جب مدھیہ پردیش کے محکمہ جنگلات کے ذریعہ سہریا آدیواسی، گُٹّی سمنیا کو ’چیتا متر‘ کے طور پر نامزد کیا گیا، تب انہیں ’’چیتوں کے نظر آنے پر اس کی اطلاع فاریسٹ رینجر کو دینے کے لیے کہا گیا تھا۔‘‘
حالانکہ، اس کام کے عوض پیسے نہیں ملنے تھے، لیکن یہ ایک اہم کام محسوس ہوتا تھا۔ آخرکار، یہ افریقی چیتے مال بردار جہازوں، فوج کے ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کئی ممالک اور سمندروں کو پار کرکے تقریباً ۸۰۰۰ کلومیٹر دور سے یہاں لائے گئے تھے۔ حکومت ہند نے ان کے سفر اور ملک میں ان کی باز آبادکاری پر اچھی خاصی غیر ملکی کرنسی خرچ کی تھی۔ یہ رقم کتنی ہے، اس کا انکشاف نہیں کیا گیا۔
’چیتا متر‘ کا کام انہیں غیر قانونی شکاریوں سے بچانے کے ساتھ ساتھ، ناراض دیہاتیوں سے بھی محفوظ رکھنا تھا، جن کی بستیوں میں وہ جانے انجانے کبھی بھی داخل ہو سکتے تھے۔ ملک کی خدمت کے اسی جذبے سے تقریباً ۵۰۰-۴۰۰ کی تعداد میں ان چیتا متروں کا اندراج کیا گیا۔ وہ جنگلات میں رہنے والے مقامی باشندے، کسان اور دہاڑی مزدور ہی تھے اور کونو – پالپور نیشنل پارک (کے این پی) کے کنارے آباد چھوٹی بستیوں اور گاؤوں میں پھیلے ہوئے تھے۔
لیکن جب سے یہ چیتے آئے ہیں، تب سے انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت سلاخوں کے گھیرے میں رہتے ہوئے گزارا ہے۔ کونو کے جنگل میں چہار دیواری مزید اونچی کر دی گئی، تاکہ چیتے جنگل سے باہر نہ نکلنے پائیں اور باہر کے لوگ جنگل میں داخل نہ ہونے پائیں۔ ’’ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ سیسئی پورہ اور باگچا میں نئے گیٹ بنا دیے گئے ہیں،‘‘ شرینواس آدیواسی کہتے ہیں۔ انہیں بھی ایک چیتا متر بنایا گیا ہے۔
گُٹّی اور ہزاروں دیگر سہریا آدیواسی اور دلت کسی زمانے میں کونو کے جنگل میں تیندوئے اور دوسرے جنگلی جانوروں کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ جون ۲۰۲۳ میں وہ اُن آخری لوگوں میں شامل تھے، جنہیں اس معروف منصوبہ کے سبب کونو میں واقع اپنے باگچا گاؤں کو چھوڑ کر ۴۰ کلومیٹر دور جانا پڑا۔ ان چیتوں کی وجہ سے اپنا گھر بار کھو دینے کے آٹھ مہینے بعد، انہیں آج بھی یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ان کو جنگل میں داخل ہونے سے کیوں روک دیا گیا ہے۔ ’’اگر مجھے جنگل سے اتنی دور رہنا پڑے، تو پھر میں چیتا متر کس بات کا ہوں؟‘‘
ان چیتوں کو اتنی سخت سیکورٹی میں رکھا گیا ہے اور ان کے ارد گرد اس قدر رازداری کا ماحول ہے کہ کسی آدیواسی کے لیے انہیں دیکھ پانا بھی ناممکن ہے۔ گُٹی اور شرینواس دونوں یک زبان ہو کر کہتے ہیں: ’’ہم نے چیتا کو صرف ایک ویڈیو میں ہی دیکھا ہے،‘‘ جسے محکمہ جنگلات کے نشر کیا تھا۔
فروری ۲۰۲۴ میں ہندوستان میں آٹھ چیتوں کی پہلی کھیپ آئے ہوئے ۱۶ مہینے پورے ہو جائیں گے۔ یہ چیتے ستمبر ۲۰۲۲ میں پہلی بار ہندوستان پہنچے تھے، اور ۲۰۲۳ میں ۱۲ چیتوں کا دوسرا جتھہ آیا تھا؛ برآمد کیے گئے چیتوں میں سے ۷، اور یہاں پیدا ہوئے ۱۰ میں سے ۳ چیتوں کی موت ہو چکی ہے – یعنی اب تک مجموعی طور پر ۱۰ چیتے مر چکے ہیں۔
جہاں تک اس پروجیکٹ کی کامیابی کی بات ہے، تو اس کے لیے ۵۰ فیصد شرح حیات کی ضرورت ہے۔ لیکن چیتوں کو شامل کیے جانے کے لیے بنایا گیا ایکشن پلان بتاتا ہے کہ تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن یہ پوری طرح کھلے میں گھومنے پھرنے والے چیتوں کے حساب سے بنایا گیا ہے، جب کہ کونو کے چیتوں کو ۵۰ ضرب ۵۰ میٹر سے لے کر صفر اعشاریہ پانچ (۵ء۰) ضرب ایک اعشاریہ پانچ (۵ء۱) مربع کلومیٹر کے سائز والے باڑوں میں رکھا گیا ہے۔ ان کو انھیں باڑوں میں علیحدہ رکھتے ہوئے خود کو نئی آب و ہوا کے موافق بنانا ہے، بیمار ہونے پر صحت یاب ہونا ہے، اور شاید شکار بھی کرنا ہوتا ہے – ان باڑوں کو شاید ۱۵ کروڑ روپے میں بنایا گیا ہے۔ ان چیتوں نے جنگل میں رہتے ہوئے، افزائش نسل اور شکار کرتے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزارا ہے، جب کہ منصوبہ کا بنیادی مقصد یہی ہے۔
اس کے برعکس، چیتے اپنے موجودہ ٹھکانوں پر شکار کر رہے ہیں، لیکن ’’وہ اب بھی اپنا علاقہ نہیں بنا پائے ہیں اور نہ ہی افزائش نسل کر پائے ہیں۔ ابھی تک ایک بھی جنوبی افریقی مادہ چیتوں کو نروں کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں ملا ہے۔ کونو میں پیدا ہوئے سات میں سے چھ بچوں کا باپ ایک ہی چیتا [پون] ہے،‘‘ ڈاکٹر ایڈرین ٹارڈِف کہتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے یہ بہترین ماہر پروجیکٹ چیتا کے ایک اہم رکن تھے، لیکن بعد میں بغیر کسی لاگ لپیٹ کے بولنے کی عادتوں کے سبب پہلے تو وہ اکیلے پڑتے گئے اور آخر میں انہیں پروجیکٹ سے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔
کونو، جو کبھی ۳۵۰ مربع کلومیٹر کی ایک جانوروں کی پناہ گاہ ہوا کرتا تھا، کو نیشنل پارک بنانے کے لیے اس کے سائز کو دو گنا بڑا کر دیا گیا، تاکہ جنگلی جانوروں کو کھلے علاقے میں شکار کرنے میں آسانی ہو۔ چیتے یہاں کھلے عام گھوم سکیں، اس کے لیے ۱۹۹۹ کے بعد سے ۱۶ ہزار سے زیادہ آدیواسیوں اور دلتوں کو جنگل سے بے دخل کیا جا چکا ہے۔
’’ہم باہر ہیں اور چیتے اندر!‘‘ باگچا کے سہریا آدیواسی، مانگی لال کہتے ہیں۔ مانگلی لال (۳۱) حالیہ دنوں ہی بے دخل کیے گئے ہیں اور شیو پور تحصیل کے چکبمولیا میں اپنے نئے گھر اور کھیت حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے میں مصروف ہیں۔
گُٹّی، مانگی لال اور شرینواس سہریا آدیواسی ہیں، جسے مدھیہ پردیش میں خاص طور پر کمزور درج فہرست برادریوں (پی وی ٹی جی) کا درجہ حاصل ہے، اور یہ برادری اپنے معاش کے لیے جنگل سے ملنے والی گوند، کھانا پکانے والی لکڑی، پھل، قند اور جڑی بوٹیوں پر منحصر رہی ہے۔
مانگی لال کہتے ہیں، ’’باگچا [جہاں سے انہیں بے دخل کیا گیا ہے] میں ہمارے لیے جنگل میں جانا بہت آسان تھا۔ میرے ۱۵۰۰ سے بھی زیادہ چیڑ کے درخت وہیں چھوٹ گئے، جن پر گزشتہ کئی نسلوں سے میرے خاندان کا حق تھا اور ان سے ہمیں گوند ملتا تھا۔‘‘ پڑھیں: کونو: آدیواسیوں کو اجاڑ کر چیتوں کو بسانے کی تیاری ۔ اب وہ اور ان کا نیا گاؤں اپنے درختوں سے تقریباً ۳۵-۳۰ کلومیٹر دور ہے؛ انہیں اپنے ہی جنگل میں جانے کی اجازت نہیں ہے – انہیں یہاں سے بے گھر کر کے باہر کی دنیا میں دھکیل دیا گیا ہے۔
’’ہم سے کہا گیا تھا کہ نقل مکانی کے عوض ہمیں ۱۵ لاکھ روپے دیے جائیں گے، لیکن ہمیں گھر بنانے کے نام پر صرف تین لاکھ روپے، غذائی اجناس کے لیے ۷۵ ہزار روپے اور ۲۰ ہزار روپے بیج اور کھاد خریدنے کے لیے دیے گئے،‘‘ مانگی لال بتاتے ہیں۔ محکمہ جنگلات کے ذریعہ تشکیل کردہ بے دخلی کمیٹی نے انہیں بتایا ہے کہ بقیہ ۱۲ لاکھ کے آس پاس رقم نو بیگھہ [تقریباً تین ایکڑ] زمین، بجلی، سڑک، پانی اور صاف صفائی کی مد میں رکھ لی گئی ہے۔
بلّو آدیواسی نو تعمیر باگچا گاؤں کے پٹیل (مکھیا، سربراہ) ہیں۔ بے دخل کیے گئے لوگوں نے ہی یہ طے کیا کہ پرانے آدمی کو ہی اس عہدہ پر برقرار رہنے دیا جائے۔ جاڑے کی شام کو ڈھلتی ہوئی دھوپ کی روشنی میں وہ تعمیراتی کام کے سبب جمع ہوئے ملبوں، سیاہ ترپال سے بنے خیموں اور ہوا میں پھڑپھڑاتے پلاسٹک کے ٹکڑوں کو دیکھ رہے ہیں۔ شیو پور شہر کی طرف جانے والی شاہراہ کے متوازی اینٹوں اور سیمنٹ سے بنے ادھورے مکانوں کی قطاریں دور تک دکھائی دے رہی ہیں۔ ’’ہمارے پاس اپنے گھر کو پورا بنانے یا اپنے کھیت کو نہر سے جوڑنے اور ڈھلان بنانے کے لیے پیسے نہیں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’آپ جو دیکھ رہے ہیں وہ ہماری بوئی ہوئی فصلیں نہیں ہیں۔ ہمیں اپنا کھیت مجبوراً یہاں ارد گرد کے لوگوں کو بٹائی [پٹہ] پر دینا پڑا۔ ہمیں جو پیسے ملے تھے، ہم ان پیسوں سے فصل اگانے کے قابل نہیں تھے،‘‘ بلّو کہتے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کی زمینیں گاؤں کی مبینہ اونچی ذاتوں کے مسطح اور اچھی طرح جُتائی کیے ہوئے کھیتوں جیسی زرخیز نہیں ہے۔
جب ۲۰۲۲ میں پاری نے بلّو سے بات کی تھی، تب انہوں نے بتایا تھا کہ بڑی تعداد میں بے گھر کیے گئے لوگ اب بھی ریاستی حکومت کے ذریعہ بیس سال پہلے کیے گئے وعدوں کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں: ’’ہم خود کو ایسی حالت میں نہیں پھنسانا چاہتے ہیں،‘‘ نقل مکانی کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا۔ پڑھیں: کونو پارک کو ۲۳ سالوں سے شیروں کا انتظار ہے ۔
حالانکہ، اب ان کے اور دیگر لوگوں کے ساتھ بھی بالکل یہی ہو رہا ہے۔
’’جب وہ ہم سے کونو کو خالی کرانا چاہتے تھے، تب انہوں نے پھٹاپھٹ ہماری مانگیں پوری کر دیں۔ اب آپ کو کوئی چیز چاہیے، تو وہ بات کو ٹھکرا دیتے ہیں،‘‘ اپنے چیتا متر کے عہدے کے باوجود گُٹی سمنیا کہتے ہیں۔
*****
سبھی آدیواسیوں کے چلے جانے کے بعد، ۷۴۸ مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ نیشنل پارک اب صرف چیتوں کا گھر ہے۔ یہ ایک نایاب سہولت ہے جس سے ہندوستانی کنزرویشنسٹ بھی کم حیرت میں نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گنگا میں پائی جانے والی ڈالفن، سمندری کچھوا، گوڈاوَن (تغدار پرندہ)، ایشیائی شیر، تبتی ہرن اور کئی مقامی انواع، ’’بالکل ختم ہونے کے دہانے پر ہیں…اور ہماری ترجیحات میں وہ ہیں۔‘‘ اس کا وائلڈ لائف ایکشن پلان ۲۰۳۱-۲۰۱۷ میں صاف طور پر ذکر ملتا ہے۔ چیتا ان کی ترجیحات میں نہیں ہے۔
حکومت ہند کو ان چیتوں کو کونو لانے میں متعدد پیچیدہ قانونی اور سفارتی کارروائیوں سے ہو کر گزرنا پڑا۔ سال ۲۰۱۳ میں ہندوستانی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں نایاب ہوتے جا رہے ایشیائی چیتوں (ایسینونکس جوبیٹس ویناٹیکس) کی جگہ افریقی چیتوں (ایسینونکس جوبیٹس) کو لانے کے منصوبہ کو ردّ کر دیا تھا۔
حالانکہ، جنوری ۲۰۲۰ میں نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی (این ٹی سی اے) کے ذریعہ دائر ایک عرضی پر عدالت عظمی نے تجربہ کرنے کی شرط پر چیتوں کو ہندوستان لانے کی اجازت دے دی۔ ساتھ ہی اپنے فیصلہ میں اس نے یہ بھی کہا کہ صرف این ٹی سی اے اس منصوبہ کے امکانات پر فیصلہ نہیں کرے گی، بلکہ اسے ماہرین کی ایک کمیٹی کی ہدایات کے مطابق چلنا ہوگا۔
ایک ۱۰ رکنی اعلی سطحی پروجیکٹ چیتا اسٹیئرنگ کمیٹی قائم ہوئی۔ لیکن سائنس داں ٹارڈف، جو اس کمیٹی کے ایک رکن تھے، کہتے ہیں، ’’مجھے کسی بھی میٹنگ کے لیے کبھی نہیں بلایا گیا۔‘‘ پاری نے پروجیکٹ چیتا کے کئی ماہرین سے بات کی، جن کا کہنا ہے کہ ان کی صلاح و مشوروں کی مسلسل اندیکھی کی گئی اور ’’اونچے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو کوئی جانکاری نہیں تھی، لیکن وہ ہمیں آزادی سے کام بھی نہیں کرنے دیتے تھے۔‘‘ یہ بات بہرحال صاف تھی کہ کوئی اونچے عہدہ پر بیٹھا آدمی یہ چاہتا تھا کہ پروجیکٹ کم از کم ظاہری طور پر کامیاب دکھائی دے، اس لیے سبھی ’منفی‘ اطلاعات کو دبانے کی کوششیں کی جاتی تھیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ نے گویا امکانات کے دروازے کھول دیے، کیوں کہ چیتا پروجیکٹ کو بہت تیزی سے نافذ کیا جانے لگا۔ ستمبر ۲۰۲۲ میں وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ یہ تحفظ کی سمت میں ایک بڑی جیت ہے اور ان درآمد شدہ چیتوں کی تصویروں کے ساتھ کونو میں اپنا ۷۲واں یوم پیدائش منایا۔
تحفظ کے تئیں وزیر اعظم کے اس جوش کو اس لیے بھی متضاد سمجھایا گیا کہ ۲۰۰۰ کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے انہوں نے ’گجرات کا فخر ‘ کہے جانے والے شیروں کو ریاست سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں دی تھی، جب کہ اُس وقت سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ صاف کہا تھا کہ ایشیائی شیر نایاب ہونے والی بحران زدہ انواع (انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر) کی آئی یو سی این کے ذریعہ جاری ریڈ لسٹ میں شامل ہیں۔
دو دہائی بعد بھی یہ شیر شدید بحران سے گزر رہے ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے انہیں دوسرے گھر کی ضرورت ہے۔ آج صرف گنتی کے ایشیائی شیر (پینتھیرا لیو پارسیکا) بچے ہیں، اور سبھی گجرات کے جزیرہ نما علاقے سوراشٹر میں رہتے ہیں۔ ان شیروں کو تحفظ کے مقصد سے کونو لایا جانا تھا۔ اور یہ حفاظتی منصوبہ سیاست کو نہیں، بلکہ سائنس کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔
چیتا پروجیکٹ پر حکومت کا اتنا زیادہ زور تھا کہ ہندوستان نے نامیبیا کو خوش کرنے کے لیے ہاتھی دانت کی خرید سے متعلق اپنی سخت پالیسیوں کو نرم کرنا ضروری سمجھا۔ کونو میں افریقی چیتوں کی دوسری کھیپ نامیبیا سے ہی لائی گئی تھی۔ ہمارے جنگلاتی حیات کے تحفظ کا قانون، ۱۹۷۲ کی دفعہ ۴۹بی کے تحت ہاتھی دانت کی کسی بھی قسم کی تجارت ممنوع ہے۔ یہاں تک کہ اس دائرے میں درآمدات بھی شامل ہے۔ نامیبیا ہاتھی دانت کا برآمدی ملک ہے، اس لیے ہندوستان سال ۲۰۲۲ میں ’کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ اینڈینجرڈ اسپیسیز آف وائلڈ فونا اینڈ فلورا (سی آئی ٹی ای ایس)‘ کی پناما کانفرنس میں ہاتھی دانت کی پیشہ ورانہ تجارت پر ہونے والی ووٹنگ میں غیر حاضر رہا۔ یہ نامیبیا سے آئے ان چیتوں کے عوض تھا۔
تمام آدیواسیوں کے چلے جانے کے بعد، ۷۴۸ مربع کلومیٹر میں پھیلا یہ نیشنل پارک اب صرف چیتوں کا گھر ہے۔ لیکن ہماری ترجیحات میں گنگا میں پائی جانے والی ڈالفن، سمندری کچھوے، گوڈاوَن (تغدار پرندہ)، ایشیائی شیر، تبتی ہرن اور دیگر مقامی انواع ہونے چاہئیں، جو انتہائی بحران کی حالت میں ہیں، نہ کہ باہر سے لائے گئے چیتے
ادھر باگچا میں مانگی لال کہتے ہیں کہ چیتے ان کے ذہن میں نہیں آتے ہیں۔ ان کی بنیادی تشویش اپنی چھ رکنی فیملی کے کھانے پینے اور کھانا پکانے کی لکڑیوں کا انتظام کرنے سے جڑی ہے۔ ’’ہم صرف کھیتی کے بھروسے زندہ نہیں بچیں گے،‘‘ وہ صاف صاف کہتے ہیں۔ کونو میں اپنے گھروں میں وہ باجرہ، جوار، مکئی، دالیں اور ساگ سبزیاں اگاتے تھے۔ ’’یہ مٹی دھان کی فصل کے لیے اچھی ہے، لیکن کھیت کو فصل اگانے کے لیے تیار کرنا بہت مہنگا ہے اور ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔‘‘
شرینواس بتاتے ہیں کہ کام پانے کے لیے انہیں جے پور جانا ہوگا۔ ’’یہاں ہمارے لیے کوئی کام نہیں ہے۔ جنگل میں جانے پر پابندی لگ جانے کی وجہ سے ہماری آمدنی کا ذریعہ بند ہو گیا ہے،‘‘ تین بچوں کے والد شرینواس اپنی تشویش کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ان کے سب سے چھوٹے بچے کی عمر ابھی صرف آٹھ مہینے ہے۔
ماحولیات، جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت (ایم او ای ایف سی سی) کے ذریعہ نومبر ۲۰۲۱ میں جاری ’ایکشن پلان فار چیتا انٹروڈکشن اِن انڈیا‘ میں مقامی لوگوں کے لیے نوکریوں کے انتظام کا ذکر کیا گیا تھا۔ لیکن چیتوں کی دیکھ بھال اور سیاحت سے متعلق تقریباً ۱۰۰ نوکریوں کے بعد، ایک بھی مقامی شخص کو اس کا فائدہ نہیں ملا۔
*****
پہلے شیروں اور اب چیتوں کو ریاستی اور قومی سیاست اور سیاست دانوں کی شبیہ کو بہتر کرنے میں اہم رول ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ کنزرویشن یا تحفظ کا مقصد تو بس دکھاوا ہے۔
چیتا ایکشن پلان ۴۴ صفحات پر مشتمل ایک دستاویز ہے، جس کے ذریعہ ملک کی مکمل حفاظتی پالیسی کو چیتوں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ ایکشن پلان میں یہ کہا گیا ہے کہ اس پروجیکٹ سے ’گھاس کے میدانوں کو نئی زندگی ملے گی…کالے ہرنوں کی حفاظت ہوگی… جنگلات انسانوں کی دخل اندازی سے پاک ہوں گے…‘ اور ایکو ٹورزم (ماحولیاتی سیاحت) اور ملک کی عالمی شیبہ بہتر ہوگی – ’چیتوں کی حفاظت سے متعلق کوششوں کے سبب دنیا ہندوستان کو اس کام میں تعاون کرنے والے ملک کے طور پر دیکھے گی۔‘
اس پروجیکٹ کے لیے پیسوں کا انتظام این ٹی سی اے، ایم او ایف سی سی اور پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگ انڈین آئل کی کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (سی ایس آر) کے ذریعہ مشترکہ طور پر فراہم کردہ تقریباً ۱۹۵ کروڑ روپے کے بجٹ (۲۰۲۱) سے کیا گیا ہے۔ غور طلب ہے کہ آج تک کسی بھی دوسرے چرند و پرند کے لیے کبھی بھی اتنا بڑا بجٹ مختص نہیں کیا گیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ مرکز کے ذریعہ اتنی گہری دلچسپی لینے کے سبب ہی چیتا پروجیکٹ پر بحران بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ ’’ریاستی حکومت پر اعتماد کرنے کی بجائے حکومت ہند کے عہدیداروں نے پروجیکٹ کو دہلی سے ہی کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ سے بہت سارے مسائل بغیر کسی حل کے جوں کے توں رہ گئے،‘‘ جے ایس چوہان کہتے ہیں۔
جب چیتوں کو منگوایا گیا تھا، چوہان اُس وقت مدھیہ پردیش کے چیف وائلڈ لائف وارڈن تھے۔ ’’میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ کونو نیشنل پارک میں ۲۰ سے زیادہ چیتوں کو رکھنے لائق مناسب جگہ نہیں ہے، اس لیے ہمیں اجازت دی جائے کہ کچھ جانوروں کو چیتا ایکشن پلان میں شناخت شدہ متبادل مقامات پر بھیجا جا سکے۔‘‘ چوہان کا اشارہ پڑوس میں راجستھان میں واقع مُکندرا ٹائیگر ریزرو کی طرف تھا، جو جنگل میں ۷۵۹ مربع کلومیٹر کی گھیرا بندی والے رقبہ میں پھیلا ہوا ہے۔
انڈین فاریسٹ سروس کے ریٹائرڈ افسر، چوہان کہتے ہیں کہ انہوں نے این ٹی سی اے کے ممبر سکریٹری ایس پی یادو کو کئی خطوط لکھ کر یہ گزارش کی کہ ’’چیتوں کی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مناسب فیصلہ لیں۔‘‘ لیکن ان خطوط کا کوئی جواب نہیں آیا۔ انہیں اپنے عہدہ سے جولائی ۲۰۲۳ میں آزاد کر دیا گیا، اور کچھ مہینے بعد ان کا ریٹائرمنٹ بھی ہو گیا۔
پروجیکٹ پر عمل درآمد کرنے والے لوگوں کو صاف طور پر کہہ دیا گیا کہ ان بیش قیمتی چیتوں کو ایسی ریاست (راجستھان) میں بھیجنا قطعی ممکن نہیں ہے، جہاں مخالف پارٹی کانگریس کی حکومت تھی۔ ’’خاص طور پر جب تک [نومبر اور دسمبر ۲۰۲۳ میں] انتخابات نہیں ہو جاتے۔‘‘
چیتوں کا مفاد کسی کی ترجیح نہیں تھی۔
’’ہم اتنے معصوم تھے کہ یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ تحفظ کا ایک عام منصوبہ ہے،‘‘ ٹارفڈ پوری مضبوطی کے ساتھ کہتے ہیں۔ انہیں اب ایسا لگنے لگا ہے کہ اس پروجیکٹ سے دوری اختیار کر لینی چاہیے۔ ’’ہم اس کے سیاسی نتائج کا اندازہ نہیں لگا پائے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے چیتوں کی منتقلی کے کئی منصوبوں پر کام کیا ہے، لیکن ان کا مقصد تحفظ تھا۔ اُن منصوبوں کا تعلق کسی سیاسی رسہ کشی سے نہیں تھا۔
دسمبر میں مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی اقتدار میں دوبارہ واپسی کے بعد، اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز جاری کی گئی کہ مدھیہ پردیش میں ہی واقع گاندھی ساگر وائلڈ لائف سینکچری (ٹائیگر ریزرو نہیں) کو چیتوں کی اگلی کھیپ کی منتقلی کے لیے تیار کیا جائے گا۔
بہرحال، ابھی یہ طے نہیں ہے کہ چیتوں کی تیسری کھیپ کہاں سے آئے گی، کیوں کہ اپنے ملک کے ماہرین تحفظ (کنزرویشنسٹ) کے ذریعہ تنقید کیے جانے کے بعد جنوبی افریقہ کی حکومت زیادہ جانوروں کو بھیجے جانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہی ہے۔ وہاں کے ماہرین تحفظ کا سوال تھا کہ چیتوں کو مرنے کے لیے ہندوستان کیوں بھیجا جا رہا ہے۔ ’’سننے میں آیا تھا کہ کینیا سے اس کی گزارش کی جا سکتی ہے، لیکن کینیا خود بھی چیتوں کی تعداد میں ہونے والی کمی کا سامنا کر رہا ہے،‘‘ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک ماہر نے یہ بات بتائی۔
*****
’’جنگل میں منگل ہو گیا،‘‘ مذاقیہ لہجے میں مانگی لال کہتے ہیں۔
ایک سفاری پارک کو جنگلی چیتوں کی ضرورت نہیں۔ شاید اس کمی کی تلافی باڑے میں قید چیتوں سے ہو سکے گی۔
ان چیتوں کے پیچھے ہندوستان کا پورا سرکاری محکمہ لگا ہوا ہے – مویشیوں کے ڈاکٹروں کی ایک پوری فوج، ایک نیا اسپتال، ۵۰ سے زیادہ تلاشی مہم میں شامل ایک ٹیم، کیمپر وین کے ۱۵ ڈرائیور، ۱۰۰ فاریسٹ گارڈ، وائرلیس آپریٹر، انفرا ریڈ کیمرہ آپریٹر اور خاص مہمانوں کے لیے ایک سے زیادہ ہیلی پیڈ۔ یہ سہولیات تو پارک کے اندر ہیں، جب کہ مضافاتی علاقوں میں تعینات گارڈ اور رینجروں کا ایک بڑا دستہ الگ سے تعینات ہے۔
چیتوں کو ریڈیو کالر لگا دیے گئے ہیں، تاکہ ان کی نگرانی کی جا سکے۔ جنگل میں ہو کر بھی وہ جنگل میں نہیں ہیں، اس لیے ان کا عام انسانوں کو نظر آنا ابھی باقی ہے۔ چیتوں کے آنے سے کچھ ہفتے قبل مقامی لوگوں میں کوئی جوش نہیں تھا۔ بندوق بردار گارڈ جاسوس السیشین کتوں کو لے کر کونو نیشنل پارک (کے این پی) کے کنارے آباد بستیوں میں کبھی بھی آ جاتے تھے۔ گارڈوں کی وردی اور کتوں کے تیز دانتوں سے خوفزدہ دیہاتیوں کو وارننگ دی جاتی تھی کہ اگر وہ چیتوں کے رابطے میں آئے، تو سونگھنے والے کتے ان کی بو سے انہیں ڈھونڈ نکالیں گے اور ان کتوں کو انہیں جان سے مار ڈالنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے گا۔
انٹروڈکشن آف چیتا اِن انڈیا کی سالانہ رپورٹ ۲۰۲۳ کے مطابق، کونو کا انتخاب ’’شکار کی مناسب دستیابی‘‘ کے سبب کیا گیا تھا۔ لیکن یا تو یہ بات غلط تھی یا حکومت اس سلسلے میں کوئی چوک ہو جانے سے بچنا چاہتی ہے۔ ’’ہمیں کونو میں شکار کی نئی بنیاد بنانی ہوگی،‘‘ یہ بات مدھیہ پردیش کے پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ (پی سی سی ایف) اسیم شریواستو نے اس رپورٹر کو بتائی۔ انہوں نے جولائی ۲۰۲۳ میں اپنا عہدہ سنبھالا ہے اور کہتے ہیں کہ تیندوؤں کی آبادی بڑھ کر تقریباً ۱۰۰ ہو گئی ہے، اور اس کا دباؤ کھانے کی دستیابی پر پڑا ہے۔
شریواستو مزید کہتے ہیں، ’’ہم شکار کے لحاظ سے چیتل [دھبے والے ہرن (ایکسس ایکسس) ] کی افزائش کو فروغ دینے کے لیے ۱۰۰ ہیکٹیئر کا ایک گھیرا بنا رہے ہیں، تاکہ بحران کی حالت میں کھانے کی کمی نہ ہو۔‘‘ شریواستو نے انڈین فاریسٹ سروس کے آفیسر کے طور پر، دو دہائی سے بھی زیادہ عرصے تک پینچ، کانہا اور باندھو گڑھ ٹائیگر ریزرو کی ذمہ داری سنبھالی ہے۔
ان چیتوں کے لیے رقم کا انتظام کوئی ایشو نہیں ہے۔ حال ہی میں جاری ایک رپورٹ بتاتی ہے، ’’چیتا کو ہندوستان میں لانے کے پہلے مرحلہ کی مدت پانچ سالوں کی ہے اور اس کے لیے ۳۹ کروڑ ہندوستانی روپے [۵۰ لاکھ امریکی ڈالر] کا بجٹ مقرر کیا گیا ہے۔‘‘
کنزرویشن سائنس داں ڈاکٹر روی چیلم چیتوں کو بسانے کے اس منصوبہ کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’یہ مشہور و معروف اور سب سے مہنگے منصوبوں میں سے ایک ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ باہر سے لائے شکار سے چیتوں کا پیٹ بھرنا ایک غلط روایت کی شروعات ہے۔ جنگلاتی حیات سے وابستہ یہ حیاتیاتی سائنس داں کہتے ہیں، ’’اگر ایسا تحفظ کے نظریہ سے کیا جا رہا ہے، تو ہم ایسا کرکے قدرتی عمل میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور اس کے منفی نتائج کا اندازہ لگا پانا مشکل ہے۔ ہمیں ان چیتوں کے ساتھ جنگلی جانوروں کی طرح پیش آنا ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر چیلم شیروں کا مطالعہ کر چکے ہیں، اور اب چیتا پروجیکٹ پر محتاط نظر رکھے ہوئے ہیں۔
’’انہیں طویل عرصے تک اور نسبتاً چھوٹی گھیرا بندی میں کھانے کے لیے شکار مہیا کرا کر ہم دراصل ان کی جسمانی صلاحیت اور چابکدستی کو کم کر رہے ہیں، جس کے طویل مدتی نتائج سامنے آئیں گے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ ڈاکٹر چیلم نے ۲۰۲۲ میں وارننگ دی تھی، ’’یہ اور کچھ نہیں، بس ایک تعریف بٹورنے والا اور خرچیلا سفاری پارک بنائے جانے کی قواعد ہو رہی ہے۔‘‘
ان کی یہ بات آج سچ ثابت ہو رہی ہے: ۱۷ دسمبر ۲۰۲۳ کو ایک پانچ روزہ جشن کے ساتھ چیتا سفاری کی شروعات ہوئی۔ آج روزانہ وہاں سو ڈیڑھ سو لوگ گھومنے آتے ہیں اور کونو میں جیپ سفاری کے نام پر ۳۰۰۰ سے ۹۰۰۰ روپے تک خرچ کرتے ہیں۔
نئے ہوٹلوں اور سفاری آپریٹروں کو اس کا پورا فائدہ مل رہا ہے۔ مسافروں سے چیتا سفاری کے ساتھ ’ایکو ریزورٹ‘ میں ایک شب قیام کرنے کے ۱۰ ہزار سے ۱۸ ہزار روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔
ادھر باگچا میں لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں اور ان کا مستقبل بے یقینیوں کے بادل سے گھرا ہوا ہے۔ ’’چیتوں کے آنے سے ہمارا کوئی فائدہ نہیں ہوا،‘‘ بلّو کہتے ہیں۔ ’’اگر ہمیں وعدے کے مطابق پورے ۱۵ لاکھ روپے دے دیے جاتے، تو آج اپنے کھیت نہر سے جوڑ پاتے، اور مسطح کروا کر اسے اچھے سے تیار کر پاتے۔ ہم نے اپنا گھر بھی پورا بنوا لیا ہوتا۔‘‘ مانگی لال فکرمندی میں ڈوبے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم کوئی کام نہیں کر پا رہے ہیں، ہم اپنا پیٹ کیسے بھریں گے؟‘‘
سہریا آدیواسیوں کی زندگی کے دوسرے گوشے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ دیپی اپنے پرانے اسکول میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا، اور اس نئی جگہ آنے کے بعد اس کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا۔ وہ بتاتا ہے، ’’یہاں آس پاس کوئی اسکول نہیں ہے۔‘‘ یہاں کا سب سے قریبی اسکول بھی بہت دور ہے۔ چھوٹے بچے اس معاملے میں تھوڑے قسمت والے ہیں۔ روزانہ ایک ٹیچر ان کو آ کر کھلے آسمان کے نیچے پڑھاتا ہے۔ اس کے لیے یہاں کوئی عمارت نہیں ہے۔ ’’لیکن سبھی بچے پڑھنے ضرور جاتے ہیں،‘‘ مانگی لال مجھے حیرت میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں۔ وہ مجھے یاد دلاتے ہیں کہ یہ جنوری کی شروعات کے سبب چھٹی کا دن ہے اور اسی لیے آج ٹیچر نہیں آئے ہیں۔
یہاں رہائش پذیر لوگوں کے لیے ایک بورویل کھودا گیا ہے اور پاس میں ہی پانی کی بڑی سفید ٹنکیاں پڑی ہوئی ہیں۔ صاف صفائی سے متعلق سہولیات کی شدید کمی کے سبب خاص کر عورتوں کو کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’’آپ ہی بتائیے، ہمیں [عورتوں کو] کیا کرنا چاہیے؟‘‘ اوم وَتی کہتی ہیں۔ ’’کہیں کوئی بیت الخلاء نہیں ہے۔ اور، زمین کو اس طرح صاف کیا گیا ہے کہ کہیں کوئی درخت تک نہیں ہے، جس کے پیچھے عورتیں پردہ کر سکیں۔ ہم نہ تو کھلے میں جا سکتے ہیں اور نہ آس پاس لگی فصلوں کے درمیان۔‘‘
اوم وَتی (۳۵) کے پانچ بچے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے لیے گھاس اور ترپال کے ٹینٹ (جن میں فیملی رہتی ہے) کے سوا بھی دوسری مشکلیں ہیں۔ ’’ہمیں جلاون کی لکڑی لانے کے لیے بہت دور جانا پڑتا ہے۔ اب جنگل ہم سے اتنا دور ہو گیا ہے۔ مستقبل میں ہم کیسے گزارہ کریں گے؟‘‘ دوسری عورتیں بتاتی ہیں کہ وہ انھیں لکڑیوں سے کام چلانے کی کوشش کر رہی ہیں جو ساتھ لائی تھیں۔ اس کے علاوہ، وہ اپنی زمین کی مٹی کھود کر پودوں کی جڑیں نکالتی ہیں، تاکہ ان کا بھی جلاون میں استعمال ہو سکے۔ لیکن ایک دن وہ بھی ختم ہو جائیں گی۔
اتنا ہی نیں، کونو کے ارد گرد لکڑی کے علاوہ دوسری جنگلاتی پیداوار میں کافی گراوٹ ہو رہی ہے، کیوں کہ چیتا پروجیکٹ کے سبب نئی گھیرا بندی کی گئی ہے۔ اس بارے میں تفصیل سے اگلی رپورٹ میں پڑھا جا سکے گا۔
چیتوں سے متعلق ایکشن پلان میں کہا گیا ہے کہ سیاحت سے ہونے والی آمدنی کا ۴۰ فیصد حصہ آس پاس کی برادریوں پر خرچ ہونا چاہیے، تاکہ ’بے دخل کیے گئے لوگوں کے لیے ایک چیتا کنزرویشن فاؤنڈیشن بنایا جا سکے، ہر گاؤں میں چیتوں پر نظر رکھنے والے چیتا متروں کو بھتہ دیا جا سکے، ارد گرد کے گاؤوں میں سڑکوں کی تعمیر، صاف صفائی، اسکول جیسے ترقیاتی پروجیکٹ شروع کیے جا سکیں‘۔ لیکن ڈیڑھ سال گزر جانے کے بعد بھی یہ سارے کام صرف کاغذ پر ہی ہوئے ہیں۔
’’اس طرح ہم کتنے دنوں تک زندہ رہ پائیں گے؟‘‘ اوم وَتی آدیواسی پوچھتی ہیں۔
کور فوٹو: ایڈرین ٹارڈِف
مترجم: محمد قمر تبریز