بُنکر اختر علی (۴۰ سالہ) کہتے ہیں، ’’بھدوہی کو قالین کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہاں کوئی اور کام نہیں ہوتا ہے۔ میں نے اپنا بچپن یہیں گزارا اور اسی طرح میں نے بُنائی سیکھی۔‘‘ حالانکہ، قالینوں سے ہونے والی آمدنی میں گراوٹ کے سبب علی نے اب سلائی کا کام شروع کر دیا ہے۔

اتر پردیش کے مرزا پور ڈویژن میں واقع بھدوہی ضلع، ملک میں قالین کی بُنائی کے سب سے بڑے گروہوں کا مرکز ہے۔ اس میں مرزا پور، وارانسی، غازی پور، سون بھدر، کوشامبی، الہ آباد، جونپور، چندولی وغیرہ ضلع آتے ہیں۔ اس صنعت سے ۲۰ لاکھ دیہی مزدوروں کو روزگار ملتا ہے، جس میں عورتیں بڑی تعداد میں شامل ہیں۔

یہاں کے قالین کو جو چیز خاص بناتی ہے وہ ہے ہاتھ سے کی جانے والی بُنائی۔ اس میں قالینوں کو عمودی کرگھے پر بُنا جاتا ہے، جس میں فی مربع انچ ۳۰ سے ۳۰۰ گانٹھیں لگائی جاتی ہیں۔ گزشتہ دو صدیوں سے یہ طریقہ اور بنائی میں استعمال ہونے والا خام مال (اون، سوتی اور ریشم کا دھاگہ) نہیں بدلا ہے۔ کرگھے پر ہاتھ سے گانٹھ لگانے کا ہنر بُنکروں کے بچوں کو وراثت میں ملتا ہے۔

بُنائی کے اس انوکھے طریقے کو تب عوامی شناخت حاصل ہوئی تھی، جب بھدوہی کے قالینوں کو سال ۲۰۱۰ میں جغرافیائی نشان (جے آئی) ملا۔ جی آئی ٹیگ ملنے کے بعد اس صنعت کو بھی فروغ ملنے کی امید تھی، لیکن اس سے قالین بُنکروں کے کاروبار میں کوئی بہتری نہیں آئی۔

مثال کے طور پر، سال ۱۹۳۵ میں قائم کردہ مبارک علی اینڈ سنز ۲۰۱۶ سے پہلے تک برطانیہ، امریکہ، یوروپی یونین اور جاپان جیسے ممالک میں بھدوہی کے قالینوں کا ایکسپورٹ کرتا تھا، لیکن لگاتار کم ہوتے آرڈر کی وجہ سے ۲۰۱۶ میں انہیں یہ کام بند کرنا پڑا۔ اس برآمداتی کمپنی کے بانی اور سابق مالک، مبارک کے پوتے خالد خان (۶۷ سالہ) بتاتے ہیں، ’’میرے دادا اور والد، دونوں اسی کاروبار میں تھے۔ ہمارا کاروبار برطانوی دور میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب قالینوں کو ’میڈ ان برٹش انڈیا‘ کی مہر کے ساتھ ایکسپورٹ کیا جاتا تھا۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: اپنے وجود کی لڑائی لڑتا بھدوہی کا قالین

مانا جاتا ہے کہ ہندوستان میں قالین بنُائی کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ تاریخی دستاویزوں کے مطابق، یہ ہنر مغلیہ دور حکومت میں اور خاص کر ۱۶ویں صدی میں، اکبر کے دور میں خوب پھلا پھولا۔ اور پھر، ۱۹ویں صدی سے بھدوہی علاقے میں ہاتھ سے بُنے قالینوں، خاص طور پر اونی قالینوں کی بڑے پیمانے پر پیداوار ہونے لگی۔

یہاں کا قالین پوری دنیا میں جاتا ہے۔ کارپیٹ ایکسپورٹ پروموشن کونسل کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں تیار کردہ قالینوں میں سے تقریباً ۹۰ فیصد قالین کی برآمد کی جاتی ہے؛ اور امریکہ میں اس میں سے آدھے سے زیادہ قالین ایکسپورٹ ہوتے ہیں۔ سال ۲۲-۲۰۲۱ میں، ہندوستان کا قالین ایکسپورٹ ۲۳ء۲ بلین ڈالر (یعنی ۱۶۶۴۰ کروڑ روپے) کا تھا۔ اس میں سے ہاتھ سے بنے قالینوں کی قیمت ۵۱ء۱ بلین ڈالر (یعنی ۱۱۲۳۱ کروڑ روپے) تھی۔

حالانکہ، بھدوئی کی قالین بُنائی صنعت کو بازار میں دستیاب سستی قالینوں سے سخت مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے، اور اس میں بھی خاص کر چین جیسے ممالک میں مشین سے بننے والے نقلی قالینوں سے۔ علی، چین میں بنے قالینوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’قالینوں کا ڈوپلکیٹ (نقلی) مال اب بازار میں آسانی سے مل جاتا ہے۔ تاجر یا دولت مند لوگوں کو اس کے اصلی یا نقلی ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔‘‘

بھدوہی کی ایک اور رہائشی، ۴۵ سالہ ارمیلا پرجاپتی ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں قالین بُنائی کا ہنر وراثت میں ملا ہے۔ لیکن، گھٹتی آمدنی اور صحت سے متعلق مسائل کے سبب انہیں اس پیشہ کو چھوڑنا پڑا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میرے والد نے مجھے گھر پر قالین بُننا سکھایا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم آزادانہ طور پر کام کریں اور کمائیں۔ میری آنکھوں میں ہمیشہ پانی بھر جاتا تھا۔ کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ اگر میں بُنائی بند کر دوں، تو میری آنکھیں پہلے جیسی ہو جائیں گی، اس لیے میں نے بُنائی بند کر دی۔‘‘

حالانکہ، ارمیلا نے اب چشمہ لگانا شروع کر دیا ہے اور وہ ایک بار پھر سے قالین کا کاروبار شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ بھدوہی کے دیگر لوگوں کی طرح، انہیں وارثت میں ملے اپنے اس ہنر پر فخر ہے۔ لیکن، جیسا کہ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے، کم ہوتی برآمد، غیر یقینی کے شکار بازار، روایتی پیشہ سے لوگوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے قالین کے شہر کے طور پر مشہور بھدوہی اپنی صدیوں پرانی اس عظمت کو کھونے کے دہانے پر ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Mohammad Asif Khan

मोहम्मद आसिफ़ खान, नई दिल्ली स्थित पत्रकार हैं. वह अल्पसंख्यक समुदायों से जुड़ी समस्याओं और संघर्ष वाले क्षेत्रों पर केंद्रित रिपोर्टिंग करने में रुचि रखते हैं.

की अन्य स्टोरी Mohammad Asif Khan
Sanjana Chawla

संजना चावला, नई दिल्ली स्थित पत्रकार हैं. उनके लेखन में भारतीय समाज, संस्कृति, जेंडर से जुड़े मसलों, और मानवाधिकार के मुद्दे का सूक्ष्म विश्लेषण मिलता है.

की अन्य स्टोरी Sanjana Chawla
Text Editor : Sreya Urs

श्रेया उर्स, बेंगलुरु की एक स्वतंत्र लेखक और संपादक हैं. वह बीते 30 सालों से भी ज़्यादा समय से प्रिंट और टेलीविज़न मीडिया में कार्यरत हैं.

की अन्य स्टोरी Sreya Urs
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique