کپڑے کے ایک ٹکڑے پر چھوٹا سا گول شیشہ ٹانکتے ہوئے، تمّی گمل کاسمیا اپنے چشمے کے اندر سے جھانکتی ہیں۔ ’’یہ سنگلی سلائی سب سے مشکل ہے کیوں کہ آپ کو شیشہ کو پھسلنے سے روکنا ہوتا ہے،‘‘ تمل ناڈو کے دھرما پوری ضلع کی سِٹّی لنگی وادی میں، دو لمباڈی بستیوں میں سے ایک، اکّرے کاٹّو ٹانڈہ کے اپنے گھر میں وہ مجھ سے کہتی ہیں۔

ساٹھ سالہ تمّی گمل یا ’گمّی‘، ۱۲ برسوں سے ایک اور رکاوٹ کو روکنے میں مدد کر رہی ہیں۔ اپنی سہیلی آر نیلا کے ساتھ، انھوں نے اپنی برادری کی نوجوان عورتوں کو گھاٹر – لمباڈی کشیدہ کاری – سکھایا ہے، تاکہ یہ ہنر لوگوں کے دماغ سے غائب نہ ہو جائے۔ اس سے ایک اور فائدہ ہوا ہے۔ کشیدہ کاری سے ہونے والی مستحکم اور اضافی آمدنی نے خواتین کو ہجرت کرنے سے روک دیا ہے۔

لمباڈی خواتین عام طور پر سٹی لنگی سے ۲۰۰ کلومیٹر جنوب میں، تیروپور کی کپڑا ملوں یا تعمیراتی جگہوں پر ہجرت کرتی ہیں۔ برادری کے مرد زیادہ تر تعمیراتی جگہوں اور درخت کاٹنے کا کام کرنے کے لیے کیرالہ جاتے ہیں۔ مہاجر مزدوروں، عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں، کی اوسطاً آمدنی ۷۰۰۰ روپے سے ۱۵۰۰۰ روپے ماہانہ ہوتی ہے۔

تمل ناڈو میں لمباڈی (ریاست میں درج فہرست ذات کے طور پر فہرست بند) بنیادی طور سے دھرماپوری اور تیروناّملائی ضلع کے گاؤں میں رہتے ہیں۔ سٹی لنگی میں، گرام پنچایت افسر بتاتا ہے کہ لمباڈیوں کی کل تعداد ۹۲۴ ہے (دیگر ریاستوں میں انھیں بنجارہ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے)۔ سٹی لنگی میں زیادہ تر لمباڈیوں کے پاس ایک یا دو ایکڑ زمین ہے، جہاں ان کی کھیتی بارش پر منحصر ہے۔ گزشتہ ۳۰ برسوں میں، گنّے اور دھان جیسے پانی کی زیادہ کھپت والی نقدی فصلوں کا چلن اور ناکافی بارش نے نقدی کی ضرورت بڑھا دی ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ ۱۵ دنوں سے لے کر ایک سال تک کی ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں۔

’’ہجرت یہاں کی زندگی کی ایک حقیقت ہے، لیکن کم از کم اُن گھروں میں یہ رک گئی ہے، جہاں کی عورتیں گھاٹر سے کماتی ہیں،‘‘ ۳۵ سالہ تھیکولم بتاتی ہیں۔

Woman stitching a piece of cloth while sitting on a cot
PHOTO • Priti David
Woman sewing a piece of cloth
PHOTO • Porgai Artisans Association

تمّی گمل کاسمیا (بائیں) اور آر نیلا (دائیں) نے اس ہنر کو غائب ہونے سے بچانے کے لیے نوجوان عورتوں کو اپنی روایتی کشیدہ کاری سکھائی ہے

سٹی لنگی کے دو ٹانڈوں میں ۷۰ سال سے زیادہ عمر کی دو یا تین عورتوں کو چھوڑ کر باقی سبھی لمباڈی عورتوں نے (اور مردوں نے بھی) اپنے روایتی کپڑے پہننا بند کر دیا تھا، سوائے رسمی تقریبات کے۔ یہ دھیرے دھیرے ہوا، ۳۰-۴۰ برسوں میں۔ تھیکولم بتاتی ہیں: ’’ہم الگ نہیں نظر آنا چاہتے تھے۔ ہمیں عجیب لگا۔ اس لیے ہم نے پاس کے گاؤوں والوں کی پوشاک دیکھ کر ان کے جیسے کپڑے پہننا شروع کر دیا۔‘‘

برادری کی خواتین نے جب روایتی کپڑے پہننا بند کر دیا، تو کشیدہ کاری کی ثقافتی ضرورت کم ہونے لگی۔ تیس سالہ لمباڈی دست کار اور گمّی کی شروعاتی طالبات میں سے ایک، اے رمنی کہتی ہیں، ’’میری دادی نے کچھ گھاٹر کیے تھے، لیکن میری ماں نے کبھی سوئی اور دھاگہ تک نہیں اٹھایا، اپنی شادی کی پوشاک کے لیے بھی نہیں۔‘‘

لمباڈی عورتوں کا روایتی لباس کشیدہ کاری سے بھرا ہوتا ہے۔ پیٹیا یک رنگی چمکدار اسکرٹ، چولی یا بلاؤز اور دوپٹہ ہوتا ہے۔ عام طور پر، کڑھائی صرف اسکرٹ کے کمر والے حصے اور بلاؤز پر کی جاتی ہے، جس میں بہت سے رنگین سوتی دھاگوں سے جیومیٹرک پیٹرن میں مختلف قسم کے ٹانکے لگائے جاتے ہیں۔ وہیں، برادری کے مرد بنا کشیدہ کاری والے سفید، موٹے سوتی شرٹ اور دھوتی پہنتے ہیں۔

رمنی کی ماں کی نسل میں تو کشیدہ کاری کا ہنر کم ہوتا گیا، لیکن شادی جیسی تقریبات کے لیے زیادہ تر کنبوں میں ابھی بھی روایتی ملبوسات کی ضرورت تھی۔ اور ان میں سے زیادہ تر لباس پھٹ گئے یا خراب ہو گئے تھے۔ ’’عورتیں ہمارے پاس آتیں اور ہم بھاری کڑھائی والے حصوں کو کاٹ کر ان کی جگہ نئے [سادہ] کپڑے لگا دیتے،‘‘ گمّی کہتی ہیں۔ یہ ایک پتلا دھاگہ بن گیا، جس نے برادری کو ہنر سے باندھے رکھا۔ پھر دھیرے دھیرے یہ بحال ہونے لگا۔

Woman showing her work
PHOTO • Priti David
Woman stitching a design
PHOTO • Priti David

تیس سالہ لمباڈی دست کار اے رمنی، گمّی کی شروعاتی طالبات میں سے ایک تھیں۔ ’میری پہلی کمائی پان سے تھی، ہر آٹھ لائنوں میں آٹھ‘، وہ فخریہ لہجہ میں یاد کرتی ہیں

سِٹّی لِنگی میں، ۶۰ لمباڈی خواتین کاریگر اب کشیدہ کاری کی مشق کر رہی ہیں، اور یہ سبھی پورگئی دستکار تنظیم (پورگئی آرٹیزنس ایسوسی ایشن) کی رکن ہیں، جس کی ملکیت اور انتظام و انصرام انہی کے ہاتھ میں ہے۔ ’’ہماری زبان میں، ’پورگئی‘ کا مطلب ہے فخر اور اعزاز۔ ہنر میں ہمارا اعزاز اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہمیں فخر ہے،‘‘ تھیکولم بتاتی ہیں، جو حال ہی میں تنظیم کی صدر منتخب ہوئی تھیں۔ ’’ایسا لگتا ہے جیسے ہمیں اپنی آواز واپس مل گئی ہے۔ اب ہمارے اندر اتحاد کا جذبہ ہے اور ہماری تخلیقیت کے لیے ایک مرکز ہے۔‘‘

پورگئی کی پہلی اجتماعی سلائی کو ایک مقامی ڈاکٹر، للتا ریگی نے تحریک دی تھی۔ وہ ۳۰ سال قبل کیرالہ سے گریجویٹ ہونے کے فوراً بعد اپنے اپنے شوہر ریگی، جو خود ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں، کے ساتھ سٹّی لنگی آ گئی تھیں، جہاں انھوں نے ٹرائیبل ہیلتھ اِنیشیٹو (ٹی ایچ آئی) کی بنیاد ڈالی تھی۔ ان کے مریضوں میں لمباڈی خواتین بھی ہوا کرتی تھیں۔ انھوں نے دو الگ الگ حقائق پر غور کیا: صرف بڑی عمر کی عورتیں ہی بھاری کشیدہ کاری والی روایتی پوشاک پہن رہی تھیں اور ان کے کئی مریض کھیتی سے ہونے والی اپنی آمدنی میں اضافہ کے لیے باقاعدگی سے کچھ دنوں کے لیے وادی سے باہر چلے جایا کرتے تھے، اور کام کرنے کی محدود جگہوں اور اپنی غذا سے سمجھوتہ کرنے کے سبب میعادی امراض کے ساتھ واپس لوٹتے تھے۔ ’’مجھے لگا کہ اگر میں نوجوان عورتوں کو آمدنی کے ذریعہ کے طور پر دست کاری کرنے کے لیے راضی کر سکوں، تو ہجرت میں کمی آئے گی،‘‘ للتا بتاتی ہیں، جو ایک عام ڈاکٹر اور عورتوں کے امراض کی ماہر ہیں۔

گمی اور نیلا، لمباڈی برادری کی صرف دو ایسی خواتین تھیں جو ابھی بھی اس ہنر کے بارے میں جانتی تھیں۔ گمّی کو یاد ہے کہ انھوں نے اس خیال کو فوراً خارج کر دیا تھا: ’’کون خریدے گا؟‘‘ انھوں نے عدم اعتماد سے پوچھا تھا۔ ’’خود ہمارے اپنے لوگ بھی نہیں پہن رہے ہیں!‘‘ لیکن للتا کو بھروسہ دلایا گیا اور اس ہنر کو آگے بڑھانے کے لیے انھیں ٹی ایچ آئی سے ایک لاکھ روپے ’اُدھار‘ دیے گئے۔ (بعد میں ٹی ایچ آئی نے یہ پیسہ پورگئی کو عطیہ کر دیا۔)

بات آگے بڑھی، اور ۲۰۰۶ میں ۱۰ نوجوان عورتوں کو اس میں شامل کیا گیا۔ گمّی اور نیلا نے صاف ستھری لائنیں اور باریک ٹانکے لگانا کا طریقہ سکھانا شروع کیا، جو کہ اس ہنر کا ٹریڈ مارک ہے۔ رمنی یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں: ’’ہمیں کہا گیا تھا کہ ہم اپنی ٹیچروں کو ان کے یومیہ کاموں میں پریشان نہ کریں، اس لیے ان کے ساتھ تبھی بیٹھتے تھے جب وہ خالی ہوتیں۔ اچھی طرح سلائی کرنا سیکھنے میں مجھے تقریباً ایک مہینہ کا وقت لگا۔‘‘

A finished embroidered piece of cloth
PHOTO • Priti David
Finished tassles (latkan)
PHOTO • Priti David

سٹّی لنگی کی عورتوں کے ذریعے بنائے گئے مخصوص لمباڈی کڑھائی کے آئٹم اب مختلف خوردہ دکانوں اور دستکاری کی نمائشوں میں فروخت ہو رہے ہیں

لمباڈی کڑھائی میں کئی الگ الگ قسم کے ٹانکے ہوتے ہیں: جالی، پوٹہ، بندھن ویلا (بیچ میں ایک لائن کاٹ کر) اور ایک سوئی گاڈ (ایک لائن والی سلائی)۔ اس کا استعمال نمونوں، کاج، کناری، تُرپئی اور بھرائی میں کیا جاتا ہے، اور یہ گجرات اور راجستھان، جہاں سے اس برادری کی ابتدا ہوئی ایسا کہا جاتا ہے، کی شیشہ کڑھائی کی طرح لیکن تھوڑا الگ ہے۔

چھ مہینے میں رمنی اور دیگر طالبات پورگئی سے ملے کام کو شروع کرنے کے لیے تیار تھیں۔ لیکن سپلائی اور فروخت دھیمی تھی جس کی وجہ سے پورگئی کو اپنی کاریگروں کو وقت پر تنخواہ دینے میں تین سال کی دیری ہوئی۔ یہ ۲۰۰۹ میں جا کر ممکن ہوا جب بقایا سبھی مزدوری ادا کر دی گئی اور کاریگروں کو ان کی تنخواہ وقت پر ملنے لگی۔

’’میری پہلی کمائی پان سے ہوئی تھی، آٹھ لائنوں میں سے ہر ایک میں آٹھ،‘‘ رمنی فخر سے یاد کرتی ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر کے پاس ایک ایکڑ زمین ہے، جس پر وہ فروخت کرنے کے لیے گنّے اور ہلدی، اور اپنے کھانے کے لیے باجرا، دالیں اور سبزیاں اُگاتے ہیں۔ گھاٹر نے انھیں ٹریکٹر کا قرض (ڈھائی لاکھ روپے، ۸۰۰۰ روپے ماہانہ قسط کے ساتھ) ادا کرنے میں مدد کی اور یہ خراب سال کے دوران آمدنی کا ایک مستحکم ذریعہ ہے۔ ’’میں نے اسے تب شروع کیا جب میرا بیٹا، دھنش کوڈی دو مہینے کا تھا [وہ اب ۱۳ سال کا ہے] اور مجھے آمدنی کی تلاش میں وادی چھوڑنے کی ضرورت نہیں تھی،‘‘ وہ خوشی سے کہتی ہیں۔ ’’میں اپنا گھاٹر ہر وقت اپنے ساتھ لے کر چلتی ہوں۔ میرے کھیت میں جب سینچائی ہو رہی ہو، تب بھی میں ٹانکے بھرنے کا کام کر سکتی ہوں۔‘‘

پچھلے مالی سال (۲۰۱۷-۲۰۱۸) کے دوران، پورگئی نے ۴۵ لاکھ روپے کمائے، جس کے بڑے حصے سے کاریگروں کو پیسے دیے گئے۔ ہر ایک عورت مہینے میں ۳۰۰۰ سے ۷۰۰۰ روپے تک کماتی ہے، جو اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کڑھائی کے لیے کتنا وقت دے سکتی ہے۔ ’’میں [ایک دن میں] آٹھ گھنٹے کرنے کی کوشش کرتی ہوں،‘‘ رمنی بتاتی ہیں، ’’دن میں ممکن نہیں ہوا، تو میں اسے رات میں کرتی ہوں۔‘‘

Showcasing a design
PHOTO • Priti David
Little girl showing a design
PHOTO • Priti David
Woman showing one of her works
PHOTO • Priti David

سٹّی لنگی میں، رنجی تھم جی (دائیں) جیسی ۶۰ خواتین اب کڑھائی کرنے میں ماہر ہیں۔ اور رمنی کی بیٹی گوپیکا (بیچ میں) نے ابھی سے اس ہنر کو سیکھنا شروع کر دیا ہے

پورگئی کے باقی منافع کو کپڑا، دھاگے اور شیشہ جیسے کچے مال کو خریدنے میں خرچ کیا جاتا ہے۔ تنظیم نے چھ سال پہلے دفتر کی عمارت میں سلائی کا ایک کمرہ جوڑا، جہاں سات مشینیں ہیں۔ پروڈکشن بڑھنے کے ساتھ ساتھ مصنوعات میں کثرت بھی آئی – گاؤ تکیہ کا غلاف، بیگ اور پاؤچ سے لے کر ساڑی، کرتا، شرٹ اور یہاں تک کہ زیورات تک، سبھی مختلف خوردہ دکانوں اور مختلف شہروں میں دستکاری کی نمائشوں میں فروخت ہو رہے ہیں۔

تھیکولم کا کہنا ہے کہ پورگئی شروع ہونے کے بعد، اس کی کسی بھی رکن نے ہجرت نہیں کی ہے۔ ’’اگر ہمیں اور زیادہ کام ملتا ہے، تو اور بھی خواتین ہمارے ساتھ جڑیں گی اور ہجرت میں اور بھی کمی آئے گی،‘‘ وہ آگے کہتی ہیں۔ ’’عورتیں جب کام کے لیے باہر جاتی ہیں، تو فیملی بکھر جاتی ہے اور والدین اپنے بچوں سے الگ ہو جاتے ہیں۔ وہ سبھی قسم کی بیماریوں کے ساتھ لوٹتے ہیں کیوں کہ وہ لمبے عرصے تک کام کرتے ہیں اور مشکل حالات میں زندگی گزارتے ہیں۔‘‘

دستکاری کے مختلف میلوں میں جانے سے، پورگئی کو دھیرے دھیرے اور بھی کام ملنے لگے ہیں اور اس کے ممبران کی تعداد ۱۰ سے بڑھ کر آج ۶۰ ہو چکی ہے۔ پورگئی دفتر میں سالانہ ڈیزائن اور ٹریننگ سیشن منعقد کیا جاتا ہے اور سیکھنے میں دلچسپی رکھنے والی لمباڈی عورتوں کو شامل کرنے کا خیرمقدم ہوتا ہے۔ حوصلہ افزائی کے طور پر، ۱۰ روزہ ٹریننگ کے دوران عورتوں کو ۲۰۰ روپے یومیہ مزدوری دی جاتی ہے۔ گمّی جیسی تجربہ کار ٹیچروں کو اضافی ۵۰ روپے – اور ایک تجربہ کار کشیدہ کار ہونے کا اعزاز ملتا ہے۔

رمنی کی نو سال کی بیٹی، گوپیکا جیسی چھوٹی لمباڈی لڑکیوں نے ابھی سے اس ہنر کو سیکھنا شروع کر دیا ہے۔ وہ فخر سے ہمیں، اسکول میں دستکاری وقفہ کے دوران کی گئی اپنی پہلی کڑھائی دکھاتی ہے۔

تو گمّی اس کے احیا کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟ ’’اگر کوئی مر جائے اور اسے دوبارہ زندگی مل جائے، تو آپ مجھے بتائیں،‘‘ وہ جواب دیتی ہیں۔ ’’ہم وہی ہیں جنہوں نے اسے دوبارہ زندگی بخشی ہے۔‘‘

مصنفہ، ترجمہ میں مدد کرنے کے لیے کے گایتری پریہ، انگھا اُنّی اور ابھے کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique