جب سندیپ شیلکے نے ۷-۶ سال قبل مراٹھواڑہ کے عثمان آباد ضلع کے کھامس واڑی گاؤں میں اپنے مشترکہ خاندان کے بٹوارے کے بعد اپنے حصے میں آئی چار ایکڑ زمین کی کمان سنبھالی تھی، تو اس وقت ان کی عمر محض ۱۹ سال تھی۔ ’’میرا بڑا بیٹا مہیش دونوں ٹانگوں سے معذور ہے،‘‘ سندیپ کی ماں نندو بائی آبدیدہ ہوکر کہتی ہیں۔ ’’سندیپ کے چچا [بٹوارے سے قبل] پوری زمین کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ میرے شوہر کھیت پر کام کرتے ہیں، لیکن وہ کافی سادہ لوح ہیں اور فیصلے نہیں لیتے۔‘‘
شیلکے فیملی کئی سالوں تک جوار، گندم اور سویابین کی کھیتی کرتی رہی، لیکن اس سے زیادہ منافع نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے سندیپ نے جون ۲۰۱۷ کی بوائی کے موسم کے لیے گنا آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ’’نقدی فصل ہمیں قرضوں سے نجات دلانے کے طریقوں میں سے ایک تھی،‘‘ مدھم روشنی والی اپنی ٹین کی چھت کے نیچے بیٹھی نندو بائی کہتی ہیں۔
سال ۲۰۱۲ میں سندیپ کے کھیتی سنبھالنے کے صرف دو سال بعد مراٹھواڑہ میں چار سال تک موسم غیر مستقل رہا، جس میں ژالہ باری یا بے موسم بارشوں کے ساتھ ساتھ خشک سالی بھی شامل تھی۔ اس میں فصلوں کو نقصان پہنچا اور کسانوں کو شدید مالی خسارہ اٹھانا پڑا۔ شیلکے فیملی پر مقامی بینک کے ۵ء۳ لاکھ روپے اور ایک نجی ساہوکار کے ایک لاکھ روپے قرض تھے۔
لیکن سندیپ ثابت قدم رہے۔ اس بحران کے باوجود وہ دو سال قبل اپنی بڑی بہن سندھیا کی شادی کا اہتمام کرنے سے نہیں رکے۔ ’’وہ بہت ذمہ دار اور مخلص انسان تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’وہ باورچی خانے میں ماں کی مدد کرتا تھا، اور اپنے بھائی کی دیکھ بھال کرتا تھا۔‘‘
سندیپ نے محسوس کیا کہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے وہ روایتی خوردنی فصلوں، جس کے لیے ریاست کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کو یقینی نہیں بناتی ہے، پر انحصار نہیں کر سکتے۔ بازار میں ان کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، جس سے منافع کی غیر یقینی صورتحال بڑھ جاتی ہے۔ لیکن حکومت گنے کی کاشت کے لیے ترغیب دیتی ہے۔ سندیپ نے سوچا کہ ایم ایس پی کے ساتھ گنے کی اچھی فصل زیادہ پیسے کی ضمانت دیتی ہے۔ تاہم، گنے کی کاشت میں دیگر خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس فصل کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ خوردنی فصلوں سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کا مطالبہ کرتی ہے۔
نندو بائی کہتی ہیں، ’’ہرحال میں ہم نیچے جا رہے تھے۔ ہمیں کچھ تو کرنا ہی تھا۔‘‘
کنبے کی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے پرعزم سندیپ نے ایک نجی ساہوکار سے مزید ایک لاکھ روپے کا قرض لیا اور ایک بورویل کی کھدائی کروائی، جس سے خوش قسمتی سے پانی بھی نکلا۔ انہوں نے گنے کے ڈنٹھل ادھار لیے اور انہیں اپنے کھیت میں ایک لیموں کے پیڑ کے نیچے سجا دیا۔ پھر بارش کا انتظار کیا تاکہ بوائی شروع کرنے کے لیے کھاد اور کیڑے مار ادویات خرید سکیں۔
اس دوران قرضے بڑھتے جا رہے تھے۔ بینک کے قرضوں کے علاوہ اس کنبے پر کل نجی قرض (حالیہ ایک لاکھ اور اس سے پہلے کے قرضے) بڑھ کر ۳ لاکھ روپے ہو گئے تھے۔ سندیپ کے والد ۵۲ سالہ بل بھیم کہتے ہیں، ’’یہاں ایک ناکام فصل ہمیں ہمیشہ کے لیے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شاید اس پر آہستہ آہستہ دباؤ بڑھتا گیا تھا۔‘‘
اسی سال ۸ جون کو سندیپ لیموں کے درخت سے لٹکے ہوئے پائے گئے، جس کے نیچے انہوں نے ٹاٹ کے تھیلوں میں بڑی امید سے فصل لگانے کے لیے ڈنٹھل رکھے تھے۔ ’’صبح ۸ بجے ایک پڑوسی نے درخت سے ایک لاش لٹکتی دیکھی،‘‘ اسی درخت کے سائے میں بیٹھے بل بھیم کہتے ہیں۔ ’’ہم قریب گئے تو معلوم ہوا کہ یہ سندیپ ہے۔ میں سنّ رہ گیا۔‘‘
ضلع کلکٹر کے دفتر کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے پہلے پانچ مہینوں میں عثمان آباد میں ۵۵ دیگر کسانوں نے بھی سندیب جیسا انتہائی قدم اٹھایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر تین دن میں ایک خودکشی، اور ۲۰۱۶ میں اچھے مانسون کی وجہ سے خشک سالی کے خاتمے کے بعد بھی یہ شرح برقرار رہی۔
مراٹھواڑہ میں معقول مانسون کے بعد بھی کسانوں کی خودکشیوں اور زرعی تناؤ سے نجات میں ناکامی کی ایک وجہ کسانوں کے پاس بوائی کے موسم میں قرض حاصل کرنے کے اختیارات کا فقدان ہے۔
وہ کس سے رجوع کریں؟ بینکوں کے قرضوں کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے اعداد و شمار بینکنگ میں شدید علاقائی عدم توازن کو ظاہر کرتے ہیں: مراٹھواڑہ کے آٹھ اضلاع کی کل آبادی ایک کروڑ ۸۰ لاکھ ہے، جو پونے ضلع کی ۹۰ لاکھ کی آبادی سے دوگنی ہے۔ لیکن مارچ ۲۰۱۶ تک تجارتی بینکوں (قومی اور نجی) کے ذریعے مراٹھواڑہ کو دی گئی پیشگی رقم (۴۵۷۹۵ کروڑ روپے) پونے ضلع کو دی گئی پیشگی رقم (۱۴۰۶۴۳ کروڑ روپے) سے ایک تہائی کم ہے۔ یہ صورتحال ایسے علاقوں میں قرض دینے میں بینکوں کی ہچکچاہٹ کی بھی عکاسی کرتی ہے، جنہیں وہ معاشی طور پر پرکشش نہیں سمجھتے ہیں، اور ان خطوں میں زراعت سے منسلک صنعتیں نہیں آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
آل انڈیا ایمپلائز بینک ایسوسی ایشن کے جوائنٹ سکریٹری دیوی داس تُلجاپورکر کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر میں ۹۰ فیصد بینکنگ تین علاقوں - تھانے، ممبئی اور پونے میں ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ترقی یافتہ خطے کے وسائل کو پسماندہ خطے میں منتقل کیا جانا چاہیے تاکہ فرق کو پر کیا جا سکے۔ اس کی بجائے ہم اس خلیج کو برقرار رکھ رہے ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ بینکوں نے کسانوں کے قرضوں کو ان کے فصلی قرضوں اور مدتی قرضوں (ٹرم لون) کو ملا کر دوبارہ ترتیب دیا ہے۔ فصل کے قرض پر (زرعی سرگرمیوں جیسے بیج اور کھاد کی خریداری کی مد میں) سود کی شرح ۷ فیصد ہے؛ اس میں سے ۴ فیصد ریاست ادا کرتی ہے۔ مدتی قرض (ٹریکٹر اور مشینری میں سرمایہ کاری کی مد) میں دوگنا سود کی شرح وصول کی جا سکتی ہے۔ دوبارہ ترتیب کے ذریعے بینک دونوں قرضوں کو ضم کر دیتے ہیں اور انہیں ایک نئے مدتی قرض میں تبدیل کردیتے ہیں۔ یہ کسانوں کے واجبات کو بڑھاتا ہے اور انہیں نئے قرضوں کے لیے نااہل قرار دے دیتا ہے۔
اورنگ آباد میں بینک آف مہاراشٹر کے ایک ریٹائرڈ افسر کا کہنا ہے کہ وہ اکثر کسانوں کو قرضوں کی دوبارہ تریتب سے بعض رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔ ’’لیکن تمام بینک اہلکار ایسا نہیں کرتے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’دراصل کاشتکاروں سے کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنے گھروں پر پڑنے والے چھاپوں سے بچنے کے لیے ایسا کرنا چاہیے۔‘‘
اس سے کسانوں کے پاس ضلعی کوآپریٹو بینکوں سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا ہے۔ ان بینکوں میں عام طور پر بہت سے لوگوں کے کھاتے ہوتے ہیں۔ لیکن مراٹھواڑہ کے چھ اضلاع میں چھ بینک تقریباً ناکارہ ہو چکے ہیں، جس کی بڑی وجہ بااثر ڈیفالٹرز سے نمٹنے میں ناکامی ہے؛ لاتور اور اورنگ آباد کے ضلعی کوآپریٹو بینک بھی اچھی حالت میں نہیں ہیں۔
ایسے حالات سندیپ جیسے کسانوں کو نجی ساہوکاروں سے رجوع کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جہاں انہیں فوری طور پر نقد رقم مل جاتی ہے، لیکن ۳ سے ۵ فیصد ماہانہ یا ۴۰ سے ۶۰ فیصد سالانہ سے بھی زیادہ شرح سود پر۔ اس طرح ایک قابل انتظام رقم سود کے اضافے کے ساتھ بالآخر اصل رقم سے کئی گنا زیادہ بڑھ سکتی ہے۔
بیڈ ضلع کے انجن وٹی گاؤں کے ۶۵ سالہ بھگوان یدھے اور ان کی بیوی ساکھر بائی بھی ایک نجی ساہوکار سے ملنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یدھے کہتے ہیں، ’’میرے پاس پہلے ہی ۳ لاکھ روپے حیدرآباد بینک کے اور ۵ء۱ لاکھ روپے کے نجی قرضے ہیں۔ ان میں سے کچھ رقم میرے دو بیٹوں کی تعلیم پر بھی خرچ ہوئی تھی۔ انہوں نے پونے میں تعلیم حاصل کی اور اب نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔‘‘
بوائی کے موسم میں خوردنی فصل کے لیے اپنی پانچ ایکڑ زمین تیار کرنے کی غرض سے یدھے بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات پر تقریباً ۳۰ ہزار روپے خرچ کرتے ہیں۔ مزدوروں اور کھیت کی جوتائی کے اخراجات الگ سے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ وہ اپنی نسل میں یہ حساب کرنے والے آخری شخص ہوں گے۔ ’’میں کیوں چاہوں گا کہ میرے بیٹے بے یقینی کی زندگی گزاریں؟‘‘ وہ دریافت کرتے ہیں۔ ’’بڑھتا پوا قرض تکلیف دہ ہوتا ہے۔ موجودہ نظام کسانوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔‘‘
احتجاج میں شدت کے بعد ۲۴ جون کو مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس نے ریاست کے کسانوں کے لیے ۲۰۰۹ کے بعد لیے گئے قرضوں کے لیے قرض معافی کا اعلان کیا۔ ریاست نے کہا ہے کہ ایسے کسان اب کسی قرض کے بغیر نئے زرعی قرضوں کے لیے اپنے بینکوں سے رجوع کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، یدھے کے بھتیجے ۴۰ سالہ اشوک کہتے ہیں۔ ’’ہمیں آس پاس کے ہر ایک مالیاتی ادارے سے این او سی [کوئی اعتراض نہیں] کی سند حاصل کرنی ہوتی ہے، یہ بتاتے ہوئے کہ ہمارا کوئی قرض ان کے پاس زیر التواء نہیں ہے۔ ہم سے کئی چکر لگوائے جاتے ہیں اور رشوت دینے کے بعد ہی این او سی ملتی ہے۔ ایسے ۶ سے ۷ مقامات ہیں جہاں سے مجھے این او سی لینی ہوتی ہے۔ میں ہر جگہ رشوت کیسے دے سکتا ہوں؟ اس کے علاوہ اگر ہم نے وقت پر تیاری شروع نہیں کی تو پورا سیزن ضائع ہو جائے گا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ بل بھیم کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا، حالانکہ ان کے بیٹے نے چند ہفتے قبل خودکشی کر لی ہے۔ انہوں نے ابتدائی بارش کے بعد گنے کی بوائی کی ہے، جیسا کہ سندیپ نے منصوبہ بنایا تھا۔ اب وہ اچھی مانسون کی امید کر رہے ہیں، اور سندیپ جیسی ہی بے یقینی کے ساتھ بارش کا انتظار کر رہے ہیں۔
مترجم: شفیق عالم