’’مجھے وہ دن یاد ہے، جب طوفان آیا تھا اور میرے گھر پر تیز بارش ہونے لگی تھی۔ پھر میری آنکھوں کے سامنے ہی وہ گھر ٹوٹ کر گر گیا اور [مُری گنگا] ندی اسے بہا لے گئی،‘‘ پورنیما بھوین بتاتی ہیں۔ وہ ان دنوں کو یاد کر رہی ہیں جب کھاسی مارہ میں ان کا گھر کئی بار ٹوٹا تھا۔
بھوین ۷۰ سال سے زیادہ کی ہو چکی ہیں، لیکن اب وہ جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع کے ساگر بلاک میں، چھوٹے سے گھورمارہ جزیرہ کے کھاسی مارہ گاؤں میں نہیں رہتیں۔ مغربی بنگال حکومت نے ۱۹۹۳ میں، کشتی سے ۴۵ منٹ کی دوری پر واقع ساگر جزیرہ کے گنگا ساگر گاؤں میں، گھورمارہ کے ۱۳ کنبوں کو رہنے کے لیے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا دیا تھا۔ بھوین کی فیملی بھی ان میں سے ایک تھی۔
انٹرنیشنل پرسپیکٹو آن کلائمیٹ چینج نامی جریدہ میں ۲۰۱۴ میں شائع ایک مضمون کے مطابق، گھورمارہ کی زمین ۱۹۷۰ کی دہائی کے وسط سے گھٹتے گھٹتے اب صرف آدھی رہ گئی ہے – ۱۹۷۵ میں یہ ۵۱ء۸ مربع کلومیٹر تھی، جو ۲۰۱۲ تک گھٹ کر ۴۳ء۴ مربع کلومیٹر ہو گئی۔ اس کے کئی اسباب ہیں – سندر بن علاقہ کے اس جزیرہ میں ندی اور ساحلی علاقوں کا کٹاؤ، سیلاب، سمندری طوفان، ہرے بھرے جنگلات کی کٹائی، سمندر کی آبی سطح میں اضافہ۔ ان سب کی وجہ سے گھورمارہ میں کل کتنے لوگ بے گھر ہوئے ہیں، یہ تعداد ابھی واضح نہیں ہے۔ لیکن، جزیرہ پر رہنے والے کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہاں کے تقریباً ۴ ہزار باشندوں کو، مختلف جماعتوں میں، ساگر بھیجا گیا یا کاک دویپ اور نمکھانہ جیسے میدانی علاقوں میں جانے کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔
بھوین کو وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب اُن کا گھر ٹوٹ کر گرا تھا، البتہ انھیں یہ یاد نہیں کہ وہ سال کون سا تھا۔ ’’میں اپنے پڑوسی کے تالاب میں برتن دھو رہی تھی، جہاں سے میں اپنا گھر دیکھ سکتی تھی۔ میرے شوہر بیمار تھے، انھیں ٹائیفائڈ ہو گیا تھا۔ میرے پڑوسی نے، جن کا گھر ہم سے بڑا تھا، مجھ سے کہا کہ میں اپنے شوہر اور بچوں کو ان کے گھر لے آؤں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’بارش شروع ہو گئی تھی، اونچی لہریں اٹھنے لگیں اور جس زمین پر ہمارا گھر بنا ہوا تھا، ندی وہاں تک پہنچ گئی تھی۔ بارش میں ہمارا گھر دیر تک ٹکا رہا، لیکن تبھی مشرق سے ایک طوفان آیا جو اپنے ساتھ اور بھی تیز بارش لے آیا۔ تھوڑی ہی دیر میں، گھر [ٹوٹ گیا اور] غائب ہو گیا۔ ندی میں اپنا گھر میں نے ۱۰-۱۲ بار کھویا ہے۔‘‘
پورنیما بتاتی ہیں کہ جن دنوں ان کا گھر بار بار ندی میں بہہ کر چلا جاتا تھا (انھیں یاد نہیں کہ ایسا کن دہائیوں میں ہوا)، ان برسوں کے دوران انھیں سرکار سے کوئی مدد نہیں ملی۔ یہ صرف ۱۹۹۳ میں ہوا، جب گھورمارہ میں جن کنبوں کے گھر اجڑے تھے، انھیں ساگر جزیرہ پر زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا دیا گیا – وہ بھی صرف ایک ایکڑ۔
اگر موقع ملا، تو بھوین گھورمارہ میں رہنے کے لیے ابھی بھی تیار ہیں۔ ’’میں آپ کو بتاتی ہوں کہ مجھے وہ کیوں پسند ہے۔ وہاں کے لوگ کافی مددگار تھے۔ اگر کوئی فیملی اپنا گھر کھو دیتی تھی، تو دوسری اسے اپنا نیا گھر بنانے کے لیے فوراً اپنی زمین دے دیتی تھی۔ یہاں پر ایسا نہیں ہے،‘‘ وہ گہری سانس لیتے ہوئے کہتی ہیں۔ بدقسمتی سے، کھاسی مارہ گاؤں اب پوری طرح ڈوب چکا ہے اور ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، وہاں کی آبادی صفر ہو چکی ہے۔ ویسے، اس جزیرہ کے چھ دیگر گاؤوں میں ابھی بھی لوگ رہتے ہیں – پورے گھورمارہ گرام پنچایت علاقہ میں (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق) تقریباً ۵ ہزار (اور بعد کے برسوں میں، یہ آبادی بھی کم ہوئی ہے)۔
مونٹو مونڈل، جو ۱۹۹۳ میں گھورمارہ کے دیگر کنبوں کے ساتھ گنگا ساگر آئے تھے، ساگر جزیرہ پر ہوئی ابتدائی سالوں کی پریشانیوں کو نہیں بھول پائے ہیں۔ سرکار نے جو زمین انھیں دی تھی، اس کی مٹی میں بہت زیادہ کھاراپن ہونے کے سبب کھیتی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ، پینے اور نہانے کے لیے بھی تازہ پانی کمیاب تھا۔ مونڈل، جن کی عمر اب ۶۵ سال ہو چکی ہے، گزر بسر کے لیے یومیہ مزدوری کرنے لگے جیسے کہ کھدائی کرنا اور سوکھی مچھلیاں بیچنا۔ اپنی ڈیڑھ بیگھہ زمین (تقریباً آدھا ایکڑ) پر، انھوں نے ایک گھر بنایا اور، کبھی کبھار چاول کی کھیتی کرنے میں بھی کامیاب رہے۔
گھورمارہ میں رہتے وقت، مونڈل کے گھر کو ندی نے دو بار توڑ دیا تھا۔ ’’تقریباً ۱۰-۱۵ سال پہلے تک، گھورمارہ کے شمالی کنارے سے جنوب تک جانے میں ۲-۳ گھنٹے لگتے تھے۔ لیکن اب اس دوری کو پار کرنے میں آپ کو ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت لگے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
کولکاتا کی جادوپور یونیورسٹی میں اوشیانو گرافک اسٹڈیز اسکول کے پروفیسر سگاتا ہزرا کہتے ہیں کہ گھورمارہ کے بے گھر ہوئے باشندوں کو سرکار ’ماحولیاتی پناہ گزیں‘ نہیں مانتی، کیوں کہ انھیں ملک کے اندر ہی نقل مکانی کے لیے مجبور کیا گیا ہے۔ ’’لیکن انھیں ماحولیاتی مہاجر کے طور پر شناخت ملنی چاہیے، سرکار کو ایسا طبقہ بنانا چاہیے، اور ان بے سہارا لوگوں کے لیے عز و وقار اور انصاف کو یقینی بنانا چاہیے۔‘‘
ساگر جزیرہ کے ایک کارکن (جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے) کے مطابق، ۱۰۷۰ سے ۱۹۹۰ کے عشرے تک، جب لوگ گھورمارہ سے ساگر جزیرہ گئے، تو وہاں مہاجرین اور مقامی لوگوں کے درمیان تناؤ بڑھنے لگا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’مچھلی پکڑنے کے علاقے گھورمارہ کے لوگوں کو دے دیے جانے سے مقامی لوگ ناراض ہو گئے۔ ان لوگوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی، جنہیں تازہ پانی کی ضرورت تھی۔ لیکن، وقت گزرنے کے ساتھ ہی تناؤ بھی کم ہوتا چلا گیا۔‘‘
’’مجھے اپنی بیوی اور دو بیٹوں کے ساتھ اس سکڑتے جزیرہ کو چھوڑنے میں خوشی ہوگی،‘‘ دل جان کہتے ہیں۔ ’’لیکن سرکار ہمیں کہیں اور زمین نہیں دے رہی ہے۔‘‘ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ سرکار نے زمین دستیاب نہ ہونے کے سبب، ۱۹۹۳ کے بعد سے ہی ساگر جزیرہ پر لوگوں کی باز آبادکاری کرنا بند کر دیا تھا۔
ساگر جزیرہ پر کام کی کمی، بہت سے کنبوں کے مردوں کو تیزی سے اس بات کے لیے مجبور کر رہی ہے کہ وہ کام کی تلاش میں مغربی بنگال سے باہر جائیں۔ ایک اور فکرمندی ہے – ساگر جزیرہ ہر سال سکڑ بھی رہا ہے اور یہاں مٹی کا کٹاؤ بھی ہو رہا ہے۔ اور، یہاں کے باشندوں کو خوف ہے کہ ایک بار پھر وہ اپنی زمین اور گھر کھو دیں گے۔
ہم جس وقت دل جان سے بات کر رہے تھے، جو اپنے رکشہ میں بیٹھا کر ہمیں جزیرہ پر ایک ایسی جگہ لے آئے تھے، جہاں ندی نے زمین کے ایک بڑے حصے کو نگل لیا ہے، اسی وقت رنجیتا پُرکیت بھی ہماری گفتگو میں شامل ہو جاتی ہیں۔ ان کا گھر، جو ایک بار پانی میں بہہ گیا تھا، ندی کے کنارے سے کچھ ہی میٹر کی دوری پر ہے۔ ’’میں اس گھر کو بھی کھو سکتی ہوں۔ سرکار نے کیا کیا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’کم از کم وہ کنارے کے بند تو مضبوط کر ہی سکتے تھے! اتنے سارے صحافی آتے ہیں، تصویریں کھینچتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہماری حالت کبھی نہیں بدلتی۔ کیا سرکار ہمیں کہیں اور زمین دے گی؟ یہ جزیرہ سکڑ رہا ہے اور ہمارے گھر اور زمین غائب ہو رہے ہیں۔ کسی کو پرواہ نہیں ہے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)