دوپہر سے ٹھیک پہلے ایک شخص لاؤڈ اسپیکر پر تیلگو زبان میں اعلان کرتا ہے: ’’پانڈو نائک، آپ کی بیٹی گایتری ہمارے پاس ہے۔ براہ کرم فوراً کنٹرول روم میں تشریف لائیں۔‘‘ پچھلی رات سے بچوں کے علاوہ بڑوں کے لیے بھی اس طرح کے کئی اعلانات کیے جا چکے ہیں۔ بھاری ہجوم میں عموماً چند لوگ اپنے گھر والوں اور ساتھیوں سے بچھڑ جاتے ہیں اور چند پریشان کن لمحات کے بعد دوبارہ مل بھی جاتے ہیں۔
زائرین اور سیلانیوں کی آمد کا سلسلہ گزشتہ رات سے ہی شروع ہو گیا ہے۔ مقامی میڈیا نے کم از کم ۵۰ ہزار لوگوں کے یہاں آنے کا اندازہ لگایا ہے۔ اگلے دن طلوع آفتاب تک تلنگانہ کے سوریہ پیٹ ضلع کے جان پہاڑ گاؤں میں درگاہ کی طرف جانے والی گلی تقریباً بھرچکی ہے۔
یہ حضرت جان پاک شہید کا عرس یا یومِ وفات ہے، جو سال کے پہلے مہینہ کے آخری جمعہ کو منایا جاتا ہے۔ اس سال یہ عرس ۲۴ جنوری کو منایا جا رہا ہے۔
دن چڑھتے ہی مختلف برادریوں کے لوگ اس طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں، اور خاص طور پر لمباڈیوں (جو ایک درج فہرست قبیلہ ہے) کے لیے بھی یہ ایک اہم تہوار ہے۔ زائرین بنیادی طور پر تلنگانہ کے کھمم، وارنگل اور محبوب نگر اضلاع سے اور آندھرا پردیش کے گنٹور، پرکاسم اور کرشنا اضلاع سے آتے ہیں۔
اپنے سیکولر تانے بانے کے علاوہ یہ عرس ان کسانوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے جو اپنی زمین کے لیے نیک شگون کے خواہاں ہوتے ہیں۔ موئیلولّا انجمّا کہتی ہیں، ’’ پَنٹا، پَیرو، پِیلالو [پیداوار، فصل اور بچے] اچھے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم گَندھَم [صندل] میلے میں باقاعدگی سے آتے ہیں۔‘‘ انجما ایک کسان ہیں جو رجکا برادری (تلنگانہ میں ایک پسماندہ ذات) سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر موئیلولا بلیّہ کے ساتھ محبوب نگر ضلع کے اچمپیٹ منڈل سے آئی ہیں، جو پلکیڈو منڈل میں واقع حضرت کی درگاہ سے تقریباً ۱۶۰ کلومیٹر دور ہے۔
انجمّا بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح یہاں حضرت جان پاک شہید (جنہیں مقامی لوگ جان پہاڑ سیدُولو کے نام سے پکارتے ہیں) کے تئیں اپنے مستقل عقیدے کے ساتھ آتی ہیں۔ کچھ روایتوں کے مطابق وہ یہاں ۴۰۰ سال پہلے مقیم تھے۔ درگاہ کے حکام کے ذریعہ شائع شدہ کتابچے ’’پیپلز گاڈ‘‘ میں اس بات کا ذکر ہے کہ کس طرح ۱۹ویں صدی میں ایک مقامی زمیندار کے مویشی لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس نے ہر جگہ تلاش کیا لیکن جانور کہیں نہیں ملے۔ پھر وہ سیدُولو کی درگاہ کے پاس آیا، وہاں نماز ادا کی اور مزار پر سالانہ تہوار منانے اور زائرین کو پانی فراہم کرنے کے لیے ایک کنواں تعمیر کرنے کا وعدہ کیا (وہ کنواں اب بھی موجود ہے)۔ جب وہ گھر گیا تو اس کے مویشی لوٹ آئے تھے۔
کتابچے میں دیگر واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مثلاً کس طرح پریشان جوڑے اولاد کی نعمت سے مالامال ہوئے، شراب نوشی سے نجات ملی اور بیماریوں سے راحت ملی۔ ایمان اور یقین کی ان کہانیوں کی کشش موجودہ زمانے میں بھی برقرار ہے، جو انجمّا جیسے بے شمار لوگوں کو عرس میں کھینچ لاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے والدین اپنے بچوں کے نام اس فقیر کے نام پر رکھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سوریہ پیٹ کے حضور نگر کے ایم ایل اے سَیدی ریڈی اور سابق وزیر داخلہ جان ریڈی کے نام بھی جان پہاڑ سیدوُلو کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ عرس میں آنے والے بہت سے زائرین کے نام سیدوُلو، سیدما، سیدیہ اور سیدہ ہیں۔
صندل کا جلوس، جس میں انجمّا شریک ہیں، جنوری کے آخری جمعہ کو ۱۰ بجے صبح درگاہ سے تقریباً ۱۰۰ میٹر کے فاصلے پر واقع مجاور کے گھر سے نکلتا ہے۔ پھر یہ مختلف قریبی بستیوں میں سے گزرتا ہے۔ جلوس میں چار کھمبوں کے ذریعے اوپر اٹھائے گئے کپڑے کی چھتری کے سائے میں چمیلی اور گلاب کے پھولوں سے مزین اسٹیل کے برتنوں میں چندن کی لکڑی کا پیسٹ لے جایا جا رہے۔ یہ جلوس دوپہر ۳ بجے کے قریب درگاہ پر پہنچتا ہے، جہاں قبروں پر صندل کی لکڑی کا پیسٹ لگایا جاتا ہے۔ یہاں حضرت جان پاک شہید کے علاوہ ان کے بھائی معین الدین شہید کی قبر بھی موجود ہے۔
خواہ برتن ہو، کپڑا ہو، پنکھا ہو، یا جلوس کی قیادت کرنے والا گھوڑا، عقیدت مند ہر اس چیز کو عقیدت کے ساتھ چھو لینے کی پوری کوشش کرتے ہیں جو گندھم کی رسم کا حصہ ہے۔ انہیں نہ سڑکوں کی دھول روک رہی ہے اور نہ ہی بھگدڑ کا خوف۔
خواہ برتن ہو، کپڑا ہو، پنکھا ہو، یا جلوس کی قیادت کرنے والا گھوڑا، عقیدت مند ہر اس چیز کو عقیدت کے ساتھ چھو لینے کی پوری کوشش کرتے ہیں جو گندھم کی رسم کا حصہ ہے
بلیّہ یاد کرتے ہیں، ’’پانچ سال قبل میرے بھائی اپنے پوتے کے ساتھ یہاں آئے تھے۔ وہ جلوس کے دوران گر گئے۔ بچہ [جو تقریباً تین سال کا تھا] مر سکتا تھا، لیکن کسی نہ کسی طرح وہ بھگدڑ سے بچ گئے تھے۔‘‘ اپنے گاؤں واپس آتے ہوئے وہ اور انجمّا دوسرے بہت سے عقیدت مندوں کی طرح صندل کے کچھ پیسٹ واپس لے جاتے ہیں، جو درگاہ کے ذمہ داران کی طرف سے تھیلوں میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ وہ اس پیسٹ کو اپنے کھیتوں، اپنی فصلوں، کھیتی کے اوزاروں اور یہاں تک کہ اپنے کپڑوں پر لگاتے ہیں۔
انجمّا اور بلیہ کا عقیدہ ۳۰ سال پرانا ہے، جب انہوں نے اپنی آٹھ ایکڑ زمین پر ایک چھوٹی سی درگاہ بنائی تھی۔ اس زمین پر وہ دھان اور کپاس کی کھیتی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کے بیٹے کی صحت کے لیے دعا کی ایک صورت تھی۔ وہ مختلف مندروں میں بھی جاتے ہیں، جہاں سے وہ درگاہ کے صندل کی پیسٹ کی طرح ایک پوسٹر یا کیلنڈر واپس لاتے ہیں۔ ’’اور ہم یہاں بھی آتے ہیں،‘‘ بلیہ کہتے ہیں۔ وہ اپنے گاؤں سے بس میں سفر کرکے یہاں آئے ہیں۔
عرس خریداری اور خوشی کا بھی موقع ہوتا ہے۔ درگاہ کے ارد گرد کا علاقہ میلے میں تبدیل ہو جاتا ہے، جہاں جھولوں، بچوں کے لیے سلائیڈز اور دیگر پرکشش چیزوں کے علاوہ کاروبار میں بھی تیزی آ جاتی ہے۔ اس بات کی شہرت کہ یہاں فروخت منافع بخش ہوسکتی ہے، دکانداروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اپنے لیے جگہ تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ گاڑیوں پر، زمین پر، چھوٹی دکانوں میں اور اسٹالوں پر کھلونے، چوڑیاں، پوسٹر، مٹی کے مورتیں، نقلی زیورات، انڈے، دودھ ، لاٹری ٹکٹ، ہینڈ بیگ اور مختلف دیگر اشیاء فروخت کرتے ہیں۔
’’ہمارے پاس اپنے دانت صاف کرنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ ایک گاڑی کو سنبھالنے کے لیے کم از کم تین لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے،‘‘ روپاوت سروجا کہتی ہیں، جو چنے کے بیسن سے بنی اپنی خاص پٹّی کے ساتھ ساتھ نمکین تیار کرتی اور فروخت کرتی ہیں۔ یہاں کھانے کی گاڑیوں میں جلیبیاں، بوندی مکسچر، ناریل کا حلوہ اور دیگر مختلف اشیاء بھی فروخت کی جاتی ہیں۔
پچھلے سال سروجا نے ۳۰ ہزار روپے کا کاروبار کیا تھا، لیکن گاڑیوں کی بھرمار کی وجہ سے اس سال وہ کم کاروبار کی توقع کر رہی ہیں۔ یہاں ان کی ایک چھوٹی سی لیکن مستقل دکان ہے، جو درگاہ سے زیادہ دور نہیں ہے۔ یہ دکان پورے ہفتے کھلی رہتی ہے۔ لیکن عرس کے دن فروخت عروج پر ہوتی ہے اور سال کے دیگر تمام جمعہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ سروجا کہتی ہیں کہ اس دن وہ ۵۰۰۰ سے ۱۰ ہزار روپے کے درمیان کمائی کرتی ہیں۔
’’عرس کے دن ہم [فی ٹھیلہ] ۱۵ ہزار روپے کا منافع حاصل کرتے ہیں،‘‘ چوڑیاں بیچنے والے مثال (انہوں نے اپنا پورا نام نہیں بتایا) کہتے ہیں۔ وہ عام طور پر ایک مہینہ میں اتنی رقم کماتے ہیں۔ اس سال، انہوں نے اور سات دیگر دکانداروں نے درگاہ پر ایک دن کے کاروبار کے لیے وجے واڑہ سے اپنے ٹھیلے لانے کے لیے ۱۶ ہزار روپے میں ایک ٹرک کرایہ پر لیا تھا۔
مزار کے قریب گاؤوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے بھی یہ ایک اہم موقع ہوتا ہے۔ ’’ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمارے پاڈی پنتا [مویشی اور فصلیں] صحت مند رہیں۔ ہمارا اصل تہوار عرس ہے،‘‘ ۴۸ سالہ بُھوکیا پرکاش کہتے ہیں۔ ان کا تعلق لمباڈی برادری سے ہے۔ وہ درگاہ سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں کَلمیت تنڈا میں رہتے ہیں، اور ۵ء۵ ایکڑ زمین پر کپاس، دھان اور مرچوں کی کھیتی کرتے ہیں۔
’’میرا کنبہ [عرس سے پہلے اور اس کے دوران] تقریباً ۳۰ ہزار روپے خرچ کرتا ہے،‘‘ کپڑے اور زیورات خریدنے اور آٹے پر مبنی ناشتے کی تیاری کے لیے خریداری کا حوالہ دیتے ہوئے پرکاش مزید کہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اتنے پیسے دوسرے مشہور تہواروں جیسے دشہرہ یا دیوالی کے دوران بھی خرچ نہیں کرتے۔
ایک ریہرسل کی تیاری کے دوران پرکاش سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ وہ ایک ڈرامے کے مکالمے سنا رہے ہیں۔ اس ڈرامے پر وہ اور ان کی ٹیم ۲۰ دنوں سے کام کر رہی ہے۔ یہ ان کی تقریبات میں حالیہ اضافہ ہے۔ یہ ڈرامہ ایک انتقامی کہانی پر مبنی ہے جس کا عنوان ہے ’نیدرا لیچینا رودر سمہالو‘ (گرجنے والے شیر جاگ اٹھے)، اور جس کا پریمیئر عرس کے اگلے دن ان کے گاؤں کے لیے کیا جائے گا۔ اس دن بھی تقریبات جاری رہیں گی۔
لمباڈیوں کے لیے درگاہ پر ہونے والا کَنڈورو خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں شکرانے کے طور پر یا کالج میں داخلے، بیماری سے شفا، اچھی فصل کے لیے بکرے یا بھیڑ کی قربانی دی جاتی ہے۔ لیکن بھاری ہجوم کی وجہ سے بہت سے لوگ عرس کے دن مرغی کی قربانی دیتے ہیں اور اسے لکڑی کے عارضی چولہے پر پکاتے ہیں۔ کچھ اپنے برتن ساتھ لاتے ہیں، جبکہ دیگر مقامی دکانوں سے لکڑی خریدنے کے ساتھ کرایے پر لیتے ہیں۔ پکائے جانے والے کھانے کی مصالحہ دار خوشبو صندل اور دھول کے ساتھ گھل مل جاتی ہے۔
درگاہ سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کیشو پورم گرام پنچایت کے سرپنچ سَیدہ نائک کہتے ہیں، ’’یہ [عرس] صرف آغاز ہے۔‘‘ وہ عرس کے بعد ہر جمعہ کا حوالہ دے رہے ہیں، جہاں جون جولائی میں اگلی فصل کے موسم تک، لوگ کنڈورو کے لیے جان پہاڑ گاؤں میں بکروں اور بھیڑوں کی قربانی کے لیے آتے رہتے ہیں۔
ذبح کرنے اور بعد میں پکا ہوا کھانا مزار پر پیش کرنے اور مقدس آیات کی تلاوت کے لیے فی جانور ۱۲۰۰ روپے فیس وصول کی جاتی ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس رقم کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ یہ رقم درگاہ کی دیکھ بھال کرنے والے حکام یا ذیلی ٹھیکیداروں کے ذریعے جمع کی جاتی ہے (جن کو ذبح کرنے، ناریل بیچنے، لڈو تقسیم کرنے اور بہت سی دوسری منافع بخش سرگرمیوں کے حقوق حاصل ہوتے ہیں)۔ ٹھیکوں کی نیلامی ریاستی وقف بورڈ کرتی ہے۔
ان فیسوں کے علاوہ جن کے بہت سے لوگ متحمل نہیں ہوسکتے، زائرین پنڈال میں صفائی کے ناقص انتظامات اور بیت الخلاء کی کمی کی شکایت کرتے ہیں۔ ’’وزراء، ایم ایل اے، کلکٹر اور آر ڈی اوز [ریونیو ڈویژنل افسران] سبھی اس جگہ کا دورہ کرتے ہیں۔ ہم نے انہیں کئی بار مطلع کیا ہے، لیکن حالات نہیں بدلے،‘‘ سَیدہ نائک کہتے ہیں۔ ماضی میں مقامی میڈیا نے بھی درگاہ کے کاموں میں بے ضابطگیوں اور سہولیات کی شدید کمی کو اجاگر کیا تھا۔
ان کمیوں کے باوجود زائرین بلا تفریق ذات اور مذہب یقین، امید، اور شاید مزیدار کھانے کی توقع میں سال در سال یہاں آتے ہیں۔
مترجم: شفیق عالم