ہاڈو بہیرا روزانہ ۱۲ گھنٹے کے لیے ایک ’مکان‘ کے مکین بن جاتے ہیں۔ ان اوقات میں یہ ۵۱ سالہ کرگھا مزدور شمالی سورت میں وید روڈ پر واقع چھ ضرب تین فٹ کی ایک گندی جگہ میں قیام کرتے ہیں۔
بہیرا کے ایک اور ساتھی مزدور اسی جگہ کو اگلے ۱۲ گھنٹے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وقت کا انحصار ان کی شفٹوں پر ہوتا ہے۔ یہ شفٹیں صبح ۷ بجے سے شام ۷ بجے تک اور اس کے برعکس ہوتی ہیں۔ بجلی کی کٹوتی کے دوران کبھی کبھار ’چھٹی‘ ہو جاتی ہے۔ وہ دن خوفناک ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسے میں تقریباً ۶۰ مزدوروں کو مہاویر میس (جہاں بہیرا اس وقت مقیم ہیں) کے ۵۰۰ مربع فٹ کے کمرے میں ایک ساتھ رہنا پڑتا ہے۔
گرمیوں کے مہینوں میں جب درجہ حرارت ۴۰ ڈگری سیلسیس تک پہنچ جاتا ہے تب حالات بہت تکلیف دہ ہو جاتے ہیں۔ سال ۱۹۸۳ میں اوڈیشہ کے گنجم ضلع کے پروسوتم پور بلاک کے کُسلاپلّی گاؤں سے سورت آنے والے بہیرا کہتے ہیں، ’’کچھ ہالوں [بڑے کمرے جہاں مزدور رہتے ہیں] میں ہمیشہ اندھیرا رہتا ہے اور ہوا آنے جانے کی جگہ نہیں ہوتی ہے۔ لوم (کرگھا) پر ایک طویل اور مشکل دن گزارنے کے بعد بھی ہمارے لیے سکون کے ساتھ آرام کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔‘‘
بہیرا کی طرح سورت کے پاورلوم مزدوروں کی ایک بڑی تعداد اوڈیشہ کے گنجم ضلع سے نقل مکانی کرکے یہاں آتی ہے (دیکھیں: کپڑے مصنوعی، مایوسی اصلی )۔ یہ مزدور ڈورمیٹریوں یا ’میس رومز‘ میں رہتے ہیں، جہاں گنجم ضلع سے اپنے سالانہ دوروں سے واپسی کے بعد انہیں پہلے آؤ پہلے پاؤ کی بنیاد پر جگہ ملتی ہے۔ یہ سبھی کمرے صنعتی محلوں میں واقع ہوتے ہیں، بعض تو لوم یونٹوں سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔ مشینوں کی تیز کھٹ کھٹ کی آوازیں انہیں اس وقت بھی سنائی دیتی ہیں، جب وہ ۱۲ گھنٹوں کی سخت محنت کے بعد اپنے عارضی بستروں پر لیٹتے ہیں۔
سورت اڑیہ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے اندازے کے مطابق، سورت میں گنجم ضلع کے کم از کم ۸ لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ گجرات، راجستھان اور مہاراشٹر میں مہاجر مزدوروں کے ساتھ کام کرنے والی تنظیم آجیوکا بیورو کے اندازے کے مطابق شہر کے ۵۱ ملین کرگھا مشینوں میں کام کرنے والے مہاجر مزدوروں کی یہ تعداد چھ لاکھ سے زیادہ ہے۔
یہ مزدور ۵۰۰ سے ۸۰۰ مربع فٹ کے کمروں میں رہتے ہیں، ہر کمرہ دو شفٹوں میں ۶۰ سے ۱۰۰ مزدوروں سے بھرا رہتا ہے۔ وہ پھٹے پرانے گدوں پر سوتے ہیں، جن میں بعض اوقات کھٹمل بھی پائے جاتے ہیں۔ مارے گئے کھٹملوں کے خون کے نشانات گندی دیواروں پر نظر آ جاتے ہیں۔ کچھ دیواروں پر مزدورں نے اڑیہ زبان میں اپنے نام لکھ رکھے ہیں۔ یہاں دیمک بھی ہیں اور کبھی کبھار چوہے بھی ادھر ادھر بھاگتے نظر آ جاتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں مزدور فرش پر یا پلاسٹک کی شیٹ پر سونے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ گدے مشترکہ ہوتے ہیں اور پسینے سے نم ہوجاتے ہیں اور ان سے بدبو آتی ہے۔
بکسے اورتھیلے ہر ایک اشتراک کی جانے والی جگہ کے سرہانے ایک کے اوپر ایک رکھے جاتے ہیں۔ ان میں کپڑوں کے اوسطاً تین سیٹ ہوتے ہیں اور چند ذاتی اشیاء کے علاوہ ٹھنڈی راتوں کے لیے ایک پتلا کمبل، کچھ نقدی اور دیوی دیوتاؤں کی تصویریں ہوتی ہیں۔
ہر کمرے کے ایک سرے پر دو بیت الخلاء ہوتے ہیں جنہیں تمام مکین استعمال کرتے ہیں۔ باورچی خانہ عام طور پر بیت الخلاء کے بالکل قریب ہوتا ہے۔ نہانے، پینے اور کھانا پکانے کے لیے پانی ایک مشترکہ ذریعہ سے آتا ہے۔ پانی کی سپلائی وقفے وقفے سے ہوتی ہے، اور زیادہ تر میس کمروں میں ٹینک یا پلاسٹک کے ڈرم میں پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے، اس لیے مزدور روزانہ غسل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
ان کمروں میں لگے چند پنکھے گرمی سے بمشکل راحت پہنچاتے ہیں۔ مہاویر میس مرکزی شہر میں واقع ہے۔ یہاں شاذ و نادر ہی بجلی گل ہوتی ہے، لیکن شہر کے مضافات میں واقع انجنی اور سایَن جیسے علاقوں میں دکشن گجرات ودیوت کمپنی لمیٹڈ ہفتے میں ایک دفعہ ۴ سے ۶ گھنٹے تک بجلی کاٹ دیتی ہے۔ مہاویر میس میں تین کھڑکیاں بھی ہیں، جو اسے پسندیدہ میس بناتی ہیں۔ شمالی سورت کے پھولواری میں واقع کاشی ناتھ بھائی میس کے کچھ کمروں میں کھڑکیاں نہیں ہیں۔ مستطیل نما ہالوں کے ایک سرے پر صرف ایک چھوٹا سا دروازہ ہے، جس کے ذریعہ تھوڑی سی ہوا اور روشنی آنے کی گنجائش بنتی ہے۔
کمروں میں ناقص وینٹیلیشن، زیادہ لوگوں کا قیام اور ناکافی پانی اکثر بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ۲۸ سالہ کرگھا مزدور کرشنا سبھاس گوڈ ۱۸ ماہ قبل تپ دق کے مرض میں مبتلا ہوکر فروری ۲۰۱۸ میں انتقال کر گئے۔ وہ پھولواری میں شمبو ناتھ ساہو کے میس میں تقریباً ۳۵ دیگر مزدوروں کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے واپس گنجم جاکر ٹی بی کا علاج شروع کروایا تھا، لیکن پیسے ختم ہونے کے سبب وہ سورت واپس آ گئے تھے، جہاں ان کے لیے علاج جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ اوپر سے پرہجوم کمرے میں سکون سے سونا بھی مشکل تھا۔
’’تپ دق انتہائی متعدی بیماری ہوتی ہے اور میس کمروں میں بھیڑ اور گندگی سے کوئی بچ نہیں سکتا،‘‘ آجیویکا بیورو، سورت، کے سینٹر کوآرڈینیٹر سنجے پٹیل کہتے ہیں۔ وہ گوڈ کے اہل خانہ کے لیے معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’’چونکہ گوڈ کی موت لوم یونٹ میں نہیں، بلکہ کمرے میں ہوئی تھی، اس لیے ان کا آجر معاوضہ ادا کرنے سے انکار کر رہا ہے…لیکن کام کی جگہ اور رہائشی کمرے ایک دوسرے سے متصل ہیں، اس لیے استحصال کو الگ کرنا مشکل ہے۔‘‘
گوڈ کی موت کے بمشکل چار ماہ بعد، جون ۲۰۱۸ میں، گنجم کی بگوڈا تحصیل کے بیرنچی پور گاؤں کے کرگھا مزدور سنتوش گوڈا (۱۸ سالہ) کی اچانک کسی بیماری کی وجہ سے موت واقع ہو گئی تھی۔ بخار، نزلہ اور پیچش میں مبتلا ہونے کے دو رات بعد، گوڈا نے مینا نگر کے بھگوان بھائی میس میں بیت الخلاء کے اندر ہی دم توڑ دیا تھا۔ ’’وہ ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں گیا،‘‘ ان کے کمرے میں رہنے والے ایک ساتھی مزدور نے کہا۔ ’’وہ تقریباً تین سال سے سورت میں تھا، لیکن یہاں اس کا کوئی رشتہ دار یا قریبی دوست نہیں تھا۔ ہم نے اس کی لاش اس کے اہل خانہ کو واپس نہیں بھیجی، اور یہیں سورت میں اس کی آخری رسومات ادا کر دی۔‘‘
کچھ کمرے عمارتوں کی اوپری منزلوں پر واقع ہیں۔ ان کا ایک سرا کھلا ہوا بتایا جاتا ہے۔ صحت عامہ کے معالج اور آجیویکا بیورو کی صلاح کار ڈاکٹر رمانی اتکوری کہتی ہیں، ’’ایسے بھی معاملے سامنے آئے ہیں جن میں اونچائی سے گرنے سے مزدوروں کی موت ہو گئی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’کم روشنی والے اور تازہ ہوا سے محروم ان میس کمروں میں گنجائش سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔ ایسے حالات جلد کی خارش اور فنگل انفیکشن سے لے کر ملیریا اور تپ دق جیسی متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کے لیے سازگار ہوتے ہیں۔‘‘
تاہم، حکومت نے ’کام‘ اور ’گھر‘ کے حدود کو واضح طور پر نشان زد کیا ہے۔ مرکزی وزارت ٹیکسٹائل کے ذریعہ قائم کردہ پاورلوم سروس سینٹر (سورت) کے سابق اسسٹنٹ ڈائرکٹر نیلیہ ایچ پانڈیا کے مطابق معاوضہ اور انشورنس کے فوائد صرف فیکٹری کے اندر رپورٹ ہونے والے زخمیوں یا اموات پر لاگو ہوتے ہیں۔ ’’پاورلوم کا شعبہ انتہائی غیرمرتکز شعبہ ہے،‘‘ پانڈیا کہتے ہیں۔ وہ سورت میں پاور لوم کے بنکروں کے لیے وزارت کی گروپ انشورنس اسکیم کی نگرانی کر رہے تھے۔ ’’ابھی تک ۱۰ فیصد مزدور بھی انشورنس اسکیم کے تحت رجسٹر نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
یہ اسکیم جولائی ۲۰۰۳ میں شروع کی گئی تھی۔ اس کے تحت مزدوروں کو سالانہ ۸۰ روپے پریمیم ادا کرنا ہوتا ہے (جس میں ۲۹۰ روپے کا اضافہ حکومت کے ذریعہ اور ۱۰۰ روپے کا سوشل سیکورٹی کے ذریعے کیا جاتا ہے)۔ مزدور یا ان کے اہل خانہ قدرتی موت کی صورت میں ۶۰ ہزار روپے، حادثاتی موت کی صورت میں ڈیڑھ لاکھ روپے، مکمل مستقل معذوری کی صورت میں ڈیڑھ لاکھ روپے اور جزوی مستقل معذوری کی صورت میں ۷۵ ہزار روپے کا دعوی کر سکتے ہیں۔ ’’تاہم، وہ جن کمروں میں رہتے ہیں وہ ہمارے کام کے دائرے میں نہیں آتے،‘‘ پانڈیا کہتے ہیں۔
انہیں کمروں میں شمبو ناتھ ساہو کا میس بھی شامل ہے، جس میں تقریباً ۷۰ مزدور دو شفٹوں میں قیام کرتے ہیں۔ پھولواری صنعتی خطے کے مرکز میں واقع یہ ایک ایسی عمارت ہے جس کی پانچ منزلوں پر آٹھ میس کمرے ہیں۔ لوم کی تیز آوازیں ان کمروں کے اندر گونج رہی ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی گندی سیڑھیوں کے پاس پھیلے ہوئے کچرے کے درمیان اسٹووں پر چاول اور دال ابالے جا رہے ہیں۔ میس کے منتظمین صرف کمروں کی صفائی کرتے ہیں، راہداری اور سیڑھیاں گندگی سے بھری رہتی ہیں۔ سورت میونسپل کارپوریشن کی کچرا گاڑیاں علاقے میں باقاعدگی سے نہیں آتیں، اس لیے ہفتوں تک کچرے کے ڈھیر لگے رہتے ہیں۔
مانسون کے مہینوں میں بارش کا پانی بعض اوقات گلیوں کی سطح سے نیچے پڑنے والے عمارتوں کے کمروں اور راہداریوں میں داخل ہو جاتا ہے، جس سے نمی اور پھسلن پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے میں مزدوروں کے لیے اپنے کپڑے خشک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پولسرا بلاک کے بلیچائی گاؤں کے ۵۲ سالہ کرگھا مزدور رام چندر پردھان کہتے ہیں، ’’ہم کام پر جانے کے لیے گیلے کپڑے پہنتے ہیں، ہمارے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔‘‘ پردھان تین دہائیوں سے سورت کے میس کمروں میں مقیم ہیں۔
ساہو کے ۵۰۰ مربع فٹ کے میس میں، یہاں کے دیگر میسوں کی طرح، ایک باورچی خانہ ہے جس میں بڑے بڑے برتن ہیں، عبادت کے لیے ایک مخصوص جگہ ہے، دو بیت الخلاء ہیں، سبزیوں کا ذخیرہ ہے، چاول کی بوریوں کے ڈھیر ہیں اور ۳۵ مزدور اور ان کے سامان رکھے ہوئے ہیں۔ گنجم کے پولسرا بلاک کے سنبرگام گاؤں سے یہاں آئے ساہو کا کہنا ہے کہ مزدوروں کو ’’غذائیت سے بھرپور کھانا‘‘ دیا جاتا ہے اور میس کو ’’صاف رکھا جاتا ہے۔‘‘
پولسرا بلاک کے نیمینا گاؤں کے ۴۸ سالہ شنکر ساہو، جو پھولواری کے سہیوگ انڈسٹریل ایریا میں میس منیجر ہیں، کہتے ہیں، ’’مجھے ہر ہفتے ۲۰۰ کلو آلو خریدنا پڑتا ہے۔ ہر روز دو وقت کا کھانا تیار کرتا ہوں اور تقریباً ۷۰ لوگوں کو کھلاتا ہوں۔ اگر ہم انہیں اچھا کھانا نہیں کھلاتے ہیں تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔‘‘ ایک باورچی کی مدد سے ساہو چاول، دال، سبزیاں اور سالن تیار کرتے ہیں۔ ’’میں [ہفتے میں دو بار] کھانے میں مچھلی، انڈے اور چکن بھی شامل کرتا ہوں۔‘‘ لال گوشت مہینے میں ایک بار پیش کیا جاتا ہے۔
استعمال شدہ خوردنی تیل سے بار بار کھانا بنانے کی وجہ سے بھی مزدوروں کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ مارچ ۲۰۱۸ میں، آجیویکا بیورو نے مینا نگر اور پھولواری کے ۳۲ میس کمروں میں لوگوں کے کھانے کے طور طریقوں کا سروے کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ چربی کا روزانہ استعمال ’تجویز کردہ غذائی حد‘ (آر ڈی اے، جو امریکن فوڈ اینڈ نیوٹریشن بورڈ کا وضع کردہ ہے) کا ۲۹۴ فیصد ہے اور نمک کی کھپت ۳۷۶ فیصد۔ ڈاکٹر اتکوری کہتی ہیں، ’’زیادہ عمر کے مزدوروں میں ہائی بلڈ پریشر زیادہ عام تھی، لیکن لپڈ پروفائل کی خرابی سبھی عمر کے لوگوں میں موجود تھی۔‘‘
میس کمرے عام طور پر مقامی تاجروں کی ملکیت ہوتے ہیں، جو منیجروں کو کرایے پر دیے جاتے ہیں۔ ان منیجروں میں سے زیادہ تر کا تعلق گنجم ضلع سے ہے۔ منیجر ہر مہینے روم مالکان کو ۱۵ ہزار سے ۲۰ ہزار روپے کرایہ ادا کرتے ہیں، اور بدلے میں ہر مزدور سے کرایے اور کھانے کی ادائیگی کے طور پر مہینے کے ۲۵۰۰ روپے وصول کرتے ہیں۔
’’کمروں میں مزدوروں کو رکھنے کی کوئی آخری حد نہیں ہے۔ ہم جتنے زیادہ مزدوروں کو جگہ دیں گے، ہم اتنا ہی زیادہ پیسہ کمائیں گے،‘‘ پھولواری میں کاشی ناتھ بھائی میس کے مالک و منیجر ۵۲ سالہ کاشی ناتھ گوڈا کہتے ہیں۔ ’’مزدور دو شفٹوں میں آتے ہیں… پھر بھی منیجروں کے لیے منافع کا مارجن بہت زیادہ نہیں ہوتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوم میں کام کرنے سے بہت بہتر ہے۔‘‘ گوڈا ۱۹۸۰ کی دہائی کے وسط میں پولسرا بلاک کے تینٹولیہ گاؤں سے سورت آئے تھے۔ ’’میں نے تقریباً ۲۰ سال تک کھٹ کھٹ مشین پر کام کیا ہے۔ وہ ایک مشکل زندگی تھی، میں بمشکل پیسے بچا پاتا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’تقریباً ۱۰ سال قبل میں نے اس میس روم کا انتظام شروع کیا تھا۔ یہ ۲۴ گھنٹے کا کام ہے کیونکہ مزدور دو شفٹوں میں یہاں قیام کرتے ہیں۔ میس کو چلانا مشکل ہے کیونکہ کچھ مزدور جارحانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور پرتشدد ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ یقینی طور پر لوم سے بہتر زندگی ہے۔ میں ہر سال اپنی بیوی اور دو بچوں کے پاس گھر واپس جاتا ہوں۔ جب میرے بچوں کو نوکری مل جائے گی تو میں چند سالوں میں اپنے گاؤں واپس چلے جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘
کام کے سخت اوقات اور زندگی کے پریشان کن حالات بہت سے مزدوروں کو شراب نوشی کی طرف مائل کر دیتے ہیں۔ چونکہ گجرات میں شراب پر پابندی ہے، اس لیے وہ صنعتی محلوں کی چھوٹی چوٹی دکانوں سے چوری چھپے فروخت ہونے والی ۲۵۰ ملی لیٹر کی پولی تھین کی تھیلیوں میں بھری دیسی شراب ۲۰ روپے میں خریدتے ہیں۔
شمالی سورت کے انجنی صنعتی علاقے میں بھگوان میس کا انتظام کرنے والے سبرت گوڈا کہتے ہیں، ’’بہت سے نوجوان مزدور شراب نوشی کی طرف مائل ہیں۔ اپنی شفٹوں کے بعد وہ سیدھے [شراب کے] اسٹالوں کی طرف جاتے ہیں۔ کمروں میں واپسی کے بعد انہیں سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ پرتشدد ہو جاتے ہیں اور بدسلوکی کرتے ہیں۔‘‘ پرمود بِسوئی، جو قریب ہی ایک میس کا انتظام کرتے ہیں، مزید کہتے ہیں، ’’مزدور اپنے گھر والوں سے دور مشکل اور تنہا زندگی گزارتے ہیں۔ اس صنعت میں کوئی تفریح یا آرام نہیں ہے۔ اس ماحول سے عارضی فرار کے لیے اکثر شراب ان کا واحد ذریعہ بن جاتی ہے۔‘‘
پولسرا بلاک کے سنبرگام گاؤں کے کانہو پردھان اس علت کو چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’’میں ہر ہفتے تقریبا تین دن پیتا ہوں۔ میں اتنی دیر تک کام کرنے کے بعد آرام کیسے کر سکتا ہوں؟‘‘ پھولواری میں سہیوگ انڈسٹریل یونٹ میں کام سے واپسی کے بعد یہ ۲۸ سالہ نوجوان پوچھتا ہے۔ ’’میں گھر واپس بھیجنے کے لیے پیسے بچانے کے بارے میں بھی مسلسل دباؤ میں رہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اتنا پینا نقصاندہ ہے، لیکن اسے چھوڑنا واقعی مشکل ہے۔‘‘
شام کے ۶ بجے ہیں اور ۳۸ سالہ شیام سندر ساہو وید روڈ پر واقع لوم میں رات کی شفٹ میں جانے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ ۲۲ سالوں سے ان کا یہی معمول ہے۔ ’’میں ۱۶ سال کی عمر میں یہاں آیا تھا۔ اس کے بعد بلیچائی گاؤں میں اپنے گھر کے سالانہ دورے کے علاوہ میں نے اسی طرح کام کیا ہے اور زندگی گزاری ہے،‘‘ تین بچوں کے والد ساہو کہتے ہیں۔ ’’میرے گھر والوں کو نہیں معلوم کہ میں اتنے سارے لوگوں کے ساتھ ایسے کمرے میں رہتا ہوں۔ میرے پاس کوئی دوسرا چارہ بھی نہیں ہے۔ بعض اوقات، یونٹ میں زیادہ دیر تک شفٹوں میں کام کرنا زیادہ آرام دہ ہوتا ہے۔ پھر وہ فیکٹری میں داخل ہونے کے لیے اپنے ’گھر‘ سے نکل کر۱۰ فٹ چوڑی سڑک پار کرتے ہیں۔
مترجم: شفیق عالم