’’ہر عمارت خوابوں کی تعبیر ہے ۔ شاہی طرزِ زندگی اصل طبقۂ اشرافیہ کی پہلی ترجیح ہے۔‘‘ یہی اشتہار میں لکھا ہوا ہے۔ ہاں۔ طبقۂ اشرافیہ کے لیے ہر چیز بڑی ہوتی ہے۔ ہر عمارت میں اس کا اپنا سوئمنگ پول ہے۔ ظاہر ہے، یہ سبھی ’’تمام عیش و آرام سے لیس، نہایت ہی بڑے سائز کے شاندار اپارٹمنٹس ہیں۔‘‘ ویسا ہی، جو ’’شاہی طرزِ زندگی سے مماثلت رکھتا ہو۔‘‘ بنگلے بھی ہیں، جن کے بارے میں بلڈروں (معماروں) کا فخریہ انداز میں کہنا ہے کہ یہ ان کا ’’پہلا مسدود کمیونٹی پروجیکٹ ہے۔‘‘ اور ہاں، ان میں سے ہر ایک ۹ ہزار سے ۲۲ ہزار مربع فیٹ کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے، جس میں ہر ایک کا اپنا پرائیویٹ سوئمنگ پول بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ جو نئی عمارتیں بنائی جار ہی ہیں، ان میں جو دو رُخی بالا خانے ہوں گے، ان میں بھی ہر ایک میں پرائیویٹ سوئمنگ پول بنائے جائیں گے۔

یہ صرف پُنے میں ہیں۔ ان تمام میں وہ سبھی سہولیات موجود ہیں، جن میں زیادہ سے زیادہ پانی کی ضرورت پڑے گی۔ چھوٹا ہی سہی لیکن فخریہ رجحان ۔ اور یہ وعدہ کہ اس قسم کی مزید عمارتیں بنائی جائیں گی۔ یہ تمام عمارتیں ایک صوبہ کے اس علاقے میں ہوں گی، جہاں پچھلے ۴۰ برسوں کے دوران سب سے زیادہ خشک سالی کا عالم ہے۔ جس کے بارے میں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوان کا خیال ہے کہ یہ اب تک کا سب سے تباہ کن قحط ہے۔ ایسے صوبہ میں جہاں کے ہزاروں گاؤوں اب پانی کے ٹینکر کے آنے پر منحصر ہیں۔ اگر آپ خوش قسمت ہیں، تو آپ کے یہاں یہ روزانہ آ سکتا ہے۔ اگر نہیں، تو ہفتہ میں ایک یا دو بار آئے گا۔

جی ہاں، ایسا لگتا ہے کہ سوئمنگ پولس (گھروں میں بنے ہوئے نہانے کے تالاب) اور خشک ہوتی جیھلوں میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس مسئلہ پر بہت کم بات ہوتی ہے۔ اتنی ہی کم، جتنی دو عشرے قبل تب ہوئی تھی، جب صوبائی حکومت نے درجنوں ’’واٹر پارک‘‘ اور پانی پر مبنی تفریحی پارک بنواکر خوشی منائی تھی۔ ایک بار تو صرف گریٹر ممبئی علاقہ میں ایسے متعدد پارک بنائے گئے تھے۔

مہاراشٹر کے قحط متاثرہ تمام علاقوں میں لوگوں کی مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق، سات ہزار سے زیادہ گاؤوں یا تو پوری طرح خشک ہو چکے ہیں یا پھر وہاں پانی کی شدید قلت ہے۔ ہزاروں دوسرے گاؤوں کی حالت بھی ویسی ہی ہے، لیکن انھیں اب تک قحط متاثرہ نہیں کہا گیا ہے۔ جنھیں متاثرہ علاقہ کہا گیا ہے، ان میں سے کچھ کو تھوڑی بہت مدد ملے گی۔ حکومت ان کے لیے پانی کے ٹینکر بھیجتی ہے۔ ہزاروں دیگر افراد، پرائیویٹ ٹینکروں کے ساتھ سیدھے بات کرتے ہیں۔ پانچ لاکھ کے قریب جانور مویشی کیمپوں پر منحصر ہیں۔ ان مویشیوں کو تیزی سے بیچا بھی جا رہا ہے۔

پانی کے جتنے بھی ذخائر ہو سکتے ہیں، ان میں اب صرف ۱۵ فیصد ہی پانی بچا ہے۔ بعض میں تو اب ختم ہونے ہی والا ہے۔ لیکن، ۱۹۷۲ کے بھیانک قحط کے برعکس، اس بار کا قحط خود انسانوں کا بلایا ہوا ہے۔


02-PS_E1_When you can, where you can-PS-How the Other Half Dries.jpg

بنایا ہوا قحط : مہاراشٹر کے دیہاتوں میں آپ پانی تبھی لے جاتے ہیں، جب یہ آپ کو ملتا ہے اور جہاں کہیں بھی ملتا ہے


گزشتہ ۱۵ برسوں کے دوران پانی کا رخ بڑے پیمانے پر صنعتی پروجیکٹوں کی طرف موڑا گیا ہے۔ یہ پانی اُن پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی دیا گیا ہے، جو لائف اسٹائل کے کاروبار میں لگی ہوئی ہیں۔ گاؤوں سے شہروں کی طرف۔ پانی کی اس منتقلی سے خون خرابہ بھی ہوا ہے۔ مثال کے طور پر سال ۲۰۱۱ میں موال میں پولس نے احتجاج کر رہے کسانوں پر گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجہ میں تین کی موت ہوئی اور ۱۹ دیگر زخمی ہوئے۔ یہ کسان اس لیے احتجاج کر رہے تھے، کیوں کہ حکومت ان کی زمینوں کو اپنے قبضے میں لے کر پوانا باندھ سے پِمپری چنچواڑ تک پانی کی پائپ لائن بچھا رہی تھی۔ اس کے سبب جتنے بڑے پیمانے پر پانی کا نقصان ہوا، اس نے ہزاروں مزید کسانوں کو احتجاج کرنے پر آمادہ کر دیا۔ اس کے جواب میں صوبائی حکومت نے اُس وقت تقریباً ۱۲۰۰ لوگوں پر ’’قتل کی نیت سے حملہ کرنے‘‘ اور ساتھ ہی فساد برپا کرنے کا مقدمہ چلایا۔

نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے بھی آبپاشی کو لے کر صنعتوں کو قابو کرنے کی حتی الامکان کوشش کی۔ یہاں تک کہ انھوں نے پہلے سے چلے آرہے سخت قانون، مہاراشٹر واٹر رِسورسز ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ (۲۰۰۵) میں ترمیم کرنے کی بھی کوشش کی، جس کا نتیجہ برا ہوا۔ اگر وہ اس میں کوئی نئی شق لگاتے، تو اس سے پانی کی تقسیم کی پالیسیوں کو چیلنج کرنے سے روکا جا سکتا تھا۔

حالانکہ، لائف اسٹائل یا تفریح کے لیے پانی کے رخ کو موڑنے کا یہ رجحان کوئی نیا نہیں ہے۔ سال ۲۰۰۵ میں، ناگپور (دیہات) ضلع میں ایک بڑا ’فن اینڈ فوڈ ولیج واٹر اینڈ امیوزمینٹ پارک‘ بنایا گیا۔ وہ بھی ایسے وقت میں، جب پانی کی کافی قلت تھی۔ ’فن ولیج‘ میں ۱۸ قسم کے پانی کے جھولے بنائے گئے تھے۔ اس میں برف کے ایک تختہ کے ساتھ ’’ہندوستان کا پہلا اسنو ڈروم‘‘ بھی بنایا گیا تھا۔ ۴۷ ڈگری کی گرمی میں برف کو صحیح سلامت رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک ایسے علاقے میں بڑی مقدار میں بجلی کی ضرورت پڑتی تھی، جہاں عام طور پر ۱۵ گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے۔

یہ وہ صوبہ بھی ہے، جہاں گزشتہ کچھ دہائیوں میں چند گولف کورس بھی بنائے گئے ہیں۔ اس وقت ان کی تعداد ۲۲ ہے اور مزید بنائے جانے کا منصوبہ ہے۔ گولف کورس میں بڑی مقدار میں پانی لگتا ہے۔ اس کو لے کر پہلے کسانوں کے ساتھ اکثر جھڑپیں ہو جایا کرتی تھیں۔ دنیا بھر میں گولف کورسوں میں بھاری مقدار میں حشرہ کش ادویات کا بھی استعمال ہوتا ہے، جو دوسروں کے پانی میں مل کر انھیں خراب کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ، یہ وہ صوبہ ہے جہاں ہم نے ’’آزاد ہندوستان کا پہلا پہاڑی شہر‘‘ لواسا جیسے پرائیویٹ پروجیکٹوں کے ذریعہ پانی کے خشک کیے جانے پر لوگوں کا غصہ اور احجتاج دیکھا ہے۔ شرد پوار کی اس وقت جم کر تعریف ہوئی تھی، جب انھوں نے اپنی ہی پارٹی کے وزیر، بھاسکر جادھو کو خشک سالی کے دنوں میں گھریلو شادی میں پانی برباد کرنے پر برخاست کر دیا تھا۔ لیکن مرکزی وزیر زراعت لواسا پر ہمیشہ خاموش رہے۔ پروجیکٹ کی ویب سائٹ پر کچھ دنوں پہلے تک یہ لکھا ہوتا تھا کہ اسے ۸۷۔۰ ٹی ایم سی پانی ’’جمع کرنے کی اجازت‘‘ ہے، یعنی ۶۔۲۴ کروڑ لیٹر پانی۔

کسی بھی صوبہ نے کم آبپاشی کے لیے زیادہ پیسہ نہیں خرچ کیا ہے۔ حکومتِ ہند کے ایکانومک سروے ۱۲۔۲۰۱۱ میں پتہ لگا کہ پوری ایک دہائی میں آبپاشی والی زمین میں صرف ۱۔۰ فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جس کا اب بھی یہی مطلب ہے کہ صوبہ کے ۱۸ فیصد سے بھی کم کاشت کاری والے علاقے میں آبپاشی ہوتی ہے۔ یعنی اربوں کھربوں روپے خرچ کرنے کے بعد بہت سے کروڑپتی تو پیدا ہو گئے، لیکن آبپاشی بہت کم ہوئی۔ صنعتوں کو پانی دیے جانے کا سلسلہ اس وقت بھی جاری ہے، جب زراعت میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ (ایکانومک سروے کے مطابق، سال ۱۲۔۲۰۱۱ میں اناجوں کی پیداوار میں ۲۳ فیصد کی کمی آئی۔)

اناج تو کم پیدا ہو رہے ہیں، لیکن مہاراشٹر کے اندر پیدا کیے جانے والے دو تہائی گنّے کی کھیتی ان علاقوں میں ہوتی ہے، جہاں قحط کا خدشہ ہے یا پانی کی قلت ہے۔ کم از کم ایک کلکٹر نے اس بحران کے دوران اپنے ضلع میں گنّے کی مل پر پابندی لگا دی تھی۔ اُن علاقوں میں چینی کی تمام ملیں ایک دن میں ۹۰ لاکھ لیٹر پانی خرچ کرتی ہیں۔ یہاں کے چینی ملوں کے مالک اتنے طاقتور ہیں کہ وہ گنّے کے بجائے کلکٹر کو ہی برخاست کروا سکتے ہیں۔

ایک ایکڑ کھیت میں لگے گنّے کی سینچائی کے لیے جتنے پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے جوار جیسے اناج کے ۱۲۔۱۰ ایکڑ کھیت سینچے جا سکتے ہیں۔ مہاراشٹر میں آبپاشی کا آدھے سے زیادہ پانی گنّے کو چلا جاتا ہے، جو کہ کھیتی کے صرف ۶ فیصد حصے پر ہی اُگایا جاتا ہے۔ گنّے کو ’’۱۸۰ ایکڑ اِنچ پانی‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے، یعنی فی ایکڑ ۱۸۰ لاکھ لیٹر۔ ۱۸۰ لاکھ لیٹر پانی سے گاؤوں کے ۳ ہزار گھروں کی ایک مہینہ کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں (اگر ایک دن میں ایک آدمی ۴۰ لیٹر پانی استعمال کرے تب بھی)۔ یہ اُس علاقے کا حال ہے، جہاں ہر سال زیر زمین پانی کی سطح میں لگاتار گراوٹ آ رہی ہے۔

اس کے باوجود مہاراشٹر اب بھی گلابوں کی کھیتی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ حالانکہ ابھی اس کا چلن عام نہیں ہے، لیکن آنے والے دنوں میں مزید کی امید ہے۔ گلابوں کو اور بھی پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انھیں ’’۲۱۲ ایکڑ انچوں‘‘ کی ضرورت پڑتی ہے، یعنی فی ایکڑ کے لیے ۲۱۲ لاکھ لیٹر پانی۔ گلابوں کی کھیتی، بھلے ہی چھوٹی سطح پر ہو رہی ہو، لیکن اس نے صوبہ کو خوشی منانے کا موقع دیا ہے۔ اس کے ایکسپورٹ میں اس سال ۱۵ سے ۲۵ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ کمائی میں اضافہ، سردی کے موسم میں اضافہ اور پھر ’ویلین ٹائنس ڈے‘، ان سب نے مل کر گلاب کی کھیتی کرنے والے کسانوں کو خوشی منانے کا موقع فراہم کیا۔

گزشتہ ۱۵ سالوں کے دوران، صوبہ نے جس ریگولیٹری فریم ورک پر عمل کیا ہے، اس سے پانی کی مزید نجکاری ہوئی ہے۔ اس قدرتی وسیلہ کے اوپر لوگوں کا کنٹرول کافی کم ہوا ہے اور یہ صورتِ حال مزید خستہ ہوتی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی، زیر زمین پانی کا جس طرح بیجا استعمال ہو رہا ہے، اس سے بھی حالات مزید خراب ہوتے جار ہے ہیں۔

مہاراشٹر کو اِس وقت جس بحران کا سامنا ہے، اسے پیدا کرنے میں خود اس نے بڑی محنت کی ہے۔ یہ خشک ہوتے علاقوں میں پرائیویٹ سوئمنگ پول بنانے کی اجازت دینے کا نتیجہ ہے۔ امیروں کو پانی کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔ لیکن بقیہ لوگوں کی امیدیں دنوں دن ختم ہوتی جا رہی ہیں۔


(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)


पी. साईनाथ, पीपल्स ऑर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया के संस्थापक संपादक हैं. वह दशकों से ग्रामीण भारत की समस्याओं की रिपोर्टिंग करते रहे हैं और उन्होंने ‘एवरीबडी लव्स अ गुड ड्रॉट’ तथा 'द लास्ट हीरोज़: फ़ुट सोल्ज़र्स ऑफ़ इंडियन फ़्रीडम' नामक किताबें भी लिखी हैं.

की अन्य स्टोरी पी. साईनाथ