منڈیوں کا یہ نیٹ ورک ایک وسیع گرڈ کی طرح ہے، جس میں پورے پنجاب میں ۱۵۲ اہم یارڈ (مرکزی مقام)، ۲۷۹ سب یارڈ، اور ۱۳۸۹ خرید مراکز ہیں (۲۰۱۹-۲۰ کے دستیاب اعداد و شمار کی بنیاد پر)۔ اس کے ہونے سے بطور کسان جسوندر سنگھ اپنے ارد گرد ایک حفاظتی دائرہ کی موجودگی محسوس کرتے ہیں۔ جسوندر سنگھ کی فیملی ۱۷ ایکڑ کی زمین پر کھیتی کرتی ہے۔ سنگرور ضلع کے لونگو وال قصبہ کے رہنے والے ۴۲ سالہ جسوندر سنگھ کا کہنا ہے کہ موجودہ منڈی نظام میں ایک کسان خود کو تھوڑا محفوظ پاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں فصل کی پیداوار بے جھجک اور بغیر کسی طرح کے خوفناک اندیشے کے منڈی تک لے جا سکتا ہوں، کیوں کہ یہ بات دماغ میں رہتی ہے کہ مجھے اس کی قیمت مل جائے گی۔ مجھے پورے عمل کی جانکاری ہے اور اس لیے مجھے پختہ یقین ہے کہ میری لاگت نکل آئے گی۔‘‘
اس نیٹ ورک کا مرکزی مقام وسیع و عریض منڈیاں ہیں (سُنام منڈی اس کی ایک مثال ہے)۔ ان مرکزی مقامات پر متعدد سہولیات دستیاب ہیں اور عام طور پر کسانوں کو ان کے آڑھتیوں (کمیشن ایجنٹ) کی دکانوں کے ٹھیک سامنے ہی اناج لانے اور انبار لگا کر اکٹھا کرنے کی جگہ مختص کی جاتی ہے۔ ذیلی یارڈ موٹے طور پر مرکزی مقام کے ارد گرد کی اضافی زمین ہے، جو کہ تب کام آتی ہے جب مرکزی مقام کا دائرہ اس سال کی پیداوار کے لحاظ سے کم پڑ جائے۔ خرید مرکز ان چھوٹی منڈیوں کو کہتے ہیں جو زیادہ تر گاؤوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں (شیراں منڈی، خرید مرکز کی ایک مثال ہے)۔ مجموعی طور پر اس سے ہی پنجاب کی زرعی پیداوار اور مویشیوں کی منڈی کمیٹی کا وسیع نیٹ ورک تیار ہوتا ہے۔
جسوندر بتاتے ہیں، ’’پیداوار کی فروخت کی کارروائی کے دوران آڑھتیوں کی طرف سے جو فارم دیا جاتا ہے، وہ ادائیگی ہونے تک سیکورٹی کی طرح کام کرتا ہے۔ لیکن میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ چونکہ یہ سرکاری سیٹ اپ ہے، اس لیے اگر ادائیگی کے معاملے میں کچھ ناموافق یا غیر معمولی طور پر نا امید کرنے والا واقعہ پیش آتا ہے، تو مجھے یہ بات معلوم ہے کہ ایسی حالت میں مجھے قانون کے تحت سیکورٹی کی گارنٹی ملی ہوئی ہے۔ سیکورٹی کی یہ گارنٹی بے حد اہم اور بڑی بات ہے۔‘‘ یہاں یہ سب بتاتے ہوئے جسوندر کا اشارہ ۱۹۶۱ میں بنائے گئے پنجاب زرعی پیداوار بازار قانون کی طرف ہے۔
اے پی ایم سی نیٹ ورک اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ فصلوں کی پیداوار کی خرید و فروخت ایک باضابطہ عمل کے تحت پرائیویٹ تاجروں یا فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی) یا مارک فیڈ (پنجاب اسٹیٹ کوآپریٹو سپلائی اینڈ مارکیٹنگ فیڈریشن لمیٹڈ) جیسی سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے ہو، جو کہ ریاست کی طرف سے لازمی بنائی گئی کم از کم امدادی قیمت پر گیہوں اور دھان کی فصل کو خریدتی ہیں۔ فصلوں کی پیداوار کے پنجاب کی کسی بھی منڈی میں پہنچنے پر ایف سی آئی یا مارک فیڈ کے اہلکاروں کے ذریعے خاص پیمانوں کی بنیاد پر اس کے معیار کی جانچ کی جاتی ہے، مثلاً فصلوں کی پیداوار میں موجود نمی کی جانچ۔ اس کے بعد فصلوں کی پیداوار کی نیلامی اور فروخت کی جاتی ہے۔ یہ عمل آڑھتیوں کی مدد سے انجام تک پہنچتا ہے، جو کہ اس چین کی بے حد اہم کڑی ہوتے ہیں۔
پٹیالہ ضلع کی پاتڑاں تحصیل کے دُگل کلاں گاؤں کی رہنے والی امن دیپ کور کا ماننا ہے کہ رسائی اور اعتماد، اس طرح کے نظام سے بڑے فائدے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں اپنی پیداوار کو سیدھے گاؤں کی منڈی (خرید مرکز) لے جا سکتی ہوں۔ اس میں تھوڑی آسانی بھی ہوتی ہے اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ فصلوں کی پیداوار کی کیا قیمت ملے گی (ایم ایس پی کے مطابق)۔ ریاست میں گنّے کی فصل کی جو حالت ہے وہ سب کچھ ہمارے سامنے ہی ہے۔ اس کے لیے کوئی مرکوزی نظام نہیں ہے، اس لیے کسانوں کو فصلوں کی پیداوار کبھی ایک شہر تو کبھی دوسرے شہر، جہاں بھی قیمت بہتر ملے وہاں لے جانا پڑتا ہے۔ بڑی امید سے بہتر قیمت کی تلاش میں ہم ریاست میں یہاں وہاں کیسے بھٹک سکتے ہیں؟‘‘
امن دیپ کی فیملی ۲۲ ایکڑ کی زمین پر کھیتی کرتی ہے، جس میں ۶ ایکڑ کی زمین ان کی ہے اور بقیہ زمین پٹّہ پر لی گئی ہے۔ وہ آگے بتاتی ہیں، ’’ہم کافی حد تک آڑھتیوں پر بھی منحصر ہیں۔ مثال کے طور پر، مان لیجئے کہ بارش ہو جاتی ہے اور ہماری گیہوں کی پیداوار بھیگ جاتی ہے، تو ہم اسے منڈی میں آڑھتیوں کے حوالے ۱۵ دنوں تک بھی چھوڑ سکتے ہیں، جب تک کہ وہ پوری طرح خشک نہ ہو جائے اور اتنے سب کے بعد بھی اس بات کو لے کر بے فکر رہ سکتے ہیں کہ پیداوار کی فروخت ہو جائے گی۔ لیکن پرائیویٹ منڈی کے معاملے میں بغیر کسی شک و شبہ کے پورے یقین سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہاں یہ سب ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
سنگرور تحصیل (ضلع سنگرور) کے منگوال گاؤں کے رہنے والے ۲۷ سالہ جگجیون سنگھ اپنی ۳ ایکڑ کی زمین پر گیہوں اور دھان کی کھیتی کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’فصلوں کی پیداوار کی فروخت کے بعد پیسے ۶ مہینے کے بعد ہی ملتے ہیں، لیکن ادائیگی سے پہلے کی مدت کے دوران گزر بسر کے لیے آڑھتیے ہمیں پیسے دے دیتے ہیں۔ ساتھ ہی، منڈی میں ہمیں اس بات کی بے فکری رہتی ہے کہ ایم ایس پی کی وجہ سے کم از کم لاگت تو مجھے واپس مل ہی جائے گی۔‘‘
حالانکہ، زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ کے تحت سرکار کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کا مقصد بچولیے کے رول کو ختم کرنا اور کسانوں کو اپنی پیداوار براہ راست خریدار کو فروخت کرنے کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ اس سے اے پی ایم سی منڈی نیٹ ورک کمزور یا تباہ ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی، آڑھتیوں کے ساتھ ساتھ پنجاب میں سبز انقلاب کے دور میں ۱۹۶۰ کے عشرے میں اپنی موجودگی میں آنے کے بعد، کئی دہائیوں میں بنی اور تیار ہوئی بھروسہ مند مارکیٹنگ چین کی دیگر کڑیاں بھی کمزور یا تباہ ہو سکتی ہیں۔
دہلی کی سرحد پر احتجاج کر رہے کسان اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں، جس کو لے کر ان کا خوفناک اندیشہ ہے کہ اس کے نافذ ہونے سے دہائیوں میں بنا اور تیار ہوا یہ مددگار بنیادی سہولیات والا ڈھانچہ منتشر ہو جائے گا۔ وہ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ کے خلاف بھی احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ یہ تینوں قوانین واپس لیے جائیں۔ یہ تینوں قوانین پہلی بار پچھلے سال ۵ جون کو آرڈیننس کے طور پر پاس کیے گئے تھے، اس کے بعد زرعی بل کے طور پر انہیں ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا اور ۲۰ تاریخ آتے آتے انہیں قانونی جامہ پہنا دیا گیا تھا۔
ان احتجاجوں کی شروعات ۲۶ نومبر، ۲۰۲۰ کو ہوئی؛ اور پنجاب میں اور پہلے وسط اگست میں شروع ہوئے چھوٹے مخالف احتجاجوں نے ستمبر- اکتوبر تک آتے آتے ایک بڑی تحریک کی شکل اختیار کر لی۔
پنجاب کے آڑھتی ایسوسی ایشن نے کسانوں کی اس تحریک کو اپنی حمایت دی ہے۔ اس کے صدر روندر چیما کہتے ہیں کہ منڈیاں کسانوں کو اپنی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل مہیا کراتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ منڈی میں پرائیویٹ تاجروں کی بھی موجودگی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر کسانوں کو لگتا ہے کہ انہیں مناسب قیمت نہیں مل رہی ہے، تو ان کے سامنے متبادل ہوتا ہے۔ نئے قانون سے کسانوں کی یہ مول تول کی طاقت ختم ہو جائے گی اور پرائیویٹ تاجروں کو اس بات کی کھلی چھوٹ ہوگی کہ وہ منڈی کے باہر پیداوار بیچے، جس کا سیدھا مطلب ہے کہ تاجر کو ٹیکس نہیں دینا پڑے گا (جو کہ ایم ایس پی سے زیادہ قیمت پر بیچنے پر تاجروں کو ادا کرنا ہوتا ہے)۔ اس لیے کوئی بھی تاجر خرید و فروخت کے لیے منڈی نہیں آئے گا اور اس طرح دھیرے دھیرے اے پی ایم سی سسٹم ناکارہ ہو جائے گا۔‘‘
اس اسٹوری کے لیے تصویریں ۱۴-۱۵ اپریل، ۲۰۲۱ کو کھینچی گئی تھیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز