جنگل کے راجا سے آپ انتظار نہیں کروا سکتے۔

شیروں کو آنا تھا – وہ بھی سینکڑوں میل دور گجرات سے۔ لہٰذا ہر کسی کو یہ جگہ خالی کرنی پڑی تاکہ ان کے یہاں آنے پر انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔

یہ اچھی بات بھی تھی۔ بھلے ہی مدھیہ پردیش کے کونو نیشنل پارک میں بسے پیرا جیسے گاؤوں کو یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ سب ہوگا کیسے۔

کونو پارک کے باہر واقع اگارا گاؤں میں ہماری ملاقات رگھو لال جاٹو سے ہوئی، جن کی عمر ۷۰ سال سے زیادہ ہے۔ بات چیت کے دوران انہوں نے ہم سے کہا، ’’شیروں کے یہاں آنے سے یہ علاقہ بہت مشہور ہو جائے گا۔ ہمیں گائیڈ کی نوکری ملے گی۔ اس علاقے میں ہم دکانیں اور ڈھابے (یعنی کھانے کے ہوٹل) کھول سکتے ہیں۔ ہماری فیملی کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔‘‘

رگھو لال آگے کہتے ہیں، ’’بدلے میں ہمیں آبپاشی کی بہتر سہولت سے لیس زرخیز زمینیں، ہر موسم میں کام کرنے والی اچھی سڑکیں اور پورے گاؤں میں بجلی جیسی بنیادی سہولیات حاصل ہوں گی۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ’’سرکار نے تو ہم سے یہی وعدہ کیا تھا۔‘‘

اسی وعدے پر یقین کرکے پیرا گاؤں سمیت کونو نیشنل پارک کے اندر واقع ۲۴ گاؤوں کے تقریباً ۱۶۰۰ کنبوں نے اپنے گھروں کو خالی کر دیا تھا۔ وہ بنیادی طور سے سہریا آدیواسی، دلت اور غریب او بی سی ذات کے لوگ تھے۔ ان کی بے دخلی میں بلا وجہ ایک قسم کی جلد بازی دکھائی گئی۔

اس کام کے لیے بڑی تعداد میں ٹریکٹر منگوائے گئے، اور کئی نسلوں سے جنگل میں رہنے والے ان لوگوں کو اپنا گھر بار اور ساز و سامان چھوڑ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ ان کے پرائمری اسکول، ہینڈ پمپ، کنویں اور یہ لوگ جن زمینوں کو نسلوں سے جوتتے چلے آئے تھے، سبھی کچھ چھوٹ گئے۔ یہاں تک کہ ان کے مویشیوں کو بھی ان کے ساتھ نہیں جانے دیا گیا، کیوں کہ جنگل جیسے لمبے چوڑے چراگاہ دستیاب نہیں ہونے کی وجہ سے وہ مویشی ایک بوجھ ہو سکتے تھے۔

اس واقعہ کو اب ۲۳ سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اور وہ اب بھی شیروں کے وہاں آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

Raghulal Jatav was among those displaced from Paira village in Kuno National Park in 1999.
PHOTO • Priti David
Raghulal (seated on the charpoy), with his son Sultan, and neighbours, in the new hamlet of Paira Jatav set up on the outskirts of Agara village
PHOTO • Priti David

بائیں: سال ۱۹۹۹ میں کونو نیشنل پارک کے پیرا گاؤں سے بے دخل کیے جانے والے لوگوں میں سے ایک رگھو لال جاٹو بھی تھے۔ دائیں: اگارا گاؤں کے باہر قائم کردہ نئی بستی، پیرا جاٹو میں اپنے بیٹے سلطان اور پڑوسیوں کے ساتھ (چارپائی پر بیٹھے ہوئے) رگھو لال

اپنے بیٹے کے گھر کے باہر ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے رگھو لال کہتے ہیں، ’’سرکار نے ہم سے جھوٹ بولا تھا۔‘‘ اب تو ان کا غصہ بھی ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ البتہ، انہیں بس اس کا انتظار ہے کہ سرکار اپنے وعدوں کو پورا کرے گی۔ دلت برادری سے تعلق رکھنے والے رگھولال جیسے ہزاروں غریب اور بے سہارا لوگوں نے اپنی زمین، اپنے گھر، اپنا معاش سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔

بدقسمتی سے، رگھو لال کو ہونے والے نقصان سے کونو نیشنل پارک کا کوئی فائدہ نہیں ہو پایا۔ شیروں کے آنے کی خبر بھی دوسروں کے کام نہیں آئی۔ شیروں کو تو ان سے کچھ تبھی مل پاتا جب وہ یہاں آئے ہوتے۔ شیر تو یہاں آئے ہی نہیں۔

*****

شیر کسی زمانے میں وسطی، شمالی اور مغربی ہندوستان کے جنگلات میں آسانی سے دیکھے جا سکتے تھے۔ لیکن آج، ایشیائی شیر (پینتھیرا لیو لیو) صرف گیر کے جنگلوں اور اس کے چاروں طرف ۳۰ ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلے، گجرات کے سوراشٹر خطے تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں، جو کہ ایک جزیرہ نما علاقہ ہے۔ اس پورے علاقے کا چھ فیصد سے بھی کم رقبہ – یعنی ۱۸۸۳ مربع کلومیٹر – ان کی آخری محفوظ پناہ گاہ ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو جنگلی حیات کے ماہرین اور ماحولیات کے محافظین کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔

یہاں پر شمار کیے گئے ۶۷۴ ایشائی شیروں کو دنیا کی معروف تحفظاتی ایجنسی، آئی یو سی این نے خطرے سے دوچار انواع کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ یہاں کئی دہائیوں تک کام کر چکے جنگلی حیات کے محقق، ڈاکٹر فیاض اے خود سر موجودہ خطرے کی جانب واضح اشارہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’تحفظات کی بائیولوجی واضح طور پر بتاتی ہے کہ کسی بھی نوع کی چھوٹی آبادی کو اگر ایک چھوٹے سے گروپ تک ہی محدود کر دیا جائے، تو اسے مختلف قسم کی معدومیت کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

ایشیائی شیروں پر جن خطرات کی طرف ڈاکٹر خود سر نے اشارہ کیا ہے ان میں کینائن ڈسٹیمپر وائرس کا پھیلنا، جنگل کی آگ، ماحولیاتی تبدیلی، مقامی بغاوت وغیرہ شامل ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس قسم کے خطرات کی وجہ سے شیروں کی یہ چھوٹی سی آبادی تیزی سے ختم ہو سکتی ہے۔ شیر ہمارے قومی نشانات ہیں اور سرکاری مہروں پر بھی موجود ہیں، اس بات کو ذہن میں رکھیں تو ہندوستان کے لیے شیروں کا ختم ہونا کافی تشویش ناک ہے۔

خود سر کا اصرار ہے کہ ہندوستانی شیروں کے لیے اضافی پناہ گاہ کے طور پر کونو کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’’ان شیروں کی جینیاتی طاقت کو فروغ دینے کے لیے ان کے پرانے جغرافیائی علاقے میں ان کی کچھ ٹکڑیوں کو لا کر چھوڑنا انتہائی ضروری ہے۔‘‘

A police outpost at Kuno has images of lions although no lions exist here.
PHOTO • Priti David
Map of Kuno at the forest office, marked with resettlement sites for the displaced
PHOTO • Priti David

بائیں: کونو میں واقع اس پولیس چوکی پر شیروں کی تصویریں لگی ہوئی ہیں، حالانکہ یہاں ابھی کوئی شیر نہیں آیا ہے۔ دائیں: محکمہ جنگلات کے دفتر میں لگا کونو کا نقشہ، جس میں ان جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں پر یہاں سے بے دخل کیے گئے لوگوں کو لے جا کر دوبارہ بسایا گیا ہے

حالانکہ یہ کوئی نیا خیال نہیں ہے، بلکہ ۹۵-۱۹۹۳ کے درمیان شیروں کو کونو میں بسائے جانے کا ایک منصوبہ پہلی بار تیار کیا گیا تھا۔ اس منصوبہ کے تحت، گیر کے کچھ شیروں کو ۱۰۰۰ کلومیٹر دور واقع کونو میں لا کر بسایا جانا تھا۔ وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ڈبلیو آئی آئی) کے ڈین، ڈاکٹر یادویندر جھالا بتاتے ہیں کہ جن ۹ مقامات کو اس کام کے لیے نشان زد کیا گیا تھا ان میں اس منصوبہ کے لیے سب سے موزوں کونو کو ہی پایا گیا تھا۔

ڈبلیو آئی آئی، وزارت ماحولیات و جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی (ایم او ای ایف سی سی) اور ریاستی محکمے برائے جنگلی حیات کا تکنیکی شعبہ ہے۔ اس نے سریسکا، پنّہ، باندھو گڑھ کے گور اور ستپوڑہ کے بارہ سنگھا میں چیتوں کو دوبارہ بسانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔

تحفظاتی سائنس داں ڈاکٹر روی چیلّم کہتے ہیں، ’’کونو کا وسیع و عریض رقبہ (ارد گرد کے گاؤوں کو ملا کر تقریباً ۶۸۰۰ مربع کلومیٹر)، انسانوں کی آبادی کی کم از کم مداخلت، اس سے ہو کر گزرنے والی کسی شاہراہ کی غیر موجودگی وغیرہ اسے شیروں کے لیے ایک مثالی پناہ گاہ بناتا ہے۔‘‘ ان کے پاس اس خوبصورت اور طاقتور پستانیہ (ممالیہ) کی پناہ گاہوں سے متعلق چار سے بھی زیادہ دہائیوں تک کام کرنے کا تجربہ رہا ہے۔

ان کے مطابق، اس پروجیکٹ کا ایک دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ ’’اس قدرتی رہائش گاہ کی مختلف النوعی اور معیار – مثلاً چراگاہوں کی بڑے پیمانے پر دستیابی، بانس، دلدلی زمین وغیرہ کے سبب یہاں چھوٹے جانوروں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ اس علاقے میں چمبل کی متعدد معاون ندیاں بھی جو سال بھر پانی سے بھری رہتی ہیں، اور جنگلی علاقے میں پائے جانے والے چھوٹے جانداروں کی گزر بسر کا ایک بنیادی ذریعہ ہیں۔ انہی خوبیوں نے اس نیشنل پارک کو شیروں کی امکانی پناہ گاہ کے طور پر موزوں ہونے میں بڑا رول نبھایا ہے۔‘‘

اس کے لیے ہزاروں ہزار لوگوں کو کونو نیشنل پارک سے نکال کر انہیں میلوں دور دوسری جگہوں پر بسایا جانا ضروری تھا۔ اب تک وہ جنگل اور اس میں دستیاب وسائل سے اپنی روزی روٹی چلا رہے تھے، لیکن اب آنے والے سالوں میں ان کے لیے روزگار کے دوسرے ذرائع کی تلاش ضروری ہو گئی ہے۔

بہرحال، تب سے اب تک ۲۳ سال کا لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور کونو نیشنل پارک ابھی بھی شیروں کے آنے کا انتظار کر رہا ہے۔

*****

An abandoned temple in the old Paira village at Kuno National Park
PHOTO • Priti David
Sultan Jatav's old school in Paira, deserted 23 years ago
PHOTO • Priti David

بائیں: کونو نیشنل پارک کے پیرا گاؤں کا ایک ویران مندر۔ دائیں: پیرا میں واقع سلطان جاٹو کا پرانا اسکول، جو ۲۳ سال سے ویران پڑا ہے

کونو کی سرحد میں آنے والے ۲۴ گاؤوں کے مکینوں کو اپنے بے گھر کیے جانے کا پہلا خدشہ ۱۹۹۸ میں ہوا، جب اس علاقہ کے جنگلی محافظوں نے مقامی لوگوں سے بات چیت کے دوران یہ کہنا شروع کر دیا کہ جلد ہی اس علاقے کو قومی پارک بنا دیا جائے گا اور اسے انسانوں کی آبادی سے پوری طرح خالی کرا لیا جائے گا۔

منگو آدیواسی سوالیہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’ہم نے کہا بھی کہ ماضی میں بھی ہمیں شیروں اور دوسرے جانوروں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا ہنر آتا ہے، اس لیے ہمیں بے گھر کرنے کی کیا دلیل ہے؟‘‘ وہ چالیس سال کی عمر کے آس پاس کے ایک سہریا ہیں اور یہاں سے بے گھر کر دیے گئے لوگوں میں شامل ہیں۔

سال ۱۹۹۹ کی ابتدا میں گاؤوں کے لوگوں کو مناسب طریقے سے اعتماد میں لیے بغیر ہی محکمہ جنگلات نے کونو کی سرحد سے ملحق علاقوں کی صفائی کا کام شروع کر دیا۔ درختوں کو کاٹ کر گرا دیا گیا اور زمینوں کو جے سی بیمفورڈ ایکسکویٹروں (جے سی بی) کی مدد سے برابر کر دیا گیا۔

سال ۱۹۹۹ میں کونو میں ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر رہ چکے جے ایس چوہان بتاتے ہیں، ’’یہ باز آبادکاری اپنی مرضی سے تھی، اور میری نگرانی میں مکمل ہوئی تھی۔‘‘ فی الحال وہ مدھیہ پردیش کے پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹس اینڈ وائلڈ لائف وارڈن (پی سی سی ایف) ہیں۔

نقل مکانی کو آسان بنانے کے لیے تمام کنبوں کو یقین دلایا گیا کہ انہیں آبپاشی کی سہولت کے ساتھ دو ہیکٹیئر قابل کاشت زمین دی جائے گا۔ ۱۸ سال سے زیادہ کی عمر کے تمام مردوں کو اس سہولت کا لالچ دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی انہیں اپنا گھر بنانے کے لیے ۳۸ ہزار روپے کی مالی مدد حاصل کرنے کا حقدار بھی بتایا گیا۔ دو ہزار روپے کی اضافی رقم، نقل و حمل اور دیگر گھریلو ساز و سامان کے نام پر دینے کا وعدہ کیا گیا۔ انہیں یقین دلایا گیا کہ ان کے نئے گاؤں تمام قسم کی بنیادی سہولیات سے لیس ہوں گے۔

اور اس کے بعد پلپور تھانہ کو غیر فعال کر دیا گیا۔ ’’اس علاقے میں ڈکیتوں کے خوف سے تھانہ کا الارم وقتاً فوقتاً بجتا ہی رہتا تھا،‘‘ سید معراج الدین (۴۳ سال) کہتے ہیں، جو اس وقت اس علاقے میں ایک سماجی کارکن کے طور پر سرگرم تھے۔

ویڈیو دیکھیں: کونو کے رہائشی: جن کی وجہ سے نقل مکانی کی مصیبت برداشت کی اُن شیروں کو کبھی لایا ہی نہیں گیا

میزبان گاؤوں سے اس سلسلے میں پہلے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی انہیں نئے بے گھر ہونے والوں کو بسانے کے لیے ضروری سہولیات ہی ملی تھیں۔ بلکہ، نیشنل پارک کے دائرہ کو وسیع کرنے کے لیے ان کی زمینوں پر جو قبضہ کیا گیا تھا، اس کا معاوضہ بھی انہیں دیا نہیں گیا

اور پھر ۱۹۹۹ کی گرمیاں آ گئیں۔ لوگ اگلی فصل کی روپائی کی تیاریاں کر رہے تھے، جب کہ دوسری طرف کونو کے رہائشیوں نے نقل مکانی کرنی شروع کر دی تھی۔ وہ اگارا میں اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں نیلی پلاسٹک سے بنے خیموں میں اگلے دو تین سالوں کے لیے اپنا ڈیرہ ڈال لیا تھا۔

معراج الدین بتاتے ہیں، ’’محکمہ محصولات نے شروعات میں تو زمین کے ان نئے پٹّہ داروں کے مالکانہ حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اس لیے انہیں اس زمین کے کاغذات بنا کر نہیں دیے گئے۔ صحت، تعلیم، آبپاشی اور دوسرے محکموں کو بھی حرکت میں آنے میں ۸-۷ سال لگ گئے۔‘‘ معراج الدین فی الحال آدھار شِلا شکشا سمیتی کے سکریٹری ہیں۔ یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے، جو نقل مکانی کرکے اگارا گاؤں آنے والوں کے لیے ایک اسکول چلانے کے علاوہ دوسرے سماجی کام کرتی ہے۔

تئیس سال بعد پی سی سی ایف چوہان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’’گاؤوں کی باز آبادکاری محکمہ جنگلات کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ سرکار کی ذمہ داری ہے اور تبھی بے دخل کیے گئے لوگوں کو سرکاری راحت کا پورا فائدہ ملنا ممکن ہے۔ تمام محکموں کو بے گھر کیے گئے لوگوں کے دروازوں تک پہنچنا ہوگا۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘ ادھورے وعدوں کے بارے میں پوچھنے پر ان کا یہی کہنا ہے۔

شیو پور ضلع کی وجے پور تحصیل میں اُمری، اگارا، ارروڑ، چینتی کھیڑا اور دیوری گاؤوں میں ۲۴ خالی کرائے گئے گاؤوں سے آئے ہزاروں لوگوں کا سیلاب امنڈ پڑا۔ مقامی لوگوں کے مطابق، ان گاؤوں کی حقیقی تعداد ۲۸ تھی۔ میزبان گاؤوں سے اس سلسلے میں پہلے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی انہیں بے گھر کیے گئے نئے لوگوں کو بسانے کے لیے ضروری سہولیات ہی ملی تھیں۔ بلکہ، نیشنل پارک کے دائرہ کو وسیع کرنے کے لیے ان کی زمینوں پر جو قبضہ کیا گیا تھا، اس کا بھی انہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا۔

رام دیال جاٹو اور ان کی فیملی جون ۱۹۹۹ میں کونو پارک کے پیرا گاؤں سے آ کر اگارا کے باہری علاقے میں آباد چھوٹے سے ٹولہ، پیرا جاٹو میں رہنے لگے۔ اب ان کی عمر پچاس سال کے آس پاس ہو چکی ہے اور انہیں اب بھی اس کا افسوس ہے، ’’باز آباد کاری ہمارے لیے صحیح ثابت نہیں ہوئی۔ ہماری مشکلیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ آج بھی ہمارے کنووں میں پانی نہیں ہے اور ہمیں بیمار پڑنے کی صورت میں علاج کے لیے کافی پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور ہمارے لیے روزگار کے مواقع نہیں کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری دقتیں بھی ہیں۔‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’انہوں نے صرف جانوروں کے حق میں سوچا، لیکن ہمارے لیے کچھ بھی اچھا نہیں کیا۔‘‘

Ram Dayal Jatav regrets leaving his village and taking the resettlement package.
PHOTO • Priti David
The Paira Jatav hamlet where exiled Dalit families now live
PHOTO • Priti David

بائیں: رام دیال جاٹو کو اپنا گاؤں چھوڑ کر باز آباد کاری پیکیج لینے پر افسوس ہے۔ دائیں: پیرا جاٹو بستی، جہاں اب بے گھر کیے گئے دلت کنبے رہتے ہیں

رگھو لال جاٹو کہتے ہیں کہ شناخت کا مٹنا ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا: ’’ہم نے اپنی زندگی کے ۲۳ سال صرف دلاسوں پر گزار دیے اور ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ ہماری اپنی آزاد گرام سبھا کو ختم کرکے اسے یہاں پہلے سے ہی کام کر رہی گرام سبھا میں ملا دیا گیا۔‘‘

رگھو لال جاٹو اپنے گاؤں، پیرا سمیت ۲۴ گاؤوں کو فہرست میں شامل نہیں کیے جانے کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں۔ رگھو لال کے مطابق، جب ۲۰۰۸ میں نئی گرام سبھا بنی، تو پیرا سے اس کے محصولاتی گاؤں ہونے کے حقوق واپس لے لیے گئے۔ پیرا کے رہائشیوں کو چار الگ چھوٹے گاؤوں میں پہلے سے کام کر رہی پنچایت میں شامل کر لیا گیا۔ ’’اس طرح ہم نے اپنی پنچایت کھو دی۔‘‘

پی سی سی ایف چوہان کے مطابق، یہ ایک ایسا درد تھا جس کا وہ مداوا کرنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے کئی سرکاری عہدیداروں سے رابطہ کیا کہ متاثرین کو ان کی پنچایت واپس دے دی جائے۔ میں نے سرکاری محکموں سے کہا، ’آپ کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘ یہ کوشش میں نے اس سال بھی کی۔‘‘

اپنی خود کی پنچایت کے بغیر اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے ان لوگوں کو متعدد قانونی اور سیاسی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے۔

*****

منگو آدیواسی کہتے ہیں کہ نقل مکانی کرنے کے بعد سے ہی ’’جنگل کے دروازے ہمارے لیے بند ہو گئے۔ ہم گھاس اور چارہ بیچا کرتے تھے، لیکن اب ہمارے پاس اتنا بھی چارہ نہیں بچتا کہ ہم اپنی گایوں کو کھلا سکیں۔‘‘ مویشی کے لیے چارہ، جلانے کی لکڑی، لکڑی کے علاوہ دیگر جنگلاتی پیداوار اور اس قسم کی دوسری چیزوں سے بھی انہیں ہاتھ دھونا پڑا ہے۔

ماہر سماجیات پروفیسر اسمیتا کابرا اس المیہ کی جانب اشارہ کرتی ہیں: ’’محکمہ جنگلات کو اس بات کی فکر تھی کہ شیروں کے آ جانے کے بعد مویشیوں کی جان خطرے میں پڑ جائے گی، اس لیے انہیں یہاں سے جلد ہی روانہ کر دیا گیا۔ لیکن گاؤوں والوں کے پاس مویشیوں کو چھوڑ کر جانے کے سوا کوئی دوسرا متبادل نہیں بچا تھا، کیوں کہ ان کے لیے نئی جگہوں پر معقول مقدار میں چارہ دستیاب نہیں تھا۔‘‘

Mangu Adivasi lives in the Paira Adivasi hamlet now.
PHOTO • Priti David
Gita Jatav (in the pink saree) and Harjaniya Jatav travel far to secure firewood for their homes
PHOTO • Priti David

بائیں: منگو آدیواسی اب پیرا آدیواسی بستی میں رہتے ہیں۔ دائیں: گیتا جاٹو (گلابی رنگ کی ساڑی میں) اور ہرجنیا جاٹو اپنے گھروں کے لیے ایندھن کی لکڑی لانے کے لیے دور دور تک جاتی ہیں

کھیتی کی زمین تیار کرنے کی وجہ سے درختوں کی قطاروں کو کاٹ کر پیچھے کر دیا گیا۔ تقریباً ۲۳ سال کے ٹیچر اور اہروانی گاؤں، جہاں بے گھر کیے گئے سہریا آدیواسیوں کو دوبارہ بسایا گیا ہے، کے رہائشی کیدار آدیواسی بتاتے ہیں، ’’اب ہمیں ایندھن کی لکڑیاں جمع کرنے کے لیے ۴۰-۳۰ کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے پاس اناج ہوں، لیکن انہیں پکانے کے لیے ہمارے پاس مناسب مقدار میں ایندھن کی لکڑیاں نہیں ہیں۔‘‘

تقریباً ۵۰ سال کے آس پاس کی عمر کی گیتا اور ۶۰ کے آس پاس کی ہرجنیا جب شادی کے بعد اپنے گھروں سے شیو پور کی کراہل تحصیل، جو جانوروں کی اسی پناہ گاہ کا حصہ ہیں، میں واقع اپنے سسرالوں میں آئی تھیں تب وہ جسمانی طور پر مضبوط اور صحت مند تھیں۔ گیتا بتاتی ہیں، ’’اب ہمیں لکڑیاں جمع کرنے کے لیے پہاڑیوں پر جانا پڑتا ہے۔ اس میں پورا دن لگ جاتا ہے، اور کئی بار محکمہ جنگلات کے ملازمین ہمیں پریشان بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا، ہمیں کافی خطرہ مول لے کر یہ کام کرنا ہوتا ہے۔‘‘

پروفیسر کابرا یاد کرتی ہوئی بتاتی ہیں کہ نیشنل پارک کو شیروں کے لیے تیزی سے تیار کرنے کی جلد بازی میں محکمہ جنگلات نے درختوں اور جھاڑیوں کو روند ڈالا۔ معروف ماہر سماجیات نے ہمیں آگے بتایا، ’’حیاتیاتی تنوع کو کتنا نقصان پہنچا، اس کا کوئی اندازہ نہیں لگایا گیا۔ ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع کونو کے ارد گرد کے علاقوں میں نقل مکانی، غریبی اور روزگار کا تحفظ تھا۔ ماحولیاتی تحفظ اور نقل مکانی کے ماہر کے طور پر آج بھی اس علاقے میں ان کا نام بڑے ادب و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔

گوند اور ریزن حاصل کرنے کے لیے چیڑ اور دیگر درختوں تک رسائی حاصل نہ کر پانا ایک بڑا نقصان ہے۔ چیڑ سے بنے گوند مقامی بازاروں میں ۲۰۰ روپے کلو کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں اور ہر فیملی ۵-۴ کلو ریزن روزانہ جمع کر لیتی تھی۔ کیدار کہتے ہیں، ’’تیندو پتے (جن سے بیڑی بنتی ہے) سمیت دیگر درختوں سے بھی گوند بنانے کے لیے ریزن اکٹھا کیے جاتے ہیں۔ بیل، اچار، مہوا، شہد اور مختلف قسم کی دوسری قندوں کی پیداوار بھی کم ہو گئی۔ ہم سبھی لوگ معاش اور کھانے و کپڑے جیسی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انہیں پیداواروں پر منحصر تھے۔ ایک کلو گوند کے بدلے ہمیں پانچ کلو چاول مل جاتا تھا۔‘‘

اب کیدار کی ماں کُنگئی آدیواسی، جن کے پاس اہروانی گاؤں میں مانسون پر منحصر صرف دو بیگھہ قابل کاشت زمین ہے، جیسے کہ متعدد دوسرے لوگ ہیں جنہیں ہر سال کام کی تلاش میں مُرینا اور آگرہ کے شہروں میں جانا پڑتا ہے۔ وہ وہاں چند ایک مہینے تعمیراتی مقامات پر یومیہ مزدوری کرتے ہیں۔ تقریباً ۵۰ سال کی ہو چکیں کُنگئی کہتی ہیں، ’’آمدنی کی کمی کے مہینوں میں ہم دس بیس لوگ ایک ساتھ کام کی تلاش میں نکلتے ہیں، کیوں کہ یہاں کھیتی کے لائق کوئی کام دستیاب نہیں ہے۔‘‘

Kedar Adivasi and his mother, Kungai Adivasi, outside their home in Aharwani, where displaced Sahariyas settled.
PHOTO • Priti David
Large tracts of forests were cleared to compensate the relocated people. The loss of biodiversity, fruit bearing trees and firewood is felt by both new residents and host villages
PHOTO • Priti David

بائیں: کیدار آدیواسی اور ان کی ماں کُنگئی آدیواسی، اہروانی گاؤں میں واقع اپنے گھر کے باہر موجود ہیں، جہاں بے گھر کیے گئے سہریا آدیواسی آ کر دوبارہ آباد ہوئے تھے۔ دائیں: نقل مکانی کرنے والوں کے نقصان کی تلافی کے لحاظ سے جنگلات کے بڑے حصے کو صاف کیا گیا۔ حیاتیاتی تنوع، پھل دار درختوں اور ایندھن کی لکڑی کا نقصان نئے رہائشیوں اور میزبان گاؤوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے

*****

لال قلعہ سے ۱۵ اگست، ۲۰۲۱ کو یوم آزادی کے موقع پر دی گئی اپنی تقریر میں وزیر اعظم مودی نے ’ پروجیکٹ لاین ‘ کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، ’’یہ پروجیکٹ ملک میں ایشیائی شیروں کے مستقبل کو محفوظ بنائے گا۔‘‘

سال ۲۰۱۳ میں جب سپریم کورٹ نے ماحولیات، جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت کو شیروں کی منتقلی کا فرمان جاری کیا تھا، تب وزیر اعظم مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ عدالت کی واضح ہدایت تھی، ’’یہ کام آج سے ۶ مہینے کے اندر مکمل ہو جانا چاہیے۔‘‘ اور، لال قلعہ کی فصیل سے یہ اعلان کرنے کی وجہ بھی ملک میں ایشیائی شیروں کے مستقبل کو بچانا بتایا گیا تھا۔ تب سے آج تک، حکومت گجرات کے پاس اس کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے کہ اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے بعد وہ بھی کچھ شیروں کو کونو بھیجنے میں کیوں ناکام رہی۔

منتقلی کے موضوع پر گجرات کے محکمہ جنگلات کی ویب سائٹ پر بھی کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔ ماحولیات، جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت نے سال ۲۰۱۹ کی پریس ریلیز میں ’ایشیاٹک لاین کنزرویشن پروجیکٹ‘ کے لیے ۹۷ اعشاریہ ۸۵ کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان تو ضرور کیا، لیکن اس میں صرف ریاست گجرات کا ہی ذکر کیا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو ۱۵ اپریل، ۲۰۲۲ کو نو سال پورے ہو گئے جو اس نے ۲۰۰۶ میں دہلی کے ایک ادارہ کے ذریعے دائر کردہ مفادِ عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دیا تھا۔ اس عرضی میں عدالت سے ’’حکومت گجرات کو ریاست کے کچھ ایشیائی شیروں کو منتقل کرنے سے متعلق ہدایت‘‘ دینے کی فریاد کی گئی تھی۔

ڈبلیو آئی آئی کے ڈاکٹر جھالا کہتے ہیں، ’’سپریم کورٹ کے ۲۰۱۳ کے فیصلہ کے بعد کونو میں شیروں کی باز آباد کاری کی نگرانی کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ بہرحال، گزشتہ ڈھائی سالوں میں ماہرین کی اس کمیٹی کی ایک بھی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ اور، حکومت گجرات نے اس ایکشن پلان کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔‘‘

In January 2022, the government announced that African cheetahs would be brought to Kuno as there were no Asiatic cheetahs left in India.
PHOTO • Priti David
A poster of 'Chintu Cheetah' announcing that cheetahs (African) are expected in the national park
PHOTO • Priti David

بائیں: جنوری ۲۰۲۲ میں، حکومت نے اعلان کیا تھا کہ افریقی چیتوں کو کونو لایا جائے گا، کیوں کہ ہندوستان میں کوئی ایشیائی چیتا نہیں بچا تھا۔ دائیں: نیشنل پارک میں چیتوں (افریقی) کے آنے کی منادی کرتا ’چنٹو چیتا‘ کا ایک پوسٹر

دوسری جانب، کونو کو اسی سال افریقی چیتوں کی ہندوستان میں آمد کی جگہ کے طور پر بھی نشان زد کیا گیا ہے، جب کہ سپریم کورٹ اپنے اسی فیصلہ میں کہہ چکا ہے کہ ’’ماحولیات، جنگلات اور ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت کے ذریعے کونو میں افریقی چیتوں کو بسانے کا فیصلہ قانون کی نظر میں صحیح نہیں مانا جا سکتا اور اسے برطرف کیا جاتا ہے۔‘‘

سال ۲۰۲۰ میں پروجیکٹ لاین پر جاری ایک رپورٹ کے مطابق، تحفظ پسندوں نے اس سلسلے میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا، وہ بدقسمتی سے سچ ثابت ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ ڈبلیو آئی آئی، اور گجرات، مدھیہ پردیش اور راجستھان حکومت کی رپورٹیں اس صورتحال کے بارے میں اپنی اپنی فکرمندیوں کا اظہار کر چکی ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’گیر میں ببیسیوسس اور کینائن ڈسٹیمپر وائرس کے حالیہ حملے سے گزشتہ دو برسوں میں ۶۰ سے بھی زیادہ شیروں کی موت ہو چکی ہے۔‘‘

وائلڈ لائف بایولوجسٹ ڈاکٹر روی چیلّم کا یہی ماننا ہے، ’’صرف انسانوں کی ضد نے منتقلی کے اس عمل کو روک رکھا ہے۔‘‘ وہ منتقلی سے متعلق سماعت میں عدالت عظمیٰ کی فاریسٹ بینچ کے ماہر سائنسی صلاح کار کے طور پر عدلیہ کو اپنی خدمات فراہم کر چکے ہیں۔ ایک کنزرویشن سائنس داں اور میٹا اسٹرنگ فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او)، ڈاکٹر چیلّم نے شیروں کی منتقلی کے عمل اور اس میں ہونے والی تاخیر کے اسباب پر گہری نظر رکھی ہے۔

ڈاکٹر چیلم، جو کہ بائیو ڈائیورسٹی کولیبریٹو کے بھی رکن ہیں، کہتے ہیں، ’’شیر ایک بحران زدہ حالت سے گزر چکے ہیں اور اب بہت مشکل سے دوبارہ ان کی تعداد میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں بدقسمتی سے ہم کبھی بھی کوئی لاپروائی برتنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ خطرے سے دوچار انواع کے معاملے میں یہ ممکن بھی نہیں ہے – کیوں کہ بحران بھلے ہی نظر نہ آتا ہو، لیکن کبھی بھی موجود ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے بہت گہری اور اندرونی نگرانی رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘

*****

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: نیشنل پارک میں واقع پرانے پیرا گاؤں کا ایک سائن بورڈ۔ دائیں: ویران پڑے گاؤں کے زیادہ تر گھر ٹوٹ چکے ہیں، لیکن ایک پینٹ کیا ہوا دروازہ ابھی تک کھڑا ہے

’’انسانوں کو بھگا دیا، مگر شیر نہیں آیا!‘‘

کونو میں اپنا گھر گنوا چکے مونگو آدیواسی طنزیہ لہجے میں کہتے ہیں، لیکن ان کی خود کی آواز میں کوئی ہنسی نہیں جھلکتی ہے۔ حکومت کے ذریعے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو جانے کی صورت میں آدیواسیوں کو ان کا گھر اور زمین لوٹانے کی مانگ کے حق میں احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے لاٹھیاں بھی کھائی ہیں۔ ان کی پیشانی پر ٹانکے کے نشان اب بھی نظر آتے ہیں، ’’بہت بار ہمیں لگا کہ اب ہم واپس لوٹ سکیں گے۔‘‘

۱۵ اگست، ۲۰۰۸ کو معاوضہ کی واجب مانگ پر انہوں نے اپنا آخری احتجاج کیا تھا۔ رگھو لال کہتے ہیں، ’’ہم نے طے کیا کہ ہمیں ملی زمین کو چھوڑ کر ہم اپنی پرانی زمین پر واپس لوٹ جائیں گے۔ قانون میں بھی اس بات کا انتظام ہے کہ بعض حالات میں بے دخلی کے ۱۰ سالوں کے اندر ہی ہم اپنی بنیادی جگہوں پر دوبارہ لوٹ سکتے ہیں۔‘‘

بہرحال، ایک موقع گنوانے کے بعد بھی رگھو لال نے شکست قبول نہیں کی ہے اور حالات کو درست کرنے کے لیے اپنا وقت اور پیسہ دونوں لگا رہے ہیں۔ وہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اور تحصیل آفس کے سینکڑوں چکر لگا چکے ہیں۔ وہ اپنی پنچایت کا معاملہ اٹھانے کے لیے بھوپال واقع الیکشن کمیشن تک جا چکے ہیں۔ لیکن ان کی اس بھاگ دوڑ کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔

چونکہ بے گھر کیے گئے ان لوگوں کو کوئی سیاسی حمایت حاصل نہیں ہے، اس لیے ان کی آواز بے اثر ہے اور اسے دبا دیا گیا ہے۔ ’’ہم کیسے ہیں، یہ پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ کسی کو ہماری مشکلوں یا ضرورتوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ کوئی یہاں آتا جاتا بھی نہیں۔ اگر ہم محکمہ جنگلات کے دفتر جاتے ہیں، تو وہاں کوئی ملازم نہیں ملتا ہے،‘‘ پیرا کے رہائشی رام دیال بتاتے ہیں۔ ’’جب ہم ان سے ملنے میں کامیاب بھی ہوتے ہیں، تو وہ ہمیں جھوٹی تسلی دیتے ہیں کہ وہ ہمارے کام جلد ہی کر دیں گے، لیکن پچھلے ۲۳ سالوں میں کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔‘‘

کور فوٹو: سلطان جاٹو، پیرا گاؤں کی اس جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں جہاں کبھی ان کی فیملی کا پرانا گھر ہوا کرتا تھا۔

رپورٹر، سوربھ چودھری کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں، جنہوں نے اس رپورٹ کے لیے ضروری تحقیق اور ترجمے کا کام کیا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Priti David

پریتی ڈیوڈ، پاری کی ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں۔ وہ جنگلات، آدیواسیوں اور معاش جیسے موضوعات پر لکھتی ہیں۔ پریتی، پاری کے ’ایجوکیشن‘ والے حصہ کی سربراہ بھی ہیں اور دیہی علاقوں کے مسائل کو کلاس روم اور نصاب تک پہنچانے کے لیے اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Priti David
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique