کیرالہ کے تریشور میں واقع پی ویم بلور گاؤں میں، چندرن ماسٹر کے گھر پر لوگوں کا بڑی تعداد میں آنا جانا لگا ہوا ہے۔ ان میں طلباء، اساتذہ، مویشی پروری کے کام کی تربیت حاصل کرنے والوں سے لے کر سرکاری اہل کار تک شامل ہیں، جو یہاں پر ایسے آ جا رہے ہیں گویا یہ کوئی عوامی جگہ ہو۔ اور ایک لحاظ سے یہ عوامی مقام ہے بھی۔ دور دراز سے لوگ یہاں ان کی ۲۲ گایوں اور دو بیلوں کو دیکھنے آتے ہیں – جن میں سے زیادہ تر مویشی نایاب دیسی نسل کے ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے پاس ہندوستان کی مختلف دیسی نسلوں کے آم، بانس اور مچھلیاں بھی ہیں۔ انگریزی کے سابق استاد، چندرن ماسٹر کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس کلاسیکی کاٹھیاواڑی گھوڑے اور دیسی نسل کی کئی مرغیاں بھی ہیں۔ لیکن دنیا کی سب سے چھوٹی گائے – ویچور – اور کیرالہ کے چھوٹی قد کے مویشیوں کی دیگر نسلوں پر لوگوں کی توجہ سب سے زیادہ ٹکی ہوئی ہے۔
ان جانوروں میں لوگوں کی یہ دلچسپی، ریاست کے اندر دیسی نسل کے مویشیوں اور دیگر جانوروں کے مستقبل کے بارے میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی تشویش کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ دوسری جگہوں کی طرح، کیرالہ کے لوگ بھی زیادہ دودھ حاصل کرنے کی لالچ میں مخلوط نسل کے جانور رکھنے لگے ہیں؛ دیسی نسل کے مویشیوں کی تعداد گھٹنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اب اس کے نتائج کو لے کر لوگوں میں سنجیدہ بحث ہونے لگی ہے۔ سال ۱۹۹۶ سے ۲۰۰۷ کے درمیان کیرالہ میں مویشیوں کی آبادی میں تقریباً ۴۸ فیصد کی کمی آئی ہے۔
کیرالہ کے محکمہ مویشیاں (اے ایچ ڈی) کے ڈائرکٹر، ڈاکٹر آر وجے کمار کہتے ہیں کہ ریاست کی نئی افزائشی پالیسی ’’بیرونی [یعنی، جو دیسی نہ ہو] جرم پلازم کو ۵۰ فیصد مویشیوں تک محدود کرتی ہے۔ اب ہم دیسی نسلوں کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم لوگ دیسی سانڈوں (سانڑھ) کے مادہ منویہ کو مصنوعی طریقے سے گایوں میں ڈال رہے ہیں۔‘‘ اور ۱۹۹۶ سے ۲۰۰۷ کے درمیان مویشیوں کی تعداد بھلے ہی کم ہوئی ہو، ’’اس مدت کے دوران ریاست میں گایوں کی دودھ دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے ایک گائے ایک دن میں اوسطاً چھ لیٹر دودھ دیتی تھی، جو بڑھ کر اب ساڑھے ۸ لیٹر ہو گیا ہے، حالانکہ کیرالہ میں مخلوط نسل کے مویشیوں کی تعداد ۸۷ فیصد ہے۔‘‘
تاہم، مخلوط نسل کی گایوں میں دودھ کے پیداوار کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ دوسری طرف، دیسی نسل کے بونے (چھوٹی قد کے) ویچور اور کسر گوڈے جیسے مویشیوں کے کھانے پر خرچ بہت کم پڑتا ہے۔ اس نسل کی گائیں بہت کم چارہ کھاکر بڑی مقدار میں دودھ دیتی ہیں۔ مخلوط نسل کے مویشیوں کی دیکھ بھال پر کافی پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور انہیں بیماریاں لگنے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ چندرن ماسٹر کہتے ہیں، ’’اس وڈکرا ڈوارف (بونی گائے) کو ہی دیکھ لیجئے۔ میں روزانہ اس کے اوپر پانچ سے دس روپے مشکل سے خرچ کرتا ہوں۔ پھر بھی، یہ مجھے ہر دن تین سے چار لیٹر دودھ دے دیتی ہے۔ لیکن اس کے دودھ کی قیمت بہت زیادہ ہے اور میں اس سے فی لیٹر ۵۰ روپے تک حاصل کر سکتا ہوں۔ اس طرح دیکھا جائے تب بھی منافع زیادہ ہے۔ چارے پر بھی بہت زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ باورچی خانے کے کچرے اور بچا ہوا کھانا وغیرہ چارے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور انہیں رہنے کے لیے بھی کسی خاص باڑے یا مویشی خانہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘ لیکن، وہ دودھ نہیں بیچتے ہیں۔ البتہ وہ ہر سال ’’چند بچڑھے ضرور بیچتا ہوں، جب ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو جائے کہ انہیں سنبھالنا میرے لیے مشکل ہو رہا ہو۔‘‘
ویچور کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ صدیوں پہلے آیوروید نے اس کے دودھ میں طبی خصوصیات کی نشاندہی کی تھی۔ حالیہ دنوں، کیرالہ ایگریکلچرل یونیورسٹی (کے اے یو) کے ذریعے کیے گئے مطالعے میں بھی یہی پتہ چلا ہے کہ مخلوط نسل کی گایوں کے مقابلے ویچور میں چربی (فیٹ) اور مجموعی سالڈ (ٹھوس) کا فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ویچور کے دودھ میں چربی کے گلوبچے کا چھوٹا سائز اسے نوزائیدہ بچوں اور بیماروں کے لیے موزوں بناتا ہے۔
اے ایچ ڈی کے ڈائرکٹر، آر وجے کمار کہتے ہیں کہ دیسی نسلوں کے کم ہونے کی کئی وجہیں تھیں۔ صرف ’’غیر معروف‘‘ قسموں کا ختنہ ہی نہیں ہوا، جو کہ کافی پہلے ہوا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’نقدی فصلوں کی طرف بڑھتے رجحان کی وجہ سے مویشیوں پر مبنی زراعت میں کمی آئی ہے اور کسانوں کی نوجوان نسل کے پاس بڑے جانوروں کو پالنے کا نہ تو وقت ہے اور نہ ہی تحمل – وہ چھوٹے مویشیوں کو پالنا پسند کرتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ زیادہ دودھ دینے والے مخلوط نسل کے مویشیوں میں ان کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘
لیکن قیمت اور دیکھ ریکھ ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ چندرن ماسٹر کہتے ہیں، ’’سال ۱۹۹۴ میں جب میں دیسی نسلوں کی طرف متوجہ ہوا، تو اس سے پہلے میرے پاس مخلوط نسل کے تین مویشی تھے، جس میں سے ایک سوئس براؤن تھا۔ ان میں سے ہر ایک پر مجھے روزانہ ۴۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے تھے۔ چارہ بہت مہنگا تھا، جس پر روزانہ ۲۰۰ سے زیادہ خرچ آتا تھا۔ غلہ، چاول آٹا، گیہوں کا آٹا، کَھلی (آئل کیک)، ہری گھاس وغیرہ وغیرہ۔ یہ مویشی ہمیشہ بیمار پڑ ہو جاتے تھے اور ان کے ڈاکٹر کو ہر ہفتہ یہاں آنا پڑتا تھا، ان کے آنے پر ہر بار ۱۵۰ روپے دینے پڑتے تھے، اوپر سے ان کے آنے جانے کے لیے گاڑی کا انتظام بھی کرنا پڑتا تھا۔‘‘
لیکن جب سے انہوں نے دیسی گائیں پالنی شروع کیں: ’’کسی بھی مویشی کے ڈاکٹر نے پچھلے ۱۷ سالوں سے میرے گھر کا دورہ نہیں کیا ہے۔ اور میں نے ان میں سے کسی ایک کا بھی بیمہ نہیں کرایا ہے۔ یہ محنتی، صحت مند گائیں ہیں۔‘‘ بہت سے ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہندوستان کے دیسی مویشی یہاں کی ماحولیات کے مطابق ڈھل گئے ہیں اور ان میں ’’بیماریاں نہیں ہوتیں، کیڑے نہیں لگتے اور انسانی مدد کے بغیر آسانی سے بچھڑے بھی پیدا کرتی ہیں۔‘‘ پروفیسر سوسما آئپ جیسے سائنسداں، جنہوں نے کے اے یو میں ویچور کے احیا میں نمایاں رول ادا کیا ہے، وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ان بونے مویشیوں میں ’’پیر اور منھ کی بیماریوں اور پستانوں کی سوزش سے لڑنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ ان دونوں ہی بیماریوں کی وجہ سے کیرالہ میں مخلوط نسل کی کافی گائیں مر گئی تھیں۔ ویچور میں سانس سے متعلق بیماری کا بھی خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔‘‘
کیرالہ میں مویشیوں کے زیادہ تر مالک چھوٹے یا معمولی کسان ہیں یا ان کے پاس اپنی زمین نہیں ہے۔ اس ریاست میں مخلوط نسل کے مویشیوں کی تعداد ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے سب سے زیادہ ہے۔ اور یہاں پر دودھ کی اوسط پیداوار میں بھلے ہی اضافہ ہوا ہے، لیکن جتنی مانگ ہے اس سے اب بھی بہت کم ہے۔ کیرالہ سب سے زیادہ دودھ پیدا کرنے والی ریاستوں میں شامل نہیں ہے۔ فی لیٹر دودھ پر خرچ ہونے والا چارہ بھی ہندوستان میں یہاں سب سے زیادہ ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مویشیوں کی تعداد اور دیسی نسلوں کی بے انتہا کمی کو نظر انداز کرنا غلط ہے، جس نے کیرالہ کو نقصان پہنچایا ہے، یہ دہائیوں پرانی ان پالیسیوں کی وجہ سے ہے جس کے تحت کسان کے لیے لائسنس کے بغیر سانڑھ رکھنا غیر قانونی بنا دیا گیا تھا۔ یہ لائسنس صرف اے ایچ ڈی کے ریاستی ڈائرکٹر کے ذریعے جاری کیا جاتا ہے۔
تکنیکی طور پر دیکھا جائے، تو چندرن ماسٹر اور دیگر لوگ اس قانون کو توڑ رہے ہیں۔ لیکن ریاست کے پاس اس بات کو جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کیا کوئی کسان ’’غیر قانونی‘‘ سانڑھ رکھے ہوا ہے؟ ایک ماہر کا کہنا ہے، ’’کوئی پنچایت دشمنی پر اتر آئے تو وہ کسان کی زندگی کو دوزخ بنا سکتی ہے۔ پنچایت کے لوگوں سے اگر اس کی دشمنی ہے تو وہ اسے کئی مہینوں تک عدالت میں گھسیٹ سکتے ہیں۔‘‘
زراعت پر مبنی رسالہ، ہرت بھومی (سبز کرۂ ارض) نے حال ہی میں تفصیل سے بتایا ہے کہ اس قسم کی اجازتیں حاصل کرنے کے لیے کتنے سرکاری دفتروں کے چکر لگانے پڑتے ہیں: مثال کے طور پر اگر کوئی کسان چھ بڑے جانوروں اور ۲۰ مرغیوں کی مقررہ حد میں اضافہ کرنا چاہتا ہے، تو تعداد بھلے ہی چھوٹی ہو، اسے پنچایت سے کلیئرنس لینا پڑے گا۔ اگر آپ کوٹے کو بڑھاتے ہیں، تو آپ کو آلودگی کنٹرول بورڈ کے پاس جانا ہوگا۔ آپ جو مویشی خانہ بنانا چاہتے ہیں، اس کے سائز کی بنیاد پر آپ کو ڈسٹرکٹ ٹاؤن پلانر سے سرٹیفکیٹ لینا پڑے گا۔ شاید اس ریاست کے چیف ٹاؤن پلانر سے بھی سرٹیفکیٹ لینا پڑے۔ ان تمام چیزوں کو حاصل کر لینے کے بعد آپ کو پنچایت کے لیے ایک تکنیکی رپورٹ بنانی پڑے گی اور پھر ان سے تین یا چار سرٹیفکیٹ حاصل کرنے ہوں گے۔ اس کے بعد کسان کو ڈسٹرکٹ میڈیکل آفیسر سے لازمی طور پر کلیئرنس لینا پڑے گا، جس کے پاس اسے اپنے مویشی خانہ کے ۱۰۰ میٹر کے دائرے میں رہنے والے تمام رہائشیوں سے حاصل کردہ این او سی جمع کرانا پڑے گا۔
جب میں پہلی بار چندرن ماسٹر کے گھر گیا تھا، تو وہاں میری ملاقات کسی دوسرے علاقہ کے مویشیوں کے انسپکٹر سے ہوئی تھی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے مجھے بتایا تھا: ’’اپنے دورہ میں، مجھے اکثر وہ مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں جو مخلوط نسل کے مویشیوں کو درپیش ہیں۔ موسم تھوڑا سا بھی تبدیل ہونے پر وہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ گرمی کو وہ برداشت نہیں سکتے۔‘‘ ہماری گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے چندر ماسٹر نے کہا: ’’آپ ایک رات بھی چین سے نہیں سو سکتے۔ مخلوط نسل کے مویشی بارش میں ۱۰ منٹ بھی نہیں ٹک سکتے۔ وہیں دیہی نسل کے مویشیوں کو باڑے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘ انسپکٹر نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: ’’اگر میں کوئی گائے رکھنا چاہوں، تو وہ ویچور نسل کی ہوگی۔‘‘
پوسٹ اسکرپٹ: دی ہندو میں اس اسٹوری کے پہلے حصہ کے شائع ہونے کے بعد کالا ہانڈی کی زراعت میں پوری طرح سے شامل، کمیونٹی پر مبنی ایک تنظیم، سہبھاگی وِکاس ابھیان نے اعلان کیا ہے کہ وہ چندرن ماسٹر کو نایاب کھریار نسل کے دو بچھڑے بطور تحفہ دے گا۔ اب انہیں مغربی اوڈیشہ سے کیرالہ کے تریشور تک لے جانا ایک بڑا چیلنج ہے۔
یہ مضمون سب سے پہلے دی ہندو میں ۶ جنوری، ۲۰۱۲ کو شائع ہوا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز