’’یہ ڈھول نہیں ہے،‘‘ ایک ڈھول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سویتا داس کہتی ہیں۔

اپنے سامنے موجود مواقع میں خود کو محدود کرنے سے انکار کرتے ہوئے، بہار کے پٹنہ ضلع کے ڈھیبرا گاؤں کی عورتوں کے اس گروپ نے غیر روایتی ذریعہ معاش اپنایا ہے۔ قابل کاشت زمین چونکہ سکڑتی جا رہی ہے اور کم مزدوری پر کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا کام ختم ہوتا جا رہا ہے، اس لیے انھوں نے اپنے ہاتھ میں چھڑیاں پکڑ لی ہیں۔ سولہ عورتوں نے اس راستے پر چلنا شروع کیا، لیکن فیملی کے دباؤ اور کبھی نہ ختم ہونے والی تنقید نے ان میں سے چھ کو اس راستہ کو چھوڑنے اور گروپ سے باہر نکلنے پر مجبور کیا۔  وہ 10 عورتیں جو ثابت قدم رہیں، ان سب کا عرفی نام داس ہے، انھوں نے سال 2012 میں ’سرگم مہیلا بینڈ‘ کے نام سے ریاست کا پہلا صرف خواتین پر مبنی بینڈ بنایا۔

ویڈیو دیکھیں: خواتین پر مبنی سرگم مہیلا بینڈ کی اراکین بہار کے ڈھیبرا گاؤں میں شوق سے ڈھول بجا رہی ہیں

’’ان ہاتھوں کو دیکھئے، کھیتوں پر کام کرنے سے اب ان پر کوئی خراش نہیں ہے۔ ہمارے پاس پیسہ ہے۔ ہماری عزت ہے۔ اس سے زیادہ ہمیں اور کیا چاہیے؟‘‘ دو بچوں کی ماں، 35 سالہ ڈومنی داس کہتی ہیں۔

سویتا اور ڈومنی کی طرح ہی خواتین کے سرگم بینڈ کی دوسری عورتیں – پنچم، انیتا، لالتی، مالتی، سونا، بیجنتی، چتریکھ، چھتیا – بھی مہا دلت ہیں۔ بہار میں درج فہرست ذات (شیڈولڈ کاسٹ یا ایس سی) کا یہ طبقہ سب سے غریب اور محروم  طبقہ ہے۔ ریاست کے کل 16.5 ملین دلتوں میں ان کی آبادی تقریباً ایک تہائی ہے۔ مہیلا بینڈ کی ہر ایک رکن کی اپنی الگ کہانی ہے کہ اونچی ذات والوں نے ان کے آباء و اجداد پر کیسے کیسے ظلم و ستم کیے۔ وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ اونچی ذات والے زمیندار کھیتوں پر اور گھروں میں ان کے شوہر ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے۔ یہ تمام عورتیں دانا پور بلاک کی جمسوٹ پنچایت کے ڈھیبرا گاؤں کی ہیں۔

PHOTO • Puja Awasthi

’میں جب بھی اسے (ڈرم کو) پیٹتی ہوں، تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں ان تمام کو پیٹ رہی ہوں جنہوں نے مجھے پکڑ رکھا تھا‘، سویتا کہتی ہیں (بائیں، پیش منظر)، جو اس بینڈ کی لیڈر ہیں۔ دائیں: سرگم مہیلا بینڈ کا وزیٹنگ کارڈ

پچاس سالہ چتریکھ یاد کرتی ہیں کہ جب بھی وہ باہر جانا چاہتی تھیں تو کیسے ان کے شوہر سیتا رام اعتراض کرتے تھے۔ ’’گھر کے کام کرو – وہ مجھ سے کہتے تھے۔ بعض دفعہ وہ خبط الحواسی میں کوئی ڈیمانڈ کر دیتے۔ اب جب مجھے باہر جانا ہوتا ہے، تو مجھ سے کہتے ہیں کہ جلدی کرو، ورنہ لیٹ ہو جاؤ گی۔ چیزیں کتنی بدل گئی ہیں،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔

ڈھول بجانے کا خیال ان کے ذہن میں اکیلے نہیں آیا۔ وہ ایک سیلف ہیلپ گروپ کا حصہ تھیں، اور اسی لیے، جیسا کہ وہ بتاتی ہیں، ’’ایک ساتھ کام کیا کرتی تھیں۔‘‘ ان سب کی مشترکہ طور پر یہ خواہش تھی کہ اقتصادی خود مختاری حاصل کرنے کے لیے انھیں پاپڑ اور اچار کے علاوہ کچھ اور کرنا چاہیے، لہٰذا پٹنہ کی ایک تنظیم، ناری گُنجن نے جب ان سے ایک بینڈ بنانے اور ان کے لیے ایک میوزک ٹیچر کا انتظام کرنے کے لیے کہا، تو وہ فوراً تیار ہو گئیں۔ آدتیہ کمار گُنجن پٹنہ سے 20 کلومیٹر دور، ہفتہ میں سات دن انھیں ٹریننگ دینے کے لیے جاتے رہے اور یہ کام انھوں نے ڈیڑھ سال تک کیا۔

PHOTO • Puja Awasthi

بینڈ کی ممبران کی عمر 30 سال سے 50 سال تک ہے، اور اس میں پنچم (بائیں) اور چتریکھ (دائیں) بھی شامل ہیں

شروعاتی مہینے اس گروپ کے لیے مشکل بھرے تھے، جس کی ممبران کی عمر 50-30 سال ہے۔ ایک طرف جہاں گاؤں والے انھیں لگاتار یہ طعنہ دے رہے تھے کہ وہ مردوں جیسا بننا چاہتی ہیں، وہیں دوسری طرف گلے میں ڈھول لٹکانے اور اسے لگاتار پیٹنے سے ان کی ہتھیلیوں اور کندھوں میں بھی درد رہنے لگا۔

ان ڈھول بجانے والیوں کی خبر جیسے ہی پھیلنی شروع ہوئی، مقامی پروگراموں میں ڈھول بجانے کے دعوت نامے انھیں بڑی تعداد میں ملنے لگے۔ تبھی سے وہ دور دراز کا سفر کرنے لگی ہیں۔ پٹنہ اور اس کے آس پاس کے ضلعوں میں ڈھول بجانے کے علاوہ، اس بینڈ نے اوڈیشہ اور دہلی میں بھی اپنا شو کیا ہے۔ راجدھانی دہلی کا سفر ان کے لیے کافی مزیدار رہا، جب انھیں زندگی میں پہلی بار میٹر میں سفر کرنے کا موقع ملا۔

وہ اپنے پیسے اور کام کو خود سے مینج کرتی ہیں۔ پیسے ان کے درمیان برابر بانٹے جاتے ہیں، لیکن اگر کوئی کام سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو اسے پیسے نہیں دیے جاتے۔ مشق کتنی کرنی ہے، یہ کام کی مقدار پر منحصر ہے (عام طور پر یہ کھیتوں میں جا کر پریکٹس کرتی ہیں، تاکہ گاؤں والے ڈسٹرب نہ ہوں)۔ انھوں نے اپنے وزیٹنگ کارڈ بنا رکھے ہیں اور ساتھ ہی ان کا ایک ضابطہ اخلاق بھی ہے کہ بینڈ کی سبھی عورتیں ہر وقت صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس رہیں گی اور بزنس کی کوئی بھی بات صرف گروپ لیڈر، سویتا ہی کریں گی۔

PHOTO • Puja Awasthi

اب ہر ذات کے لوگ میوزیکل اسکل میں ماہر ان عورتوں کو اپنے یہاں بلاتے ہیں، بعض دفعہ یہ لوگ اس گروپ کی دستیابی کا پتہ لگانے کے بعد ہی اپنے پروگرام کی تاریخ طے کرتے ہیں

اس کے علاوہ بغیر کہے یہ بھی ایک معاہدہ ہے کہ ہر عورت اپنی کمائی اپنے پاس ہی رکھے گی۔ ’’پتی یعنی شوہر کو نہیں دیں گے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ 32 سالہ انیتا کہتی ہیں، ’’میں ان پیسوں سے اپنے بچوں کی اسکول فیس ادا کرتی ہوں، ان کی کتابیں خریدتی ہوں، ہم اچھا کھانا کھاتے ہیں۔ میں پیسے بچاتی ہوں اور کبھی کبھار اپنے اوپر فضول خرچی بھی کرتی ہوں۔ اس آزادی کو حاصل کرنے میں پوری زندگی لگ گئی۔ میں یہ پیسہ کسی اور کو کیوں دوں؟‘‘

ذات پات پر مبنی اگر پرانے سماج کو دیکھا جائے، تو اونچی ذات کی شادیوں اور جشن میں انیتا اور ان کے بینڈ کی دیگر عورتوں کی صرف موجودگی ہی اسے ’ناپاک‘ کر دیتی۔ لیکن ان عورتوں نے اپنے لیے خود سے جو ایک الگ دنیا بنائی ہے، اس میں ہر ذات کے لوگ ان عورتوں کے میوزیکل اسکلس کی وجہ سے انھیں اپنے یہاں بلاتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ تو وہ اپنے پروگراموں کی تاریخ تبھی طے کرتے ہیں، جب انھیں یہ معلوم ہو جائے کہ اس دن یہ گروپ ان کے یہاں موجود رہے گا۔ یہ عورتیں بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ جن ہوٹلوں کو دیکھنے تک کی وہ ہمت نہیں کر سکتی تھیں، اب وہ ان ہوٹلوں کے اندر بھی پوری آزادی سے جاتی ہیں۔

PHOTO • Puja Awasthi

چونکہ ان کا بینڈ اب کافی مشہور ہو چکا ہے، انیتا (بائیں)، چھتیا (دائیں)، اور بینڈ کی دیگر ممبران کو ان پروگراموں اور جگہوں پر بلایا جاتا ہے جہاں پہلے ان کے جانے پر پابندی تھی

یہ بینڈ ایک دن کام کرنے کے عوض 10000 روپے سے 15000 روپے تک لیتا ہے۔ شادی کے موسم میں انھیں ایک ماہ میں 10 دنوں کا کام مل سکتا ہے۔ اور اس طرح وہ اس موسم میں ماہانہ 1.5 لاکھ روپے تک کما لیتی ہیں۔ ’’ہم بہت زیادہ سخت نہیں ہیں اور کمی بیشی کو لے کر بات کر سکتے ہیں،‘‘ سویتا کہتی ہیں۔ لیکن، جن شرطوں میں کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا، وہ ہیں: ان کے گاؤں سے انھیں لے جانے اور پھر گاؤں تک واپس چھوڑنے کا انتظام، اور اگر رات میں ٹھہرنا پڑے تو ان کے رہنے کا مناسب انتظام۔

ان کی پہلے کی مزدوری کے مقابلے اب ان کی حالت کیا ہے؟ یہ وہ ریاست ہے جہاں منریگا کے تحت روزانہ کی مزدوری 168 روپے ہے۔ جب کہ اس بات کو شاید ہی محسوس کیا گیا ہے کہ، ان بے ہنر مزدوروں نے جب اپنا بینڈ بنایا تھا تو ان کی کم از کم اجرت 200 روپے سے کم تھی۔ ان عورتوں کو بھی تب ایک دن کے 100 روپے سے زیادہ نہیں ملتے تھے، جب سال 2012 میں یہ کھیتوں پر مزدوری کیا کرتی تھیں۔

اقتصادی آزادی کی وجہ سے انھیں گاؤں میں بھلے ہی کافی عزت ملنے لگی ہو (اور دیگر بہت سی عورتیں یہ سوال کرتی ہیں کیا وہ بھی اس بینڈ کا حصہ بن سکتی ہیں)، لیکن اس کی وجہ سے وہ اپنی سماجی ذمہ داریوں کو نہیں بھولی ہیں۔ گالی دینے والے شوہروں سے لے کر جہیز کے لالچیوں تک – یہ سب کا مقابلہ کرتی ہیں اور ڈھیبرا اور اس کے آس پاس کے گاؤوں میں کاؤنسلنگ اور ثالثی کا بھی کام کرتی ہیں۔ وہ اس قسم کی مثالیں بھی دیتی ہیں، لیکن کسی کا نام نہیں بتاتیں۔

PHOTO • Puja Awasthi

اس بینڈ کا ممبر بننے کے بعد للیتا (دائیں) اور دیگر عورتوں کو بڑی مشکل سے آزادی اور عزت ملی ہے

اس بینڈ کے پاس فی الحال نو ڈھول اور ایک جھانجھر ہے، لیکن اس میں یہ عورتیں فوری طور پر ایک باس ڈرم اور کیسیو الیکٹرانک کی بورڈ کا اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔ بھانگڑا بیٹ حالانکہ ان کا پسندیدہ بیٹ ہے، لیکن اب انھوں نے خود سے نئے میوزیکل پیس جوڑنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کا ایک یونیفارم ہو – پینٹ اور شرٹ، اور ساتھ میں ٹوپی اور لٹکانے والا بیگ ہو، جو ’ملٹری بینڈ‘ کی طرح دکھائی دے۔

دوسروں کی طرح، سویتا بھی حیرانی کے ساتھ اپنے پچھلے دور کو دیکھتی ہیں۔ اس طرح، یہ ڈھول ان کے لیے ایک ساز سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ’’میں جب بھی اسے پیٹتی ہوں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں ان تمام کو پیٹ رہی ہوں جنہوں نے مجھے پکڑ رکھا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

دنیا کے اس چھوٹے سے حصے میں، سرگم مہیلا بینڈ کے ذریعے تبدیلی آ رہی ہی – ایک بار میں ایک۔

تصویریں: پوجا اوستھی

(انگریزی سے اردو ترجمہ: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Puja Awasthi

लखनऊ की रहने वाली पूजा अवस्थी, प्रिंट और ऑनलाइन मीडिया की दुनिया की एक स्वतंत्र पत्रकार हैं, और फ़ोटोग्राफ़र हैं. उन्हें योग करना, ट्रैवेल करना, और हाथ से बनी चीज़ें काफ़ी पसंद हैं.

की अन्य स्टोरी Puja Awasthi
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique