جب تک لکشمی توڈو اسپتال پہنچتیں، کلپنا کی موت ہوچکی تھی۔ ’’میری بیٹی اس صبح بہت بھوکی تھی۔ میں اس کے لیے چاول لانا چاہتی تھی، لیکن مجھے دیر ہو گئی،‘‘ لکشمی یاد کرتی ہیں۔ ’’اس روز بہت تیز بارش ہو رہی تھی۔‘‘

یہ جون۲۰۲۰ کا واقعہ ہے۔ لکشمی کی ۲۶ سالہ بیٹی کلپنا کو سر درد اور مسلسل الٹی کی وجہ سے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کی منجھلی بیٹی شیبانی ہسپتال میں اپنی بہن کے ساتھ تھی۔

سال ۲۰۱۷ میں گنگارامپور کے سرکاری سب ڈویژنل ہسپتال (جسے مقامی طور پر کالدیگھی ہسپتال کہا جاتا ہے) کے ڈاکٹروں نے کلپنا کو مشورہ دیا کہ انہیں کسی پرائیویٹ نیورولوجسٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ اس کے بعد سے وہ ایک پرائیویٹ اسپتال میں زیرعلاج تھیں۔ ۲۰۱۹ میں دوسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد ان کی صحت مزید خراب ہوگئی تھی۔

مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کے بعد اس پرائیویٹ اسپتال میں کولکاتا سے آنے والے ڈاکٹر کے ماہانہ دورے بے قاعدہ ہو گئے۔ ’’ہم انتظار کرتے رہے، لیکن ان کی تاریخیں مسلسل ملتوی ہوتی رہیں،‘‘ لکشمی یاد کرتی ہیں۔ ’’لہذا، ہم باربار پرانی تجویز کردہ دوائیں خریدتے رہے۔‘‘

کلپنا کی شادی ۲۰۱۴ میں ہوئی تھی۔ اس وقت وہ گنگارامپور کالج میں بی اے سال اول کی طالبہ تھیں۔ ان کے ۲۹ سالہ شوہر، نین مردی، پنساری کی دکان چلاتے تھےاور مغربی بنگال کے جنوبی دیناج پور ضلع کے گنگارامپور قصبے سے تقریباً ۱۷ کلومیٹر دور اننت پور گاؤں میں پارٹ ٹائم درزی کا کام بھی کرتے تھے۔ ان کے سسر زرعی مزدور تھے۔ ایک سال بعد، پہلے بچے (جو لڑکا تھا) کی پیدائش کے بعد کلپنا کے سر کا درد (جو بچپن سے تھا) شدت اختیار کرنے لگا۔

Her husband's death in 2016 left Laxmi Tudu as the sole earner and parent for their four children, including Shibani (right)
PHOTO • Saurabh Sarmadhikari
Her husband's death in 2016 left Laxmi Tudu as the sole earner and parent for their four children, including Shibani (right)
PHOTO • Saurabh Sarmadhikari

سال ۲۰۱۶ میں اپنے شوہر کی موت کے بعد لکشمی توڈو اپنے چار بچوں، بشمول شیبانی (دائیں)، کی کفالت کرنے والی فرد بن گئیں

اس سال ۲۸ جون کو جب انہیں ہسپتال میں داخل میں کرایا گیا تھا، تو نین نے ان کی چھوٹی بہن شیبانی کے ساتھ اننت پور سے کالدیگھی ہسپتال جانے کے لیے ایک کار کرایہ پر لی تھی۔ یہ یاد کرتے ہوئے ظاہری طور پر پریشان حال لکشمی پر واضح نہیں ہے کہ  ہسپتال میں کیا ہوا تھا۔ انہیں صرف اتنا یاد ہے کہ اگلی صبح کلپنا کی موت ہو گئی تھی۔

یہ سانحہ جنوری ۲۰۱۶ میں لکشمی کے شوہر کے انتقال کے پانچ سال سے بھی کم وقت کے بعد گزرا تھا۔ جیتھو توڈو کے کپڑوں میں غلطی سے اس گھاس سے آگ لگ گئی جسے انہوں نے سردیوں کی شام کو گرم رکھنے کے لیے جلایا تھا۔ تپ دق اور جگر کی بیماریوں کی وجہ سے تقریباً ایک دہائی تک صاحب فراش رہنے والے ۵۸ سالہ جیتھو پہلے گنگارامپور قصبے میں سائیکل رکشہ چلاتے تھے۔ لکشمی یاد کرتی ہیں، ’’ہم انہیں کالدیگھی ہسپتال لے گئے تھے، جہاں ۱۶ دنوں کے بعد ان کی موت ہو گئی تھی۔‘‘

اس کے بعد لکشمی اپنی تین بیٹیوں (سنتانا، جو اب ۳۰ سال کی ہیں، کلپنا، جو ۲۶ سال کی تھیں، اور شیبانی ۲۱ سال کی تھیں) اور ایک بیٹے ۱۵ سالہ شِبناتھ کی کفالت کرنے والی واحد فرد رہ گئیں۔

’’میں غم سے نڈھال تھی۔ تین لڑکیوں اور ایک چھوٹے لڑکے کی پرورش مجھے اکیلے کرنی تھی،‘‘ درج فہرست قبائل میں شامل سنتھال برادری سے تعلق رکھنے والی لکشمی گنگا رامپور میں اپنے گھر کے صحن میں ہم سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’میں نے بڑی مصیبتوں کا سامنا کیا ہے۔ آپ مجھے ایک دن بھی خالی بیٹھا نہیں پائیں گے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ ’’میں نے ہر ایک دن کام  کیا ہے اور اپنے بچوں کی پرورش کی ہے۔‘‘

جیتھو کی موت کے صرف ۱۱ دن بعد راج مستری کا کام کرنے والے ان کے ۵۳ سالہ بھائی سپھل توڈو کی فالج کے دورے کی وجہ سے اس وقت موت ہو گئی تھی جب وہ جیتھو کے شرادھ کے لیے رشتہ داروں کو دعوت دے رہے تھے۔

Built under the Pradhan Mantri Awas Yojana, Laxmi's house has a small pond in the backyard (left), and a kitchen with tarpaulin and tin walls and a mud floor (right)
PHOTO • Saurabh Sarmadhikari
Built under the Pradhan Mantri Awas Yojana, Laxmi's house has a small pond in the backyard (left), and a kitchen with tarpaulin and tin walls and a mud floor (right)
PHOTO • Saurabh Sarmadhikari

پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تعمیر شدہ لکشمی کے گھر کے پچھواڑے ایک چھوٹا سا تالاب ہے (بائیں)۔ ترپال کی چھت اور ٹن کی دیواروں سے بنا مٹی کے فرش والا باورچی خانہ (دائیں)

لکشمی اب پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ۲۰۱۶ میں تعمیر شدہ دو کمروں کے ڈھانچے میں رہتی ہیں۔ ترپال کی چھت، ٹن کی دیواروں اور مٹی کے فرش والے باورچی خانے سے ملحق گھر کے پچھواڑے ایک چھوٹا سا تالاب ہے۔ ان کی زمین کے اس پلاٹ میں ان کی بھابھی اور سپھل توڈو کی بیوہ ہسی مونی کی بھی حصہ داری ہے۔ ہسی مونی مٹی کی ایک جھونپڑی میں رہتی ہیں اور دونوں خواتین زرعی اور تعمیراتی مزدوروں کے طور پر کام کرتی ہیں۔

لکشمی کہتی ہیں، ’’میرے والد کا کہنا تھا کہ میں دو ماہ کی تھی جب ’جئے بنگلہ‘ [۱۹۷۱ میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران ہندوستان میں پھیلے آشوب چشم کی وبا کے لیے ایک مقامی اصطلاح] پھیلا ہوا تھا۔‘‘ اس لحاظ سے ان کی عمر ۴۹ سال ہو جائے گی، حالانکہ ان کے آدھار کارڈ کے مطابق وہ ۵۵ سال کی ہیں۔ بچپن میں انہیں بھی اپنی بیٹی کلپنا کی طرح اکثر سر میں درد رہتا تھا، جس کی وجہ سے وہ باقاعدگی سے اسکول نہیں گئیں۔ انہوں نے صرف پہلی جماعت مکمل کی تھی۔ لہٰذا لکشمی کے والدین (ان کے والد ایک راج مستری تھے اور ماں گنگا رامپور میں زرعی مزدور تھیں) نے اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال کا کام ان کے سپرد کیا تھا۔

لکشمی کہتی ہیں، ’’میں پڑھنا لکھنا نہیں جانتی،‘‘ حالانکہ ان کی دو بہنوں نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ شاید اسی وجہ سے ان کے بچوں کی تعلیم ان کے لیے اور بھی اہم ہوگئی۔ جیتھو کی موت کے فوراً بعد لکشمی ایک بہن شبناتھ کو اپنے ساتھ پڑوسی شمالی دیناج پور ضلع کے اپنے گاؤں نندن گاؤں لے گئیں۔ وہ مقامی آنگن واڑی کارکن ہیں اور لڑکے کی تعلیم میں مدد کر رہی ہیں۔ دسویں جماعت کے طالب علم شبناتھ کے بارے میں لکشمی کا کہنا ہے، ’’بورڈ کے امتحانات ختم ہونے کے بعد میں اسے اپنے پاس بلا لوں گی۔‘‘

لکشمی کے پاس کوئی زرعی زمین نہیں ہے، اور ان کے شوہر کی زمین (وہ اس بارے میں تفصیل سے بات کرنا نہیں چاہتی ہیں) کو اپنی بڑی بیٹیوں (۲۰۰۷ میں سنتانا، اور ۲۰۱۴ میں کلپنا) کی شادیوں کے اخراجات پوری کرنے کے لیے بیچنا پڑا تھا۔ سنتانا ایک گھریلو خاتون ہیں، جوگنگا رامپور سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر دور سوٹیل گاؤں میں رہتی ہیں، جہاں ان کے شوہر ایک زرعی مزدور اور عارضی پرائیویٹ ٹیوٹر ہیں۔

اگست ۲۰۲۰ میں، جب دھان کی خریف فصل کی کاشت زوروں پر تھی، تو لکشمی نے پڑوسی زمینداروں کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی شیبانی کی مدد لی تھی۔

In August 2020, when the kharif plantation of paddy was on, Laxmi (left) had enlisted Shibani's (right) help to work in the fields
PHOTO • Saurabh Sarmadhikari
In August 2020, when the kharif plantation of paddy was on, Laxmi (left) had enlisted Shibani's (right) help to work in the fields
PHOTO • Saurabh Sarmadhikari

اگست ۲۰۲۰ میں جب دھان کی خریف فصل کی بوائی چل رہی تھی، تو لکشمی (بائیں) نے شیبانی (دائیں) کو بھی کھیتوں میں کام پر لگا لیا تھا

اس علاقے میں دھان کی بوائی جون سے اگست تک ہوتی ہے اور اکتوبر سے دسمبر کے درمیان کٹائی ہو جاتی ہے۔ لکشمی دیگر فصلوں، خاص طور پر جوٹ، سرسوں، آلو اور مرچ کی کاشت میں بھی مدد کرتی ہیں۔ بعض اوقات جولائی اور اگست میں جوٹ کی کٹائی اور دھان کی بوائی کی سرگرمیاں ایک ساتھ ہوتی ہیں۔ لکشمی دھان کے کھیتوں میں کام کو ترجیح دیتی ہیں۔ جوٹ کی کٹائی انہیں زیادہ محنت طلب محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ان کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔

’’ہم مجموعی طور پر ہر سال دو سے تین مہینے کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور باقی دنوں میں تعمیراتی مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں،‘‘ لکشمی بتاتی ہیں، جو گھروں کی مرمت کے ہلکے پھلکے کام بھی کرلیتی ہیں۔ لیکن گنگا رامپور میونسپلٹی میں اور اس کے آس پاس تعمیراتی مقامات پر کام تلاش کرنا زرعی مزدوروں کے لیے آسان نہیں ہے، وہ مزید کہتی ہیں، کیونکہ ان جیسے مزدور ٹھیکیدار کے باقاعدہ مزدوروں کی فہرست میں نہیں ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ انہیں کام حاصل کرنے کے لیے کئی کئی دنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

لکشمی جیسی ’غیر ہنرمند‘ مزوروں کی تعمیراتی کام کی مزدوری ۲۰۰ روپے یومیہ مقرر ہے۔ جب کہ کھیت میں کام کرنے کی اجرت ۱۵۰ سے ۳۰۰ روپے یومیہ تک ہوتی ہے۔ (مغربی بنگال میں غیر ہنرمند کام کے لیے کم از کم یومیہ اجرت ۲۵۷ روپے ہے۔) اپنی ۴۰۰۰ سے ۵۰۰۰ روپے اوسط ماہانہ آمدنی  کے ساتھ لکشمی چاول، آٹا اور مٹی کے تیل جیسی ضروری اشیاء کے لیے عوامی تقسیم کے نظام پر انحصار کرتی ہیں۔ ان کے پاس ترجیحی گھریلو راشن کارڈ ہے، جسے وہ چاول، گندم، چینی (جو عام طور پر دستیاب نہیں ہوتی ہے) اور مٹی کا تیل سبسڈی والے نرخوں پر حاصل کرتی ہیں۔

کھیتی کے موسم میں لکشمی اپنے دن کا آغاز صبح ۴ بجے گھریلو کام کے ساتھ کرتی ہیں، اور چار گھنٹے بعد کام پر چلی جاتی ہیں۔ کھیتوں کے کام میں اپنی ماں کی مدد کرنے کے بعد ان کی بیٹی شیبانی کو گھریلو کام نہیں کرنا پڑتا ہے۔ لکشمی کہتی ہیں، ’’میں جب بھی کام سنبھال سکتی ہوں، تو اس وقت اسے پڑھنے دیتی ہوں۔‘‘

Shibani has participated and won prizes – including a cycle – in many sports events, but she had to give up these activities to help her mother earn
PHOTO • Saurabh Sarmadhikari
Shibani has participated and won prizes – including a cycle – in many sports events, but she had to give up these activities to help her mother earn
PHOTO • Saurabh Sarmadhikari

شیبانی نے کھیلوں کے بہت سے مقابلوں میں حصہ لیا ہے اور انعامات جتیے ہیں، ان میں ایک سائیکل بھی شامل ہے۔ لیکن اپنی ماں کی آمدنی میں مدد کرنے کے لیے انہیں یہ سرگرمیاں ترک کرنی پڑیں

شیبانی گنگا رامپور کالج میں بی اے کے دوسرے سال کی طالبہ ہیں اور اپنے کالج کے نیشنل کیڈٹ کور (این سی سی، ہندوستانی مسلح افواج سے منسلک) یونٹ میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ وہ ایک کھلاڑی ہیں۔ انہوں ۲۰۱۱ اور ۲۰۱۲ میں کولکاتا میں ریاستی سطح کی کبڈی چیمپئن شپ میں شرکت کے اپنے سرٹیفکیٹ مجھے دکھائے۔ ۱۳ سال کی عمر میں انہوں نے ۲۰۱۱ میں پونے میں منعقد قومی سطح کی کبڈی چیمپئن شپ میں اتربنگا خطے (مغربی بنگال کے شمالی اضلاع پر مشتمل) کی نمائندگی کی تھی۔ وہ ہمیں فخر کے ساتھ وہ سائیکل دکھاتی ہیں جسے انہوں نے ۲۰۱۳ میں مقامی میراتھن میں جیتا تھا۔

لیکن لکشمی شیبانی کی این سی سی میں شمولیت کے خلاف ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس کا مطلب ہے لباس کے اضافی اخراجات، اور پھر اسے ہر روز کالج جانا پڑے گا۔‘‘ شیبانی صرف امتحانات اور دیگر اہم دنوں کے لیے کالج جاتی ہیں۔ انہیں کھیتی باڑی کے مہینوں میں اپنی ماں کی مدد کرنی پڑتی ہے۔

اپنے این سی سی کے خواب کو ترک کرنے اور کھیلوں کی سرگرمیوں کو چھوڑنے کے بارے میں شیبانی کہتی ہیں، ’’مجھے بہت دکھ ہوا، لیکن اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے۔‘‘

لکشمی کو معلوم ہے کہ شیبانی اور شبناتھ کے لیے تعلیم کے باوجود نوکری حاصل کرنا مشکل ہے۔ ’’وقت اچھا نہیں ہے۔ میں [اپنے بچوں کے لیے] اچھے نتائج کی خواہاں ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’لیکن میں بہت پرامید نہیں ہوں۔‘‘ لکشمی اپنے بیٹے شبناتھ کے مسلح افواج میں شامل ہونے کے خواب کی حمایت کرتی ہیں۔ شیبانی کی شادی بالکل قریب ہے، اور مناسب دولہے کی تلاش جاری ہے۔

شیبانی کہتی ہیں، ’’پھر مجھے اسی طریقے سے [اپنی ماں کی طرح] کاشتکاری پر انحصار کرنا پڑے گا۔ وہ ایک رشتہ دار سے ٹیلرنگ سیکھ رہی ہیں، اور مستقبل میں اپنی دکان کھول کر لکشمی کی مدد کرنے کی امید رکھتی ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Saurabh Sarmadhikari

Saurabh Sarmadhikari teaches English Literature in a college in Gangarampur municipality in West Bengal.

की अन्य स्टोरी Saurabh Sarmadhikari
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

की अन्य स्टोरी Shafique Alam