خواتین کی مدد کے لیے آدھی رات میں بھی دور دور تک پہنچ جاتی ہے۔‘ دائیں: آنند پور بلاک میں واقع پی ایچ سی

ہرتا گاؤں کی ۳۰ سالہ سُسری ٹوپّو بتاتی ہیں کہ جب ۲۰۱۳ میں وہ اپنے پہلے بچے سے حاملہ تھیں، ان کے بچے نے پیٹ میں ہلنا ڈلنا بند کر دیا تھا۔ ’’میرے پیٹ میں بہت درد تھا اور خون بھی بہ رہا تھا۔ ہم نے فوراً جیوتی کو فون کیا۔ وہ پوری رات اور اگلے دن بھی ہمارے ساتھ رہی۔ ان دو دنوں میں اس نے ۶ سیلائن کی بوتلیں لگائیں۔ ایک دن میں تین۔ آخر میں بچے کی نارمل ڈیلیوری ہوئی۔‘‘ بچہ صحت مند تھا اور اس کا وزن ساڑھے تین کلو تھا۔ جیوتی کو ۵۵۰۰ روپے دینے تھے، لیکن فیملی کے پاس صرف ۳ ہزار روپے تھے۔ سُسری کہتی ہیں کہ جیوتی بچے ہوئے پیسے بعد میں لینے کے لیے تیار ہو گئیں۔

ہرتا میں، ۳۰ سالہ ایلیسبا ٹوپّو، تقریباً تین سال پہلے کا اپنا تجربہ بتاتی ہیں، ’’میں اس وقت اپنے جڑواں بچوں کے ساتھ حاملہ تھی۔ میرا شوہر ہمیشہ کی طرح شراب کے نشے میں تھا۔ میں اسپتال نہیں جانا چاہتی تھی، کیوں کہ میں جانتی تھی کہ سڑکیں بہت خراب ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ گھر سے تقریباً چار کلومیٹر دور، مین روڈ تک پہنچنے کے لیے بھی کھیتوں اور نالیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

ایلیسبا رات میں رفع حاجت کے لیے جب کھیت کے پاس گئیں، اس وقت انہیں درد شروع ہو گیا۔ جب وہ آدھے گھنٹے بعد گھر لوٹیں، تو ساس نے ان کی مالش کی، لیکن درد جوں کا توں بنا رہا۔ وہ کہتی ہیں، ’’پھر ہم نے جیوتی کو بلایا۔ وہ آئی، اس نے دوائیں دیں۔ اور اس کی وجہ سے ہی میرے جڑواں بچوں کا جنم، گھر پر نارمل ڈیلیوری سے ہوا۔ وہ ہم خواتین کی مدد کرنے کے لیے آدھی رات میں بھی دور دور تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘

آر ایم پی، آئی وی سالیوشنز کے اندھا دھند استعمال کے لیے جانے جاتے ہیں۔ پرتیچی کی رپورٹ میں پایا گیا کہ جھارکھنڈ اور بہار میں آر ایم پی کے ذریعے تقریباً ہر طرح کی بیماری کے لیے آئی وی سالیوشن (سیلائن) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ یہ نہ صرف غیر ضروری ہے، بلکہ مہنگا بھی ہے۔ کچھ معاملوں میں اس کے استعمال کا الٹا اثر بھی دیکھا گیا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے، ’’انٹرویو کرنے والے ’پریکٹشنر‘ نے پورے اعتماد سے کہا کہ سیلائن کے بغیر کوئی علاج نہیں کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہ جسم میں خون بڑھاتا ہے، غذائیت بخشتا ہے اور تیزی سے راحت پہنچاتا ہے۔‘‘

یہ کام جوکھم بھرا ہے، لیکن جیوتی خوش قسمت رہی ہیں۔ وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ گزشتہ ۱۵ سالوں میں ان سے کوئی چوک نہیں ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر مجھے کوئی بھی معاملے سنبھالنے میں پریشانی ہوتی ہے، تو میں ہمیشہ مریض کو منوہر پور بلاک اسپتال بھیج دیتی ہوں۔ یا پھر میں ممتا واہن کو بلانے میں ان کی مدد کرتی ہوں یا کسی سرکاری نرس سے رابطہ کرا دیتی ہوں۔‘‘

Jyoti seeing patients at her home in Borotika
PHOTO • Jacinta Kerketta
Giving an antimalarial injection to a child
PHOTO • Jacinta Kerketta

بائیں: جیوتی، بوروتیکا میں اپنے گھر پر مریضوں کو دیکھ رہی ہیں۔ دائیں: ایک بچے کو ملیریا مزاحم انجیکشن لگا رہی ہیں

جیوتی نے اپنے عزم محکم سے ہی سب کچھ سیکھا ہے۔ جب وہ سیرگیندا کے ایک سرکاری اسکول میں کلاس ۶ میں پڑھتی تھیں، اسی دوران ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس سے جیوتی کی تعلیم میں بڑی رکاوٹ آ کھڑی ہوئی۔ جیوتی یاد کرتی ہیں، ’’ان دنوں شہر سے لوٹ رہی ایک عورت مجھے کام دلانے کے بہانے پٹنہ لے گئی اور ایک ڈاکٹر میاں بیوی کے پاس چھوڑ گئی۔ وہ مجھ سے گھر کا جھاڑو پونچھا کرواتے تھے۔ ایک دن، میں وہاں سے بھاگ کر واپس گاؤں آ گئی۔‘‘

بعد میں جیوتی نے چاربندیا گاؤں کے ایک کانوینٹ اسکول میں اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کی۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہاں نن کو دواخانہ میں کام کرتے ہوئے دیکھ کر، مجھے پہلی بار نرسنگ کے کام کا سکون اور راحت سمجھ میں آیا۔ میں اس کے بعد اور نہیں پڑھ سکی۔ میرے بھائی نے کسی طرح ۱۰ ہزار روپے جوڑے اور میں نے ایک پرائیویٹ ادارہ سے ایلوپیتھی دواؤں میں میڈیکل پریکٹشنر کا کورس کیا۔‘‘ اس کے بعد جیوتی نے کریبورو، چائی باسا، اور گُملا کے مختلف پرائیویٹ اسپتالوں میں کئی ڈاکٹروں کے ساتھ دو سے تین مہینے تک بطور معاون کام کیا۔ اس کے بعد انہیں ’جھارکھنڈ رورل میڈیکل پریکٹشنرز ایسوسی ایشن‘ سے ایک سرٹیفکیٹ ملا۔ بعد میں وہ اپنی خود کی پریکٹس شروع کرنے کے لیے اپنے گاؤں لوٹ آئیں۔

ہرتا پنچایت میں کام کرنے والی سرکاری نرس، جرنتی ہیمبرم کہتی ہیں، ’’اگر آپ ایک باہری شخص ہیں، تو آپ کے لیے کسی علاقے میں کام کرنا بہت مشکل ہے۔ جیوتی پربھا گاؤں میں پریکٹس کرتی ہیں، اسی لیے لوگوں کو مدد مل پاتی ہے۔‘‘

جیوتی کہتی ہیں، ’’سرکاری نرس مہینے میں ایک بار گاؤں ضرور آتی ہیں، لیکن گاؤں کے لوگ ان کے پاس نہیں جاتے، کیوں کہ وہ ان پر بھروسہ نہیں کرتے۔ یہاں لوگ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں۔ اس لیے ان کے لیے دواؤں سے بھی زیادہ اہم بات ہوتی ہے بھروسہ اور برتاؤ۔‘‘

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jacinta Kerketta

জসিন্তা কেরকেট্টা ওরাওঁ আদিবাসী সম্প্রদায় থেকে আগত গ্রামীণ ঝাড়খণ্ড ভিত্তিক স্বতন্ত্র লেখক এবং রিপোর্টার। জসিন্তা একজন কবি। আদিবাসী সম্প্রদায়গুলির নিরন্তর সংগ্রাম তথা তাঁদের প্রতি নেমে আসা অবিচার ও বৈষম্য তাঁর কবিতায় মূর্ত হয়ে ওঠে।

Other stories by Jacinta Kerketta
Illustration : Labani Jangi

২০২০ সালের পারি ফেলোশিপ প্রাপক স্ব-শিক্ষিত চিত্রশিল্পী লাবনী জঙ্গীর নিবাস পশ্চিমবঙ্গের নদিয়া জেলায়। তিনি বর্তমানে কলকাতার সেন্টার ফর স্টাডিজ ইন সোশ্যাল সায়েন্সেসে বাঙালি শ্রমিকদের পরিযান বিষয়ে গবেষণা করছেন।

Other stories by Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

কমর সিদ্দিকি পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার উর্দু অনুবাদ সম্পাদক। তিনি দিল্লি-নিবাসী সাংবাদিক।

Other stories by Qamar Siddique