سندر بگاریا کہتی ہیں، ’’آزادی امیر اور طاقتور لوگوں کے لیے ہے۔‘‘ وہ گجرات کے وڈودرا شہر میں مہاراجہ سیاجی راؤ یونیورسٹی کی مرکزی عمارت کے سامنے کالا گھوڑا سرکل کے نزدیک سڑکوں پر تین دہائیوں سے چھوٹے سائز کے ہندوستان پرچم فروخت کر رہی ہیں۔ ’’کسی دن ہم زیادہ کھاتے ہیں، کسی دن کم کھاتے ہیں اور کسی دن بھوکے سو جاتے ہیں…‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

سندر کی طرح بگاریا برادری کے تقریباً ۲۰ افراد روزانہ آس پاس کے علاقوں میں اسٹال لگاتے ہیں۔ صبح ۹ بجے کے قریب وہ دن کے کام کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ اس تیاری میں زمین پر بچھی پلاسٹک کی شیٹ پر رکھے اسٹائرو فوم کے ڈبوں پر جھنڈے لگانا، اور ترنگے کے بیج، اسٹیکر اور ہینڈ بینڈ کو سیدھے رکھے اسٹائرو فوم شیٹ پر پن کرنا شامل ہے۔ کچھ جھنڈوں کو ستونوں پر یا گلیوں میں آویزاں کیا جاتا ہے۔ کچھ کو ترنگے کی ٹوپیوں کے ساتھ پلاسٹک کی چادر پر ایک ترتیب سے رکھ دیا جاتا ہے۔

وہ رات کو ۱۱ بجے دکان بند کرتے ہیں۔ اس دوران ۱۴ گھنٹے کام کرکے تقریباً ۲۰۰ روپے کماتے ہیں۔ کچھ لوگ فتح گنج فلائی اوور، سیاجی گنج علاقے کے ریلوے اسٹیشن یا دوسرے مصروف چوراہوں پر گاہکوں کی تلاش میں جاتے ہیں۔

کبھی جھنڈے، کبھی راکھی، کبھی موم بتیاں، کبھی سانتا ٹوپی – موسم کے لحاظ سے ان کے سامان بدلتے رہتے ہیں۔

ان جھنڈا فروشوں میں ۱۶ سالہ لکشمی بگاریا (اوپر کور کی تصویر میں) بھی شامل ہیں، جو چھ سال کی عمر سے جھنڈے فروخت کر رہی ہیں۔ وہ راجستھان کے ٹونک ضلع کی اونیارا تحصیل کے کاکوڈ گاؤں کے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ سال میں تین مرتبہ – یوم آزادی، یوم جمہوریہ اور کرسمس کے آس پاس یہاں آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میونسپل کارپوریشن کے لوگ آتے ہیں اور ہم سے چلے جانے کے لیے کہتے ہیں، لیکن ہم کسی نہ کسی طرح ان کا انتظام کر لیتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

Around 20 persons from the Bagaria community set up stalls in the MS University area; others go to the Fatehgunj flyover or the railway station and other areass
PHOTO • Hansal Machchi
Around 20 persons from the Bagaria community set up stalls in the MS University area; others go to the Fatehgunj flyover or the railway station and other areass
PHOTO • Hansal Machchi

بگاریا برادری کے تقریباً ۲۰ افراد ایم ایس یونیورسٹی کے علاقے میں اسٹال لگاتے ہیں، جبکہ ان میں سے کچھ فتح گنج فلائی اوور یا ریلوے اسٹیشن اور دیگر علاقوں میں جاتے ہیں

راکیش بگاریا (۱۹) بھی پانچ سال کی عمر سے اس کام سے وابستہ ہیں۔ ’’ہمیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے کمانا پڑتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ وہ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے دہلی کے صدر بازار سے ترنگے والی تمام اشیاء حاصل کرتے ہیں۔ اس تھوک خریداری کے لیے وہ اپنے گاؤں کے سونار سے ۲۴ فیصد سالانہ سود کی شرح پر ۲۰ ہزار روپے کا قرض لیتے ہیں۔

راکیش کا کنبہ راجستھان کے سوائی مادھو پور بلاک کے ڈھینگلا جٹواڑہ خورد گاؤں میں رہتا ہے۔ یہاں کے زیادہ تر بگاریوں (جو ایک او بی سی برادری ہے) کی طرح ان کے والدین بھی زرعی مزدوروں اور گیہوں اور باجرہ اگانے والے بٹائی دار کسان کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جھنڈا فروشوں کے اندازہ کے مطابق ان کے سڑکوں کا کاروبار شاید تین دہائی پرانا ہے، جب بگاریوں نے اپنے گاؤں میں زرعی مزدوری کی کمی کی وجہ سے کام کی تلاش میں شہروں اور قصبوں کی طرف ہجرت کرنا شروع کیا تھا۔

جب فروخت میں تیزی کی مدت ختم ہو جائے گی تو راکیش گھر چلے جائیں گے۔ وہ ۱۶ اگست کو اپنے گاؤں واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جہاں وہ سرکاری اسکول میں ۱۰ویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ ’’اگر آپ پڑھے لکھے نہیں ہیں تو لوگ آپ کو بیوقوف بنائیں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

لکشمی کے کزن مہندر کا اسٹال چند میٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہ ۱۸ سال کے ہیں اور انھیں کی طرح اپنے گاؤں کے ایک سرکاری اسکول میں ۱۰ویں جماعت میں پڑھتے ہیں۔ وہ کبھی کبھار اپنے والدین کو موسمی اشیاء فروخت کرنے میں مدد کرنے کے لیے وڈودرا آتے ہیں۔ اس سال اس کنبے نے فروخت کے لیے اشیاء خریدنے کی غرض سے ایک مقامی سونار سے ۱۱ ہزار روپے کا قرض لیا ہے، لیکن ابھی تک وہ محض ۴۰۰۰ روپے ہی کما پائے ہیں۔

Mahendra standing in front of a pole that has Independence Day flags attached to it
PHOTO • Hansal Machchi
Suresh's eldest son playing with a toy
PHOTO • Hansal Machchi

’ہم آزاد نہیں ہیں‘، مہیندر (بائیں) کہتے ہیں، جبکہ وشال (دائیں) جو جھنڈے بیچنے کے لیے ٹریفک میں جاتے ہیں، انہیں نہیں معلوم کہ کار میں بیٹھے لوگ ان سے ترنگا کیوں خریدتے ہیں

’’ہم آزاد نہیں ہیں،‘‘ مہندر کہتے ہیں۔ ’’حکومت کی طرف سے ہمیں کوئی مدد نہیں ملتی، کوئی ہماری تکلیف کے بارے میں نہیں پوچھتا۔ ممی اور پاپا یہیں رہتے ہیں، وہ عام دنوں میں چھوٹے کھلونے یا غبارے بیچ کر تھوڑا بہت کماتے ہیں۔ مجھے اس سے باہر نکلنا ہے اور بڑا آدمی بننا ہے، آگے پڑھنا ہے اور اپنے والدین کی مشکلات کو کم کرنا ہے۔‘‘

سبھی جھنڈا فروش سڑک پر سوتے ہیں۔ جن کے چھوٹے بچے ہیں وہ انہیں اسٹال کے پاس پالنے میں رکھتے ہیں۔ وشوامتری ندی کے پل کی ریلنگ کے پیچھے ان کے پلاسٹک کے خیمے ہیں۔ جب رات کو بارش ہوتی ہے تو ان کی مشکلیں بڑھ جاتی ہیں، اور وہ قریبی بینک کی عمارت کے سائے کی طرف بھاگتے ہیں اور سیکورٹی گارڈ سے جھگڑتے ہیں۔ قریبی عوامی بیت الخلا ہر بار کے لیے ۵ روپے وصول کرتا ہے، جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے، اس لیے وہ کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں۔

ہماری بات چیت کے دوران مہندر کی ماں مورابائی ان کے لیے ایک وڑا پاؤ لے کر آتی ہیں، جس کی قیمت ۱۰ روپے ہے۔  وہ کہتی ہیں، ’’ہم مشکل سے اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں حالانکہ ہم نے ساری زندگی جدوجہد کی ہے۔‘‘

’’کچھ گاڑیاں کھچڑی بیچنے آتی ہیں [۱۰ روپے میں]، لیکن ان کا ذائقہ اتنا برا ہوتا ہے کہ کوئی کتا بھی اسے پسند نہیں کرے گا،‘‘ پاس میں اسٹال لگانے والی سندر بگاریا کہتی ہیں۔ جھنڈا فروش فٹ پاتھوں پر گروپس میں کھانا پکاتے ہیں۔ ’’بعض اوقات ہم کھانا پکاتے ہیں یا بسکٹ سے اپنی بھوک مٹا لیتے ہیں۔ یا اب میں اپنے بیٹے سے پیسے مانگتی ہوں… ہمیں کسی نہ کسی طرح کام چلانا پڑتا ہے۔‘‘

Sundar Bagariya selling Independence Day flags and other items related to Independence Day
PHOTO • Hansal Machchi
Sundar Bagariya selling Independence Day flags and other items related to Independence Day
PHOTO • Hansal Machchi

سندر بگاریا کا کہنا ہے کہ ’آزادی امیر اور طاقتور لوگوں کے لیے ہے‘۔ وہ جھنڈے اور دیگر اشیاء فروخت کر کے ۱۴ گھنٹے کام کر نے کے بعد ۲۰۰ روپے یا زیادہ سے زیادہ ۳۰۰ روپے کماتی ہیں

سندر، دوسروں کی طرح ۲۰۰ روپے یا زیادہ سے زیادہ ۳۰۰ روپے یومیہ کماتی ہیں۔ یہ دو سے تین افراد کے ذریعہ چلائے جا رہے اسٹال کی آمدنی ہے۔ ان کے بیٹے سریش کا اسٹال تقریباً ۱۰۰ میٹر کے فاصلے پر ہے، جس پر نیلے آسمان کے نیچے ایک آزاد ملک کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ اس کنبہ کا تعلق سوائی مادھو پور بلاک کے کرموڈا گاؤں سے ہے۔ سریش اپنی بیوی کملیشی کے ساتھ مل کر اسٹال چلاتے ہیں۔ ان کا بیٹا وشال پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے، ان کی بیٹی پرینکا تین سال کی ہے۔ سریش نے کوٹہ یونیورسٹی سے ہندی میں بی اے کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ’’میں گریجویٹ ہوں، لیکن میرے پاس نوکری نہیں ہے…‘‘ وہ کہتے ہیں۔

پچھلے سال، سریش نے راجستھان کی ریاستی پولیس سروسز کے لیے درخواست دی تھی، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ ’’نوکریاں کم ہیں مقابلہ زیادہ ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’سیاسی پارٹیاں انتخابات سے پہلے اپنے منشور جاری کرتی ہیں جن کے دعوے ہوتے ہیں کہ اقتدار میں آنے پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ لیکن ہر بار وہ ناکام ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہم بھی ناکام رہتے ہیں۔‘‘

چھوٹی عمر کے وشال بھی کنبے کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ وہ چھوٹے جھنڈے بیچنے ٹریفک میں چلے جاتے ہیں۔ جب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ لوگ ترنگا کیوں خریدتے ہیں، تو وہ کوئی جواب نہیں دے پاتے۔

Chiranjilal Bagariya, in his 60s, is the oldest flag-seller on these streets
PHOTO • Hansal Machchi

چرنجی لال بگاریا، جو ان سڑکوں کے سب سے پرانے جھنڈا فروش ہیں، کو گاہکوں سے التجا کرنی پڑتی ہے کہ وہ ترنگے کے لیے جو معمولی قیمتیں بتاتے ہیں، ان میں مول تول نہ کریں

اپنی عمر کی ۶۰ویں دہائی میں پہنچ چکے چرنجی لال بگاریا ان سڑکوں کے سب سے پرانے جھنڈا فروش ہیں۔ ان کا اسٹال ونوبا بھاوے روڈ پر ہے، جو راکیش کے اسٹال سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ’’ہم بے زمین ہیں، مادھو پور میں ہماری صرف ایک جھونپڑی ہے۔ میں اور کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ وہ کہتے ہیں۔

چرنجی لال کے بڑے بیٹے، جو الہ آباد یونیورسٹی میں پڑھائی کر رہے تھے، ایک حادثہ کے بعد انتقال کر گئے۔ ’’میری امیدیں ختم ہوگئیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اور ان امیدوں کو زندہ کرنے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ چرنجی لال کی بیوی کی بھی موت ہوچکی ہے۔ ان کے تین اور بیٹے ہیں جو سوائی مادھو پور میں مزدوری کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میونسپل کارپوریشن کے کارکن ہمارا سامان ضبط کر لیتے ہیں اور کبھی کبھی ہمیں پولیس اسٹیشن لے جاتے ہیں۔ کچھ پیسے لینے کے بعد وہ ہماری اشیاء واپس کر دیتے ہیں۔‘‘

جب ہم چرنجی لال سے بات کر رہے تھے، اسی وقت ایک ایس یو وی آتی ہے اور اس میں سوار شخص سودے بازی شروع کر دیتا ہے۔ ’’میں غریب ہوں صاحب،‘‘ چرنجی لال التجا کرتے ہیں۔ ’’میں نے آپ کو زیادہ قیمت نہیں بتائی ہے۔‘‘

گاہک کے چلے جانے کے بعد میں چرنجی لال سے پوچھتا ہوں: آپ یہاں ۲۰ سال سے زیادہ عرصے سے ہیں اور آپ نے مرکز اور دو ریاستوں کی کئی حکومتیں دیکھی ہیں۔ اس کے باوجود آپ کی حالت نہیں بدلی ہے؟ ’’ہاں، وہ سب ایک ہی جیسے تھے،‘‘ وہ جواب دیتے ہیں۔ ’’حقیقت میں، صرف ہم غریب ووٹروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ زیادہ تر ووٹر غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ہم امیروں کے لیے حکومتیں منتخب کرتے ہیں۔‘‘ روانہ ہونے والی ایس یو وی کو دیکھتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہم فٹ پاتھ والے ہیں۔ ہم کب پکی سڑک پر چلنے کے قابل ہو پائیں گے؟‘‘

آدتیہ ترپاٹھی اور کرشنا کھٹک نے رپورٹنگ میں اور دھرو ماچھی نے فوٹو گرافی میں مدد کی ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Ujjawal Krishnam

ଉଜ୍ଜ୍ୱଳ କ୍ରିଷ୍ଣମ ୨୦୧୮ରେ ବରୋଦାସ୍ଥିତ ମହାରାଜା ସାୟାଜିରାଓ ବିଶ୍ୱବିଦ୍ୟାଳୟର ପଦାର୍ଥ ବିଜ୍ଞାନ ବିଭାଗରେ ଜଣେ ଗବେଷକ ଥିଲେ। ସେ ଏକାଡେମିଆ ଏଜୁ ଏବଂ ୱିକିପ୍ରୋଜେକ୍ଟରେ ଜଣେ ସମ୍ପାଦକ ଭାବେ କାର୍ଯ୍ୟ କରିଥିଲେ । ସେ ମଧ୍ୟ ଗେଟ୍ଟୀ ଇମେଜେସରେ ଯୋଗଦାନ ଦେଇଛନ୍ତି ଏବଂ ଭାରତୀୟ ରାଜନୀତି ଓ ନ୍ୟାୟଶାସ୍ତ୍ର ଉପରେ ଲେଖିଛନ୍ତି ।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Ujjawal Krishnam
Editor : Sharmila Joshi

ଶର୍ମିଳା ଯୋଶୀ ପିପୁଲ୍ସ ଆର୍କାଇଭ୍‌ ଅଫ୍‌ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ପୂର୍ବତନ କାର୍ଯ୍ୟନିର୍ବାହୀ ସମ୍ପାଦିକା ଏବଂ ଜଣେ ଲେଖିକା ଓ ସାମୟିକ ଶିକ୍ଷୟିତ୍ରୀ

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ ଶର୍ମିଲା ଯୋଶୀ
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Shafique Alam