بدری کھرات روشن گاؤں میں واقع اپنے کنووں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’’ان میں سے اس وقت صرف دو کام کر رہے ہیں۔‘‘ یہ کافی مشکل ہے، خاص کر تب، جب آپ نے ایسے ۳۶ کنووں کو کھدوانے میں لاکھوں روپے خرچ کیے ہوں۔ کھرات، جو کہ ایک بڑے زمیندار اور مقامی سیاست داں ہیں، وہ جالنہ ضلع کے اس گاؤں میں اپنے پڑوسیوں کے لیے کافی رحم دل ثابت ہوئے ہیں۔ وہ پائپ کے ذریعہ پینے کا پانی اُس کنویں سے لاتے ہیں، جو کچھ دوری پر واقع ہے، جسے انھوں نے کچھ دنوں پہلے ہی کھدوایا تھا۔ روشن گاؤں کے لوگ روزانہ دو گھنٹے کے لیے یہاں سے پانی مفت میں نکال سکتے ہیں۔

دریں اثنا، ان کے زیادہ تر کنویں خشک ہو چکے ہیں، جو ان کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ کنویں کھدوانے میں پیسے لگتے ہیں۔ ایک منتظم کار بتاتا ہے، ’’پانی کی قلت کا سامنا کر رہے اس ضلع میں یہ بڑھتے ہوئے کاروبار کا بڑا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ رِگ بنانے والوں، رِگ مالکوں اور ڈرِلنگ کرنے والوں کے لیے یہ منافع کا وقت ہے۔ کسانوں کو پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں، کنووں میں پانی آئے یا نہ آئے۔‘‘ بورویل انڈسٹری (کنویں کھودنے کی صنعت) پیاس کی اقتصادیات کا بنیادی شعبہ ہے اور یہ سودا اربوں کا ہے۔

مہاراشٹر میں زیر زمین پانی کی تلاش میں کنووں کو گہرے سے گہرا کھودتے وقت کئی واقعات ایسے بھی رونما ہوئے، جب انھیں پانی کے تاریخی طور پر قدیم ذخائر کو دیکھنے کا موقع ملا۔ یعنی، جہاں پانی لاکھوں سال سے جمع ہیں۔

ناکامی کی موجودہ شرح کافی اونچی ہے۔ شاید ۹۰ فیصد یا کچھ گاؤوں میں اس سے بھی زیادہ۔ کھرات کہتے ہیں، ’’عام طور پر میرے لیے ۳۵ سے ۴۰ مزدور کام کرتے ہیں۔ لیکن، اب ایک بھی مزدور نہیں ہے۔ میرے کھیت سونے پڑے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے تقریباً سارے نئے کنویں ناکام ہو چکے ہیں۔‘‘ کئی پرانے بھی سوکھ گئے ہیں۔

لیکن ناامیدی نے ان لوگوں کو پانی کی قلت کے مارے اس ضلع میں ہزاروں نئے کنویں کھودنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کنووں کی گہرائی جتنی زیادہ ہوتی جا رہی ہے، ان کے قرض بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ عثمان آباد ضلع کے تاک ویکی گاؤں کے بھرت راؤت کہتے ہیں، ’’اب کوئی بھی سینچائی کا کنواں ۵۰۰ فیٹ سے کم گہرا نہیں ہے۔‘‘ ان کے گاؤں کے کل ۱۵۰۰ کنووں میں سے ’’آدھے سے زیادہ پچھلے دو سالوں میں کھودے گئے ہیں۔ اس سال جنوری اور مارچ کے درمیان شاید ۳۰۰ نئے کنووں کو کھودا گیا ہے۔ لیکن اب سارے نئے کنویں ناکام ہو چکے ہیں۔ لیکن اپنے کھیتوں میں تباہ ہوتی فصلوں کو دیکھ کر لوگ مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘


02-P1010326-PS-Drilling Holes in the Thirst Economy.jpg

تاک ویکی میں کھودے گئے نئے کنووں کی بات تو چھوڑ ہی دیجئے جو پہلے دن سے ہی کام نہیں کر رہے ہیں، جو پرانے کنویں ہیں وہ بھی خشک ہوتے جا رہے ہیں یا پھر ان میں پہلے کے مقابلے کم پانی بچا ہے


اگر سڑکوں پر آپ کو زیادہ تر گاڑیاں پانی کے ٹینکرس کے ساتھ دکھائی دیں گی، تو کھیتوں میں بور ویل کھودنے والی گاڑیاں۔ انھیں ضلع کا کوئی مقامی باشندہ چلا رہا ہوتا ہے یا بعض دفعہ وہ اس کا مالک بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ رِگ زیادہ تر تمل ناڈو، کرناٹک اور آندھرا پردیش کے ہوتے ہیں۔ پانچ سو فیٹ کے بورویل کی کھدائی پر ایک کسان جو ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ کرتا ہے، اس میں سے ۷۰ فیصد کے قریب اسٹیل کی پائپ، پانی میں ڈوبنے لائق پمپ، کیبل، سیٹنگ اور پانی کے اخراج پر لگ جاتا ہے۔ باقی ۴۰ ہزار روپے رِگ آپریٹر لیتا ہے۔ ڈرِلنگ کے لیے قیمت ہے: پہلے ۳۰۰ فیٹ تک ۶۰ روپے فی فٹ۔ اس کے بعد آگے کے ہر ۱۰۰ فیٹ تک فی فٹ پر ۱۰ روپے اور۔ اور، گڑھے کی حفاظت کے لیے لگائے گئے کیسنگ پائپ پر ایک فٹ کے حساب سے ۲۰۰ روپے۔ یہ ۶۰ فیٹ تک کی ہو سکتی ہے۔

ایک اندازہ کے مطابق، صوبہ نے اس سال کے پہلے تین مہینوں میں کم از کم ۲۰ ہزار کنویں کی کھدائی دیکھی ہے۔ بعض اہل کاروں کا ماننا ہے کہ یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’تاک ویکی جیسے سو گاؤوں میں ہی ۳۰ ہزار کے قریب ہیں۔‘‘ تاک ویکی کے صرف ایک تہائی نئے کنووں کے لیے اگر پمپ اور اسٹیل کی پائپیں خریدی جائیں، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس واحد گاؤں نے جنوری سے مارچ کے درمیان ۹۰ دنوں میں ان چیزوں پر کم از کم ۲۵۰ لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔ اگر پانی کے بحران والے اس ضلع کے سبھی ۳۰ ہزار کنویں ۵۰۰ فیٹ سے زیادہ گہرے نہ ہوئے، تو ان کو لے کر کل ڈھائی ارب روپے کا کاروبار ہوا ہوگا۔

تاک ویکی کے راؤت کہتے ہیں، ’’ایک آپریٹر ایک دن میں تین کنویں کھود سکتا ہے۔‘‘ روشن گاؤں کے کھرات کے مطابق، ’’کم از کم دو۔ وہ تین کی بھی کھدائی کر سکتا ہے، اگر وہ ایک ہی گاؤں میں ہو۔‘‘ سڑک پر ہمیں سنجے شنکر شیلکے ملے، جو بالکل نئے بورویل رِگ کے مالک ہیں، جس کے بارے میں وہ ہمیں بتاتے ہیں، ’’میں نے اس کے لیے ایک کروڑ ۴۰ لاکھ روپے ادا کیے۔‘‘ یہ کم رقم نہیں ہے۔ اس رقم کو وہ چھ مہینوں میں تبھی وصول کر سکتے ہیں، جب وہ ہر دن دو کی کھدائی کریں۔ اور مانگ کی کمی نہں ہے۔ ہم جب بات کر رہے ہیں، تب بھی ان کا فون بج رہا ہے۔

بڑھتے ہوئے قرض نے صرف کچھ حد تک رنگ رلیوں کو کم کیا ہے۔ جن لوگوں نے اس کے لیے قرض لیے ہیں، وہ اپنا قرض کیسے چکائیں گے؟ یہاں کے ساہوکار سالانہ ۶۰ سے ۱۲۰ فیصد سود کی شرح پر قرض دیتے ہیں۔ راؤت بتاتے ہیں، ’’کھیتی باڑی کے سلسلے میں، ہمارے معمول کے قرضوں پر بینک کی جانب سے نوٹس کے آنے کا سلسلہ اس ماہ شروع ہو جائے گا۔ اور جہاں تک کنووں کی بات ہے، تو یہ ہم پرائیویٹ ساہوکاروں کو تبھی چکا پائیں گے، جب فصل تیار ہو جائے۔‘‘ وہ فصل عام طور پر گنّے کی ہوتی ہے، ہر ایک ایکڑ کے لیے جسے ۱۸۰ لاکھ لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہاں پانی کے بحران کی سب سے بڑی اور پہلی وجہ یہی ہے۔ گاؤں والے اسے ’دوہرا نقصان‘ کہتے ہیں۔‘‘

دوسرے اسباب بھی ہیں۔ صوبہ کی گراؤنڈ واٹر سرویز اینڈ ڈیولپمنٹ ایجنسی (جی ایس ڈی اے) کے اہل کار بتاتے ہیں کہ مہاراشٹر کا ۹۰ فیصد سے زیادہ حصہ سخت پتھر ہے۔ یہاں پر روایتی کنووں کی اوسط گہرائی ۳۲ سے ۴۰ فیٹ ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ۸۰ فیٹ۔ حکومت ہند کے سابق واٹر رِسورسز سکریٹری، مادھو چِتاولے بتاتے ہیں، ’’جغرافیائی حقیقت ایسی ہے کہ آپ کو ۲۰۰ فیٹ کے نیچے پانی نہیں ملے گا۔ اور، ۲۰۰ سے ۶۵۰ فیٹ کے درمیان کی گہرائی پر تو بالکل بھی کوئی چانس نہیں ہے۔‘‘ اس کے باوجود زیادہ تر بورویل آخری چھور تک پہنچ چکے ہیں۔ بعض تو اس سے بھی کہیں زیادہ گہرے ہیں۔

تو، مہاراشٹر میں سینچائی کے کل کتنے کنویں ہیں؟ کوئی نہیں جانتا۔ جی ایس ڈی اے کی ۰۹۔۲۰۰۸ کی رپورٹ میں یہ تعداد ایک لاکھ ۹۱ ہزار ۳۹۶ ہے۔ ایک سینئر ایڈمنسٹریٹر مذاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میرے ضلع میں تو شاید اس سے بھی زیادہ ہیں۔‘‘ ہم نے اتنی بڑی تعداد کی اجازت کیسے دی؟ جی ایس ڈی اے کے ایک اہل کار تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کسی بھی مالک کو رپورٹ کرنے یا نئے بورویل کو رجسٹر کرانے کی کوئی شرط نہیں ہے۔ زیادہ ہونے پر، ایک روایتی کنویں کے مالک کو ایسا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے اور اسے پانی پر ٹیکس دینے کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ لیکن بورویل مالک کے لیے ایسا نہیں ہے۔‘‘ صوبہ کے اس سلسلے میں ایک نئے قانون کو صدرِ جمہوریہ کی منظوری ملنی باقی ہے، جو انہی کے پاس کچھ دنوں سے پڑا ہوا ہے۔

چِتالے بتاتے ہیں، ’’سال ۱۹۷۴ سے ۱۹۸۵ کے درمیان تلاتھی (افسر مالیات) اکثر ہر قسم کے کنووں کو ایک ہی کیٹیگری میں درج کر دیتا تھا۔ لہٰذا، یہ پتہ لگا پانا نہایت مشکل ہے کہ اس مدت میں کتنے بورویل تھے۔ ۱۹۸۵ اور اس کے بعد، اس میں واضح امتیاز قائم کیا گیا۔ تاہم، نہ تو پہلے اور نہ ہی اب بوریل مالکوں کو اس کے بارے میں معلومات فراہم کرانا ضروری ہے۔‘‘ سال ۲۰۰۰ میں، چِتالے کی قیادت میں بنائے گئے ایک کمیشن نے پتہ لگایا کہ وہاں پر بورویلس کی تعداد بھی اتنی ہی ہے، جتنی کہ روایتی کنووں کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس سال کل ۱۴ لاکھ بورویل تھے۔ لیکن، اس کے بعد سے ان کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، اور ان کے شمار کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

جی ایس ڈی اے کی ۰۹۔۲۰۰۸ کی رپورٹ میں اس خطرہ کی تعداد ایک لاکھ ۹۱ ہزار ۳۹۶ بتائی گئی ہے۔ چونکہ زیر زمین پانی کے نکالنے کا پیمانہ کافی نیچا رکھا گیا ہے، اس لیے ہمیں صوبہ کے زیر زمین پانی کا صحیح صحیح اندازہ نہیں مل پاتا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ بورویلس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جو کہ ’’پورے صوبہ میں سینچائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور ان میں سے بڑی تعداد کا بجلی کے کنیکشن کے لیے کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔‘‘ اگر ہم نے ان کا شمار کیا ہوتا: ’’تو متوازن حالت واقعی میں خطرناک ہوتی۔‘‘

صوبہ بڑی شدت سے یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کے یہاں بورویلس کی تعداد کتنی ہے، تاکہ کم اس مسئلہ سے نمٹا جا سکے۔ صوبہ کے ایک سرکاری اہل کار کا کہنا ہے، ’’ہم شروعات تبھی کر سکتے ہیں، جب صدرِ جمہوریہ اس قانون کو اپنی منظوری دے دیں۔‘‘

دریں اثنا، سنجے شیلکے کا رِگ پٹرول پمپ سے تیل بھر رہا ہے۔ کل ایک اور دن ہوگا اور شاید تین اور نئے بورویل کھود دیے جائیں گے۔


(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)


P. Sainath

ପି. ସାଇନାଥ, ପିପୁଲ୍ସ ଆର୍କାଇଭ୍ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ପ୍ରତିଷ୍ଠାତା ସମ୍ପାଦକ । ସେ ବହୁ ଦଶନ୍ଧି ଧରି ଗ୍ରାମୀଣ ରିପୋର୍ଟର ଭାବେ କାର୍ଯ୍ୟ କରିଛନ୍ତି ଏବଂ ସେ ‘ଏଭ୍ରିବଡି ଲଭସ୍ ଏ ଗୁଡ୍ ଡ୍ରଟ୍’ ଏବଂ ‘ଦ ଲାଷ୍ଟ ହିରୋଜ୍: ଫୁଟ୍ ସୋଲଜର୍ସ ଅଫ୍ ଇଣ୍ଡିଆନ୍ ଫ୍ରିଡମ୍’ ପୁସ୍ତକର ଲେଖକ।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ ପି.ସାଇନାଥ