’’پہلے، ہماری زندگی کسی ڈرامہ سے کم نہیں تھی۔ کچھ کمانے کے لیے ہمیں گاؤں گاؤں اور شہر شہر گھوم کر لوگوں کو اپنی نندی (یعنی بیل، جسے بھگوان شیو کی سواری تصور کیا جاتا ہے) سے تفریح فراہم کرنی پڑتی تھی۔ ہمارے پاس نہ تو کوئی گھر ہوتا تھا اور نہ ہی زمین۔ چونکہ ہم لوگ کسی ایک جگہ پر نہیں رہتے تھے، اس لیے ہمارے بچے بھی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے تھے۔‘‘
یہ باتیں ہمیں بھورا گائکواڑ بتا رہے ہیں، جن کا تعلق مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے ترمالی نندی والے قبیلہ سے ہے۔ وہ اور اس آدیواسی گروپ کے تقریباً ۳۰۰ دیگر افراد، بیڈ شہر سے ۱۱۰ کلومیٹر دور، اشٹی تعلقہ کے کنڑی بُدرُک گاؤں میں رہتے ہیں۔ ان کی بستی گاؤں کے باہر موجود سڑک کے کنارے بنی ہوئی ہے۔
گائکواڑ مزید بتاتے ہیں، ’’۲۵ سال پہلے خانہ بدوشی کی زندگی چھوڑنے کے بعد، ہم لوگ اس بنجر زمین پر آکر رکے اور کاشت کاری کا فیصلہ کیا۔‘‘ لیکن پہلے خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرنے والوں کے لیے کسی ایک جگہ مستقل رہائش اختیار کرنا آسان نہیں تھا۔ اس کی سب سے پہلی وجہ تو یہ تھی کہ تقریباً ۳۲۰۰ کی آبادی والے اس گاؤں کے اونچی ذات کے لوگوں نے یہاں آ کر بسنے والے ان نئے لوگوں کی زبردست مخالفت کی۔ لیکن اس علاقہ کے آدیواسیوں اور دلتوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے والے کارکنوں کی مدد سے اشٹی پولس اسٹیشن میں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے خلاف مظالم کی روک تھام کے قانون کے تحت، نندی والے کی طرف سے ایک مقدمہ دائر کیا گیا۔ آخرکار، مخالفت کرنے والے لوگوں نے ان کے ساتھ مصالحت کرلی، جس کے بعد یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔
لیکن اس کے بعد ایک دوسرا مسئلہ کھڑا ہوگیا۔ گائکواڑ بتاتے ہیں، ’’ہمارے پاس کاشت کاری کا پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لہٰذا، ہم نے دوسروں سے کھیتی کرنے کا طریقہ سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن ہم نے اپنے دلت پڑوسیوں سے درخواست کی کہ وہ ہمیں کھیتی کرنا سکھا دیں۔ وہ بڑے اچھے، رحم دل لوگ تھے اور ہمیں سکھانے کے لیے تیار ہوگئے۔ زرعی ساز و سامان اور تکنیک کے ساتھ ہماری زندگی کا ایک نیا مشن شروع ہوگیا۔ ہم نے بڑی محنتوں اور کوششوں سے کھیتی کرنا سیکھ لیا۔ ہماری پوری برادری – مرد و خواتین سمیت – نے اس بنجر زمین پر رات دن محنت کی تاکہ اسے سبزہ زار بنایا جا سکے۔ ہم میں سے کچھ لوگ اب ماہر کاشت کار بن چکے ہیں، اور ہم نے گاؤں کا ایک مستقل کلچر تیار کر لیا ہے۔‘‘
اپنی خانہ بدوش زندگی کے سبب، ۱۹۹۱ سے قبل نندی والے کے پاس شناخت کے معاملے میں کوئی آبائی گھر یا خط و کتابت کا پتہ نہیں تھا۔ یعنی ووٹر لسٹ میں ان کے نام نہیں تھے جس کی وجہ سے وہ کبھی ووٹ نہیں ڈال پائے، اور نہ ہی انہیں کوئی شہری حقوق حاصل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے اندر رہائش پذیر ترمالی نندی والے کی حقیقی تعداد کے بارے میں حکومت مہاراشٹر کے پاس کوئی قابل اعتماد ڈیٹا نہیں ہے۔ لیکن، دھیرے دھیرے ان لوگوں کے نام گرام پنچایت کی ووٹر لسٹ میں جڑنے لگے، اور انہیں راشن کارڈ سمیت دیگر کاغذات بھی ملنے لگے۔
ترمالی نندی والے اٹھارہ (۱۸) الوتیداروں میں سے ایک ہیں۔ یہ اور بارہ (۱۲) بلوتیدار، دیہی مہاراشٹر کے ذات پر مبنی پیشہ وروں کے نظام کا ایک حصہ تھے۔ ماضی میں بلوتیداروں کو تو کام کی اجرت ادا کی جاتی تھی، لیکن الوتیداروں کو اجرت مانگنے کی اجازت نہیں تھی، کیوں کہ زمینداروں کی نظر میں ان کے کاموں کی کم اہمیت ہوا کرتی تھی۔ ان کا کام مختلف قسم کی ثقافتی اداکاری سے اونچی ذات کے لوگوں کی تفریح کرنا تھا۔
بی وی بھانو کے ذریعے ایڈٹ کردہ ’دی پیوپل آف انڈیا: مہاراشٹر‘ کے نام سے ۲۰۰۴ میں شائع ہونے والی کتاب میں نندی والے قبیلہ کے مختلف ذیلی گروپوں کا تذکرہ ہے، جیسے کہ پھول مالی نندی والے، دیو والے نندی والے اور ترمالی نندی والے۔ ترمالی نندی والے تقریباً ۸۰۰ سال قبل آندھرا پردیش سے ہجرت کرکے مہاراشٹر کے احمد نگر، پونہ، سانگلی، ستارا، کولہاپور، اورنگ آباد، جلگاؤں اور بیڈ ضلعوں میں آ کر بس گئے۔ کتاب کے مطابق، اس خانہ بدوش قبیلہ کی عورتیں گزر بسر کے لیے صدیوں سے چھوٹے موٹے مصنوعی زیورات اور دیسی جڑی بوٹیاں بیچتی رہی ہیں؛ جب کہ مرد کمانے کے لیے اداکاری کرنے اور اپنے بیلوں کے ساتھ ناچنے گانے کا کام کرتے تھے۔
اب یہ دیکھ کر بہت سے لوگوں کو حیرانی ہوتی ہے کہ ترمالی نے کنڑی بدرک گاؤں میں مستقل سکونت اختیار کر لی ہے۔ رجرشی شاہو گرامین وِکاس پرکلپ کے رکن اور پیشہ سے وکیل، ستیش گائکواڑ، جو کئی خانہ بدوش قبیلوں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور نندی والے کی کڑی محنت کو بھی دیکھ چکے ہیں، کہتے ہیں، ’’۲۵ برسوں کی جدوجہد کے بعد، اب ان کے پاس ۱۵۰ ایکڑ کھیت ہے۔ انہیں پینے کا پانی، بجلی اور دیگر سہولیات [جیسے سرکاری اسکولوں میں داخلہ اور مہاراشٹر حکومت کی طرف سے بس کا رعایتی ٹکٹ جیسی سہولتیں] مل رہی ہیں۔ اب اس برادری کے بچے اسکول اور کالج جانے لگے ہیں اور خود کفیل بن رہے ہیں۔‘‘
آدیواسیوں اور دلتوں کے مسائل پر کام کرنے والا گروپ، پرکلپ، لمبے عرصے سے نندی والے کی مدد کر رہا ہے۔ اس کے کارکنوں کے ساتھ بات چیت کرتے رہنے کی وجہ سے ہی نندے والے اپنی خانہ بدوش زندگی چھوڑنے پر تیار ہوئے ہیں۔ پرکلپ کے مشہور و معروف کارکن اور وکیل، والمیک نکلجے نے ہی ایس سی/ایس ٹی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، جس کی وجہ سے نندی والے کنڑی بُدرُک گاؤں میں مستقل رہائش اختیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔
نکلجے بتاتے ہیں کہ ترمالی نندے والے قبیلہ سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوان اب کالج کے گریجویٹ ہیں – ان میں سے ایک، رمیش پھول مالی کو اسپیشل سیکورٹی فورس میں نوکری مل گئی ہے اور اب وہ بیڈ ضلع کے پولیس محکمہ میں تعینات ہیں؛ ایک اور نوجوان، رام پھول مالی بس کنڈکٹر بن گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ معمول کا کام ہو سکتا ہے، لیکن ان سابق خانہ بدوشوں کے لیے یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ ترمالی نندے والے طلبہ کارکن، صاحبا باجی راؤ کہتے ہیں، ’’اب ہم خواندہ، خود کفیل اور منظم ہیں۔‘‘
لیکن اس آدیواسی گروپ کے پاس اب بھی زمین کا مالکانہ حق نہیں ہے۔ نکلجے کہتے ہیں، ’’مہاراشٹر محصولات اراضی قانون [۱۹۶۶] اور بے زمین ایس سی، ایس ٹی، این ٹی، اور ڈی این ٹی [درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل، خانہ بدوش قبیلے اور ڈی نوٹیفائیڈ قبیلوں] کے ذریعے سرکاری چراگاہوں (گیرن) پر کیے جانے والے ’ناجائز قبضوں‘ کی ضابطہ کاری کے لیے ۱۹۶۴ سے ۲۰۱۱ تک حکومت کے ذریعے وقتاً فوقتاً پاس کی گئی قراردادوں کے مطابق، جو لوگ ان زمینوں پر ۲۵ سال سے زیادہ عرصے سے کھیتی کر رہے ہیں وہ اس زمین کے مالک ہیں۔ ترمالی نندی والے ان سرکاری چراگاہوں پر [کم از کم] ۱۹۹۱ سے کھیتی کر رہے ہیں، لیکن ان زمینوں کے مالکانہ حقوق انھیں ابھی تک منتقل نہیں کیے گئے ہیں۔‘‘
نکلجے کہتے ہیں کہ آنے والے مہینوں اور سالوں میں یہ ان کی اگلی بڑی لڑائی بننے والی ہے۔
سب سے اوپر کی تصویر دیپا کرشنن نے کھینچی ہے۔
اس اسٹوری کا پہلا ورژن ۲۸ جولائی، ۲۰۱۶ کو ’کیچ نیوز‘ میں شائع ہوا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز