ان کی یادداشت میں بچپن سے ہی سوتی دھاگے اور کرگھے کی ’کلک۔ کلیک‘ کی آوازوں محفوظ ہیں، کیوں کہ انھوں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں، جہاں بُنائی کا یہ کام پانچ نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔ لیکن، ۳۳ سالہ ناپا کمار اب ایک وارنِش کمپنی میں ہیلپر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ’’بُنائی ہمارا کُلا تھوزِل (آبائی پیشہ) ہے،‘‘ تمل ناڈو کے تیروولور ضلع کے ارانی شہر میں موجود اپنے گھر کے ایک بڑے، مستطیل کمرے میں کھڑے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ ’’یہیں پر پہلے دو کرگھے ہوا کرتے تھے،‘‘ کمار مسطح، سیمنٹ کے رنگ کی فرش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ ان کے والد اور چچا جس پِٹ لوم کا استعمال کرتے تھے، اسے وہاں سے نکال کر پیک کر دیا گیا ہے۔
تمل ناڈو کے تیروولور ضلع کے ارانی گاؤں میں پِٹ لومس
ارانی، جس کی دوری چنئی سے کار کے ذریعہ ایک گھنٹہ کی ہے، کبھی اپنے بُنکروں کی وجہ سے خوشحال ضلع ہوا کرتا تھا۔ آج، یہاں پر صرف ۴۰۰ کرگھے بچے ہیں، جب کہ ۱۵ سال پہلے ان کی تعداد ایک ہزار ہوا کرتی تھی۔ ناپا کمار کی فیملی ان سینکڑوں میں سے ایک ہے، جنہوں نے اس پیشہ کو چھوڑ دیا ہے۔ ’’سال ۲۰۰۹ میں ہم نے فیصلہ کیا کہ اب اس سے ہماری گاڑی نہیں چلے گی۔ ہم روزانہ ۱۲ گھنٹے کام کیا کرتے تھے، اس کے باوجود ہم میں سے ہر ایک مہینہ میں صرف ۴ ہزار روپے ہی کما پاتا تھا۔‘‘ انھوں نے اونچی شرحِ سود پر جو ۱۰ ہزار روپے کا قرض لیا تھا، اسے اس آمدنی سے ادا نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے علاوہ کمار کو نئے کرگھے لگانے، بڑی جوائنٹ فیملی میں شادیوں اور دیگر اخراجات کے لیے مزید پیسوں کی ضرورت تھی۔ ’’میں نے اپنی واحد ملکیت: میری دسویں کلاس پاس کرنے کی سرٹیفکیٹ کو گارنٹی کے طور پر پیش کیا۔ لیکن بینک نے منع کر دیا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیں قرض اور سبسڈی دیں گے۔ اب اس کا کیا فائدہ؟ ہمارے پاس دوسری نوکریاں ہیں،‘‘ وہ پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ان کی آواز میں غصہ اور افسردگی ہے۔
ان کے والد ایک سیکورٹی گارڈ کے طور پر کام کرتے ہیں اور ساتھ مل کر دونوں مہینہ میں ۱۴ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ ’’میرا کرگھا گھر کے ٹھیک سامنے تھا۔ ہم نے اسے ہٹا لیا اور اس کی جگہ ہم نے اپنا باورچی خانہ (کچن) بنا لیا۔‘‘
کبھی یہاں پر ناپا کمار کا کرگھا ہوا کرتا تھا، لیکن یہ کمرہ کافی عرصہ پہلے باورچی خانہ میں تبدیل ہو چکا ہے
ارانی میں ناپا کمار جیسے بہت لوگ ہیں۔ کمار کے گھر سے باہر سڑک کے ٹھیک اُس پار، وی ایم ونایکم مجھے اپنی چھت پر ایک کرگھا دکھاتے ہیں، جو اَب استعمال میں نہیں ہے۔ پہلے کبھی یہ بڑے کام کی چیز ہوا کرتا تھا، لیکن اب یہ زنگ آلودہ ہو چکا ہے، اس پر دھول جمی ہوئی ہے اور اس کے چاروں طرف ایسی چیزیں رکھی ہوئی ہیں، جن کی انھیں ضرورت نہیں ہے، لیکن ان کا دل نہیں مانتا کہ ان چیزوں کو پھینک دیا جائے۔
ونایکم ایک تجربہ کار بُنکر تھے، لیکن ان کے ہنر کی صرف جمالیاتی قدر تھی۔ چونکہ ان کے پاس کوئی تعلیمی ڈگری نہیں تھی اور نہ ہی آس پاس نوکری ملنے کی امید، اس لیے انھوں نے عمدہ ریشمی و سوتی ساڑیوں کو بُننے کا کام جاری رکھا۔ یہ ساڑیاں چنئی کی دکانوں میں تین ہزار فی عدد کے حساب سے فروخت ہوتی ہیں۔ مہینہ بھر اس کام میں مصروف رہنے کے بعد، حالانکہ ان کے پاس ساڑھے چار ہزار سے زیادہ کی آمدنی نہیں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ خود اگر اپنے گھر کے لیے مہینہ میں دو ساڑیاں خریدنا چاہیں، تو اپنی ماہانہ آمدنی سے نہیں خرید سکتے۔
ونایکم اپنے بیکار پڑے کرگھے کے پاس کھڑے ہیں
اس لیے، سال ۲۰۱۱ میں جب چنئی کے مضافات میں (ان کے گاؤں سے وہاں تک جانے میں بس سے آدھا گھنٹہ لگتا ہے) ایک ایک کرکے صنعتیں لگنی شروع ہوئیں، تو ونایکم نے ۶ ہزار ماہانہ تنخواہ پر گُمّی دی پونڈی کی ایک ’کاسٹ آئرین مینوفیکچرنگ کمپنی‘ میں نوکری ڈھونڈ لی۔ ’’اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اتنا کافی ہے،‘‘ وہ میرے ویڈیو کیمرے میں بغیر مسکراتی آنکھوں کے ساتھ جھانکتے ہوئے کہتے ہیں۔
سورج کی تیز دھوپ میں ان کے گھروں کے بیچ سے گزرتے ہوئے، استاد بُنکر پی این موہن مجھے مقامی بُنائی صنعت کے بارے میں کچھ تفصیلات جلدی سے بتاتے ہیں۔ ارانی، جہاں ہر کوئی تیلگو بولتا ہے اور اسکولوں میں بھی اسی زبان میں پڑھائی ہوتی ہے، مہاجر بُنکروں کا ایک گاؤں تھا۔ ۱۹۸۰ کے وسط تک سوتی دھاگوں کی رنگائی ارانی ندی میں ہوا کرتی تھی اور ’’۳۶ اِنچ یارڈیج‘‘ (کپڑے کی چوڑائی) میں بُنائی ہوتی تھی۔ اس کے بعد پالی کاٹن اور سِلک کاٹن ساڑیوں کا دور آیا۔ چنئی میں دونوں کی مانگ میں بے حد اضافہ ہوا۔ اس لیے کرگھوں کی تعداد بھی بڑھی۔
ریشمی دھاگہ (بائیں) اور سِلک کاٹن ساڑیاں
’’لیکن اب ایسا نہیں ہے،‘‘ موہن کہتے ہیں۔ ’’بُنکروں کی تعداد تیزی سے گھٹی ہے؛ ۵ ہزار سے یہ اب ۵۰۰ سے بھی نیچے پہنچ گئی ہے۔ ان میں سے تقریباً ۳۰۰ آندھرا سے ہجرت کرکے یہاں آئے ہیں۔‘‘ وہ اُن دنوں کو یاد کرتے ہیں، جب ان کی گلی میں ۵۰ یا ۶۰ کرگھے ہوا کرتے تھے، اب صرف چھ بچے ہیں۔ ان میں سے ایک کو لکشمی چلاتی ہیں، جو آندھرا پردیش کے پرکاسم ضلع کے چِرالا سے ارانی آئی ہیں اور موہن کے یہاں کام کرتی ہیں۔ وہ سنتھیٹک ساڑی پہنتی ہیں، اور سلک کاٹن ساڑی بُنتی ہیں۔ ان کا گھر ایک کمرے والا ہے؛ ان کے زیورات میں صرف ایک پیلا دھاگا اور شیشے کی چوڑیاں شامل ہیں۔ لیکن، اس سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا: وہ اپنا پورا دن اُس جگہ گزارتی ہیں جہاں انھیں کوئی نہیں دیکھ سکتا، وہ ایک ایسے لمبے، تنگ کمرے میں کام کرتی ہیں، جہاں تین کرگھے ایک دوسرے کے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔
لکشمی ایک سلک۔ کاٹن ساڑی بن رہی ہیں، جب کہ وہ خود سنتھیٹک ساڑی پہنے ہوئی ہیں
’’باضمیر بُنکر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے،‘‘ موہن اپنے ایئرکنڈیشنڈ اسٹاک روم میں مجھے بتاتے ہیں۔ ان کے والد، ۷۰ سالہ چوکا لِنگم، بہی کھاتوں والی کاپیوں کے ڈھیر کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پوری زندگی تانے بانے کے بارے میں سوچ کر گزارنے کے بعد، وہ اب آخر میں آرام کرنے کے قابل ہوئے ہیں، کیوں کہ موہن کے کاروبار اور توانائی نے انھیں ایک کامیاب استاد بُنکر بنایا ہے۔ (اُستاد بُنکر عام طور پر کرگھے پر کام نہیں کرتے۔ وہ خام مال بُنکروں کو سپلائی کرتے ہیں، اور اس کے بعد اپنا پورا اسٹاک خریدتے ہیں۔ اس کے بعد وہ شہروں میں جاری رٹیل قیمت کے حساب سے اسے بازار میں فروخت کرتے ہیں۔)
اُستاد بُنکر موہن (دائیں) ایک نئی سلک کاٹن ساڑی کو موڑتے ہوئے
موہن کا نیا گھر ان کی کامیابی کی علامت ہے۔ یہ سٹی کلر میں رنگا ہوا ہے، شاندار بھورے اور ہلکے پیلے رنگ میں۔ ارانی کی دھول بھری گلیوں میں یہ ایک انوکھی عمارت ہے۔ اس بات کو زیادہ دن نہیں ہوئے، جب یہ فیملی سادہ اور مشکل بھری زندگی گزار رہی تھی، جب کہ ان کے پڑوسی سرخ ٹائلس لگے مکانوں میں رہتے تھے۔ ’’ہمارے گھر میں دو کرگھے تھے۔ ہم دن بھر ان پر کام کرتے تھے، روزانہ۔ اس پیشہ کے بارے میں ایک کہاوت ہے: ’’آپ کا پیٹ تبھی چلے گا، جب آپ کے پر پھڑپھڑائیں گے۔‘‘ یہی ایک بُنکر کی زندگی ہے، وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمیشہ اپنے ہاتھوں کو ہلاتے رہتا، تاکہ اپنے خالی پیٹوں میں کھانے کے چند لقمے ڈالے جا سکیں۔‘‘
ارانی کی ایک گلی۔ بھورے اور پیلے رنگ میں رنگی ہوئی اونچی عمارت موہن کی ہے
جب چنئی نے ترقی کی اور مضافاتی علاقوں کو شہر کی حدود میں ضم کر لیا، تو بُنکر بھی اچھے کام کی تلاش میں وہاں پہنچنے لگے۔ این واسو ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اس پیشہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آخرکار انھیں ایک آرامدہ نوکری مل گئی، تنخواہ بھی اچھی ہے۔ وہ ایک کالج کی کینٹین میں کھانا پروسنے کا کام کرتے ہیں، جہاں سے انھیں ماہانہ ۵ ہزار روپے مل جاتے ہیں۔ بھلے ہی یہاں ان کی تنخواہ میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہوا، لیکن واسو کہتے ہیں کہ بنکر کے طور پر ان کی پوری فیملی کو مہینہ بھر کڑی محنت کرنی پڑتی تھی، تب کہیں جاکر انہیں صرف چار ہزار روپے مل پاتے تھے۔ ’’میری آمدنی کے علاوہ، میری بیوی دھاگہ کاتتی ہے، جس سے وہ ڈیڑھ ہزار روپے کما لیتی ہے۔‘‘ ان کے دو بیٹوں کو بھی کہیں اور نوکری مل گئی ہے۔ ان میں سے ایک کمپیوٹر میکینک ہے، جب کہ دوسرا پانی کی بوتلیں سپلائی کرتا ہے۔ واسو نے اپنا کرگھا اُتار لیا اور اس کے کچھ حصے کباڑی کو بیچ دیے۔
’’کچھ لوگوں نے تو کرگھے کو چولہے میں جلا دیا،‘‘ ناپا کمار مجھے بتاتے ہیں، وہاں کھڑے ہوکر جہاں اوپر ان کے کرگھوں کی لکڑیاں جمع کرکے رکھی ہوئی ہیں۔ وہ ان لکڑیوں کو لے کر تھوڑا جذباتی ہیں، اور انھیں خود سے الگ نہیں کرنا چاہتے۔
ناپا کمار اُس مچان کے نیچے کھڑے ہیں، جس کے اوپر ان کے کرگھوں کے سامان جمع کرکے رکھے ہوئے ہیں
کمار اپنی نئی نوکری سے ۷ ہزار روپے ماہانہ کما لیتے ہیں۔ جس وارنِش کمپنی میں وہ بطور ہیلپر کام کرتے ہیں، وہ یہاں سے آدھا گھنٹہ کی دوری پر واقع چولاوَرم میں ہے۔ وہ صبح کے ۹ بجے سے لے کر شام کے ساڑھے ۶ بجے تک کام کرتے ہیں۔ ان کے والد، ناپا گوپی سیکورٹی گارڈ کی نوکری کرتے ہیں اور روزانہ ۱۲ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرکے ماہانہ ۷ ہزار روپے پاتے ہیں۔ لیکن، اس نوکری کی ایک شرط ہے، انھیں اپنے بالوں میں خضاب لگانا پڑتا ہے۔ ’’سیکورٹی انچارج نے مجھ سے کہا کہ میں زیادہ عمر والا دکھائی دیتا ہوں۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے بالوں میں کالے رنگ کا خضاب لگایا کروں۔،‘‘ گوپی ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
مرد بُنکر کے اپنے پیشہ کو کیوں چھوڑ رہے ہیں، اس کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ کوئی بھی کسی بُنکر کو اپنا داماد بنانا نہیں چاہتا۔ سترہ سال قبل موہن کے بھائی کو اس سوچ کی وجہ سے شادی میں دشواری پیش آئی تھی۔ اب وہی دشواری ناپا کمار کو بھی پیش آر ہی ہے۔ کیوں کہ کسی بُنکر سے شادی کرنے کا مطلب ہے، زندگی بھر کے لیے کڑی محنت اور پریشانی مول لینا۔
لہٰذا، ارانی کے بنکروں نے کینٹینوں میں کھانے پروسنے اور بسوں میں ہیلپروں کا کام ڈھونڈ لیا ہے۔ وہ اب ڈرائیور، چوکیدار اور اسسٹنٹ بننا چاہتے ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ سے وہ ہنر، جو نسلوں سے پھلتا پھولتا اور آگے بڑھتا رہا، اب اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ دن بھر کی کڑی محنت کے باوجود آج ایسا کوئی خوبصورت مال تیار نہیں ہوتا، جسے کسی کو دکھایا جا سکے، لیکن تھالی میں کھانا ہے اور جیب میں بھی کچھ پیسے بچے ہوئے ہیں۔ بُنکروں کی تعظیم آج اسی طرح سے کی جا رہی ہے، ایسی نوکریاں جن سے انھیں دو گنی تنخواہ تو مل رہی ہے، لیکن اس میں ان کے قیمتی ہنر کی کوئی ضرورت نہیں پڑتی۔
یہ مضمون ’دیہی تمل ناڈو کے ختم ہوتے ذریعہ ہائے معاش‘ سیریز کا ایک حصہ ہے، جسے این ایف آئی نیشنل میڈیا ایوارڈ ۲۰۱۵ کی مالی معاونت حاصل ہے۔