دو ہزار کی دہائی میں مرکزی دھارے کی اشاعتوں کی طرف سے بہت ممکن تھا کہ آپ کو عام لوگوں کے اہم مسائل کی بجائے وہسکی ملانے اور پالتو جانوروں کی شادیوں کے بارے میں لکھنے کے کام تفویض کیے جائیں۔ اور اپنے اصولوں پر قائم رہنے پر آپ کو ’جھولا والا‘ (ایک ایسا تصور جو شمالی ہندوستان میں عام طور پر بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے کارکنوں کے ساتھ منسلک ہوتا ہے، اور اسے توہین آمیز اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے) قرار دے دیا جاتا۔

سنٹر فار میڈیا اسٹڈیز کے ۲۰۱۴ کے ایک مطالعہ کے مطابق ملک کی ۶۹ فیصد آبادی والے دیہی ہندوستان کی کوئی میڈیا کوریج نہیں تھی – ۸۰۰ زبانیں بولنے والے دیہی ہندوستان کے ۸۳۳ ملین لوگوں کی پرنٹ نیوز پبلیکیشنز کے صفحہ اول پر حصہ داری صرف ۶۷ء۰ فیصد تھی۔ اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ صرف نئی دہلی سے آنے والی خبریں قومی روزناموں کے مرکزی صفحہ پر آنے والی خبروں کا ۶۶ فیصد حصہ ہوتی ہیں۔

’’صحافت کے میدان میں ۳۵ سال گزارنے کے بعد مجھے ایک بھی ایسا اخبار یا ٹی وی چینل نظر نہیں آیا جس نے زراعت، مزدوری، اور دیگر تمام اہم سماجی شعبوں پر مخصوص کل وقتی رپورٹروں کو تعینات کیا ہو۔ ان کے پاس بالی ووڈ، اعلیٰ سوسائٹی کی تقریبات، کاروبار پر کل وقتی نامہ نگار تو ہیں، لیکن زراعت اور مزدوری کے لیے نہیں ہیں۔ اسی پس منظر میں پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) کا خیال پروان چڑھا،‘‘ پاری کے بانی ایڈیٹر اور نامور صحافی پال گُمّی سائی ناتھ کہتے ہیں۔ اپنے ۴۳ سالہ صحافتی کریئر کے دوران دیہی ہندوستان کو کور کرنے کے لیے انہیں ۶۰ سے زیادہ انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔

پاری عام لوگوں کی عام زندگی سے متعلق ایک ملٹی میڈیا کا ذخیرہ ہے۔ یہ ایک زندہ روزنامچہ اور ایک محفوظ آرکائیو ہے۔ کاؤنٹرمیڈیا ٹرسٹ کی پہل کے طور پر اس کی شروعات دسمبر ۲۰۱۴ میں ایک درجن سے بھی کم لوگوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس کا آغاز دیہی صحافت کی ویب سائٹ کے طور پر ہوا تھا، اور اب اس میں دیہی ہندوستان سے متعلق سرکاری رپورٹوں اور نایاب دستاویزات کی ایک آن لائن لائبریری اور دیہی زندگی سے متعلق فنون اور ایک تعلیمی پہل شامل ہو گئے ہیں۔ پاری متن، تصاویر، خاکوں، آڈیو، ویڈیوز اور دستاویزی فلموں کی شکل میں اصل زمینی کہانیاں بیان کرتا ہے۔ یہ کہانیاں عام ہندوستانیوں کی زندگیوں اور محنت مزدوری، ذریعہ معاش، ہنر، بحران، قصوں کہانیوں، گیتوں، وغیرہ کا احاطہ کرتی ہیں۔

PHOTO • Sanket Jain
PHOTO • Nithesh Mattu

پاری ایک ثقافتی آرکائیو بھی ہے: نارائن دیسائی کا بیلگام میں شہنائی کے ساتھ جگاڑ (بائیں) اور ساحلی کرناٹک کا پِلی ویشا لوک رقص (دائیں)

PHOTO • Sweta Daga
PHOTO • P. Sainath

اروناچل پردیش میں بانس کی ٹوکری بنانے والے ماکو ِلنگی (بائیں) اور پی سائی ناتھ کی ’کام ہی کام، عورتیں گمنام: زندگی بھر کا جھکنا‘ سیریز دیہی ہندوستان میں مزدوری کے جائزہ پر مبنی ہے

پاری کی بنیاد سائی ناتھ کے کلاس رومز میں پڑی تھی، جہاں اپنے ۳۵ سالوں کی درس و تدریس کے دوران انہوں نے رپورٹنگ کی اخلاقیات کی مضبوط بنیاد کے ساتھ ۲۰۰۰ سے زیادہ صحافیوں کو تربیت دی ہے۔ اسی تربیت نے مجھے اور مجھ جیسے دیگر نوآموز صحافیوں کو عدم مساوات اور ناانصافیوں کو ان کے سیاق و سباق میں ڈھالنے اور پیشہ ورانہ دنیا میں اپنے ضمیر کو چشمے کے طور پر استعمال کرنے کا ہنر سکھایا ہے۔

پاری کی مینیجنگ ایڈیٹر نمیتا وائیکر کہتی ہیں، ’’گزشتہ کئی سالوں کے دوران ایک چیز مستقل رہی ہے، اور وہ ہے ہمارا رہنما اصول جس نے ہم میں سے ہر ایک کو پاری کی طرف راغب کیا ہے، اور ہم سبھی دیہی ہندوستانیوں کی پرزور کہانیوں سے متاثر ہیں۔‘‘ مرکزی دھارے کی صحافت کے اخراج سے گھٹن محسوس کرنے والے صحافیوں کے لیے پاری ایک ’آکسیجن بار‘ کی طرح ہے۔

فراموش کردہ چیزوں کا آرکائیو

پاری کی کہانیاں وقت کے ایک نقطہ پر بھی قائم ہیں، کیونکہ ہم بہرحال صحافی ہیں؛ اور دائمی بھی ہیں، کیونکہ یہ ایک آرکائیو بھی ہے۔ ایک مثالی دنیا میں پاری کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے، لیکن جیسا کہ سائی ناتھ کہتے ہیں، ’’آج سے ۲۵ یا ۵۰ سال بعد پاری واحد ڈیٹا بیس ہوگا جس سے ہندوستانی یہ جاننے کے لیے رجوع کرسکتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں دیہی ہندوستان میں لوگ کیسے زندگی بسر کرتے تھے اور کام کرتے تھے۔‘‘

جولائی ۲۰۲۳ میں جب مرکزی دھارے کا میڈیا دہلی کے سیلاب کے مناظر سے لبریز تھا، تو ہم نے ان گوشوں پر قلم اٹھایا جنہیں اس نے چھوڑ دیا تھا۔ ہم نے بے گھر کسانوں کے اپنے گھروں کی تعمیر نو اور ذریعہ معاش کی لاگت کے موضوع پر لکھا۔ ہمارے بیانیہ کے مرکز میں عام لوگوں کی زندگیاں ہیں جو ساختی طور پر پیچیدہ اور جذباتی طور پر کمزور ہیں۔ یہ دور افتادہ سر زمینوں کے کسی افسانوی عوام کی کہانیاں نہیں ہیں۔ محض چند پشت قبل تک شہر میں رہنے والا ہر ہندوستانی گاؤں میں رہتا تھا۔ پاری کا مقصد اپنے قارئین اور موضوعات کے درمیان ہمدردی کا ایک پل بنانا ہے۔ یہاں انگریزی بولنے والے ہندوستانی شہری کو اس کے دیہی ہم منصبوں کی زندگی کے بارے میں بصیرت فراہم کی جاتی ہے۔ ہندی پڑھنے والا کسان ملک کے مختلف حصوں کے دیگر کسانوں کے بارے میں جان سکتا ہے۔ نوجوانوں کو اس تاریخ سے متعارف کرایا جاتا ہے جو نصابی کتابوں میں نہیں پڑھائی جاتی۔ یہاں محققین معدوم ہوتی دستکاریوں اور ذریعہ معاش کی کھوج بین کرتے ہیں۔

پاری کے لیے رپورٹنگ کرتے ہوئے مجھے (بحیثیت صحافی) سیاق و سباق کے بغیر واقعات کے یک رخہ بیان کی بجائے، اسے مقامیت عطا کرنے، اس میں ڈوبنے اور اس کی تکمیل کے بڑے عمل کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ میں نئی دہلی میں پیدا ہوئی اور وہیں میری پرورش ہوئی، لیکن موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ایک ملک گیر سیریز کے ایک حصہ کے طور تحقیق کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ جہاں میں رہتی ہوں وہاں سے محض ۳ کلومیٹر کے فاصلے پر ۴۰ سال پہلے تک کچھوے کھیلتے تھے اور گنگا کی ڈولفنیں جمنا میں اچھل کود مچاتی تھیں! میں نے دہلی گزیٹیئر (۱۹۱۲) کا مطالعہ کیا، یمنا کے آخری باقی ماندہ کسانوں اور ماہی گیروں کا انٹرویو کیا، اور حال اور ماضی کے درمیان روابط کی نشاندہی کی تاکہ مستقبل کے لیے سوالات اٹھا سکوں۔ میں وبائی امراض کے بعد ترقی کے لیے ان کی نقل مکانی اور ۲۰۲۳ کے سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں پر رپورٹ کرنے وہاں واپس گئی۔ ان دوروں نے ’پیراشوٹ رپورٹنگ‘ (کمیونٹی سے تعلق کے بغیر کسی بحرانی واقعے کے دوران وارد ہونا)، مرکزی دھارے کی رپورٹنگ جس کا اکثر مطالبہ کرتی ہے، کی بجائے اس مسئلے پر ایک خاص نہج کی مہارت حاصل کرنے میں میری مدد کی۔ ایسے میں آپ بحیثیت صحافی مسائل سے متعلق قدرے اعتماد اور بہتر صلاحیت کے ساتھ متعلقہ پینل مباحثوں میں تبادلہ خیال کے لیے شامل ہوتے ہیں اور ان کہانیوں اور مسائل کو مزید وسعت دیتے ہیں۔

PHOTO • People's Archive of Rural India
PHOTO • Shalini Singh

دہلی میں یمنا ندی پر شالنی سنگھ کی اسٹوریز ماحولیاتی تبدیلی کے سائنس سے متعلق ہیں، لیکن پیش منظر میں اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگوں کی آوازیں ہیں

پاری کی اسٹوریز میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مختلف سطحوں پر معاشی اور سماجی صدمے کا شکار ہیں۔ اسے دیکھنا اور سننا انسانی ضرورت ہے۔ پاری جن لوگوں کے بارے میں رپورٹ کرتا ہے وہ اپنی کہانیوں میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں۔ جب میں نے یمنا کے کسانوں کے بارے میں انگریزی میں رپورٹنگ کی، تو اس کا ہندی ورژن ان کے ساتھ شیئر کیا، اور ان کی رائے لی۔ لوگ اپنی کہانیوں کے لیے ہمارے مقروض نہیں ہیں، کیونکہ ہم صحافی ہیں۔ ہمیں ان کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا تاکہ وہ ہمارے ساتھ اپنی کہانیوں کا اشتراک کریں۔

صحافت کی طرح آرٹ کا مقصد بھی معاشرے کے ساتھ مکالمہ کرنا ہوتا ہے۔ لہذا، پاری نے تخلیقی تحریر کو بھی گلے لگایا ہے۔ ’’بعض اوقات شاعری حقیقت بیان کرنے کا واحد ذریعہ بن جاتی ہے۔ پاری سادہ، پُرجوش اور خام نظموں کو جگہ دیتا ہے جو اکثر بہت سی مقامی زبانوں کے ذریعہ دیہی ہندوستان کے قلب سے آتی ہی،‘‘ پاری کی شاعری کی ایڈٹر پرتشٹھا پانڈیہ کہتی ہیں۔ بحیثیت صحافی میں نے ایسی کہانیوں کو ضابطہ تحریر میں لانے کے لیے شاعری کی ہے، جو روایتی رپورٹنگ کے لیے موزوں نہیں تھیں۔

عوام کے لیے فائدہ مند

جمہوریت کے تفاعل کے طور پر صحافت کو حقائق کی جانچ پرکھ کرنے، ادارتی معیارات کو برقرار رکھنے، اور اقتدار کے سامنے سچ بولنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ سب صحافتی عمل کا نتیجہ ہیں۔ لیکن یہ اصول سوشل میڈیا کی افزائش میں گم ہوتے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ صحافت کی نئی نئی شکلیں جنم لے رہی ہیں۔ چھوٹی تنظیمیں اور فری لانس صحافی آج یوٹیوب جیسے پلیٹ فارم پر اپنی اسٹوریز سنا سکتے ہیں، لیکن باہر جانے اور رپورٹ کرنے، فالوورز بنانے اور پیسہ کمانے کے وسائل چیلنج بنے ہوئے ہیں۔

’’پاری اور اس کے صحافی چوتھے ستون کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ہم جدوجہد آزادی کی اس وراثت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، جس میں مراۃ الاخبار [ایک جریدہ جسے سماجی مصلح راجہ رام موہن رائے نے ۱۸۲۲ میں قائم کیا تھا، اور جس نے اس وقت کی برطانوی پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لیا تھا]، کیسری [جسے حریت پسند رہنما لوک مانیہ بال گنگادھر تلک نے ۱۸۸۱ میں جاری کیا تھا]، اور دیگرشامل ہیں۔ ہم اپنے معمولی وسائل کے ساتھ دوسری جانب کی صحافت کر رہے ہیں،‘‘ پاری کے ٹیک ایڈیٹر سدھارتھ اڈیلکر کہتے ہیں۔

PHOTO • Sanskriti Talwar
PHOTO • M. Palani Kumar

کاشتکاری کی کہانیاں صرف زرعی مسائل سے متعلق نہیں ہیں۔ شری مکتسر صاحب ضلع (بائیں) میں بے زمین دلت مزدوروں کے بچے چھوٹی عمر میں ہی کھیتوں میں کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پاری الگ الگ پیشوں پر قلم اٹھاتا اور ان کی تصویر کشی کرتا ہے۔ گووندما (دائیں) چنئی کی بکنگھم نہر میں کیکڑا پکڑنے کے لیے غوطہ لگا رہی ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee
PHOTO • Shrirang Swarge

ایسی برادریاں جو اپنی زندگی اور معاش کے لیے زمین پر منحصر ہیں موسمیاتی تبدیلی اور امتیازی پالیسیوں سے نبرد آزما ہیں: لداخ میں پشمینہ بنانے والے چانگپا (بائیں) اور ممبئی میں جنگل کے حقوق کے لیے مارچ کر رہے آدیواسی

ایک غیرمنافع بخش صحافتی تنظیم کے طور پر پاری عوامی عطیات، انجمنوں کے پروجیکٹ سے متعلق فنڈز، سی ایس آر فنڈز، خود ٹرسٹیز کے عطیات، اور ٹیک جیسے شعبوں میں رضاکاروں پر انحصار کرتا ہے۔ پاری کے ۶۳ صحافتی انعامات سے کم از کم پانچ لاکھ روپے حاصل ہوئے ہیں۔ جب کہ مرکزی دھارے کا میڈیا مشہور شخصیات اور اشتہارات پر منحصر ہے اور حکمرانوں کے سامنے سرنگوں ہے، لیکن پاری اشتہارات نہیں چلاتا، یا کوئی ایسی فنڈنگ قبول نہیں کرتا جو مداخلت کی شرط کے ساتھ آتی ہو۔ مثالی طور پر، پاری کو پوری طرح کراؤڈ فنڈڈ ہونا چاہیے اور صرف اپنے سامعین کے تئیں جوابدہ ہونا چاہیے۔

یہاں کا مواد تخلیقی العام ہے؛ ادائیگی کی کوئی شرط نہیں ہے؛ اور لوگ آزادانہ طور پر مناسب حوالے کے ساتھ مواد کو دوبارہ شائع کرسکتے ہیں۔ تمام مضامین کا ترجمہ پاری بھاشا (ترجمہ کرنے والی ٹیم) کے ذریعہ انگریزی سمیت ۱۵ ہندوستانی زبانوں میں کیا جاتا ہے۔ ’’زبان وہ ذریعہ ہے جس میں تنوع ہوتا ہے۔ میں ترجمہ کو سماجی انصاف کی عینک سے دیکھتی ہوں۔ ہندوستان ایک کثیر لسانی خطہ ہے، لہٰذا ترجمہ کے ذریعے علم پھیلانے کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ پاری کے ترجمے کا پروگرام زبانوں کو جمہوری بنانے کے اصول پر مبنی ہے، نہ کہ اس بات پر کہ ایک زبان دنیا کے سب سے پیچیدہ اور متنوع لسانی خطہ پر حکمرانی کرے،‘‘ پاری بھاشا کی ایڈیٹر اسمیتا کھٹور کہتی ہیں۔

پاری ایسے مواد کی تخلیق پر بھی توجہ مرکوز کرتا جسے طلباء اور اساتذہ استعمال اور تخلیق کرتے ہیں۔ اس کی تعلیمی شاخ میٹروز (بڑے شہروں) میں اسکولوں اور کالجوں کے طلباء کے ساتھ مصروف عمل ہے۔ اس عمل میں یہ ظاہر کیا جاتا کہ ایک عالمی شہری نہ صرف وہ شخص ہے جو غیر ملکی زبان میں روانی سے تبادلہ خیال کر سکتا ہو اور عالمی واقعات سے آگاہ ہو، بلکہ وہ شخص بھی عالمی شہری ہے جو خود سے ۳۰-۵۰-۱۰۰ کلومیٹر دور کی حقیقتوں سے منسلک ہو، اور جہاں غالباً ایک مختلف ہندوستانی بولی بولی جاتی ہو۔ ’’ہم طالب علموں کی کہانیوں [پاری پر شائع شدہ] کو پاری کی تجرباتی تدریس کی عملی مثالوں کے طور پر دیکھتے ہیں، بچوں کو قائم ضابطوں کو چیلنج کرنے پر مجبور کرتے ہیں، انہیں سوالات پوچھنے کا مجاز بناتے ہیں: لوگ نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟ چائے کے باغات میں خواتین مزدوروں کو قریبی بیت الخلاء تک رسائی کیوں نہیں ہے؟ ایک نوجوان لڑکی پوچھتی ہے کہ اس کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں (اتراکھنڈ کی خواتین) کو حیض کے دوران کیوں ’ناپاک‘ تصور کیا جاتا ہے؟ وہ اپنے کلاس کے لڑکوں سے پوچھتی ہے کہ کیا وہ بھی ایسا کریں گے،‘‘ پاری کی ایگزیکٹو ایڈیٹر پریتی ڈیوڈ بتاتی ہیں۔

دیہی ہندوستان میں عوام کی، زبانوں کی، پیشوں کی، فنون کی اور دیگر بہت سی منفرد اور متنوع موضوعات کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ پاری ’مستقبل کے لیے ایک نصابی کتاب‘ ہے، جو ایسی کہانیوں کی دستاویزکاری کرتا اور آرکائیو بناتا ہے، جو تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہیں یا غائب ہو رہی ہیں۔ پاری ایسی کہانیوں کو کئی زبانوں میں قابل رسائی بناتا ہے، اور دیہی صحافت کو کلاس روم تک لے جاتا ہے۔ پاری کا مقصد بہرحال ہندوستان کے ۹۵ تاریخی خِطوں میں سے ہر ایک میں ایک فیلو کو ’’عام لوگوں، جو حقیقت میں ملک کی اساس، دل اور روح کو زندہ رکھتے ہیں،‘‘ کے درمیان بھیجنا ہے، جیسا کہ اڈیلکر کہتے ہیں۔ پاری-وار (بمعنی پریوار یا فیملی) ہمارے لیے صرف صحافت نہیں ہے، بلکہ انسان بننے، اور انسان بنے رہنے کی ایک مشق ہے۔

اس مضمون کا اصل ورژن ڈارک این لائٹ نے کمیشن کیا تھا اور سب سے پہلے دسمبر ۲۰۲۳ میں ان کی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا۔

مترجم: شفیق عالم

Shalini Singh

শালিনী সিং পারি-র পরিচালনের দায়িত্বে থাকা কাউন্টারমিডিয়া ট্রাস্টের প্রতিষ্ঠাতা অছি-সদস্য। দিল্লি-ভিত্তিক এই সাংবাদিক ২০১৭-২০১৮ সালে হার্ভার্ড বিশ্ববিদ্যালয়ে নিম্যান ফেলো ফর জার্নালিজম ছিলেন। তিনি পরিবেশ, লিঙ্গ এবং সংস্কৃতি নিয়ে লেখালিখি করেন।

Other stories by শালিনী সিং
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam