ایشیا کی دوسری سب سے بڑی چراگاہ، بنّی گھاس کا میدان، جس کے جنوب میں عظم کچّھ کا رَن اور شمال میں کالو ڈنگر (کالی پہاڑیاں) ہیں، تقریباً ۳۸۴۷ مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ دریائے سندھ کسی زمانے میں اسی علاقے سے ہوکر بہتی تھی اور جو لوگ یہاں صدیوں سے آباد تھے، وہ بعد میں ہجرت کرکے آج کے ایران، افغانستان، سندھ اور بلوچستان کی طرف چلے گئے۔ سال ۱۸۱۹ میں آئے ایک بڑے زلزلہ نے دریائے سندھ کا راستہ بدل دیا، جس سے بنّی گھاس کا ایک خشک میدان بن گیا۔ وقت کے ساتھ، یہاں پر آباد برادریوں نے چرواہے کا پیشہ اپنا لیا تاکہ خود کو خشک آب و ہوا کے مطابق ڈھال سکیں، اور وہ گجرات کے ان گھاس کے میدانوں میں پھیلی ۴۸ بستیوں میں رہتے ہیں۔
جاٹ، رباری اور سام سمیت، بنّی برادریوں میں شامل قبیلوں کو مجموعی طور پر ’مالدھاری‘ کہتے ہیں۔ کچّھی زبان میں ’’مال‘‘ کا مطلب ہے مویشی اور ’’دھاری‘‘ کا مطلب ہے مالک۔ پورے کچّھ میں مالدھاری گائے، بھینس، اونٹ، گھوڑے، بھیڑ اور بکریاں پالتے ہیں۔ ان کی زندگی اور ثقافتی روایات ان کے مویشیوں کے ارد گرد گھومتی ہیں، اور ان کے گانوں میں بھی اسی کا ذکر ملتا ہے۔ کچھ مالدھاری موسم کے مطابق، عام طور پر کچّھ کے اندر، اپنے مویشیوں کے لیے چراگاہ کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ یہ لوگ مئی سے، یا کبھی کبھی جون یا جولائی میں گھر سے نکلتے ہیں، اور عام طور پر بارش کے موسم میں، ستمبر کے آخر تک لوٹ آتے ہیں۔
مالدھاریوں کا سماجی رتبہ ان کے مویشیوں کی تعداد اور معیار سے جڑا ہوا ہے۔ اس رتبہ، اپنی برادریوں اور تہذیب و ثقافت کا جشن منانے کے لیے وہ ہر سال دو دنوں کے لیے گھاس کے میدان میں منعقد ہونے والے ایک بڑے میلہ میں جمع ہوتے ہیں۔ پروگرام کی تاریخیں، عام طور پر دسمبر- جنوری میں، مشترکہ طور پر برادری کے ذریعے طے کی جاتی ہیں۔ یہ ایک مالدھاری ہے جسے آپ تصویر میں دیکھ رہے ہیں، جو میلہ کے لیے عارضی طور سے لگائی گئی ٹنکی سے پینے کا پانی بھر رہا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز