فلم دیکھیں: ’کمائی چونکہ کچھ بھی نہیں ہے.... اس لیے کام کرنے والے نہیں رہے‘

’’میرے بچوں نے کہا کہ بُنائی سے گزارہ نہیں ہوگا۔ اس لیے انھوں نے بھاگلپور جاکر درزی کا کام سیکھا اور ممبئی چلے گئے۔ اب وہ وہاں پر 15000-10 ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں،‘‘ کٹوریا گاؤں کے 60 سالہ ریشم بُنکر عبدالستار انصاری بتاتے ہیں۔

ستار بھائی کو یہ یاد نہیں ہے کہ بُنائی کی روایت کتنی پرانی ہے؛ البتہ انھیں یہ یاد ہے کہ ان کے دادا بُنائی کرتے تھے، جنہیں اپنے دادا کے ذریعے بُنائی کرنے کی بات یاد تھی۔

PHOTO • Shreya Katyayini

سات گھنٹے تک دھاگے کا کام کرکے بی بی یاسمین 30 روپے کماتی ہیں

کٹوریا میں عورتیں روایتی طور پر بُنائی کا کام نہیں کرتی ہیں، لیکن ریشم بنانے میں ہر ایک موڑ پر ان کی محنت نہایت ضروری ہے۔ وہ ابریشم کے خول کو پانی میں اُبالتی ہیں، دھاگے نکالتی ہیں، بوبن میں اسے لپیٹتی ہیں اور دیگر کام کرتی ہیں اس کے بعد ہی بنکر کرگھے پر کام کر سکتے ہیں۔ عورتوں کے کام میں سخت اور ہنرمندانہ محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن ان کی روزانہ کی مزدوری صرف 30 روپے ہے اور اس ریشم کو بنانے میں ان کا رول ایک طرح سے نادیدہ ہے۔

PHOTO • Shreya Katyayini

بنکروں کی آخری نسل سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ، عبدالجبار کٹوریا میں اب بھی کام کر رہے ہیں

لیکن بہار کے بانکا ضلع میں نسلوں پرانا یہ پیشہ اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت والے اس گاؤں میں کل 600-500 گھر ہیں (اور 2011 کی مردم شماری کے مطابق، آبادی تقریباً 8000 ہے)، صرف ایک چوتھائی گھرانے ہی بُنائی کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں، ایسا ستار بھائی کا اندازہ ہے۔

عبدالستار انصاری جیسے بُنکروں کا ماننا ہے کہ یہ خاندانی روایت ان کے مرنے کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی۔

فوٹو البم دیکھیں: توسر: ابریشم کے ٹوٹتے خول

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Shreya Katyayini

ଶ୍ରେୟା କାତ୍ୟାୟିନୀ ହେଉଛନ୍ତି ଜଣେ ଚଳଚ୍ଚିତ୍ର ନିର୍ମାତା ଓ ‘ପରୀ’ର ବରିଷ୍ଠ ଭିଡିଓ ସମ୍ପାଦକ। ସେ ମଧ୍ୟ ‘ପରୀ’ ପାଇଁ ଅଙ୍କନ କରନ୍ତି।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ ଶ୍ରେୟା କାତ୍ୟାୟିନି
Translator : Qamar Siddique

କମର ସିଦ୍ଦିକି ପିପୁଲ୍ସ ଆରକାଇଭ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ଅନୁବାଦ ସମ୍ପାଦକ l ସେ ଦିଲ୍ଲୀ ରେ ରହୁଥିବା ଜଣେ ସାମ୍ବାଦିକ l

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Qamar Siddique