جی ۲۰ سربراہ کانفرنس میں شامل ہونے آئے عالمی رہنماؤں کے استقبال میں جمعہ کے روز ملک کی راجدھانی جگمگا اٹھی، لیکن دہلی میں حاشیہ پر رہنے والے لوگوں کی دنیا میں گہرا اندھیرا چھا گیا۔ پہلے کے بے گھر کسانوں، اور آج کے یمنا سیلاب متاثرین کو دنیا کی نظروں سے دور رہنے کو کہا گیا۔ انہیں گیتا کالونی فلائی اوور کے نیچے واقع ان کی عارضی جھگیوں سے ہٹا کر ندی کنارے کے جنگلاتی علاقوں میں بھیج دیا گیا ہے اور اگلے تین دنوں تک وہیں چھپے رہنے کو کہا گیا ہے۔

ہیرا لال نے پاری کو بتایا، ’’ہم میں سے کچھ لوگوں کو پولیس نے زبردستی ہٹایا۔ انہوں نے ۱۵ منٹ کے اندر جگہ خالی کرنے کو کہا اور یہ بھی وارننگ دی کہ اگر ہم نہیں ہٹے، تو وہ ہمیں طاقت کی زور پر ہٹا دیں گے۔‘‘

جنگلاتی علاقوں کی اونچی اونچی گھاسوں کے بیچ سانپ، بچھو جیسے خطرناک جانوروں کا خطرہ ہے۔ کبھی خود کے کسان ہونے پر فخر کرنے والے ہیرا لال بتاتے ہیں، ’’ہمارے کنبوں کو بجلی اور پانی کے بغیر رہنا پڑ رہا ہے۔ اگر کسی کو سانپ یا بچھو نے کاٹ لیا، تو علاج کا کوئی انتظام نہیں ہے۔‘‘

*****

ہیرال لال اپنا گیس سیلنڈر اٹھانے کے لیے بھاگے۔ دہلی کے راج گھاٹ کے قریب بیلا اسٹیٹ میں رہنے والے ۴۰ سال کے ہیرال لال اپنے گھر کا سامان بچانے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، کیوں کہ شام ہوتے ہی کالے رنگ کا پانی بڑی تیزی سے ان کے گھر میں گھسنے لگا تھا۔

وہ ۱۲ جولائی، ۲۰۲۳ کی رات تھی۔ کچھ دنوں کی بھاری بارش کے بعد یمنا ندی کے پانی کی سطح بڑھنے لگی تھی، اور دہلی میں اس ندی کے کنارے رہنے والے ہیرا لال جیسے لوگوں کے پاس وقت باکل بھی نہیں بچا تھا۔

میور وہار کے یمنا پشتہ علاقے میں رہنے والی ۶۰ سال کی چمیلی (جو گیتا کے نام سے مشہور ہیں) اپنے پڑوسی کی ایک سال کی چھوٹی بچی، رِنکی کو بچانے کے لیے دوڑیں۔ تب تک پورے علاقے میں کافی افراتفری مچ چکی تھی، کوئی اپنی بکریوں کو لے کر بھاگ رہا تھا تو کوئی کتے کو کندھے پر اٹھا کر وہاں سے کسی محفوظ جگہ جانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ اس دوران نہ جانے کتنے مویشی اپنی جان بچانے میں ناکام رہے۔ اس سے پہلے کہ تیزی سے بڑھتا ہوا سیلاب کا پانی سارے سامان بہا لے جاتا، وہاں کے لوگ اپنے برتنوں اور کپڑوں کو اکٹھا کرکے نکل جانے کی پوری کوشش میں لگے ہوئے تھے۔

’’صبح تک، وہاں چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ ہمیں بچانے کے لیے کوئی کشتی نہیں تھی۔ لوگ سوکھی زمین کی تلاش میں فلائی اوور کی طرف بھاگے،‘‘ بیلا اسٹیٹ میں ہیرال لال کی پڑوسن، ۵۵ سالہ شانتی دیوی نے بتایا۔ ’’ہم نے سب سے پہلے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کی؛ گندے پانی میں سانپ اور دیگر جانور ہو سکتے تھے جو اندھیرے میں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔‘‘

وہ لاچاری سے اپنے بچوں کی اسکولی کتابیں اور کھانے کا راشن بہتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ ’’ہمارا ۲۵ کلو گندم برباد ہو گیا، کپڑے بہہ گئے…‘‘

کچھ ہفتوں کے بعد، سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہوئے اور اب گیتا کالونی فلائی اوور کے نیچے اپنے عارضی گھروں میں رہ رہے ان لوگوں نے پاری سے بات کی۔ ’’پرشاسن (انتظامیہ) نے سمے (وقت) سے پہلے جگہ خالی کرنے کی چیتاونی (خبر) نہیں دی۔ کپڑے پہلے سے باندھ کے رکھے تھے، گود میں اٹھا اٹھا کر بکریاں نکالیں…ہم نے ناؤ (کشتی) بھی مانگی جانوروں کو بچانے کے لیے، پر کچھ نہیں ملا،‘‘ ہیرا لال نے اگست کے شروع میں بتایا۔

Hiralal is a resident of Bela Estate who has been displaced by the recent flooding of the Yamuna in Delhi. He had to rush with his family when flood waters entered their home in July 2023. They are currently living under the Geeta Colony flyover near Raj Ghat (right) with whatever belongings they could save from their flooded homes
PHOTO • Shalini Singh
Hiralal is a resident of Bela Estate who has been displaced by the recent flooding of the Yamuna in Delhi. He had to rush with his family when flood waters entered their home in July 2023. They are currently living under the Geeta Colony flyover near Raj Ghat (right) with whatever belongings they could save from their flooded homes
PHOTO • Shalini Singh

ہیرا لال، بیلا اسٹیٹ میں رہتے ہیں جو دہلی کی یمنا ندی میں سیلاب آنے کی وجہ سے اب بے گھر ہو چکے ہیں۔ جب جولائی ۲۰۲۳ میں سیلاب کا پانی ان کے گھر میں گھس گیا تھا، تو انہیں اپنی فیملی کے ساتھ وہاں سے بھاگنا پڑا تھا۔ اپنے سیلاب زدہ گھر سے بچائے گئے تھوڑے بہت سامان کے ساتھ وہ اب راج گھاٹ (دائیں) کے قریب گیتا کالونی فلائی اوور کے نیچے رہ رہے ہیں

Geeta (left), holding her neighbour’s one month old baby, Rinky, who she ran to rescue first when the Yamuna water rushed into their homes near Mayur Vihar metro station in July this year.
PHOTO • Shalini Singh
Shanti Devi (right) taking care of her grandsons while the family is away looking for daily work.
PHOTO • Shalini Singh

گیتا (بائیں) کی گود میں ان کے پڑوسی کی ایک ماہ کی چھوٹی بچی رِنکی ہے، جسے انہوں نے اس سال جولائی میں میور وہار میٹرو اسٹیشن کے قریب ان کے گھروں میں یمنا کا پانی گھس جانے کے بعد سب سے پہلے بچایا تھا۔ شانتی دیوی (دائیں) اپنے پوتے پوتیوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں، جب کہ فیملی کے بقیہ لوگ کام کی تلاش میں باہر گئے ہوئے ہیں

ہیرا لال اور شانتی دیوی کے اہل خانہ تقریباً دو مہینے سے گیتا کالونی فلائی اوور کے نیچے رہ رہے ہیں۔ بجلی کی بنیادی ضرورت کے لیے وہ فلائی اوور کے نیچے اپنے عارضی ٹھکانے پر اسٹریٹ لائٹ سے بجلی لینے کو مجبور ہیں، تاکہ رات میں ایک بلب جلا سکیں۔ وہیں، ہیرا لال کو دن میں دو بار یہاں سے تقریباً ۵-۴ کلومیٹر دور دریا گنج کے ایک عوامی نل سے ۲۰ لیٹر پینے کا پانی اپنی سائیکل پر لاد کر لانا پڑتا ہے۔

انہیں ابھی تک کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے، اور یمنا کے کنارے کبھی ایک با وقار کسان کے طور پر زندگی بسر کرنے والے ہیرا لال اب عمارتوں کی تعمیر کے مقام پر مزدوری کرنے کو مجبور ہیں۔ ان کی پڑوسن، شانتی دیوی کے شوہر ۵۸ سالہ رمیش نشاد بھی پہلے ایک کسان تھے، لیکن اب مصروف سڑک پر وہ بھی خوانچہ فروشوں کی لمبی لائن میں کھڑے ہو کر کچوری بیچ رہے ہیں۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کا یہ معمولی روزگار بھی جلد ہی چھن جائے گا کیوں کہ حکومت اور دہلی جی ۲۰ اجلاس کی میزبانی کو تیار ہیں۔ اگلے دو مہینے تک خوانچہ فروشوں کو سڑکوں سے ہٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شانتی کے مطابق، سرکاری عہدیدار کہتے ہیں کہ ’’یہاں نظر مت آ جانا۔ ہم جئیں کھائیں کیسے؟ دنیا کے سامنے دکھاوا کرنے کے نام پر آپ اپنے ہی لوگوں کے گھروں اور ان کی روزی روٹی کو برباد کر رہے ہیں۔‘‘

گزشتہ ۱۶ جولائی کو دہلی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ ہر خاندان کو ۱۰ ہزار روپے کی راحت دینے کا اعلان کیا۔ یہ رقم سن کر ہیرا لال کو یقین نہیں ہوا۔ ’’یہ کیسا معاوضہ ہے؟ کس بنیاد پر وہ اس رقم تک پہنچے؟ کیا ہماری زندگی کی قیمت بس ۱۰ ہزار روپے ہے؟ ایک بکری کی قیمت ۸۰۰۰ سے ۱۰ ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ کم از کم ۲۰ سے ۲۵ ہزار روپے تو ایک کام چلاؤ جھونپڑی کھڑا کرنے میں لگ جاتے ہیں۔‘‘

یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ اپنی زمین گنوا چکے ہیں، جس پر وہ کبھی کھیتی کرتے تھے؛ اور اب مزدوری کر رہے ہیں، رکشہ چلا رہے ہیں یا گھریلو خدمت گار کا کام تلاش کر رہے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں، ’’کیا یہ معلوم کرنے کے لیے سروے ہوا تھا کہ کس کا کتنا نقصان ہوا؟‘‘

Several families in Bela Estate, including Hiralal and Kamal Lal (third from right), have been protesting since April 2022 against their eviction from the land they cultivated and which local authorities are eyeing for a biodiversity park.
PHOTO • Shalini Singh

ہیرا لال اور کمل لال (دائیں سے تیسرے) سمیت بیلا اسٹیٹ کے کئی خاندان اپریل ۲۰۲۲ سے اپنی کھیتی کی زمین سے بے دخلی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں، جن پر بائیو ڈائیورسٹی پارک بنانے کے لیے مقامی اہلکاروں کی نظریں گڑی ہوئی ہیں

Most children lost their books (left) and important school papers in the Yamuna flood. This will be an added cost as families try to rebuild their lives. The solar panels (right) cost around Rs. 6,000 and nearly every flood-affected family has had to purchase them if they want to light a bulb at night or charge their phones
PHOTO • Shalini Singh
Most children lost their books (left) and important school papers in the Yamuna flood. This will be an added cost as families try to rebuild their lives. The solar panels (right) cost around Rs. 6,000 and nearly every flood-affected family has had to purchase them if they want to light a bulb at night or charge their phones.
PHOTO • Shalini Singh

زیادہ تر بچوں کی کتابیں (بائیں) اور اسکول کے اہم کاغذات سیلاب کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اپنی زندگی کو پھر سے کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ان کنبوں پر یہ ایک اضافی بوجھ ہے۔ سولر پینل (دائیں) کی قیمت تقریباً ۶۰۰۰ روپے ہے اور اگر رات میں بلب جلانا ہو یا فون چارج کرنا ہو تو تقریباً ہر سیلاب متاثرہ فیملی کو یہ خریدنا پڑتا ہے

چھ ہفتے بعد پانی تو اتر گیا ہے، لیکن سبھی کو معاوضہ نہیں ملا ہے۔ لوگ لمبی کاغذی کارروائی اور گھماؤدار عمل کو اس کے لیے ذمہ دار مانتے ہیں۔ کمل لال کہتے ہیں، ’’پہلے انہوں نے کہا کہ اپنا آدھار کارڈ، بینک کے کاغذ اور فوٹو لے آؤ، پھر انہوں نے راشن کارڈ مانگا…‘‘ انہیں یہ بھی بھروسہ نہیں کہ اس علاقے کے ڈیڑھ سو کنبوں کے لیے وہ پیسہ آخرکار آئے گا بھی یا نہیں، جو انسانوں کے ذریعے پیدا کی گئی آفت کے شکار ہیں اور جسے ٹالا جا سکتا تھا۔

اس علاقے کے تقریباً ۷۰۰ کسان کنبوں نے ریاستی پروجیکٹوں میں اپنی زرعی زمین کھو دی تھی۔ ان کی باز آبادکاری کی کوششیں آگے نہیں بڑھ پائی ہیں۔ اہلکاروں سے لگاتار کھینچ تان چل رہی ہے، جو ان سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ چاہے ’ترقی‘ ہو، نقل مکانی ہو، آفت ہو یا مظاہرہ، ان سب میں ہمیشہ اگر کوئی شکار بنا ہے، تو وہ ہیں کسان۔ کمل، بیلا اسٹیٹ مزدور بستی سمیتی کا حصہ ہیں، جو معاوضے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ اگست کی حبس بھری دوپہر میں پسینہ پونچھ رہے ۳۷ سالہ کمل کہتے ہیں، ’’سیلاب نے ہمارے احتجاجی مظاہروں پر روک لگا دی۔‘‘

*****

تقریباً ۴۵ سال بعد ایسا ہوا کہ دہلی پھر سے ڈوبی۔ سال ۱۹۷۸ میں یمنا اپنے آفیشیل سیکورٹی لیول سے ۸ء۱ میٹر اوپر اٹھ کر ۵ء۲۰۷ میٹر تک پہنچ گئی تھی۔ اس سال جولائی میں یہ ۵ء۲۰۸ میٹر پار کر گئی، جو اب تک کا ریکارڈ ہے۔ ہریانہ اور اتر پردیش میں بیراج وقت پر نہیں کھولے گئے اور بھری ہوئی ندی کی وجہ سے دہلی میں سیلاب آ گیا۔ نتیجہ یہ کہ لوگوں کی جان گئی، گھر اور ذریعہ معاش ختم ہو گئے۔ فصلوں اور دوسرے آبی ذخائر کو بھی کافی نقصان پہنچا۔

سال ۱۹۷۸ میں آئے سیلاب کے دوران، حکومت دہلی کے سینچائی اور سیلاب کنٹرول محکمہ کے مطابق، ’تقریباً ۱۰ کروڑ روپے کے نقصان کا اندازہ تھا۔ تب ۱۸ لوگوں کی جان گئی تھی اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔‘

Homes that were flooded near Pusta Road, Delhi in July 2023
PHOTO • Shalini Singh

جولائی ۲۰۲۳ میں دہلی کے پشتہ روڈ کے پاس سیلاب میں ڈوبے گھر

Flood waters entered homes under the flyover near Mayur Vihar metro station in New Delhi
PHOTO • Shalini Singh

نئی دہلی میں میور وہار میٹرو اسٹیشن کے پاس فلائی اوور کے نیچے گھروں میں سیلاب کا پانی گھس گیا تھا

ایک مفاد عامہ کی عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ اس سال جولائی میں کئی دن کی بارش کے بعد آئے سیلاب میں ۲۵ ہزار سے زیادہ لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر متاثر ہوئے۔ ’ یمنا ریور پروجیکٹ: نیو ڈیلہی اربن ایکولوجی‘ کے مطابق، سیلاب والے علاقوں پر مسلسل قبضے کے نتائج سنگین ہوں گے، جس سے ’’…سیلابی میدان کے نچلے علاقوں میں بنے ڈھانچے ٹوٹ پھوٹ جائیں گے اور مشرقی دہلی میں پانی بھر جائے گا۔‘‘

یمنا کے کنارے تقریباً ۲۴ ہزار ایکڑ میں کاشتکاری ہوتی رہی ہے اور کسان ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے یہاں کھیتی کر رہے ہیں۔ مگر سیلاب کے میدانوں میں کنکریٹ کے مندر، میٹرو اسٹیشن، دولت مشترکہ کھیل گاؤں بنائے جانے کے بعد سیلاب کا پانی رکنے کے لیے زمین کم بچی ہے۔ پڑھیں: بڑا شہر، چھوٹے کسان، اور ایک مرتی ہوئی ندی

سال ۲۰۲۳ میں آئے سیلاب کی قیمت چکا رہے بیلا اسٹیٹ کے کمل کہتے ہیں، ’’چاہے ہم جو کریں، قدرت اپنا راستہ نکال ہی لے گی۔ پہلے بارش اور سیلاب کے دوران پانی پھیل جاتا تھا اور اب چونکہ [میدانوں میں] جگہ کم ہے، اسے بہنے کے لیے بھرنا پڑا اور اس دوران اس نے ہمیں برباد کر دیا۔ صاف کرنی تھی یمنا، لیکن ہمیں ہی صاف کر دیا۔‘‘

کمل مزید کہتے ہیں، ’’یمنا کے کنارے ترقیاتی کام نہیں کرنا چاہیے۔ اسے سیلاب والا علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ سی ڈبلیو جی، اکشر دھام، میٹرو، یہ سب قدرت کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ قدرت کو جتنی جگہ چاہیے، وہ تو لے گی۔ پہلے پانی پھیل کر جاتا تھا اور اب چونکہ جگہ کم ہے، تو اٹھ کر جا رہا ہے، جس کی وجہ سے نقصان ہمیں ہوا ہے۔‘‘

’’دہلی کو کس نے ڈبویا؟ حکومت دہلی کے سینچائی اور سیلاب کنٹرول محکمہ کو ہر سال ۲۵-۱۵ جون کے درمیان تیار کرنی ہوتی ہے۔ اگر انہوں نے بیراج کے گیٹ [وقت پر] کھیل دیے ہوتے، تو پانی اس طرح نہیں بھرتا۔ پانی انصاف مانگنے سپریم کورٹ گیا،‘‘ راجندر سنگھ سنجیدگی کے ساتھ کہتے ہیں۔

Small time cultivators, domestic help, daily wage earners and others had to move to government relief camps like this one near Mayur Vihar, close to the banks of Yamuna in Delhi.
PHOTO • Shalini Singh

چھوٹے کسانوں، گھریلو خدمت گاروں، دہاڑی مزدوروں اور دیگر لوگوں کو دہلی میں یمنا کنارے میور وہار کے پاس سرکاری راحت کیمپوں میں جانا پڑا

Left: Relief camp in Delhi for flood affected families.
PHOTO • Shalini Singh
Right: Experts including Professor A.K. Gosain (at podium), Rajendra Singh (‘Waterman of India’) slammed the authorities for the Yamuna flood and the ensuing destruction, at a discussion organised by Yamuna Sansad.
PHOTO • Shalini Singh

بائیں: سیلاب متاثرہ خاندانوں کے لیے دہلی میں بنے راحت کیمپ۔ دائیں: پروفیسر اے کے گوسائیں (اسٹیج پر)، راجندر سنگھ (’ہندوستان کے مرد آب‘) جیسے ماہرین نے یمنا سنسد کے زیر اہتمام ایک مباحثہ میں یمنا میں سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہی کے لیے انتظامیہ کی تنقید کی

گزشتہ ۲۴ جولائی، ۲۰۲۳ کو ’دہلی کا سیلاب: قبضہ یا حق؟‘ موضوع پر ہوئے عوامی مباحثہ میں الور کے ماہر ماحولیات راجندر سنگھ نے کہا، ’’یہ کوئی قدرتی آفت نہیں تھی۔ بے موسم بارش پہلے بھی ہو چکی ہے۔‘‘ مباحثہ کا اہتمام دہلی میں یمنا سنسد نے کیا تھا، جو یمنا کو آلودگی سے بچانے کے لیے لوگوں کی ایک پہل ہے۔

مباحثہ میں ڈاکٹر اشونی کے گوسائیں نے کہا، ’’اس سال یمنا کے ساتھ جو ہوا اس کے لیے ذمہ دار لوگوں کو سخت سزا دی جانی چاہیے۔‘‘ وہ ۲۰۱۸ میں نیشنل گرین ٹربیونل کے ذریعے تشکیل کردہ یمنا مانیٹرنگ کمیٹی کے ماہر رکن تھے۔

وہ پوچھتے ہیں، ’’پانی میں رفتار بھی ہوتی ہے۔ بند کے بغیر پانی کہاں جائے گا؟‘‘ وہ بیراج بنانے کی بجائے آبی ذخائر بنانے کے حق میں ہیں۔ دہلی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں وہ سول انجینئرنگ کے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ۱۵۰۰ غیر قانونی کالونیوں کے ساتھ ساتھ سڑک پر نالیوں کی کمی کے سبب پانی سیور لائنوں میں جاتا ہے اور ’’اس سے بیماریاں بھی ہوتی ہیں۔‘‘

*****

بیلا اسٹیٹ کے کسان پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی، کاشتکاری رک جانے، باز آبادکاری نہ ہونے اور بے دخلی کے خطرے کے سبب غیر یقینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پڑھیں: ’دہلی میں کسانوں کے ساتھ ایسا برتاؤ ہوتا ہے‘ ۔ حالیہ سیلاب نقصان کے اس سلسلے کی ایک تازہ مثال ہے۔

ہیرا لال کہتے ہیں، ’’۱۰ ضرب ۱۰ کی جھگی [عارضی گھر] میں رہنے والے ۵-۴ لوگوں کی ایک فیملی کے لیے اسے بنانے کی لاگت ۲۰ سے ۲۵ ہزار روپے آتی ہے۔ اکیلے برساتی شیٹ کی قیمت ۲۰۰۰ روپے ہے۔ اگر ہم گھر بنانے کے لیے مزدور رکھتے ہیں، تو ہمیں روزانہ ۷۰۰-۵۰۰ روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اگر ہم اسے خود کرتے ہیں، تو اپنی خود کی اجرت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔‘‘ ہیرا لال اپنی بیوی اور ۱۷، ۱۵، ۱۰ اور ۸ سال کی عمر کے چار بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بانس کے ہر ستون کی قیمت بھی ۳۰۰ روپے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں کم از کم ایسے ۲۰ ستون چاہیے۔ بے گھر ہوئے کنبوں کو یہ نہیں معلوم کہ ان کے نقصان کی تلافی کون کرے گا۔

Hiralal says the flood relief paperwork doesn’t end and moreover the relief sum of Rs. 10,000 for each affected family is paltry, given their losses of over Rs. 50,000.
PHOTO • Shalini Singh
Right: Shanti Devi recalls watching helplessly as 25 kilos of wheat, clothes and children’s school books were taken away by the Yamuna flood.
PHOTO • Shalini Singh

ہیرا لال کہتے ہیں کہ سیلاب راحت سے متعلق کاغذی کارروائی ختم ہی نہیں ہوتی اور اوپر سے متاثرہ کنبوں کے لیے ۱۰ ہزار روپے کی امدادی رقم بہت کم ہے، جب کہ نقصان ۵۰ ہزار روپے سے زیادہ کا ہوا ہے۔ دائیں: شانتی دیوی یاد کرتی ہیں کہ ان کے سامنے ۲۵ کلو گیہوں، کپڑے اور بچوں کی اسکول کی کتابیں یمنا کے سیلاب میں بہہ گئیں اور وہ بے بس کھڑی دیکھتی رہ گئیں

The makeshift homes of the Bela Esate residents under the Geeta Colony flyover. Families keep goats for their domestic consumption and many were lost in the flood.
PHOTO • Shalini Singh

گیتا کالونی فلائی اوور کے نیچے بیلا اسٹیٹ کے رہائشیوں کے عارضی گھر۔ یہ لوگ گھریلو استعمال کے لیے بکریاں پالتے ہیں، جن میں سے کئی کی موت سیلاب کے دوران ہی ہو گئی تھی

مویشیوں کو پھر سے جمع کرنے کی لاگت الگ ہے، جن میں سے کئی کی سیلاب کے دوران موت ہو گئی۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ایک بھینس کی قیمت ۷۰ ہزار روپے سے زیادہ ہے۔ اسے زندہ رکھنے اور دودھ نکالنے کے لیے آپ کو اسے اچھی طرح کھلانا ہوگا۔ جس بکری کو ہم بچوں کی روزانہ دودھ کی ضرورت اور گھر میں چائے کے لیے رکھتے ہیں، اسے خریدنے میں ۸۰۰۰ سے ۱۰ ہزار روپے کا خرچ آتا ہے۔‘‘

ان کی پڑوسن، شانتی دیوی نے پاری کو بتایا کہ ان کے شوہر یمنا کنارے کے زمین مالک اور کسان کہلانے کی قانونی لڑائی ہار گئے۔ اب وہ سائیکل پر کچوڑی بیچتے ہیں، مگر مشکل سے یومیہ ۳۰۰-۲۰۰ روپے کما پاتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’پولیس ہر مہینے ان سے ۱۵۰۰ روپے لیتی ہے، چاہے آپ وہاں تین دن کھڑے ہوں یا ۳۰ دن۔‘‘

سیلاب کا پانی اتر گیا ہے، لیکن دوسری مصیبتیں سر اٹھانے لگی ہیں۔ ملیریا، ڈینگو، حیضہ، ٹائیفائیڈ جیسی متعدی بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ سیلاب کے فوراً بعد، راحت کیمپوں میں ہر دن آئی فلو کے ۱۰۰ سے زیادہ معاملے آ رہے تھے۔ لیکن ان کیمپوں کو اس کے بعد سے ہٹا لیا گیا ہے۔ جب ہم ہیرا لال سے ملے، تو ان کی آنکھیں آئی (لال آنکھ: ریڈ آئی) ہوئی تھیں۔ انہوں نے مہنگی قیمت والا دھوپ کا چشمہ اٹھایا اور بولے، ’’یہ ۵۰ روپے کے آتے ہیں، لیکن مانگ بڑھنے کی وجہ سے ۲۰۰ روپے میں بیچے جا رہے ہیں۔‘‘

معاوضہ کا انتظار کر رہے کنبوں کی طرف سے بولتے ہوئے وہ طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہتے ہیں، ’’یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہے، لوگ ہمیشہ دوسروں کی تکلیفوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Shalini Singh

شالنی سنگھ، پاری کی اشاعت کرنے والے کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی بانی ٹرسٹی ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں اور ماحولیات، صنف اور ثقافت پر لکھتی ہیں۔ انہیں ہارورڈ یونیورسٹی کی طرف سے صحافت کے لیے سال ۲۰۱۸-۲۰۱۷ کی نیمن فیلوشپ بھی مل چکی ہے۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز شالنی سنگھ
Editor : Priti David

پریتی ڈیوڈ، پاری کی ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں۔ وہ جنگلات، آدیواسیوں اور معاش جیسے موضوعات پر لکھتی ہیں۔ پریتی، پاری کے ’ایجوکیشن‘ والے حصہ کی سربراہ بھی ہیں اور دیہی علاقوں کے مسائل کو کلاس روم اور نصاب تک پہنچانے کے لیے اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Priti David
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique