کیا سائیکل چلانا ایک سماجی تحریک بن سکتا ہے؟ سننے میں عجیب سا لگتا ہے۔ شاید کہیں ہوتا ہوگا۔ لیکن، یہ بات تمل ناڈو کے پڈوکوٹئی کی ہزاروں ایسی دیہی خواتین کے لیے عجیب نہیں ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے بعد کے سالوں میں تعلیم حاصل کی ہے۔ لوگ اکثر اپنے دقیانوسی خیالات پر وار کرنے، بغاوت کرنے، اور اپنی بندشوں کو لات مارنے کے نئے اور دلچسپ راستے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔
ہندوستان کے سب سے غریب ضلعوں میں سے ایک، پڈوکوٹئی کی خواتین کے لیے سائیکلنگ کرنا ایک آسان طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ گزشتہ ۱۸ مہینوں میں تقریباً ایک لاکھ دیہی خواتین نے، جن میں سے زیادہ تر خواتین نے زندگی کے دوسرے پڑاؤ میں تعلیم حاصل کی ہے، سائیکل چلانے کو اپنی آزادی، خود مختاری اور زندگی کو آگے بڑھانے کی ایک علامت بنا لیا ہے۔ اگر ہم ۱۰ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کو ہٹا کر دیکھیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اس ضلع میں تمام دیہی خواتین کے چوتھائی حصے نے سائیکل چلانا سیکھ لیا ہے۔ ۷۰ ہزار سے زیادہ خواتین نے اپنے اس ہنر کا فخریہ انداز میں مظاہرہ کرنے کے لیے عوامی نمائش کے مقابلوں میں حصہ لیا ہے۔ ابھی بھی ٹریننگ کیمپ جاری ہیں اور سیکھنے کی خواہش بھی بڑھ رہی ہے۔
پڈوکوٹئی کے دیہی علاقوں میں قدامت پرست پس منظر سے آنے والی نوجوان مسلم عورتیں اپنی سائیکل کے ساتھ سڑکوں پر گھومتی ہیں۔ ان میں سے کچھ عورتوں نے سائیکل کے لیے برقعہ پہننا چھوڑ دیا ہے۔ سائیکلنگ کو اپنانے والی ایک نوجوان مسلم لڑکی، جیملہ بی بی مجھ سے کہتی ہیں: ’’یہ میرا حق ہے۔ ہم کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ اب مجھے بس کا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ مجھے معلوم ہے کہ لوگوں نے بھدے اشارے کیے تھے، جب میں نے سائیکل چلانا شروع کیا تھا، لیکن میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔‘‘
فاطمہ، سیکنڈری اسکول کی ٹیچر ہیں۔ انہیں سائیکل چلانے کا اتنا شوق ہے کہ وہ ہر روز آدھے گھنٹے کے لیے سائیکل کرایے پر لیتی ہیں (وہ ابھی تک اپنی سائیکل خرید نہیں پائی ہیں، ایک سائیکل کی قیمت ۱۲۰۰ روپے سے زیادہ ہوتی ہے)۔ وہ کہتی ہیں، ’’سائیکل چلانے میں آزادی محسوس ہوتی ہے۔ اب ہم کسی پر منحصر نہیں ہیں۔ میں اسے چلانا کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ جمیلہ، فاطمہ، اور ان کی دوست اَوَکنّی، سبھی کی عمر ۲۰ سال سے تھوڑی زیادہ ہے، اور وہ اپنی برادری کی بہت سی دیگر نوجوان لڑکیوں کو سائیکل چلانا سکھا چکی ہیں۔
اس ضلع میں سائیکلنگ کے سبھی دیوانے ہیں۔ خواتین زرعی مزدور ہوں یا بھٹہ مزدور یا دیہی صحت کارکن، سبھی اس کی دیوانی ہیں۔ بال واڑی اور آنگن واڑی میں کام کرنے والی عورتیں، پتھر تراشنے والی کاریگر، اور اسکول ٹیچر اس مہم میں نئی نئی شامل ہوئی ہیں۔ گرام سیوکا اور مڈ ڈے میل کارکن بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین نے عمر کے دوسرے پڑاؤ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ ضلع میں ’اریوولی اِیَکّم‘ (علم کی روشنی کی تحریک) کی قیادت میں بڑے پیمانے پر چلائی جانے والی خواندگی کی مہم اس تبدیلی کا سبب بنی ہے۔ میں جس بھی ایسی خاتون سے ملا جو نوخواندہ (جنہوں نے عمر کے دوسرے پڑاؤ میں تعلیم حاصل کی ہے) ہے اور جس نے ابھی ابھی سائیکل چلانا سیکھا ہے، اس نے اپنی خود انحصاری کو سائیکلنگ سے جوڑ کر دیکھا ہے۔
اریوولی کی سنٹرل کوآرڈینیٹر اور ’سائیکل چلاؤ تحریک‘ کی بانیوں میں سے ایک، کنّمّل کہتی ہیں، ’’بنیادی بات یہ ہے کہ اس مہم نے عورتوں کے اندر خود اعتمادی پیدا کی ہے۔ اور اس سے بھی ضروری بات یہ ہے کہ اس سے ان کا مردوں پر انحصار کم ہو گیا ہے۔ اب ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ایک عورت چار کلومیٹر دور سائیکل چلا کر پانی لینے جاتی ہے، بعض دفعہ اس کے بچے ساتھ ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی سامان کو یہاں سے وہاں لے جانا آسان ہے۔ لیکن یقین مانئے کہ یہاں کی عورتوں کو اپنے کردار پر کئی حملے جھیلنے پڑے، جب یہ سب شروع ہوا۔ کئی لوگوں نے بھدے فقرے کسے۔ لیکن اریوولی نے سائیکل چلانے والوں کو سماجی قبولیت عطا کی۔ اس لیےعورتوں نے اسے چلانا شروع کر دیا۔‘‘
سب سے پہلے آئے لوگوں میں کنمّل بھی شامل ہیں۔ حالانکہ وہ ایک سائنس گریجویٹ ہیں، لیکن اس سے پہلے وہ سائیکل چلانے کی جرأت نہیں کر سکیں۔
اریوولی کے ’سائیکلنگ ٹریننگ کیمپ‘ میں آنا ایک انوکھا تجربہ ہے۔ کیلا کروچی گاؤں میں سائیکل چلانا سیکھنے والی تمام عورتیں ’اتوار کی اپنی سب سے عمدہ‘ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے آئی تھیں۔ آپ ’سائیکل چلاؤ تحریک‘ کے جوش کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انہیں یہ سیکھنا ہی تھا۔ سائیکلنگ انہیں مردوں کے غلبہ والے سماج کے قاعدے قانون اور بندشوں سے نکلنے کا راستہ دیتی ہے۔ نئی نئی سائیکل چلانا سیکھنے والی عورتیں اریوولی کے تیار کیے گئے گیتوں کو بھی گاتی ہیں، تاکہ لوگوں میں سائیکلنگ کے تئیں جوش پیدا ہو۔ ان میں سے ایک گانے کی لائن یہ ہے: ’’او بہنا آؤ، سائیکل چلانا سیکھو، وقت کے پہیے کے ساتھ اڑنا سیکھو…‘‘
بہت بڑی تعداد میں تربیت یافتہ لوگ نئے لوگوں کو سکھانے واپس آتے ہیں۔ وہ اریوولی کے لیے ماسٹر ٹرینر (نام تھوڑا عجیب ہے) کے طور پر مفت ٹریننگ دیتے ہیں۔ یہاں نہ صرف سیکھنے کی لگن دکھائی دیتی ہے، بلکہ بڑے پیمانے پر ان میں یہ جذبہ ہوتا ہے کہ سبھی عورتوں کو سائیکل چلانا سیکھنا چاہیے۔ اس کے بدلے میں، ان کے تجربات نے خواندگی کی تحریک کو مضبوطی عطا کی ہے۔ نئی سائیکل چلانے والی عورتیں، اریوولی سے پہلے سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ جڑ گئی ہیں۔
یہ تبدیلی، ضلع کی سابق کلکٹر شیلا رانی چُنکتھ کے دماغ کی اُپج تھی۔ سال ۱۹۹۱ میں ان کے ذہن میں ایک خیال آیا، جس کے تحت خواتین کارکنوں کو ٹریننگ دینی تھی، تاکہ دور افتادہ علاقوں کی خواتین تک خواندگی کی مہم پہنچائی جا سکے۔ انہوں نے اپنی خواندگی کی مہم میں ترقی پسندی کو ضروری پہلو کے طور پر شامل کیا۔ یہ خیال اس حقیقت کی وجہ سے آیا کہ خواتین کے درمیان ترقی پسندی کی کمی ان کی خود اعتمادی کو بری طرح متاثر کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ چُنکتھ نے بینکوں کو ہدایت دی کہ وہ عورتوں کو سائیکل خریدنے کے لیے قرض دیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ہر ایک بلاک میں اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے تمام عہدیداروں کو مخصوص ذمہ داری سونپی۔ ضلع کی سب سے اعلیٰ افسر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے خود بھی اس مہم پر خصوصی توجہ دی۔
سب سے پہلے کارکنوں نے سائیکل چلانا سیکھا۔ پھر، نوخواندہ عورتیں بھی سیکھنا چاہتی تھیں۔ سبھی عورتیں سیکھنا چاہتی تھیں۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے ’لیڈیز‘ سائیکل کی کمی پیدا ہو گئی۔ کوئی بات نہیں۔ ’جینٹس‘ سائیکل بھی اتنے ہی کام کی ہوتی ہے۔ کچھ عورتیں اسی سائیکل کو چلانا پسند کرتی ہیں، کیوں کہ اس میں سیٹ سے ہینڈل تک ایک اضافی بار ہوتا ہے، جس پر بچوں کو بیٹھایا جا سکتا ہے۔ اور آج کل، یہاں کی ہزاروں عورتیں ’جینٹس‘ سائیکل چلا رہی ہیں۔ جب کہ ہزاروں عورتیں ابھی بھی خواب دیکھتی ہیں کہ وہ آگے چل کر ان میں سے کوئی بھی سائیکل خرید سکیں۔
۸ مارچ، ۱۹۹۲ کے عالمی یومِ خواتین کے بعد اس ضلع کی صورت بدل گئی۔ سائیکل کے ہینڈل پر جھنڈے لگائے، گھنٹیاں بجاتی ہوئی عورتوں نے پڈوکوٹئی میں طوفان مچا دیا۔ ان کی خواتین سائیکل ریلی میں اکٹھا ہوئی عورتوں کی بھیڑ نے شہر کے لوگوں کو چونکنے پر مجبور کر دیا۔
لیکن مرد اس تبدیلی کو کیسے دیکھتے ہیں؟ جن لوگوں کو اس تبدیلی کو تسلیم کرنا تھا ان میں سے ایک تھے رام سائیکلس کے مالک ایس کنک راجن۔ اس اکیلے سائیکل فروش نے ایک سال میں ’لیڈیز‘ سائیکل کی فروخت میں ۳۵۰ فیصد کا اضافہ دیکھا۔ یہ شرح بھی کافی حد تک حقیقت کو کم کرکے بتاتی ہے، جس کی دو وجہیں پیش کی جا سکتی ہیں: پہلی، کئی عورتوں نے ’لیڈیز‘ سائیکل کا انتظار نہ کرکے ’جینٹس‘ سائیکل خریدے؛ دوسری وجہ یہ ہے کہ کنک راجن بہت احتیاط اور ہچکچاہٹ کے ساتھ یہ جانکاری دے رہے تھے۔ ان کے لیے میں سیلز ٹیکس ڈپارٹمنٹ کا ایک خفیہ ایجنٹ تھا۔
لیکن پھر بھی، تمام مردوں نے مخالفت نہیں کی۔ بلکہ کچھ نے حوصلہ بڑھایا۔ مثال کے طور پر، اریوولی کارکن مُتھو بھاسکرن کو ہی دیکھ لیجئے۔ انہوں نے سائیکلنگ پر ایک مشہور گیت لکھا، جو بعد میں اس تحریک کا ترانہ بن گیا۔
جب کڈو میان ملائی کی پتھر کی کانوں کی تپتی گرمی میں آپ ۲۲ سالہ کے منورمنی سے ملتے ہیں، جو دوسروں کو ٹریننگ دیتی ہیں، تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اتنی محنت رائیگاں نہیں گئی۔ وہ کان میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ اریوولی کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے والی عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سائیکل چلانا سیکھیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ہمارا علاقہ شہر سے تھوڑا کٹا ہوا ہے۔ جنہیں سائیکل چلانا آتا ہے انہیں آنے جانے میں آسانی ہوتی ہے۔‘‘
سال ۱۹۹۲ میں ایک ہی ہفتہ میں ۷۰ ہزار سے زیادہ عورتوں نے اریوولی کے ذریعے منعقد عوامی ’نمائشی مقابلہ آرائی‘ میں سائیکل چلانے کے ہنر کا مظاہرہ کیا۔ اس سے متاثر ہو کر یونیسیف نے اریوولی خواتین کارکنوں میں ۵۰ موپیڈ تقسیم کیے۔
سائیکلنگ کے اقتصادی نتائج بھی دیکھنے کو ملے۔ اس سے آمدنی میں اضافہ ہوا۔ یہاں کی کچھ عورتیں زرعی اور دیگر پیداوار کو آس پاس کے گاؤوں میں بیچتی ہیں۔ ان کے لیے سائیکل کی سواری کہیں زیادہ مفید ہے، کیوں کہ اس سے ان کا وہ وقت بچتا ہے جو بس کے انتظار میں خرچ ہو جاتا تھا۔ یہ بے ترتیب اور اوبڑ کھابڑ راستوں کے لحاظ سے بھی زیادہ کارگر ثابت ہوا۔ دوسری بات، اس سے انہیں اپنی پیدوار کو بیچنے کے لیے اضافی وقت مل جاتا ہے۔ تیسری بات، آپ اس کی مدد سے اپنے مطابق الگ الگ علاقوں میں جا سکتے ہیں۔ آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سے آپ کو آرام کرنے کا زیادہ وقت ملتا ہے، اگر آپ کچھ دیر کے لیے چھٹی لینا چاہیں تو۔
چھوٹی سطح کی خواتین کاشتکار، جو بس کا انتظار کیا کرتی تھیں، وہ اکثر بس اسٹاپ تک پہنچنے کے لیے بھی اپنے والد، بھائیوں، شوہروں یا بیٹوں پر منحصر تھیں۔ وہ صرف کچھ ہی گاؤوں میں اپنی پیداوار بیچنے کے لیے جا سکتی تھیں۔ کچھ عورتیں پیدل جاتی تھیں۔ جو سائیکل خریدنے سے قاصر ہیں وہ اب بھی پیدل جاتی ہیں۔ ان عورتوں کو جلد ہی واپس لوٹنا پڑتا تھا، تاکہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور دوسرے کام نمٹا سکیں، جیسے پانی بھرنا۔ جن کے پاس اب سائیکل ہے وہ ان کاموں کو اپنی سہولت کے مطابق کرنے لگی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ مشکل راستوں پر بھی ایک نوجوان ماں کو اپنے بچے کو سائیکل پر بیٹھائے، کیریئر پر اپنی پیداوار لاد کر چلتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھ دو (شاید تین) پانی کے گھڑوں کو پیچھے کی طرف لٹکائے، گھر یا کام کرنے کے مقام کی طرف جاتے ہوئے نظر آ سکتی ہیں۔
پھر بھی، اقتصادی پہلو کو باقی سبھی پہلوؤں کے اوپر رکھ کر دیکھنا غلط ہوگا۔ سائیکلنگ سے عزت نفس کا جذبہ جڑا ہوا ہے۔ فاطمہ نے کہا، ’’ہاں بالکل، یہ اقتصادی معاملہ نہیں ہے۔‘‘ اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا، جیسے میں بیوقوف ہوں۔ ’’سائیکل چلانے سے میں کون سا پیسہ کما رہی ہوں؟ بلکہ اس میں میرے پیسے ضائع ہوتے ہیں۔ میں سائیکل نہیں خرید سکتی۔ لیکن، میں روزانہ شام کو سائیکل کرایے پر لیتی ہوں، تاکہ میں اچھا محسوس کر سکوں، خود کو آزاد محسوس کر سکوں۔‘‘ پڈوکوٹئی آنے سے پہلے تک میں نہیں جانتا تھا کہ سائیکل جیسی ہلکی پھلکی گاڑی آزادی کی علامت بن سکتی ہے۔
کنمّل کہتی ہیں، ’’لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل ہے کہ دیہی عورتوں کے لیے یہ کتنی بڑی بات ہے۔ یہ ان کے لیے ہمالیہ پر چڑھنے، ہوائی جہاز اڑانے کے برابر ہے۔ لوگ ہنسی اڑا سکتے ہیں۔ صرف عورتیں جانتی ہیں کہ یہ کتنا ضروری ہے۔‘‘
مجھے لگتا ہے کہ معیاری صحافت کے اصولوں کے مطابق، اس نتیجہ پر آتے آتے سائیکلنگ کی مخالفت کرنے والے مردوں کا بیان شامل کرکے مجھے مضمون کو ’’متوازن‘‘ کر دینا چاہیے۔ لیکن اس کی پرواہ کون کرے؟ یہاں ایک لاکھ نوخواندہ عورتیں سائیکل چلا رہی ہیں، اور یہی تو اصلی اسٹوری ہے۔
جو مرد اس کے خلاف ہیں وہ پیدل چل سکتے ہیں، کیوں کہ جب سائیکلنگ کی بات آتی ہے، تو وہ اس میں عورتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
پس نوشت: اپریل ۱۹۹۵ میں جب میں پڈوکوٹئی واپس گیا، تو یہ جوش برقرار تھا۔ لیکن بہت بڑی تعداد میں ایسی عورتیں تھیں جو سائیکل خریدنے سے قاصر تھیں۔ ایک سائیکل کی قیمت ۱۴۰۰ روپے ہو چکی تھی۔ ایک نئی نسل آ رہی تھی، جو اس کے پہلے مرحلہ سے کوئی بھی فائدہ پانے کے لحاظ سے بہت چھوٹی تھی۔ لیکن، پڈوکوٹئی آج بھی تمام ہندوستانی ضلعوں میں اپنا ایک انوکھا مقام رکھتا ہے، کیوں کہ بہت بڑی تعداد میں وہاں کی عورتوں نے سائیکلنگ کو اپنایا ہے۔ بقیہ عورتوں میں بھی اس ہنر کو سیکھنے کی پوری خواہش ہے۔
یہ اسٹوری سب سے پہلے پی سائی ناتھ کی سال ۱۹۹۶ میں منظر عام پر آئی کتاب ’ایوری باڈی لوز اے گڈ ڈراٹ‘ میں شائع ہوئی تھی۔
مترجم: محمد قمر تبریز