حسن آرا کافی خوش ہیں کہ ان کی تین بکریوں میں سے ہر ایک نے ۳ بچے دیے ہیں – چھ بچے تو اس سال ۳۰ اکتوبر کو پیدا ہوئے تھے، جب کہ باقی تین اس سے ایک دن پہلے دنیا میں آئے تھے۔ بکری کے ان ننھے منے بچوں کو ابھی ٹھیک سے دودھ پینا بھی نہیں آتا، اس لیے حسن آرا اپنے ہاتھوں سے ان کی مدد کرتی ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ دودھ پی سکیں۔ وہ جانتی ہیں کہ یہ جب بڑے ہوں گے، تو بکریاں ان کی آمدنی کا ذریعہ بنیں گی۔
حسن آرا بہار کے سیتا مڑھی ضلع کے باجپٹی بلاک کے برّی پھلوریہ گاؤں میں رہتی ہیں۔ تقریباً ۵۷۰۰ کی آبادی والی اس پنچایت میں بہت سے لوگ غریب اور معمولی کسان ہیں، یا بے زمین زرعی مزدور ہیں۔ حسن آرا بھی انہی میں سے ایک ہیں۔
ان کی شادی ماں باپ نے چھوٹی عمر میں ہی چیچرے بھائی، محمد شبیر، سے کر دی تھی۔ وہ پانچ سال قبل حیدرآباد چلے گئے جہاں وہ چمڑے کا بیگ بنانے کی ایک اکائی میں کام کرتے ہیں؛ اس سے پہلے وہ بھی زرعی مزدوری کیا کرتے تھے۔ ’’وہ ہر مہینے ۵۰۰۰ روپے کماتے ہیں، جس میں سے کبھی کبھار ۲۰۰۰ روپے گھر بھیج دیتے ہیں۔ چونکہ اسی پیسے میں سے انھیں اپنا بھی خرچ چلانا پڑتا ہے، اس لیے گھر پر ہر مہینے نہیں بھیج پاتے،‘‘ حسن آرا بتاتی ہیں۔
گاؤں کے بہت سے مرد احمدآباد، دہلی، جے پور، کولکاتا اور ممبئی جیسے شہروں میں کام کرتے ہیں۔ وہ زیادہ تر کپڑا فیکٹریوں، بیگ بنانے کے کارخانوں میں سلائی وغیرہ کا کام کرتے ہیں یا پھر سڑک کنارے ہوٹلوں میں کھانا بنانے اور برتن وغیرہ دھونے کا کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے گھر پر جو پیسے بھیجتے ہیں اس سے گاؤں میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ چند دہائیوں قبل پانی کے لیے گاؤں میں جہاں صرف ۳-۴ ہی ہینڈ پمپ ہوا کرتے تھے، اب تقریباً ہر گھر میں ہینڈ پمپ موجود ہے۔ اسی طرح مٹی اور بانس سے بنے پرانے مکانوں کی جگہ اب اینٹ اور سیمنٹ کے مکانوں نے لے لی ہے۔ البتہ، حسن آرا کے گھر کی طرح ہی، کئی گھروں میں بیت الخلاء اب بھی نہیں ہے، جب کہ وزیر اعظم کے منصوبہ کے تحت ۲۰۲۲ تک پورے ملک کو ’کھلے میں رفع حاجت سے پاک‘ بنانا ہے۔ یہاں کے گاؤوں میں بجلی ۲۰۰۸ میں پہنچی جب کہ پختہ سڑکوں کی تعمیر ۲۰۱۶ میں ہوئی۔
پھلوریہ گاؤں کی دیگر کئی مسلم عورتوں کی طرح ہی، ۵۶ سالہ حسن آرا بھی بچپن سے ہی کھیتوں پر مزدوری کرتی ہیں۔ ان کی والدہ، سمیل، جن کا ۹ سال قبل انتقال ہو گیا، جب زندہ تھیں تو یہی کام کرتی تھیں۔ غریبی کی وجہ سے حسن آرا یا ان کے پانچوں بچوں کو اسکول یا مدرسے جانے کا موقع نہیں ملا۔ بری پھلوریہ میں شرحِ خواندگی صرف ۸۱ء۳۸ فیصد ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)، اور عورتوں میں خواندگی کی یہ شرح صرف ۰۹ء۳۵ فیصد ہے۔
حسن آرا کے والد، محمد ظہور، یومیہ اجرت کے لیے اب بھی کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں – وہ ۱۰۰ سال کے ہو چکے ہیں، وہ بتاتے ہیں۔ بڑھاپے کی وجہ سے اب وہ دن بھر کھیت میں کُدال یا ہل نہیں چلا سکتے، لیکن بیج اور کھاد ڈالتے اور تیار ہونے پر فصل کاٹتے ہیں۔ ’’میں بٹائی پر کھیتی کرتا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ اب کھیتی کا کوئی بھروسہ نہیں رہا، اور دھان اور گیہوں کی فصل کبھی ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی، وہ مزید کہتے ہیں۔ ’’کھیتی کے روایتی طریقے ختم ہوتے جا رہے ہیں، کسان ٹریکٹر کا استعمال کر رہے ہیں، جس سے یومیہ مزدوروں کا کام کم ہو گیا ہے۔ جنہیں کام مل جاتا ہے، وہ بھی ایک دن میں ۳۰۰-۳۵۰ روپے سے زیادہ نہیں کما سکتے۔‘‘
ویسے پھلوریہ گاؤں کے ارد گرد کھیتی کے لیے جتنی بھی زمینیں ہیں، وہ سب زرخیز ہیں، مسئلہ صرف پانی کی کمی کا ہے۔ گاؤں سے تقریباً ایک کلومیٹر دور مغرب میں ادھوارہ ندی بہہ رہی ہے، لیکن اس میں صرف بارش کے موسم میں ہی پانی بھرا رہتا ہے، سال کے باقی دنوں میں اتنا پانی نہیں ہوتا کہ اس سے کھیتوں کی سینچائی کی جا سکے۔ گزشتہ تین سال سے اس علاقے میں بھرپور بارش نہ ہونے سے کسانوں کو خشک سالی جیسی حالت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
حسن آرا کے پانچ بچے ہیں۔ سب سے بڑا لڑکا، محمد علی (عمر ۳۲ سال)، اپنی والدہ کے گھر میں ہی اپنی بیوی شاہدہ اور دو بچوں کے ساتھ ایک الگ کمرے میں رہتا ہے۔ وہ گھر چلانے میں فیملی کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ دوسرا بیٹا بھی کوئی کام نہیں کرتا۔ بڑی بیٹی کی شادی حسن آرا نے کچھ سال پہلے بری پھلوریہ سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور، نیپال کے شمسی گاؤں میں کر دی تھی۔ تیسرا بیٹا اور ۱۸ سال کی ایک بیٹی کی شادی کرنی ابھی باقی ہے۔
حسن آرا کے لیے اپنی فیملی کو چلانا مشکل ہے اور گھر کے لیے ضروری سامان لانے میں انھیں کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ فیملی کے راشن کارڈ پر وہ ہر مہینے ۲ روپے فی کلو کے حساب سے ۱۴ کلو چاول، اور ۳ روپے فی کلو کے حساب سے ۲۱ کلو گیہوں، اور دیگر سامان لے آتی ہیں۔ ’’آج کل کھیتی کا بہت زیادہ کام دستیاب نہیں ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میری صحت بھی اب ٹھیک نہیں رہتی۔ ہماری فیملی کے ممبران کی تعداد تو بڑھی ہے لیکن آمدنی نہیں بڑھی۔ مجھے اپنے پوتے پوتیوں کو بھی کھلانا پڑ رہا ہے۔ میں نہیں جانتی کہ یہ سب مجھے کب تک کرنا پڑے گا۔‘‘
حسن آرا نے اپنے پانچ بچوں سے امید لگا رکھی تھی – کہ جب وہ بڑے ہوں گے، تو فیملی کی آمدنی میں ہاتھ بٹائیں گے اور زندگی میں خوشحالی لائیں گے۔
اپنی معمولی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے، حسن آرا نے مرغیاں اور بکریاں پالنی شروع کر دیں – جو کہ ان کے گاؤں کے کئی گھروں کے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ ہے۔ انڈوں سے وہ ہر ماہ کچھ سو روپے کما لیتی ہیں یا پھر یہ فیملی کے کھانے کا حصہ بنتے ہیں۔ اور بکریاں ہر دو تین سال میں بچے دیتی ہیں۔ بچوں کو کھلا پلا کر وہ بڑا کرتی ہیں اور پھر کسی مویشی تاجر کو بیچ دیتی ہیں۔ لیکن، ان بکرے/بکریوں سے انھیں وہ قیمت نہیں ملتی جو دوسروں کو مل جاتی ہے۔ ’’جو لوگ پیسے والے ہیں، وہ اپنے مویشیوں کو اچھا چارہ کھلاتے ہیں۔ میں غریب ہوں، اس لیے اپنی بکریوں کو صرف گھاس کھلا پاتی ہوں۔ اسی لیے یہ کمزور ہیں...،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
اچھا چارہ کھانے والے بکرے چار مہینے بعد ۸-۱۰ کلو کے ہو جاتے ہیں، جنہیں مویشی تاجروں کو ۴۰۰۰ روپے میں بیچا جا سکتا ہے۔ لیکن، حسن آرا کے بکرے بڑے ہونے کے بعد ۵ کلو سے زیادہ وزن کے نہیں ہو پاتے، اسی لیے ان کی قیمت چار ماہ بعد انھیں صرف ۲۰۰۰ روپے ہی مل پاتی ہے۔ اگر وہ ان بکروں کو اپنے پاس سال بھر رکھیں، تو آس پاس کے گاؤں کے خوشحال مسلمانوں سے فی بکرا ۱۰۰۰۰ روپے کما سکتی ہیں، جو عیدالاضحیٰ یا بقرعید کے موقع پر قربانی کے لیے انھیں خریدتے ہیں۔
حسن آرا نے اپنے پانچ بچوں سے امید لگا رکھی تھی – کہ جب وہ بڑے ہوں گے، تو فیملی کی آمدنی میں ہاٹھ بٹائیں گے اور زندگی میں خوشحالی لائیں گے۔ وہ نہ صرف اب بڑے ہو چکے ہیں، بلکہ ان میں سے زیادہ تر کے خود اپنے بچے بھی ہیں۔ باوجود اس کے حسن آرا کی زندگی سے خوشیاں کوسوں دور ہیں۔