فاطمہ بانو ہندی میں ایک نظم پڑھ رہی تھی: ’’اوپر پنکھا چلتا ہے، نیچے بے بی سوتا ہے۔ سو جا بیٹا سو جا، لال پلنگ پر سو جا…‘‘ راجا جی ٹائیگر ریزرو کے اندر واقع ون گوجر بستی میں اُس دوپہر، نظم پڑھ کر سناتے ہوئے بھی نو سال کی فاطمہ، کلاس میں موجود بچوں کے گروپ سے نظر چرانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس کا ’اسکول‘ اس دن تبسم بی بی کے گھر کے سامنے کے آنگن میں چل رہا تھا۔ ۵ سے ۱۳ سال کی عمر کے بچے ایک بڑی سی دری پر بیٹھے ہوئے تھے، جن میں سے کچھ کے ہاتھ میں کاپی تھی۔ تبسم بی بی کے بھی دو بچے – ایک لڑکا اور ایک لڑکی – وہاں موجود تھے۔ تبسم بی بی کی فیملی، اس بستی کے تقریباً تمام لوگوں کی طرح، بھینس پالتی ہے اور گزر بسر کے لیے دودھ فروخت کرتی ہے۔
یہ اسکول ۲۰۱۵ سے کناؤ چوڑ بستی میں الگ الگ جگہوں پر چلایا جاتا ہے۔ کبھی آنگن میں یا کبھی گھر کے کسی بڑے کمرے میں۔ کلاسیں پیر سے جمعہ تک صبح ساڑھے نو بجے سے دوپہر ساڑھے بارہ بجے تک چلتی ہیں۔ دسمبر ۲۰۲۰ میں، ایک بار جب میں وہاں پہنچی، تو اس وقت فاطمہ بانو نظم پڑھ رہی تھی اور کلاس میں ۱۱ لڑکیاں اور ۱۶ لڑکے موجود تھے۔
ون گوجر نوجوانوں کا ایک گروپ انہیں پڑھاتا ہے۔ یہ نوجوان ٹیچر اتراکھنڈ کے پوڑی گڑھوال ضلع کے یمکیشور بلاک میں، تقریباً ۲۰۰ گھروں والی کُناؤ چوڑ بستی میں، تعلیم کی ایک بڑی خلیج کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (برادری کے کارکنوں کے مطابق، ریاست کے کماؤں اور گڑھوال علاقے میں ون گوجروں کی آبادی ۷۰ ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہے؛ انہیں اتراکھنڈ میں او بی سی کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، لیکن ون گوجر درج فہرست قبیلہ کا درجہ دینے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔) ٹائیگر ریزرو میں واقع اس بستی میں بنی جھونپڑیاں، عام طور پر مٹی اور پھوس کی ہیں۔ محکمہ جنگلات نے پختہ مکان بنانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ یہاں بیت الخلاء کا کوئی انتظام نہیں ہے، اور یہاں کے لوگ روزمرہ کی ضروریات کے لیے جنگلات میں بہنے والے چشمے کے پانی کا استعمال کرتے ہیں۔
کناؤ چوڑ، پکّی سڑک سے کافی دور، ریزرو کے اندر واقع ہے۔ کئی قسم کے مسائل کے سبب یہاں اسکولی تعلیم غیر یقینی اور مشکلات کا سامنا کرتی رہی ہے۔ گورنمنٹ ماڈرن پرائمری اسکول (۵ویں کلاس تک)، اور گورنمنٹ انٹر کالج (۱۲ویں کلاس تک) یہاں سے تقریباً تین کلومیٹر دور ہے۔ تیندوے، ہاتھی اور ہرن جیسے جنگلی جانور یہاں گھومتے رہتے ہیں۔ اسکولوں تک پہنچنے کے لیے، بین ندی (گنگا کی ایک معاون ندی) کے اُتھلے پانی سے گزرنا پڑتا ہے۔ جولائی اور اگست کے مانسون میں، جب پانی کی سطح بڑھ جاتی ہے، تو بچے یا تو اسکول جانا بند کر دیتے ہیں یا ان کے والدین بچوں کو راستہ پار کراتے ہیں۔
کئی بچوں کا تو اسکول میں اندراج بھی نہیں ہوا ہے۔ کاغذات کی کمی کے سبب اندراج کی ان کی کوشش ناکام رہی ہے۔ دور افتادہ وَن بستیوں میں رہنے والے گوجر کنبوں کے لیے، سرکاری کاغذات کی خاطر درخواست دینا اور اسے حاصل کرنا ایک لمبا اور مشکل کام ہے۔ کناؤ چوڑ میں بچوں کے والدین کہتے ہیں کہ ان کے زیادہ تر بچوں کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ (جو بستی میں ہی پیدا ہوئے ہیں) یا آدھار کارڈ نہیں ہے۔ (مئی ۲۰۲۱ میں، اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ون گوجروں کے سامنے آنے والے متعدد مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔)
کئی خاندانوں کے بڑے بچے اپنا زیادہ تر وقت مویشیوں کی دیکھ بھال میں گزارتے ہیں۔ ان میں سے ایک ہے زیتون بی بی کا ۱۰ سال کا بیٹا عمران علی، جو فیملی کی چھ بھینسوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ حالانکہ، اس کا اندراج سرکاری پرائمری اسکول میں ہو گیا تھا، اور اس کے بعد اگست ۲۰۲۱ میں اس کا داخلہ کلاس ۶ میں کر دیا گیا تھا، لیکن اب بھی تعلیم حاصل کرنا اس کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ عمران کے مطابق، ’’میں صبح ۶ بجے اٹھ کر جانوروں کو کھلاتا ہوں اور پھر دودھ نکالتا ہوں۔ اس کے بعد، میں انہیں پانی پلانے کے لیے لے جاتا ہوں اور پھر انہیں چراتا ہوں۔‘‘ عمران کے والد بھینس کا دودھ فروخت کرتے ہیں اور ان کی ماں گھر سنبھالتی ہیں، جس میں مویشیوں کی دیکھ بھال کرنا بھی شامل ہے۔
عمران کی طرح، یہاں کے بہت سے بچے دن کے زیادہ تر وقت گھر کے کاموں میں لگے رہتے ہیں، جس سے ان کی اسکولی تعلیم پر اثر پڑتا ہے۔ ان میں بانو بی بی کے بچے بھی شامل ہیں۔ بانو بی بی کہتی ہیں، ’’ہمارے بچے بھینسوں کی دیکھ بھال کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ وہ انہیں پانی پلاتے ہیں اور چرانے لے جاتے ہیں۔ وہ چولہے پر کھانا پکانے کے لیے، جنگل سے لکڑی لانے میں بھی مدد کرتے ہیں۔‘‘ ان کا سب سے بڑا بیٹا یعقوب ۱۰ سال کا ہے جو انٹر کالج میں ساتویں کلاس میں پڑھتا ہے، لیکن دو بیٹیاں اور ایک بیٹا، جن کی عمر بالترتیب ۵ سے ۹ سال کے درمیان ہے، بستی کے ’غیر روایتی‘ اسکول میں پڑھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر ہمارے بچے پڑھ لیں، تو اچھا ہوگا۔ لیکن آخرکار ہمیں اس جنگل میں ہی رہنا ہے، اور یہ کام بھی کرنے ہی پڑتے ہیں۔‘‘
طویل عرصے تک، ون گوجر برادری کی خانہ بدوش زندگی بھی ان کے بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی۔ مقامی حقوق جنگلات کمیٹی کے رکن، شرافت علی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ون گوجر اب گرمیوں کے دنوں میں اونچے علاقوں میں جانے کی بجائے پورے سال ایک ہی بستی میں رہتے ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ کناؤ چوڑ کے تقریباً ۲۰۰ کنبوں میں سے صرف ۵-۴ فیملی ہی اب پہاڑوں (اتر کاشی یا رودر پریاگ ضلع میں) کی طرف جاتی ہے۔
وبائی مرض کا قہر، سال ۲۰۲۰ میں لمبے وقت تک چلا لاک ڈاؤن، اور پھر ۲۰۲۱ میں دوبارہ لاک ڈاؤن لگنے کی وجہ سے تعلیم کو جاری رکھنے کی کوششیں اور بھی متاثر ہوتی رہیں۔ سال ۲۰۲۰ میں جب میں عمران سے ملی، تو اس نے کہا، ’’ہمارا اسکول [سرکاری پرائمری اسکول] لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہے۔ اب ہم خود سے پڑھتے ہیں، اور بستی کے ’اسکول‘ میں پڑھتے ہیں۔‘‘
مارچ ۲۰۲۰ میں جب لاک ڈاؤن شروع ہوا، تب گھر پر ہی کچھ کلاسیں چل رہی تھیں۔ ۳۳ سالہ ٹیچر محمد شمشاد بتاتے ہیں، ’’ہم بچوں کو ان کی کاپی میں کچھ ہوم ورک دیتے تھے اور پھر ۴-۳ دنوں کے بعد چیک کرتے تھے، اور ایک گھر میں ۴-۳ بچوں کو جمع کرکے انہیں ایک نیا ٹاپک (موضوع) پڑھاتے تھے۔ شمشاد، ۲۶ سالہ محمد میر حمزہ اور ۲۰ سالہ آفتاب علی کے ساتھ مل کر گاؤں کے اس مقامی اسکول میں پڑھاتے ہیں۔
سال ۲۰۱۷ میں انہوں نے اور دیگر نوجوانوں نے ون گوجر ٹرائبل یوا سنگٹھن قائم کیا۔ اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور اتر پردیش میں سرگرم اس تنظیم کے ۱۷۷ رکن (چھ خواتین سمیت) ہیں۔ یہ تنظیم، برادری کی تعلیم اور جنگلات کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ حمزہ ایک فاصلاتی کورس کے ذریعے سوشل ورک میں پوسٹ گریجویٹ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہیں شمشاد نے دہرہ دون کالج سے اپنی بی کام کی تعلیم مکمل کی ہے، اور آفتاب نے سرکاری انٹر کالج سے ۱۲ویں کلاس تک کی پڑھائی کی ہے۔ بستی کے دیگر لوگوں کی طرح، ان کی فیملی اپنی آمدنی کے لیے، عام طور پر بھینسوں پر ہی منحصر ہے۔
یہاں پر اسکولی تعلیم جاری رکھنا آسان نہیں ہے۔ یہاں کے ٹیچر اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچوں کے والدین خود بھی اسکول نہیں گئے ہیں۔ اس لیے، انہیں تعلیم سے ہونے والے فوائد کے بارے میں معلوم نہیں تھا اور انہیں اس بارے میں سمجھانے کے لیے کافی محنت کرنی پڑی تھی۔
ایک طرف تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے بھی نوکری حاصل کرنا مشکل ہے، وہیں گزر بسر کے دوسرے متبادل بھی محدود ہیں۔ دوسری طرف، محکمہ جنگلات نے ون گوجروں کی جنگلاتی زمین پر کھیتی کرنے پر روک لگا دی ہے۔ زیادہ تر خاندانوں کے پاس بھینس اور کچھ گائیں ہیں، جن کی تعداد ۵ سے لے کر ۲۵ کے درمیان ہوتی ہے۔ ان مویشیوں سے وہ دودھ کا کاروبار چلاتے ہیں۔ رشی کیش (اس بستی سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور) میں رہنے والے تاجر، گوجر کنبوں سے دودھ خریدتے ہیں۔ ان کے ذریعے پالے جانے والے جانوروں کی تعداد کی بنیاد پر، ایک فیملی دودھ فروخت کرکے ماہانہ ۲۰ سے ۲۵ ہزار روپے تک کما لیتی ہے۔ لیکن اس آمدنی کا ایک بڑا حصہ انہیں تاجروں سے چارہ خریدنے اور بقایا چکانے اور پرانے قرض (ان کے قرض خاص طور پر اپریل سے ستمبر تک مہاجرت کے مہینوں کے دوران بڑھ جاتے ہیں) کو چکانے میں چلا جاتا ہے۔
یوا سنگٹھن کے ڈائرکٹر میر حمزہ کے مطابق، اب تک کناؤ چوڑ بستی کے ۱۰ فیصد بچے بھی اپنی روایتی تعلیم مسلسل جاری نہیں رکھ پائے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’تعلیم کے حق سے متعلق قوانین کے باوجود بھی وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے ہیں۔ حکومت کی تعلیم سے متعلق مختلف اسکیمیں اس برادری تک پہنچ نہیں پاتی ہیں، کیوں کہ ہماری بستی گرام پنچایت سے جڑی نہیں ہے، جس سے اسکیم سے متعلق فوائد حاصل کرنے کی اہلیت بستی کو نہیں مل پاتی ہے۔‘‘ اس لیے، یہاں کے لوگ مطالبہ کر رہے ہیں کہ کناؤ چوڑ کو مالیتی گاؤں (ریونیو ولیج) کا درجہ دیا جائے۔
سال ۱۶-۲۰۱۵ میں، بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کے حق کا قانون، ۲۰۰۹ کے التزامات کے تحت، کناؤ چوڑ سمیت کچھ بستیوں میں غیر رہائشی مخصوص تربیتی مراکز (این آر ایس ٹی سی) شروع کیے گئے تھے، تاکہ دور افتادہ علاقوں میں رہنے والے گوجر بچوں تک کم از کم روایتی تعلیم پہنچ سکے۔
یمکیشور بلاک کے ایجوکیشن آفیسر، شیلندر امولی بتاتے ہیں کہ اس تعلیمی سال میں کناؤ چوڑ کے ۳۸ بچوں نے ان مقامی کلاسوں میں شرکت کی تھی۔ ۲۰۱۹ میں ایک اور منظوری ملنے کے بعد، اُس سال جون سے لے کر ۲۰۲۰ کے مارچ مہینے میں لاک ڈاؤن لگنے تک، ۹۲ بچوں کے ساتھ پھر سے کلاسیں شروع کی گئیں۔ شیلندر کہتے ہیں کہ ۲۲-۲۰۲۱ کے تعلیمی سال کے لیے بھی کناؤ چوڑ کے ۱۲-۶ سال کے ۶۳ بچوں کے لیے، این آر ایس ٹی سی کلاسوں کو منظوری دی گئی ہے۔
حالانکہ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ون گوجروں کو اب بھی روایتی تعلیم میں زیادہ یقین نہیں ہے۔ سال ۱۶-۲۰۱۵ میں، این آر ایس ٹی سی کے تحت رجسٹر ہوئے کئی بچوں کو ۲۲-۲۰۲۱ میں دوبارہ رجسٹر کیا گیا ہے، حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ ایسا اس وقفہ کو پُر کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
دوسری طرف، حمزہ اور دیگر مقامی اساتذہ کا کہنا ہے کہ این آر ایس ٹی سی کی کلاسیں (۱۶-۲۰۱۵ اور ۲۰۱۹ میں) روزانہ نہیں ہوتی تھیں اور ان پر کسی کی نگرانی بھی نہیں تھی۔ ٹیچر اکثر آتے ہی نہیں تھے۔ وہ دوسرے گاؤوں اور برادریوں سے تھے اور یہاں کی مقامی باریکیوں سے انجان تھے۔
امولی کا کہنا ہے کہ این آر ایس ٹی سی کے رہنما خطوط کے مطابق، جن بستیوں یا گاؤوں میں اس اسکیم کو منظوری دی گئی ہے، وہاں مقامی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پڑھانے کا کام دیا جانا ہے، اور اس کے لیے انہیں ماہانہ ۷ ہزار روپے دیے جائیں گے۔ لیکن، جب ۱۶-۲۰۱۵ میں کناؤ چوڑ میں کلاسیں شروع ہوئیں، تو بستی میں کوئی بھی گریجویٹ نہیں تھا اور اس وجہ سے، دوسرے گاؤں کے ایک آدمی کو ٹیچر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ میر حمزہ، جو اب ماسٹرز کی پڑھائی کر رہے ہیں، اور شمشاد جن کے پاس بی کام کی ڈگری ہے، ان کی شکایت ہے کہ انہیں اب بھی نوکری نہیں دی گئی ہے۔
لیکن، این آر ایس ٹی سی سیشن میں پیدا ہونے والے وقفہ کو پُر کرنے کے لیے وہ جو ’غیر روایتی‘ کلاسیں چلاتے ہیں، وہ سرکاری انٹر کالج جانے وائے پرانے طلباء کے لیے، اضافی ٹیوشن کی طرح ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، وہ چھوٹے بچوں (جو سرکاری پرائمری اسکول جاتے ہیں یا جن کا اندراج کبھی کسی اسکول میں نہیں ہوا) کو ۵ویں کلاس کے امتحان کے لیے تیار کرتے ہیں، تاکہ ان کا اندراج باقاعدہ کلاس ۶ میں ہو سکے۔ مقامی ٹیچر گزر بسر کا خرچ نکالنے کے لیے، ہر بچے سے ۳۵-۳۰ روپے لیتے ہیں۔ حالانکہ، یہ رقم زیادہ یا کم بھی ہو سکتی ہے اور لازمی بھی نہیں ہے۔
اپنی برادری کے ارکان کے ساتھ طویل عرصے سے کام کرنے کے بعد، انہیں تعلیم کے فوائد کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کرنے والے ٹیچر بتاتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی نظر آ رہی ہے۔
زیتون بی بی کہتی ہیں، ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھ لکھ سکیں۔ جنگل کی زندگی بہت مشکل ہے۔ وہ اتنی محنت نہیں کر پائیں گے جتنی ہم کرتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی پڑھا لکھا نہیں ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے ہمارے جیسے بنیں۔‘‘
محمد رفیع چاہتے ہیں کہ ان کے ۵ سے ۱۱ سال کی عمر کے تینوں بچے پڑھائی کریں۔ ان کا ۱۱ سال کا بیٹا یعقوب، سرکاری اسکول میں ساتویں کلاس میں پڑھتا ہے، جب کہ ان کے دو چھوٹے بچے بستی کی کلاسوں میں پڑھتے ہیں۔ رفیع کہتے ہیں، ’’باہر کی دنیا دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے بچوں کو تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔‘‘
شرافت علی کے دو بچے، سات سالہ نوشاد اور پانچ سالہ بیٹی آشا بھی بستی کے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’پچھلے پانچ سالوں سے میں نے گرمیوں میں اپنے جانوروں کے ساتھ اونچے پہاڑوں پر جانا بند کر دیا ہے۔ اب ہم ایک ہی جگہ پر رہتے ہیں، تاکہ ہمارے بچے بھی پڑھ لکھ سکیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں اچھی تعلیم ملے۔ انہیں بھی معاشرے میں دوسروں کی طرح رہنا چاہیے۔ انہیں بھی نوکری ملنی چاہیے۔‘‘
شمشاد کہتے ہیں کہ ون گوجروں کی الگ الگ بستیوں میں، ان کی کڑی محنت رنگ لا رہی ہے۔ ’’۲۰۱۹ میں، پانچ ون گوجر بستیوں کے تقریباً ۴۰ بچوں کو ہمارے سنگٹھن کے ذریعے چھٹی کلاس میں داخلہ ملا۔ کچھ لڑکے اور یہاں تک کہ کچھ لڑکیاں (کناؤ چوڑ سے اب تک کوئی بھی لڑکی نہیں) ۱۰ویں کلاس تک پہنچنے لگی ہیں، اور کچھ تو ۱۲ویں کلاس میں بھی پڑھ رہی ہیں۔‘‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ شروع میں کچھ ہی لڑکیاں بستی کی کلاسوں میں آتی تھیں۔ ’’ہمیں والدین سے بات کرنی پڑتی تھی۔ لیکن، پچھلے ۴-۳ سالوں میں حالات بدل گئے ہیں۔‘‘ تقریباً ۱۲ سال کی رمضانو، کناؤ چوڑ کی ان طالبات میں سے ہیں، جنہیں اس تعلیمی سال میں چھٹی کلاس میں داخلہ ملا ہے۔ رمضانو روایتی اسکول جانے والی، اپنی فیملی کی پہلی لڑکی ہوگی، اور وہ مجھے بتاتی ہے کہ وہ ۱۰ویں کلاس پاس کرنا چاہتی ہے۔
اور شاید کچھ وقت بعد، نو سالہ فاطمہ بانو بھی انہی میں سے ایک ہوگی، جو نظم پڑھ رہی تھی۔ وہ بھی اپنی برادری کی اس غیر یقینی سے بھرے سفر کو طے کرکے سرکاری اسکول تک پہنچ سکتی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز