لڈکیا داؤڑے کہتے ہیں، ’’آدیواسی یہاں ممبئی میں رہتے ہیں۔‘‘ اور کم تعداد میں نہیں رہتے، جیسا کہ ۹ اگست ۲۰۲۳ کو قدیم مقامی باشندوں کے عالمی دن کے موقع پر ممبئی کے مضافاتی علاقے میں دیکھا گیا، جہاں آدیواسی پاڑوں ( بستیوں) سے تقریباً ۳۰۰۰ لوگ جمع ہوئے تھے۔
یہ ایک گرم صبح تھی اور فضا جشن آلود اور امید افزا تھی، کیونکہ آرے جنگل، سنجے گاندھی نیشنل پارک، مولُنڈ، بھانڈوپ، کاندی ولی، گورائی اور مڈھ جزیروں کے آدیواسی ممبئی کے آرے جنگل کے داخلی دروازے گورے گاؤں چیک ناکہ کے قریب جمع ہوئے تھے۔ آرے جنگل میں ۲۷ پاڑے ہیں اور یہاں آدیواسی برادریوں کے تقریباً ۱۰ ہزار لوگ آباد ہیں۔
شمالی ممبئی کے آر/سینٹرل میونسپل وارڈ میں واقع گورائی کے بورکھیل پاڑا سے تعلق رکھنے والے لڈکیا کہتے ہیں، ’’آج ہمارا تہوار ہے۔‘‘ خواتین رنگ برنگی ساڑیوں اور کپڑوں میں ملبوس تھیں اور چند مردوں نے پتوں اور بیرل (سُپاری) کے ہار پہن رکھے تھے۔
قدیم مقامی باشندوں کا عالمی دن ممبئی میں آدیواسیوں کے ایک جگہ جمع ہونے اور اپنے حقوق کا دعویٰ پیش کرنے کا ایک موقع ہوتا ہے۔ ’’ہم نے پہاڑیوں اور جنگلوں کو برقرار رکھا ہے۔ اب حکومت کے پاس کوئی زمین نہیں ہے، اس لیے وہ ہمیں ہمارے پاڑوں سے بے دخل کرنا چاہتی ہے،‘‘ ورلی آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والے لڈکیا کہتے ہیں۔ زمین کے دستاویزات کے بغیر ان کے دعووں کو ثابت کرنا مشکل ہے، نتیجتاً انہیں اپنی آبائی زمینوں بشمول مکانات، واڑیوں اور کھیتوں سے بے دخلی کا خطرہ لاحق ہے۔ پڑھیں: آرے کے آدیواسی: ’پھر ہم نے اپنی یہ زمین کھو دی‘
مڈھ جزیرہ کے گنپتی پاڑا سے تعلق رکھنے والی ورلی آدیواسی پاروتی ہڈّل کہتی ہیں، ’’حکومت کہتی ہے کہ باہر سے آکر ہم نے یہاں ڈیرے ڈالے ہیں۔‘‘ ۳۲ سالہ پاروتی بطور ٹیوشن ٹیچر کام کرتی ہیں اور ان کا تعلق کاشتکاری شیتکری سنگٹھن (کے ایس ایس) سے ہے، جو ریلی کے منتظمین میں سے ایک ہے۔ دوسرے منتظمین مہاراشٹر آدیواسی منچ اور شرمک مکتی آندولن ہیں۔
کے ایس ایس کے بانی اور رہنما وٹھل لاڈ وضاحت کرتے ہیں، ’’وہ [حکومت] ۱۹۵۰ سے پہلے کے ریکارڈز کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جب کسی پڑھے لکھے شخص کے پاس بھی [ہندوستانی] آئین کے نافذ ہونے سے پہلے کے وہ سرٹیفکیٹ نہیں ہوں گے، تو پھر آدیواسیوں کے پاس کیسے ہوں گے؟‘‘ ان کا کہنا ہے کہ درج فہرست قبائل اور جنگلات کے دیگر روایتی باشندوں کے (جنگل کے حقوق کی شناخت) ایکٹ، ۲۰۰۶ (جسے جنگلات کے حقوق کا قانون بھی کہا جاتا ہے) میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جو اس طرح کا مطالبہ کرتی ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ ریاست نے انہیں دیگر اسناد فراہم کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔ نارائن کڈلے کہتے ہیں، ’’ہمیں اپنے ذات کے اسناد، یا ہمارے سات بارہ نہیں ملے ہیں۔‘‘ وہ ایک ٹھاکَر آدیواسی کسان ہیں اور آرے کے بنگوڈا پاڑا میں ۵ ء۳ گُنٹھا (ایک ایکڑ کے دسویں حصے سے کم) اراضی پر تورئی، کدو، پان اور امباڈی (سورل پتے) جیسی سبزیاں اگاتے ہیں۔ سات بارہ مہاراشٹر میں زمین کی ملکیت کے ثبوت کے طور پر کام کرتا ہے۔
’’وہ [سرکاری افسران] اصرار کرتے ہیں کہ ممبئی میں کوئی آدیواسی نہیں ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم آدیواسی نہیں ہیں، اور ہماری ذات پر سوال اٹھاتے ہیں،‘‘ ۳۹ سالہ باغبان اور گلوکار کہتے ہیں۔
ریلی میں موجود بہت سے لوگوں کے پاس اپنی زمین کے سرکاری کاغذات نہیں تھے، اور انہوں نے کہا کہ انہیں حاصل کرنے کا عمل طویل اور تھکا دینے والا ہے۔
منتظمین کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے، ’’ممبئی کے ۲۲۲ آدیواسی پاڑوں کا گاؤتھن (مقامی گاؤں) کے طور پر باضابطہ اعلان (ڈیکلریشن) ہندوستان کے آئین کے تحت انہیں خود مختاری اور نمائندگی دیتا ہے۔‘‘ وہ چاہتے ہیں کہ آدیواسیوں کو ممبئی کے مُول نواسی (اصل باشندے) کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے، ذات کے سرٹیفکیٹ دیے جائیں، حکومت کی جانب سے جنگلات کی کٹائی کو فوری طور پر روکا جائے اور آدیواسی برادریوں کو ان کی آبائی زمینوں سے زبردستی بے دخل نہ کیا جائے۔ انہوں نے پاڑوں میں جنگلات کے حقوق کے قانون کو لاگو کرنے کی اہمیت کے بارے میں بھی بات کی۔
’’یہ صرف میٹرو کار شیڈ کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہاں بہت سے دیگر ترقیاتی منصوبے جیسے رہائشی منصوبے، ایک پولٹری فارم، ایک بیکری، ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، فلم سٹی، وغیرہ بھی ہیں،‘‘ یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ ان ترقیاتی منصوبوں کے لیے زمین کا استعمال تبدیل کرنے سے قبل مقامی برادریوں سے مشاورت کیوں ضروری ہے بٹھل کہتے ہیں۔
لڈکیا داؤڑے مزید کہتے ہیں کہ ممبئی میں جتنے جنگلات باقی رہ گئے ہیں، ’’وہ اس لیے ہیں کیونکہ ہم آدیواسیوں نے ان کی دیکھ بھال کی ہے۔‘‘ ان کی آواز ہر آدیواسی کی آواز تھی جس سے اس رپورٹر نے بات کی۔ ’’آرے میں اس طرح کی ترقی جاری رکھنے سے جنگل تباہ ہو جائے گا، اس لیے ہم آرے میں ترقیاتی منصوبوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں،‘‘ وٹھل مزید کہتے ہیں۔
*****
۹ اگست ۲۰۲۳ کی ریلی نے گورے گاؤں چیک ناکہ سے آرے ڈیری تک تقریباً دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ تمام مظاہرین نعرے لگا رہے تھے، ’’ ہے جنگل آمچا، ناہیں کوناچیا ملکیچا [یہ جنگل ہمارے ہیں، کسی اور کے نہیں]۔‘‘
ریلی میں ہونے والی تقاریر میں سرکاری افسران کے خلاف بھی بات کی گئی، جو آدیواسیوں اور ریلی کے منتظمین کے مطابق، انہیں اپنی واڑیوں کو برقرار رکھنے یا ضرورت کے مطابق اپنے مکانات کی مرمت کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ’’کسی نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ ہم اپنی واڑیاں اور اپنے کھیت خود لگاتے ہیں۔ ہماری واڑیاں وہ [جنگل اور آرے ڈیری کے اہلکار] تباہ کر دیتے ہیں۔ ہمارے گھر توڑ دیتے ہیں،‘‘ آرے کے موراچہ پاڑا سے تعلق رکھنے والی بیبی تائی مالی کہتی ہیں۔
شہر میں رہنے کے باوجود انہیں شہری سہولیات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ گورائی کی ایک بستی چھوٹا ڈونگری کی ایک آدیواسی سماجی کارکن ونیتا شنکر کوٹّل کہتی ہیں، ’’کئی احتجاجی مظاہروں اور حکام سے اپیلوں کے بعد اب ہمیں بورویل سے پانی ملتا ہے۔‘‘ اگرچہ گورائی کے پاڑوں میں کچھ ترقی ہوئی ہے، لیکن آرے کے زیادہ تر پاڑوں میں ایسا نہیں ہے۔ کھمباچہ پاڑا جیسے کچھ مقامات پر صرف ایک گھنٹہ کے قریب پانی آتا ہے۔
کھڑک پاڑا میں پانی کے معیار کو لے کر شدید تحفظات ہیں۔ ’’آپ پانی کو دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے، یہ اتنا گندا ہے۔ اس میں کیڑے مکوڑے تیرتے ہیں۔ پائپ لائنیں ٹوٹ چکی ہیں، آپ خود آکر اسے دیکھ لیں،‘‘ ۲۹ سالہ رہائشی ونیتا (وہ صرف یہی نام استعمال کرتی ہیں) کہتی ہیں۔
گورائی کے ایک آدیواسی اور کے ایس ایس کے رکن کنال بابر نے اپنی تقریر میں کہا، ’’آزادی کو ۷۵ سال ہو چکے ہیں، لیکن ہم آدیواسی آزاد نہیں ہیں۔ آزادی ہم تک نہیں پہنچی۔ وہ ہمیں ہماری زمینوں سے بے دخل کرتے ہیں، اور حکومت کہتی ہے کہ ممبئی میں کوئی آدیواسی نہیں ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو ہم سب کہاں سے آئے؟‘‘
*****
دن بھر جاری رہنے والے احتجاج کا اختتام ایک گیت کے ساتھ ہوا، جسے نارائن کڈلے نے لکھا اور پیش کیا، اور جس میں قبائلی طرز زندگی کی خوبیوں اور ہیروا دیو اور واگھ دیوا جیسے فطرت کے دیوتاؤں کا بیان تھا، جن کی ممبئی کے آس پاس کی برادریاں پوجا کرتی ہیں۔
پیشہ سے باغبان ۳۹ سالہ نارائن کہتے ہیں، ’’میں گانے اس لیے لکھتا ہوں کیونکہ میں اپنے بعد آنے والی نسلوں کو متاثر کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ممبئی کے مختلف پاڑوں سے نوجوان قبائلی اپنے بہترین لباس میں ملبوس، پوسٹر اٹھائے اور نعرے لگانے کے لیے پرجوش دکھائی دیے، ’’ آدیواسی ایک جوٹیچا وجے اسو [آدیواسی اتحاد زندہ باد]۔"
’’ہم ممبئی کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں، لیکن آدیواسی لوگوں کے سوالات اور مسائل ایک جیسے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہم سب کو متحد ہونے کی ضرورت ہے،‘‘ پاروتی کہتی ہیں۔
مترجم: شفیق عالم