یہ پینل تصاویر پر مبنی نمائش – ’کام ہی کام، عورتیں گُمنام‘ کا حصہ ہے، جس کے تحت دیہی خواتین کے ذریعے کیے جانے والے مختلف قسم کے کاموں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ تمام تصویریں پی سائی ناتھ کے ذریعے سال ۱۹۹۳ سے ۲۰۰۲ کے درمیان ملک کی ۱۰ ریاستوں کا دورہ کرنے کے دوران کھینچی گئی ہیں۔ یہاں، پاری نے ایک انوکھے انداز سے تصویر پر مبنی اس نمائش کو ڈیجیٹل شکل میں پیش کیا ہے۔ پہلے یہ نمائش کئی سالوں تک ملک کے زیادہ تر حصوں میں طبیعی طور پر لگائی جاتی رہی ہے۔

کیچڑ، ماں، اور ’دہاڑی‘

وجے نگرم کے بے زمین مزدوروں کے ساتھ میٹنگ صبح ۷ بجے سے کچھ پہلے ہی طے ہوئی تھی۔ خیال یہ تھا کہ ان کے دن بھر کے کام کو دیکھا جائے۔ حالانکہ، ہم دیر سے پہنچے تھے۔ اُس وقت تک، عورتیں تقریباً تین گھنٹے کام کر چکی تھیں۔ جیسے کہ یہ عورتیں تاڑ کے درختوں کے درمیان سے چلتے ہوئے کھیتوں میں آ رہی ہیں۔ یا ان کی ساتھی خواتین جو پہلے سے ہی وہاں موجود ہیں اور گڑھے میں جمی کیچڑ کو ہٹا رہی ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر عورتوں نے کھانا پکانے، برتن اور کپڑے دھونے، اور کچھ دیگر گھریلو کام ختم کر لیے تھے۔ انہوں نے بچوں کو بھی اسکول کے لیے تیار کر دیا تھا۔ گھر کے تمام افراد کو کھانا کھلایا جا چکا تھا۔ ظاہر ہے کہ عورتوں نے سب سے آخر میں کھانا کھایا تھا۔ سرکار کی روزگار گارنٹی سائٹ پر، یہ واضح ہے کہ عورتوں کو مردوں کے مقابلے کم پیسے دیے جاتے ہیں۔

یہ بھی واضح ہے کہ یہاں مردوں اور عورتوں، دونوں کے لیے کم از کم مزدوری کے قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ جیسا کہ پورے ملک میں ہو رہا ہے، کیرالہ اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں کو چھوڑ کر۔ پھر بھی، عورتوں کو ہر جگہ مردوں کے مقابلے آدھا یا دو تہائی مزدوری ہی ملتی ہے۔

ویڈیو دیکھیں: ’صبح ۷ بج کر ۳۰ منٹ پر کام شروع کرنے نکلی عورتیں پہلے ہی گھر میں تین گھنٹے تک کام کرکے آ رہی تھیں‘

خواتین زرعی مزدوروں کی تعداد چونکہ لگاتار بڑھ رہی ہے، اس لیے ان کی مزدوری کم رکھنے سے زمین مالکوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس سے ان کا مزدوری بل کم بنا رہتا ہے۔ ٹھیکہ داروں اور زمین مالکوں کی دلیل ہے کہ عورتیں چونکہ کم محنت والے کام کرتی ہیں، اس لیے انہیں کم پیسے دیے جاتے ہیں۔ پھر بھی، بیج کے پودے ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانا سخت محنت والا اور پیچیدہ کام ہے۔ یہی حال فصل کی کٹائی کا بھی ہے۔ ان دونوں ہی کاموں کی وجہ سے عورتوں کو متعدد قسم کی بیماریوں کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

روپائی دراصل مہارت کا کام ہے۔ بیج کے پودوں کو اگر مناسب گہرائی میں نہیں روپا گیا یا انہیں غلط دوری پر لگایا گیا، تو وہ سوکھ سکتے ہیں۔ اگر کھیت کو ٹھیک سے ہموار نہیں کیا گیا، تو اس میں پودے ٹھیک سے اُگ نہیں پائیں گے۔ روپائی کے دوران بھی زیادہ تر وقت ٹخنے سے لے کر گھنٹے تک پانی میں جھکے رہنا پڑتا ہے۔ پھر بھی اسے غیر ہنرمندی والا کام سمجھا جاتا ہے اور کم مزدوری دی جاتی ہے۔ صرف اس لیے کہ اس کام کو عورتیں کر رہی ہیں۔

عورتوں کو کم مزدوری دینے کے پیچھے ایک اور دلیل یہ ہے کہ وہ اُتنا کام نہیں کر سکتیں جتنا مرد کرتے ہیں۔ لیکن دکھانے کے لیے ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ عورت کے ذریعے کاٹی گئی دھان کی فصل، مقدار میں مردوں کی کٹائی سے کم ہے۔ جن جگہوں پر وہ مردوں کے برابر کام کرتی ہیں، وہاں بھی عورتوں کو کم مزدوری دی جاتی ہے۔

اگر وہ کم کام کر رہی ہوتیں، تو کیا زمین مالک اتنی تعداد میں عورتوں کو کام پر رکھ لیتے؟

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

سال ۱۹۹۶ میں، حکومتِ آندھرا پردیش نے مالی، تمباکو توڑنے، اور کپاس چننے والوں کے لیے کم از کم مزدوری طے کی تھی۔ یہ مزدوری ان لوگوں سے بہت زیادہ تھی، جو روپائی اور کٹائی جیسے کام کرتے تھے۔ تو، یہ بھید بھاؤ اکثر کھلے عام اور ’آفیشیل‘ طور پر ہوتا ہے۔

ایسے میں، ہو سکتا ہے کہ اجرت کی شرحوں کا پیداواریت سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ وہ زمانۂ قدیم سے چلی آ رہی بدگمانی پر مبنی ہیں۔ بھید بھاؤ کا یہ پرانا طریقہ ہے۔ اور اسے عام بات کہہ کر تسلیم کر لیا جاتا ہے۔

عورتیں کھیتوں اور کام کے دیگر مقامات پر جو کڑی محنت کرتی ہیں، وہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ یہ سارے کام انہیں بچوں کی دیکھ بھال کی بنیادی ذمہ داریوں سے کوئی آزادی فراہم نہیں کرتے۔ یہ آدیواسی عورت، اوڈیشہ کے ملکانگیری کے ایک ابتدائی طبی مرکز (نیچے دائیں) میں، اپنے دو بچوں کو لے کر آئی ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے، اسے کئی کلومیٹر لمبے دشوار گزار راستوں سے چل کر آنا پڑا ہے۔ اور اپنے بیٹے کو راستے میں زیادہ تر گود میں اٹھا کر چلنا پڑتا ہے۔ وہ بھی، ایک پہاڑی ڈھلان پر گھنٹوں کام کرنے کے بعد۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

مترجم: محمد قمر تبریز

पी. साईनाथ, पीपल्स ऑर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया के संस्थापक संपादक हैं. वह दशकों से ग्रामीण भारत की समस्याओं की रिपोर्टिंग करते रहे हैं और उन्होंने ‘एवरीबडी लव्स अ गुड ड्रॉट’ तथा 'द लास्ट हीरोज़: फ़ुट सोल्ज़र्स ऑफ़ इंडियन फ़्रीडम' नामक किताबें भी लिखी हैं.

की अन्य स्टोरी पी. साईनाथ
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique