’’پچھلے سال ہمیں راتوں رات ایک لاکھ [روپے] کا نقصان اٹھانا پڑا تھا،‘‘ منجو ناتھ گوڑا کہتے ہیں۔ ’’کیڑے اڑ کر کھیت میں آگئے اور ہمارے پھلوں کو تباہ کر دیا۔ ایک دن صبح صبح ہمیں پھلوں میں ایسے چھوٹے چھوٹے سوراخ نظر آئے جیسے کسی نے ان میں کئی سوئیاں چبھو دی ہوں۔‘‘ لہٰذا، اِس سال (۲۰۲۳) وہ کوئی جوکھم نہ اٹھاتے ہوئے گڈینا ہلّی میں اپنے دو ایکڑ انار کے باغ کو چاروں طرف جالیوں سے گھیر رہے ہیں۔ اس ۳۴ سالہ نوجوان کو امید ہے کہ یہ جالی فصل کو بیماریوں، پرندوں اور کیڑوں سے محفوظ رکھے گی۔
منجو ناتھ ہرسال ادویات اور کھادوں پر تقریباً ۵ء۲ لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ یہ پھل بہت حساس ہوتے ہیں اور آسانی سے تلف ہو سکتے ہیں۔
اس سالانہ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے اور ان کی بیوی نے گزشتہ سال قرض لیا تھا۔ ’’ہم امید کر رہے ہیں کہ اس سال ہم کچھ منافع حاصل کریں گے اور سارے قرض واپس کر دیں گے،‘‘ منجو ناتھ کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے کے علاوہ گھر کے کام کاج دیکھنے والی ان کی اہلیہ کہتی ہیں۔
یہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر موہن گوڑا کا کھیت ہے، جس میں انار کے ۴۰۰ پودے لگائے گئے ہیں۔ یہ پودے بیکٹیریا والی پھپھوند (زینتھومونس ایکسونوپوڈس پی وی پونیشیا) کے حملے سے متاثر ہوئے ہیں۔ ’’یہ ایک کھیت سے دوسرے کھیت تک تمام پودوں میں پھیل جائیں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان کا واحد حل یہ ہے کہ پتوں کا علاج پھپھوند کش ادویات سے کیا جائے۔
موہن نے دو سال قبل مرچوں اور گیندے کے پھول کی کاشت سے انار کی کاشت کی طرف رخ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے ادھر کا رخ اس لیے کیا کہ یہاں کام کم اور منافع زیادہ ہے،‘‘ لیکن انہیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ ’’انار کی کھیتی کرنا مشکل بھرا کام ہے۔‘‘
اسی گاؤں کے انار کے ایک اور کاشت کار چیتن کمار کہتے ہیں کہ کیمیائی کھاد بھی ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ’’ماسک پہننے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیمیکل میری آنکھوں میں چلے جاتے ہیں۔ مجھے کھانسی آتی ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے،‘‘ ۳۶ سالہ کسان چیتن اپنی سرخ آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ وہ گزشتہ تین سالوں سے اپنی چار ایکڑ زمین پر انار کی کھیتی کر رہے ہیں۔
چینتن مزید کہتے ہیں کہ انار کے کاشتکاروں کے درمیان مقابلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اگر میں آدھا لیٹر کھاد ڈالوں گا تو اگلا شخص ایک لیٹر ڈالے گا۔ میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کر رہا ہوں۔‘‘
انار اگانے کا سال بھر کا عمل ستمبر اور نومبر میں گھاس کی نکائی کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اس کا ایک پودا ۵ سے ۶ سال تک پھل دیتا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ مارچ میں انہیں پودوں کو بار بار تراشنے، پانی دینے اور ہر چار دن بعد ان میں کھاد اور ادویات کا چھڑکاؤ کرنا پڑتا ہے۔
’’اس سے پہلے ہم صرف گوبر کے کھاد استعمال کرتے تھے۔ اب ہمیں کیمیائی کھادوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے،‘‘ منجو ناتھ کی ماں پروتمّا (۵۶) بتاتی ہیں، جو چار دہائیوں سے کھیتوں میں کام کر رہی ہیں۔ ’’پہلے فصل بہت اچھی ہوتی تھی، اس میں تمام وٹامنز ہوتے تھے۔ اب اس میں کچھ نہیں ہوتا ہے۔ اس میں کوئی توانائی نہیں ہوتی ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ پھل کا ذائقہ کیسے متاثر ہوا ہے۔ ’’آب و ہوا میں بہت تبدیلی آ گئی ہے۔‘‘
منجو ناتھ اپنی ماں سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وقت سے پہلے ہونے والی بارشوں نے ان کی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔ پودوں کی نشو و نما کے لیے یہ ضروری ہے کہ جنوری اور فروری کے دوران بارش نہ ہو۔ ’’پچھلے تین سالوں میں وقت سے پہلے بہت زیادہ بارش ہوئی ہے اور ان سے پھلوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ پھل سیاہ ہو جاتے ہیں۔ ہم انہیں استعمال یا فروخت نہیں کر سکتے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
منجو ناتھ کا کہنا ہے کہ پچھلے سیزن (۲۰۲۲) میں انہیں تقریباً ۸ ٹن (۸۰۰۰ کلوگرام) انار کی پیداوار حاصل ہوئی تھی۔
’’بارش کی ترتیب بدل رہی اور صرف پچھلے دو سالوں میں ہی میں پیداوار میں کمی دیکھ سکتا ہوں۔ پچھلے سال ایک پیڑ سے ۱۵۰-۱۸۰ انار ملے تھے۔ لیکن اس سال صرف ۶۰-۸۰ انار حاصل ہوئے ہیں۔ ایسا موسم کی تبدیلی اور قبل از وقت بارش کی وجہ سے ہو رہا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
*****
چیتن جیسے کسانوں کے ذریعہ کام پر رکھے گئے زرعی مزدور، جن میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں، گھاس کی نکائی کرنے، کھاد ڈالنے جیسے دیگر بہت سے کام کرتے ہیں۔
مئی کے مہینے میں جیسے ہی انار کے چمکدار لال پھول کھلتے ہیں، نر پھولوں کو توڑ لیا جاتا ہے اور گھاس کی نکائی کی جاتی ہے۔ ’’کانٹوں کی وجہ سے کام کرتے وقت مجھے یہ دستانے پہننے پڑتے ہیں۔ مگر پھر بھی پھولوں کو صحیح طریقے سے نہ توڑنے کے وجہ سے مجھے کبھی کبھی چوٹ لگ جاتی ہے،‘‘ شیومّا کے ایم کہتی ہیں، جو چیتن کے کھیت میں کام کرنے والی چھ خواتین میں سے ایک تھیں جب پاری نے جون ۲۰۲۳ میں ان سے ملاقات کی تھی۔
شیومّا کا دن صبح ساڑھے چھ بجے گھر کی صفائی اور اپنی فیملی کے لیے کھانا پکانے سے شروع ہوتا ہے۔ پھر وہ ایک کلومیٹر پیدل چل کر کھیت میں جاتی ہیں، جہاں وہ شام ساڑھے چھ بجے تک کام کرتی ہیں۔ دیگر مزدوروں کی طرح وہ بھی ۳۵۰ سے ۴۰۰ روپے یومیہ اجرت حاصل کرتی ہیں اور ہفتے میں چھ دن کام کرتی ہیں۔ ’’مجھے کوئی خالی یا آرام کا وقت نہیں ملتا ہے۔ اتوار کو چھٹی ملتی ہے لیکن گھر کی صفائی اور کپڑے دھونے میں سارا وقت نکل جاتا ہے،‘‘ دو بچوں کی ماں شیومّا (۳۶) کہتی ہیں۔
جون میں مانسون شروع ہونے سے پہلے مزدور بڑھتے ہوئے پھلوں کو تاروں سے باندھ کر محفوظ کرتے ہیں، تاکہ پودوں کو وزنی ہونے سے بچایا جا سکے۔ ’’مجھے اس گرمی میں کام کرتے ہوئے پریشانی ہوتی ہے۔ میرے سر، کمر اور کندھوں میں درد ہوتا ہے،‘‘ زرعی مزدور نرسمّا (۴۳) کام کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
’’یہاں اپنی سہیلیوں کے ساتھ مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ ہم شروع سے ہی ایک ساتھ کام کر رہے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔
*****
ستمبر تک توڑنے کے لیے پھل تیار ہو جاتے ہیں۔ ’’ایک انار کا وزن ۲۵۰ سے ۳۰۰ گرام تک ہوتا ہے،‘‘ چیتن بتاتے ہیں۔
اس کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے بولی لگانے والے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ تاجر انار کے معیار کا بغور جائزہ لیتے ہیں اور ان کی خریداری کے لیے قیمت تجویز کرتے ہیں۔ اگر کسانوں کو ان کی پیشکش تسلی بخش معلوم ہوتی ہے تو وہ اپنی پیداوار فروخت کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ ’’آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ آپ کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔ یہ موسم اور بازار پر منحصر ہے۔ ایک بار مجھے ۵ء۲ لاکھ روپے کا نقصان ہوا تھا،‘‘ کسان موہن گوڑا یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔
پرینکا مزید کہتی ہیں، ’’پچھلے سال ہم نے ۱۲۰ روپے فی کلو کے حساب سے پھل فروخت کیے تھے۔ ایک ہفتہ پہلے تک یہ قیمت ۱۸۰ روپے فی کلو تھی اور ہم نے سوچا کہ اس میں مزید اضافہ ہوگا، اس لیے ہم نے اتنی قیمت پر فروخت نہیں کیا۔ لیکن بعد میں قیمت کم ہوگئی۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
مترجم: شفیق عالم