جنوبی گوا کے سَنگویم تعلقہ کے کولمب گاؤں میں دیوکی کاٹو ویلپے کا گھر اس علاقہ کے کسی دوسرے قبائلی گھروں جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ دیواروں کو نیلے اور سبز رنگ سے پینٹ کیا گیا ہے، چھت کا اندرونی حصہ گلابی اور نارنجی رنگ کی کاغذ کی لمبی پٹیوں سے ڈھکا ہوا ہے…

دراصل اس میں ایک حالیہ اضافہ بھی ہوا ہے۔ اندر کے کمرے میں ایک لمبی، گہری  شگاف دیوار کو دو حصوں میں منقسم کرتی ہے۔ یہ شگاف اس علاقے میں کانکنی کے لیے کیے جانے والے دھماکوں کا نتیجہ ہے۔ ’’مانسون کے دوران جب پانی آتا ہے تو حالات دگرگوں ہو جاتے ہیں۔ یہ گھر کسی بھی وقت گر سکتا ہے،‘‘ ۶۰ سالہ دیوکی کہتی ہیں، جو ۲۲ افراد  پر مشتمل کنبے کی سب سے بزرگ رکن ہیں۔ یہ کنبہ گزشتہ تین سالوں سے اس ناخوشگوار شگاف کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔

ایک شگاف جو کانکنوں اور گاؤں والوں کے درمیان ہے، ایک زخم جسے کے ساتھ وہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ شگاف فی الحال اس قدر گہری نہیں ہے جو دیوار کو منہدم کر دے، لیکن اس کا خطرہ یقینی طور پر موجود ہے۔

ہندوستان کی سب سے چھوٹی ریاست گوا کو اس کی نوآبادیاتی میراث کے تحت کانکنی کے لیے سب سے بڑا رقبہ (تقریباً دس فیصد) ملا ہے۔ یہاں خام لوہا عموماً بیچولِم، سَتاری اور سنگویم تعلقہ میں پایا جاتا ہے۔ گزشتہ ۷-۸ سالوں سے لوہے کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس اضافے کی وجہ لوہے کے سب بڑے بازار چین (۸۶ فیصد) میں لوہے کی مانگ میں اضافہ ہے۔ سال ۲۰۰۸-۲۰۰۹  میں گوا نے ۲۰۰۳-۲۰۰۴ کے مقابلے میں ۷۰ فیصد زیادہ خام لوہا برآمد کیا اور انہی سالوں میں تقریباً ۴۰ فیصد زیادہ پیداوار کی۔ جیسے جیسے بین الاقوامی سطح پر مانگ بڑھ رہی ہے، ہندوستانی کانکن کمپنیاں آنے والے وقت میں برازیل، لاطینی امریکہ اور جنوبی افریقہ جیسے دیگر ممالک میں توسیع کے خواہاں ہیں۔

جہاں کانکن کمپنیاں مالا مال ہو رہی ہیں، وہیں زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل گوا کی سرفہرست پانچ کانکن کمپنیوں کا کل منافع (جو برآمدات اور پیداوار کا ۷۰ فیصد سے زیادہ ہے) ۸۰۰۰ کروڑ روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ یہاں کی سب سے بڑی کانکن کمپنی سیسا گوا کا خالص منافع ۲۷۹۸ کروڑ روپے ہے، جبکہ ریاست گوا کی خالص آمدنی ۲۷۰۰ کروڑ روپے ہے۔ کانکنی کو گوا کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی خیال کیے جانے کے باوجود، ریاست کی آمدنی میں کانکنی کا حصہ بمشکل ایک فیصد ہے۔

صنعت کے علاوہ ان بڑے کھلاڑیوں کی ریاستی انتظامیہ پر بھی مضبوط پکڑ ہے۔ فروری ۲۰۱۰ میں مرکز کی طرف سے کانکنی کے نئے لیز پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد ہندوستان ٹائمز کو دیے اپنے ایک انٹرویو میں، گوا کے وزیر اعلیٰ اور کانکنی کے وزیر، دگمبر کامت نے کہا تھا کہ کانکنی کو مدد بہم پہنچانے کے لیے خصوصی بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا جانا چاہیے، مثلاً سڑکوں کی تعمیر۔ حالانکہ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اس کے نتیجہ میں ماحولیات پر پڑنے والے اثرات سے کیسے نمٹا جائے گا۔ اس سال مارچ میں اسمبلی کے اجلاس میں پیش بجٹ میں معدنی ترقی کے فنڈ کا اعلان کیا گیا۔ ان کی حکومت کے ذریعہ یہ اہتمام گزشتہ بجٹ میں تجویز کردہ گرین سیس (محصول) کو لاگو کرنے میں ناکامی کے بعد کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی پالیسی ہے جو ذرائع کے مطابق ریاست کی کانکنی کی صنعت کے دباؤ کی وجہ سے لاگو کی گئی ہے۔

مزید برآں، اس سال فروری میں مرکزی حکومت کی جانب سے کانکنی کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کیے جانے اور ماحولیات کے اثرات کے جائزے کا حکم دینے سے قبل، ماحولیات اور جنگلات کی مرکزی وزارت نے تقریباً ۱۰۰ نئی کانوں کی لیز (پٹّہ) کو منظوری دی تھی۔ ’’اگر ۱۱۰ کانیں نقصان کا باعث بن رہی ہیں، تو اس تباہی کا تصور کریں اگر ان میں مزید ۱۰۰ کو اجازت دی جائے؟‘‘ حزب اختلاف کے موجودہ لیڈر منوہر پاریکر نے سوال کیا۔

وی ایم سالگاوکر (کانکنی کی سرفہرست کمپنیوں میں سے ایک) کے منیجنگ ڈائرکٹر شیوانند سالگاوکر اس کی تردید کرتے ہیں، ’’تمام ۱۰۰ لیز پر فوراً کام شروع نہیں ہوگا۔ کلیئرنس حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ چین کی طرف سے شدید مانگ کی وجہ سے یہاں جوش و خروش ہے۔ یہ جوش ۲۰۱۲ کے بعد اس وقت سرد پڑنے لگے گا جب آسٹریلیا اور برازیل کے تمام پروجیکٹ مکمل طور پر شروع ہو جائیں۔ فی الحال، بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ بوجھ ہے۔ حکومت کی جانب سے پی پی پی ماڈل کے تحت کانکنی کے ایک کوریڈور کی تعمیر کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت سڑکوں پر بھیڑ کچھ زیادہ ہے۔‘‘

ایسے میں جب کپنیاں کانیں کھود رہی ہیں، زمین پر وسیع پیمانے پر تباہی جاری ہے۔ دھان کے کھیت خشک ہو رہے ہیں، زیر زمین پانی اور جنگلات میں کمی واقع ہو رہی ہے، جنگلی حیات کا مسکن تباہ ہو رہا ہے، اور صحت کے مسائل  پیدا ہو رہے ہیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ اس میں غیرقانونی کانکنی کے مسئلہ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کا اعتراف حالیہ دنوں میں ریاستی حکومت نے بھی کیا ہے۔ سال ۲۰۰۵-۲۰۰۶ کے اقتصادی سروے میں، تقریباً ۲۶۶۰۰۰ مربع میٹر سرکاری اراضی پر کانکن کمپنیوں نے ’غیرقانونی طور پر قبضہ‘ کر لیا تھا۔ ہندوستان کے کل خام لوہے کی پیداوار میں ریاست کی حصہ داری تقریباً ۱۵ فیصد ہے۔ یہاں تقریباً ۱۱۰ لوہے اور مینگنیز کی کانیں ہیں، جن سے سالانہ ۳۵ ملین ٹن کچ دھات برآمد کی جاتی ہے۔ پاریکر کے مطابق، گوا میں سال ۲۰۰۸-۲۰۰۷ میں خام لوہے کی برآمدات اس کی اصل پیداوار سے تقریباً ۱۰فیصد زیادہ تھے، یہ فرق ۲۰۰۸-۲۰۰۹ میں بڑھ کر ۱۷ فیصد تک پہنچ گیا۔ ’’آپ پیداوار سے زیادہ برآمد کیسے کر سکتے ہیں؟ ریاست میں واضح طور پر بڑے پیمانے پر غیرقانونی کانکنی ہو رہی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

یہی نہیں، ریاست کے وزیر ماحولیات الیکسیو سکیویرا نے مارچ میں اسمبلی کو بتایا تھا کہ ۹۹ مائن آپریٹرز میں سے ۸۵، جن میں سیسا گوا، سالگاوکر، چوگلے اور سوسیڈیڈ فومینٹو جیسی سرفہرست کمپنیاں شامل ہیں، فضائی آلودگی کے لازمی اجازت نامہ کے بغیر ریاست میں کانکنی کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں اجازت ناموں کی میعاد ۲۸ فروری کو ختم ہو چکی تھی۔

گوا میں ۲۰۰۹ کا سال ’اندھا دھند کانکنی‘ کا سال تھا۔ بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے اس سال جنگلاتی علاقوں میں غیرقانونی کانکنی کی ۴۰ سے زیادہ شکایات سامنے آئیں، اور ریاستی محکمہ جنگلات کو ان کا سروے کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ حالانکہ محکمہ بمشکل کسی شکایت کا ازالہ کر سکا۔ کانکنی کی ایک بڑی کمپنی کے ایک اعلیٰ حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’قانونی لیز نہ رکھنے والی کمپنیوں کی طرف سے بہت ساری غیرقانونی کانکنی ہو رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ قانونی لیز ہولڈر بھی مختلف شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

حالانکہ سالگاوکر اس کی تردید کرتے ہیں، ’’کیسی بے ضابطگی؟ ان کمپنیوں نے ان کانوں میں کام روک دیا ہے، جن کی لیز کی تجدید مختلف ایجنسیوں کے پاس زیر التوا ہے۔ میری دو کانیں حکومت کی منظوری کے انتظار میں ۲۰۰۷ سے بند پڑی ہیں۔‘‘

کولمب میں کھوڑی داس کان کا معاملہ بھی جنگلاتی علاقوں میں غیرقانونی کانکنی کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کی لیز میں ایک نجی محفوظ جنگلاتی علاقہ شامل ہے۔ اس کے پاس ابھی بھی محکمہ جنگلات کا اجازت نامہ نہیں ہے، جبکہ کانکنی کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کانکن کمپنیاں کچ دھات کی نقل و حمل کے لیے ۴۰۰ میٹر چوڑی سڑک کی تعمیر کے لیے محکمہ جنگلات سے اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔

پَرنیم تعلقہ کے کورگاو گاؤں کے ایک اور معاملہ (صرف زراعت اور باغبانی کے لیے مشہور علاقے کا یہ پہلا معاملہ ہے) میں سرکاری حکام نے ۲۰۰۸ میں سابق ایم ایل اے اور مذکورہ جائیداد کے مالک جیتندر دیش پربھو کے خلاف سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا تھا۔ حکام نے دریافت کیا کہ ایک کان کو بغیر ضروری منظوری کے ’’آبی وسائل کے لیے مبینہ طور پر بڑھا دیا گیا تھا‘‘ اور ۵-۶ ٹن کچ دھات کھدائی شدہ مقام کے قریب رکھی گئی تھی، جو یہاں کچ دھات کے ذخائر کی نشاندہی کرتا تھا۔ سرکاری حکام نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ وہ مالک کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرنے پر غور کریں گے۔ اسی تعلقہ کے رہائشی کشور نائگونکر کہتے ہیں کہ اس کے باوجود، ’’راتوں میں کھدائی کا کام جاری رہتا ہے۔ گاؤں والے ان سے پوچھ گچھ نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ان کی ملکیت ہے، لیکن کانکنی غیر قانونی ہے کیونکہ ان کے پاس پٹہ یا پنچایت کا اجازت نامہ نہیں ہے۔‘‘ پرنیم کے ایم ایل اے دیانند سوبتے نے مزید کہا، ’’حکومت نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ کارروائی کی جائے گی، لیکن آج تک کچھ نہیں ہوا۔ پہلے کانکنی دن میں ہوتی تھی، اب رات کو ہو رہی ہے۔‘‘ دوسری طرف، دیش پربھو، تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی کانکنی کی لیز حکومت کے پاس زیر التوا ہے، لیکن اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ کانکنی میں ملوث ہیں۔ ’’میں ایک کاشتکار ہوں، کانکن نہیں۔ میں صرف ناریل کے درخت لگاتا رہا ہوں، کھیتوں میں مویشیوں کو جانے سے روکنے کے لیے باڑ لگاتا ہوں۔ اور ویسے بھی یہ زمین جنگلات کے تحفظ کے قانون کے تحت نہیں آتی۔‘‘

لیپا پوتی

ریاست میں غیر قانونی/اندھا دھند کانکنی کے خلاف شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ گوا کے پدم ایوارڈ یافتہ کارٹونسٹ ماریو مرانڈا، مصنف رویندر کیلکر، موسیقار ریمو فرنانڈیز وغیرہ نے متحد ہو کر ریاست میں جاری غیرقانونی کانکنی کے خلاف ایک عرضی پر دستخط کیے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں تمام کانکنی کے علاقوں میں تقریباً ۶-۱۰ نئے گروپ سامنے آئے ہیں۔ سالگاوکر سخت الفاظ میں کہتے ہیں، ’’گوا کے عوام کانکنی کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ مجھے بتائیں کہ گوا کے عوام کس سرگرمی کی حمایت کرتے ہیں؟ فعالیت جائز ہے لیکن یہ مختلف معاملوں میں مختلف ہوتی ہے۔ کیا کانکنی کی مخالفت کرنے والے ان لوگوں کو روزگار فراہم کر سکتے ہیں جو کانوں میں کام کر رہے ہیں؟ بے ایمان آپریٹرز کو روکنا چاہیے۔ آپ سبھی کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانک سکتے۔‘‘

اس میں پیش پیش رہنے والے لوگوں کا سفر آسان نہیں رہا ہے۔

سیباستئین راڈرگز: یہ ایک بلاگر-کارکن اور گاکوویڈ (گواڈا، کنبی، ویلپ اور ڈھانگر فیڈریشن) کے کوآرڈینیٹر ہیں۔ ان کو ۲۰۰۸ میں کانکنی کے خلاف احتجاج کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مقامی مائننگ مافیا کے ذریعہ مبینہ طور پر مارا پیٹا گیا۔ مقامی سیاسی پارٹیوں نے انہیں نکسلائٹ قرار دیا۔ تھیٹر پرسن ہارٹ مین ڈیسوزا کی اہلیہ شریل ڈی سوزا، ان کی بیٹی اور ان کی والدہ کو اس لیے گرفتار کرلیا گیا کیونکہ انہوں نے علاقے میں کانکنی کی اجازت دینے کے لیے اپنی زمین کا معاوضہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ دیگر کارکنوں کی مدد سے کنبے نے ایک دوسرے کو ٹرکوں میں باندھ لیا۔ احتجاج اس وقت بدمزہ ہو گیا جب مقامی مافیا نے انہیں مارا پیٹا، ان کے کیمرے تباہ کر دیے اور پولیس تماشہ دیکھتی رہی۔ بعد میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

راما ویلپ: سال ۱۹۹۳ میں راما اور ان کے والد، جن کا گھر اور دھان کے کھیت کانکنی کی لیز پر ہیں، نے عدالت میں قانونی لڑائی کے بعد غیرقانونی کان کو بند کروایا، ’’کانکن ہمارے گاؤں کی زرخیز مٹی دوسروں سے فروخت کر رہے تھے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ باپ بیٹے کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ ان کا مقدمہ ۳ سال تک چلا۔ جب ان کے والد نے گاؤں کی مٹی کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا، تو فریقین نے مفاہمت کر لی۔

سیسا گوا کے منیجنگ ڈائرکٹر  پی کے مکھرجی کے ساتھ بات چیت

مارچ میں ریاستی اسمبلی میں، سیسا گوا کے ۲۷۹۸ کروڑ روپے کے خالص منافع  کا حوالہ دیا گیا تھا – یہ منافعہ پوری ریاست کی آمدنی سے زیادہ ہے۔

دراصل سال ۲۰۰۸-۲۰۰۹ میں، ہم نے ٹیکس سے پہلے ۲۰۰۰ کروڑ روپے سے زیادہ کا منافع حاصل کیا۔ میں نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ کمپنی کے منافع کا اس معاملہ سے کیا تعلق ہے۔ شاید جھگڑا اس بات کا ہے کہ عوام کو کتنا واپس جا رہا ہے۔ میں کسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہتا، اس لیے اعداد و شمار اور سیاق و سباق کو رہنے ہی دیں۔

اگر کانکنی کے مزید ۱۰۰ لیز (پہلے سے چل رہے ۱۱۰ کے علاوہ) کو اجازت نامہ جاری کر دیے جاتے ہیں، تو آپ گوا کی معیشت اور ماحولیات پر اس کے اثرات کو کیسے دیکھیں گے؟

یہاں سوال لیز کی تعداد کا نہیں ہے، سوال یہ  ہے کہ کتنے لوگ ہیں جو اس کام کی اہلیت رکھتے ہیں – اس پر غور کیا گیا تو اثرات مختلف ہوں گے۔ آپ کو پیداوار، رقبہ وغیرہ جیسی چیزوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ گوا میں کانکنی کی لیز غیرمربوط ہے۔ ان کا انحصار سائز، حجم، موجودہ بنیادی ڈھانچے پر دباؤ پر ہے۔ ماحولیاتی منظوری کے لیے پانی، کس زمین کو ڈمپنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے وغیرہ جیسے پہلوؤں پر غور کیا جاتا ہے۔ قوانین مستحکم ہیں، اب ان پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہیے۔

حالیہ برسوں میں ریاست میں کانکنی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں تیزی کیوں آئی ہے؟

بنیادی طور پر یہ آوازیں خام لوہے کے لیے اٹھ رہی ہیں۔ یہ ایک ایسی معدنی شے ہے جو توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ یہ ایک غیرمعمولی منافع کا بھی معاملہ ہے۔ لہٰذا جب اس میں بے ایمان لوگ شامل ہوتے ہیں تو اس کے اثرات پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہندوستان میں متعدد قومی اور بین الاقوامی این جی اوز داخل ہو رہے ہیں۔ ان کی خوبیوں یا خامیوں پر بحث کو الگ رکھیں، تو ان کا واحد مقصد فعالیت ہے۔

گوا میں غیر قانونی کانکنی کے مختلف معاملے سامنے آئے ہیں، سرکردہ کانکنی کمپنیوں میں سے ایک نے کہا ہے کہ قانونی لیز ہولڈر بھی ضروری شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

بے ضابطگیوں سے سختی کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔ لیز قانونی ہیں؛ ان لیز کو ماحولیاتی منظوری ملی ہوئی ہے۔ قانون کے نفاذ کے لیے شور مچانے کا کوئی مطلب نہیں ہے، غلطی کی سزا ملنی چاہیے۔ ہماری سول اور فوجداری عدالتیں با اختیار ہیں۔

ریاست کے وزیر ماحولیات نے گزشتہ ہفتے اسمبلی میں سیسا گوا کو کل ۹۹ میں سے ان ۸۵ کمپنیوں میں شامل کیا تھا جو فضائی آلودگی کے اجازت نامہ کے بغیر کام کر رہی ہیں۔

ہر لیز پر فضائی اور آبی قانون کے تحت ریاستی آلودگی بورڈ کی طرف سے ہر ۲ سے ۳ سال بعد آلودگی کا اجازت نامہ دیا جاتا ہے۔ ہم نے اپنی تجدید کے لیے درخواست دی ہے، لیکن ابھی تک اس کی باضابطہ تجدید نہیں ہوئی ہے۔ اگر اسے مسترد نہیں کیا گیا یا وجہ بتاؤ نوٹس نہیں دی گئی، تو اسے تجدید سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہمارے پاس ابھی تک اجازت نامہ نہیں ہے، تو ہمارے پاس اس کے مسترد ہونے کی اطلاع بھی نہیں ہے۔

ریاست میں کانکنی – غیر قانونی یا بصورت دیگر – کی وجہ سے ہونے والی تباہی

جنوبی کانیں

ڈومین ڈیسوزا کی عمر ۳۸ سال ہے۔ وہ  (بشمول چار بچوں کے) آٹھ افراد  پر مشتمل اپنے کنبے کے ساتھ بندھارا، کولمب میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ ۴ سے ۵ برسوں میں دھول کی آلودگی کی وجہ سے بچوں میں دمہ، گلے کی سوزش اور اکثر نزلہ زکام کی شکایت دیکھنے کو ملی ہے۔ گاؤں کے ایک رہائشی  طبیب، ڈاکٹر اے پربھو دیسائی کہتے ہیں کہ ان کے پاس روزانہ اوسطاً ۲ سے ۴ بچے سانس کی شکایت کے ساتھ آتے ہیں۔ ’’یہ ایک ایسی بیماری ہے جسے نیومو کونیوسس کہا جاتا ہے جس میں ناقابل حل دھول پھیپھڑوں میں جم جاتی ہے۔ یہ پریشانی ممبئی جیسے شہروں میں بھی عام ہوگی، لیکن یہاں اضافی عنصر کانکنی کی دھول ہے۔ گاؤں کے بچے بطور خاص اس کا شکار ہوتے ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ دیگر مسائل بھی ہیں۔ کانکنی نے اندرونی جنگلات کا صفایا کر دیا ہے، ایندھن کی لکڑی کا حصول ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ چراگاہوں میں گایوں کے لیے گھاس نہیں ہے۔ کانکنی کے ایجنٹ گاؤں والوں سے لڑتے اور دھمکیاں دیتے، شراب مہیا کراتے ہیں... ان کانوں میں اس گاؤں کے بمشکل ۶ سے ۸ افراد کام کرتے ہیں، باقی ۳۰ جو سیکورٹی اور آپریشن کے کام میں ہیں وہ باہر سے ہیں،‘‘ ڈیسوزا کہتے ہیں۔

پینتالیس سالہ میلگرین انٹائیو نے مینگنیز کی ایک کان میں ۱۰ سے ۱۵ روپے روزانہ کی اجرت پر دس سال تک کام کیا۔ انہوں نے چھ سال پہلے اس وقت یہ کام چھوڑ دیا جب ایک بڑی کمپنی نے کان پر قبضہ کر لیا اور ’’مشینیں متعارف کرا کر کرناٹک سے سستے مزدور لے کر آئی۔ جب ان کا سب کچھ تباہ ہو گیا ہے، تو اب جھارکھنڈ سے مزدور بھی یہاں آنے لگے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

راما ویلپ، جن کی عمر چالیس سے تجاوز کر گئی ہے اور جو اس علاقے میں غیرقانونی کانکنی کی مخالفت میں پیش پیش رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ۱۵۱۰ وہ عدد ہے جسے وہ کبھی نہیں بھولیں گے – کولمب کے ۱۹۲۹ ہیکٹیئر کے کل رقبہ میں سے، ۱۵۱۰ ہیکٹیئر کانکنی کے تحت آ گئے ہیں۔ ۱۵۱۰ وہ سال ہے جب پرتگالی ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانکنی کی وجہ سے جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی ہوئی ہے، ’’اس لیے بارش کے پانی کو روکا نہیں جا سکتا۔ ایک دہائی قبل یہاں ۳۵۰ انچ بارش ہوتی تھی اب بمشکل ۱۰۰ انچ بارش ہوتی ہے۔ گزشتہ جون میں پانی نہیں تھا۔ اگر درخت نہیں ہوں گے، تو ہم سائے کے لیے کہاں جائیں گے؟ سال ۲۰۰۶-۲۰۱۰ کے درمیان ۳۰ ہیکٹیئر کے رقبہ پر پھیلے جنگلات کاٹے جا چکے ہے؟ کان اتنی گہرائی تک کھودے گئے ہیں کہ ہمیں پینے کا پانی نہیں ملتا۔ اگر پانی نہیں ہے، تو کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

ان کانوں کے آس پاس تقریباً ۸۰ کنبے آباد ہیں؛ ان میں قریب ترین کنبے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال چار کنبوں  کو منتقل کیا گیا تھا۔ انہیں ۲ سے ۷ لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا تھا۔ ویلپ کہتے ہیں، ’’اب عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے، کپنیوں نے گاؤں کی لیٹرائٹ مٹی سے تعمیر شدہ شانتا درگا مندر کو کنکریٹ سے بنانے پر ایک کروڑ خرچ کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ بچوں کو مفت چھتری، بیگ، کتابیں وغیرہ فراہم کر رہے ہیں، جب کہ عوام کان کی دھول پھانک رہے ہیں، آلودہ پانی پی رہے ہیں۔‘‘

برطانیہ میں مقیم گوون اور کانکنی مخالف کارکن کارمین مِرانڈا کا خیال ہے کہ کولمب کے علاقہ میں کانکنی کے لیے مقامی کسانوں کی اور عوامی جنگلاتی زمین ہتھیانے کے لیے کئی ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں۔ ’’لیکن چونکہ یہ منفرد معاملہ ہے، اس لیے مقامی لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ کانکنی کے منصوبوں کی پیش رفت کے خلاف ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘

شمالی کانیں

شمالی گوا کے ستاری تعلقہ کے بَنڈواڈا، پِسورلیم کے تقریباً ۳۷ کنبوں کے لیے یہ موسم ان کے مستقل آبائی ’پتے‘ کا آخری موسم ہے۔ مئی ۲۰۱۰  آتے آتے وہ شانتی نگر چلے جائیں گے۔ ان کے پشتینی مکانات اس زمین پر استادہ ہیں جہاں مزید کچ دھات کے لیے کانکنی ہونی ہے۔ یہ گاؤں جہاں ۴۰۰۰ لوگ اپنی کفالت کے لیے ۸۰ ایکڑ اراضی پر منحصر ہیں، کانکنی کی ایک پٹی سے گھرا ہوا ہے، جس میں کئی سالوں سے کانکنی جاری ہے۔

سابق کسان ۴۵ سالہ گروداس لکشمن گاوڑے گزشتہ ۳ سال سے ایک کان کے قریب موسمی چائے کا اسٹال (نومبر - مئی) چلا رہے ہیں، شانتی نگر کے مستقبل کے رہائشیوں میں سے ایک ہیں۔ انہیں ۶ لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا ہے۔ ’’میں اسی علاقہ میں پیدا ہوا اور پلا بڑھا لیکن اب یہاں سے جانا پڑے گا، کیونکہ دوسرے سبھی لوگ جا رہے ہیں۔ یہاں اپنی زمین پر میں  نے دھان کی کھیتی تقریباً دس سال پہلے اس وقت بند کر دی تھی جب چشمے سوکھنے لگے تھے۔ چائے کے اسٹال کے ساتھ ایسا نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ مکانات کی منتقلی اس گاؤں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ساٹھ سالہ سیتاراما ساوائیکر بھی مئی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ منتقل ہو رہی ہیں۔ ان کے بیٹے، جو ایک کان میں ذیلی ٹھیکیدار ہیں، کہتے ہیں کہ جہاں وہ پہلے رہتے تھے وہاں زمین میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ ’’کسی بھی وقت چٹانیں کھسک سکتی ہیں، لیکن اس علاقہ میں کانکنی پھل پھول رہی ہے کیونکہ اس گاؤں کے نیچے کچ دھات ہے۔‘‘

کنبوں کو منتقل کرنے والی کانکنی کمپنی دامودر منگل جی کے ترجمان ہریش ڈی رجانی پہلے اس مدعے پر بات کرنے سے گریزاں نظر آئے، کیونکہ وہ اپنی ’’کوشش‘‘ کے لیے ’’پبلسٹی‘‘ نہیں چاہتے تھے۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ یہ کرنا ان کا ’’فرض‘‘ ہے، اور لوگوں کے اپنے روایتی پیشہ یعنی زراعت سے محروم ہونے کے ایشو پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہاں کے ہر گاؤں والے کے پاس کانکن کمپنیوں میں نوکری ہے۔ ’’ہمارے پاس مطلوبہ منظوری ہے اور ہم نے چہار دیواری کی تعمیر اور دیگر چیزوں پر کئی کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔‘‘

زراعت کے ساتھ ساتھ یہاں ڈیری فارمنگ کو بھی خاصا نقصان پہنچا ہے۔ جوگیشوری دودھ اتپادک سنستھا آٹھ سال پہلے بند ہوچکی ہے۔ ۵۵ سالہ تارابائی ابا صاحب دیسائی کے پاس  دس سال پہلے ۴۰ گائیں تھیں، آج صرف ۱۰ ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’دودھ کی پیداوار ۲۵  لیٹر سے کم ہو کر ۲ لیٹر رہ گئی ہے۔ گھاس، چارہ اور مویشیوں کے لیے پانی کم ہو گیا ہے۔ ہمارے گھر کے قریب ایک چشمہ ہوا کرتا تھا، جو اب سوکھ گیا ہے۔ اب ہمیں پانی فراہم کرنے کے لیے ایک ٹینکر آتا ہے۔‘‘

ہنومنت پرب طویل عرصے سے ایک سرگرم کارکن رہے ہیں۔ وہ اس علاقہ کے ایک سوکھ چکے آبی ذخیرہ پنڈی کچی تلی کی یاد دلاتے ہیں، جو ایک دہائی قبل تک ۸۰ ایکڑ زمین کو سیراب کرتا تھا۔ ’’یہ کانکنی کی گاد سے بھر گیا ہے۔ علاقہ کے زیادہ تر چشمے سوکھ چکے ہیں۔ گاؤں کے تباہ شدہ  وسائل کی بازیافت سائنسی طور پر نہیں کی جا سکتی۔ کاجو، ببول اور ناریل کے درخت کاٹ دیے گئے ہیں۔ کانکنی کےتمام فضلہ کو سرکاری ملکیت والی پہاڑی پر ڈھیر کر دیا گیا ہے۔ اس ڈھیر کی مثالی اونچائی ۶۰ میٹر ہونی چاہیے، لیکن یہ ۱۵۰-۲۰۰ میٹر تک اونچی ہو چکی ہے۔ اپنے باگھوں کے لیے مشہور واگھورے گاؤں نے کان کے دھماکے شروع ہونے کے بعد انہیں غائب ہوتے دیکھا ہے۔

گاؤں کے درمیان سے نکلتے ہوئے آپ گہرے کٹے ہوئے پہاڑی ڈھلوان، ہر چند منٹوں میں نکلتے ہوئے کچ دھات/کچرے سے لدے ٹرک، خشک سرخ دھول کے نیچے جھکے ہوئے درخت اور پودے، خشک ہو چکے کنووں کی جگہ دھندلے نیلے پانی کے ڈرم دیکھ سکتے ہیں۔

پرب کہتے ہیں، ’’پرانی کانوں نے گاؤں کو پہلے ہی تباہ کر دیا تھا۔ اب نئی کانیں ان کی موجودگی صرف نقشوں تک محدود کردیں گی۔ تین کلومیٹر کے دائرے کی کانوں کا اثر پانچ کلومیٹر تک رہتا ہے۔ ہمارے یہاں سال ۲۰۰۰ میں کانکنی کی وجہ سے سیلاب بھی آیا تھا۔ ہم نئی کانیں نہیں چاہتے ہیں۔ دوسرے فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن خسارہ گاؤں کو اٹھانا پڑتا۔ ۱۵ سال بعد جب کچ دھات ختم ہو جائے گا تو گاؤں والوں کے مسائل کا کیا حل ہوگا؟‘‘

اس وقت کے وزیر ماحولیات جے رام رمیش کا انٹرویو

’محکمہ جنگلات اور کانکنی لابی کے درمیان گٹھ جوڑ سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘

چھپن سالہ جے رام رمیش مئی ۲۰۰۹ سے ہندوستان کے ماحولیات و جنگلات کے وزیر ہیں۔ ان کی وزارت ماحولیات سے متعلق منظوری دیتی ہے۔ یہ منظوری کانکنی کی تمام سرگرمیوں کے لیے لازمی ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں انہوں نے مہاراشٹر کے تاڈوبا اندھاری ٹائیگر ریزرو میں کوئلے کی کانکنی کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ اپریل میں مغربی گھاٹ میں سرگرم کارکنوں نے سونیا گاندھی کو ایک خط لکھا تھا، جس میں ہندوستان کے جنگلات کے تحفظ کے لیے وزیر کی کوششوں کی تعریف کی گئی تھی۔

ایک سوال جو ہر شخص کے ذہن میں ہے – کیا زمین واقعی گرم ہو رہی ہے؟

واقعتاً یہ سچ لگتا ہے۔ چونکہ ہم سب غیر پیشہ ور سائنس داں ہیں، اس لیے جب درجہ حرارت ۴۲ ڈگری سے تجاوز کرتا ہے تو ہم سوچتے ہیں کہ زمین گرم ہو رہی ہے؛ لیکن کیا اسے ثابت کرنے کے لیے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں کہ دنیا گرم ہو رہی ہے؟ ناسا کے جیمز ہینسن جیسے ذمہ دار سائنس داں نے یہ کہا تھا کہ زمین گرم ہو رہی ہے۔ بارش کے انداز میں یقینی طور پر بے قاعدگی آئی ہے، مثال کے طور پر جب بھی میں چیراپونجی جاتا ہوں، تو لوگ کہتے ہیں کہ بارش پہلے کی بنسبت بہت کم ہو رہی ہے۔ لہٰذا شاید، زمین گرم ہو رہی ہے۔

اب کانکنی کی بات کرتے ہیں۔ ہم بڑے پیمانے پر اور غیر قانونی کانکنی کے معاملات دیکھ رہے ہیں – یہ اب ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ آپ کی وزارت نے اس پر کیا ردعمل ظاہر کیا ہے؟

ہم نے اپنے ملک کے ان علاقوں کی نشاندہی کی ہے جہاں کانکنی واضح طور پر خطے کی کفالتی صلاحیت کی حد سے تجاوز کرسکتی ہے۔ گوا ایک زندہ مثال ہے، جہاں ہم نے مستقبل کی کانکنی پر روک لگا دی ہے۔ مغربی گھاٹ ایک اور علاقہ ہے جہاں میں نے سرکردہ ماحولیاتی ماہرین میں سے ایک مادھو گڈگل کی سربراہی میں ایک ماہرانہ پینل قائم کیا ہے۔ گڈگل مغربی گھاٹ کے نازک علاقوں کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ پھر ہم نے کانکنی کے اہم منصوبوں کو روک دیا ہے، جیسے ویدانتا کا منصوبہ ابھی زیر غور ہے۔ ہم اب بہت زیادہ محتاط ہیں۔ ہم نے کوئلے کی کانکنی کے متعدد منصوبوں کو روک رکھا ہے۔ ہم نے گو-ایریا اور نو-گو ایریا کی نشاندہی کی ہے اور درحقیقت ہم نے نو گو ایریاز میں کوئلے کی کان کھودنے سے روک دیا ہے، خاص طور پر چھتیس گڑھ میں۔ لیکن ہمیں کانوں کی ضرورت ہے۔ ہم یہ واضح کر دیں کہ کانکنی کی سرگرمیاں نہیں رک سکتیں۔ لیکن غیر قانونی کانکنی بند ہونی چاہیے۔ ہم نے بہت سخت کارروائی کی ہے۔ مثال کے طور پر میں نے کرناٹک کے وزیر اعلی کو خط لکھا ہے جہاں بہت زیادہ غیر قانونی کانکنی ہوئی ہے۔ ہم نے وہاں بھی کئی کانون کی لیز کو منسوخ کر دیا ہے۔ کانکنی جاری رہنی چاہیے، قانونی کانکنی چلنی چاہیے۔ لیکن اگر گھنے جنگلاتی علاقوں میں قانونی طور پر کانکنی جاری ہے، تو ہمیں اس پر نظر ثانی کرنی ہوگی جیسا کہ کوئلے کے معاملے میں کی گئی ہے۔ یہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اب تک کانکنی ماحولیات کے لحاظ سے پائیدار طریقے سے نہیں کی گئی ہے…

کیا کانکنی کا کوئی پائیدار طریقہ ہے؟

ہاں بالکل ہے، جرمنوں نے یہ کیا ہے، امریکیوں نے بھی کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی، نیویلی لگنائٹ پائیدار کانکنی کی ایک عمدہ مثال ہے۔ آندھرا پردیش میں سنگارینی ایک اور مثال ہے۔ اگر ہم زیادہ حساس ہوں تو ہم طریقے تلاش کرسکتے ہیں۔ لیکن ہمیں خاص طور پر قبائلی علاقوں میں کانکنی کے معاملے میں محتاط رہنا ہوگا – جہاں آپ کو ایسے مسائل کو دیکھنا ہوگا کہ ان کانوں سے کون مستفید ہونے والا ہے۔

کرناٹک میں ریڈی برادران، جھارکھنڈ میں مدھو کوڈا جیسے کانکنی کے گھوٹالوں کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

میں گھوٹالوں کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں صرف وہی قانون نافذ کرسکتا ہوں، جو ماحولیاتی تحفظ کا قانون، جنگلات کے تحفظ کا قانون اور وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ کے تحت آتے ہیں۔ میرے پاس صرف یہی تین ہتھیار ہیں۔ میں مدھو کوڈا کے پیچھے نہیں جاسکتا، اگر انہوں نے ان میں سے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو میں کارروائی کرسکتا ہوں۔

ٹھیک ہے، تو آپ کی وزارت ریاستی محکمہ جنگلات کو کس طرح دیکھتی ہے جو اپنی ریاستوں میں کانکنی لابیوں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرتے ہیں؟

میں اس ملی بھگت سے انکار نہیں کرسکتا۔ خواہ وہ اڑیسہ ہو، جھارکھنڈ ہو، مدھیہ پردیش ہو یا کوئی بھی ریاست ہو، وہاں ملی بھگت چلتی ہے۔ لیکن پھر اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ریاستی حکومتوں پر بھی سرمایہ کاری کے نتائج دکھانے کا دباؤ ہے۔ وزرائے اعلیٰ نجی سرمایہ کاری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ان کی معیشت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

گوا میں دو منظور شدہ پروجیکٹ تھے جنہیں حال ہی میں آپ کی وزارت نے مسترد کر دیا۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی مواد موجود ہے کہ گوا کا محکمہ جنگلات وہاں کی مائننگ لابی کے ساتھ ساز باز کرتا ہے۔ آپ کی وزارت اس کو کیسے دیکھتی ہے؟

آپ سخت کارروائی کرتے ہیں۔

کس طرح کی سخت کارروائی؟

ہم نے کانکنی پر روک لگائی ہے، ہم منصوبوں کو مسترد کر رہے ہیں، آپ مزید کیا کارروائی چاہتے ہیں؟

ایسے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا کیا؟

یہاں نازک آئینی توازن کا تحفظ ضروری ہے۔ میں اسے صرف ریاستی حکومت کے علم میں لا سکتا ہوں۔ انہیں اپنے عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی۔ اگر محکمہ جنگلات کے ہمارے علاقائی دفاتر میں ایسے افسران ہیں تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔

ان محکمہ جنگلات کے بارے میں کیا خیال ہے جو بعض علاقوں میں باگھوں کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ ایسے بفر ژون نہیں چاہتے جو کانکنی کو متاثر کریں؟ ایک بار پھر گوا کی ہی مثال لیتے ہیں۔

ہاں، گوا اور یہاں تک کہ مہاراشٹر بھی تاڈوبا کے ارد گرد بفر ژون کا اعلان کرنے میں بہت سست رہا ہے۔ روایتی طور پر ریاستی حکومتیں بفر ژون کا اعلان کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں، کیونکہ اس سے کانکنی کی سرگرمیاں رک جاتی ہیں۔ لیکن میں نے مہاراشٹر کے تاڈوبا بفر ژون میں کوئلے کی کان کھولنے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ میرے خیال میں وزارت سے جو اشارے ملے ہیں وہ مستحکم اشارے ہیں۔ لیکن ایشو یہ نہیں ہے کہ کانکنی کی سرگرمیوں کو روکا جائے یا معاشی سرگرمیوں کو روکا جائے۔ ایشو یہ ہے کہ کانکنی میں بے ضابطگیوں سے نمٹا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کانکنی کے ضمن میں وزارت ماحولیات کے تحت آنے والے تینوں قوانین کی خلاف ورزی نہ ہو۔

تو آپ غیر قانونی کانکنی کی روک تھام کو کیسے دیکھتے ہیں؟

ہم نے اوبالا پورم کے خلاف کارروائی کی ہے، جہاں بے ضابطگیوں کے الزامات تھے۔ ہم نے سروے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی مداخلت کی ہے۔ میں نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کو لکھا ہے جہاں غیر قانونی کانکنی کے بہت سی شکایات ہیں۔ اگر وہ جنگلات کے تحفظ کے قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں تو ہم ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔

اروناچل پردیش میں بننے والے باندھوں کی بات کرتے ہیں۔

ایک ہی دریا پر آپ منصوبوں کی ایک سیریز تیار کرسکتے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ منصوبہ وار تخمینہ کارگر نہیں ہوگا، اس لیے ہمیں دریا کی کفالتی صلاحیت کو دیکھنا ہوگا۔ ہم نے شمالی تیستا کے لیے یہ کام کیا ہے، ہم نے پانچ منصوبوں کو روک دیا ہے۔ اسی طرح ہم نے بھاگیرتھی کے مجوزہ منصوبوں کو ترک کرنے کی سفارش کی ہے، کیونکہ ندیوں کے بہاؤ کے لیے نازک ماحولیاتی نظام کی تحفظ کی ضرورت ہے۔ منشا ڈیم کی تعمیر کو روکنا نہیں ہے بلکہ منشا یہ ہے کہ ترقی اور ماحولیات کے درمیان توازن قائم رکھا جائے۔ اور جہاں یہ منصوبے ضروری ہیں، وہاں ان پر ماحولیاتی لحاظ سے  پائیدار انداز میں کام ہو۔

کانکنی کے لیے محکمہ جنگلات کا اجازت نامہ ضروری ہوتا ہے۔ وزارت اس کو کیسے دیکھتی ہے؟ گوا میں زمین پر موجود لوگوں نے کہا ہے کہ متعلقہ لیز کے بغیر کئی مقامات پر کانکنی جاری ہے۔

دراصل وہاں ریاستی حکومت کو کارروائی کرنی ہوگی۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اگر کسی منصوبہ کو فاریسٹ کلیئرنس ایکٹ کے تحت منظوری مل گئی ہے، تو یہ کوئی غیر قانونی منصوبہ نہیں ہے۔ غیر قانونی منصوبہ وہ ہے جہاں اجازت نامہ نہیں ہوتا ہے۔ اس کی شروعات مقامی حکام سے ہوگی۔ اس میں ریاستی حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میں ہمہ وقت پولیسنگ نہیں کرسکتا، میں صرف ایک سہولت کار بن سکتا ہوں۔ قوانین کا کردار مرکزی ہے؛ قانون سازی مقامی ہونی چاہیے۔

انہیں  کیسے نافذ کیا جائے؟

ریاستی حکومت کو ان کو نافذ کرنا ہوگا۔ مشینری ان کے ماتحت ہے۔

اگر خلاف ورزی ہو رہی ہو، تو وزارت اس سے کیسے نمٹتی ہے؟

اگر خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہم یقینی طور پر کارروائی کرسکتے ہیں۔ ویدانتا کے معاملے میں ہم نے ایک ٹیم بھیجی، انہوں نے رپورٹ دی، ہم اس رپورٹ کی جانچ کر رہے ہیں۔ جہاں خلاف ورزیوں کی رپورٹیں ہمارے پاس آتی ہیں ہمارے پاس خود چیک کرنے کے لیے عملہ نہیں ہے، اس لیے ہم ٹیمیں تشکیل کرتے ہیں۔ میں نے کیرالہ، ویدانتا، گوا، کرناٹک پر ٹیمیں ارسال کی ہیں۔

گزشتہ برسوں کے دوران ہندوستان کی ساحلی پٹی پر کوسٹل ریگولیشن ژون (سی آر زیڈ) کی کارکردگی کیسی رہی ہے؟

ہمارے پاس سی آر زیڈ ۱۹۹۱ ہے، ہم نے اس میں ۲۵ ترامیم کی ہیں۔ فی الحال ہم سی آر زیڈ ۲۰۱۰ کے مسودے پر کام کر رہے ہیں، جو سی آر زیڈ ۱۹۹۱کی بہت ساری کوتاہیوں کو دور کر دے گا۔ ہم سی آر زیڈ ۹۱  کو کمزور نہیں کرنا چاہتے۔ ہم سی آر زیڈ ۲۰۱۰ کے ساتھ آ رہے ہیں، جو سی آر زید ۱۹۹۱کو مضبوطی فراہم کرے گا اور اس بات کی نشاندہی کرے گا کہ ہندوستان کے بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں خصوصی مداخلت کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر گوا، کیرالہ، ممبئی، انڈمان، لکشدیپ۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے پاس ایک ہمہ گیر سی آر زیڈ ہو لیکن ماحولیاتی طور پر  ایک دوسرے سے جدا ان علاقوں میں، ہر ایک کے لیے خصوصی مداخلت کی ضرورت ہوگی۔ مسودہ کو عوامی ڈومین میں رکھا جائے گا؛ میں پہلے ہی گوا، ممبئی، کوچین، پوری اور چنئی میں عوام اور ماہی گیروں کے ساتھ پانچ عوامی مشاورت کر چکا ہوں…

ہندوستان میں کانکنی کی پالیسی کی ضابطہ بندی نہیں کی گئی ہے۔ لیکن حکومت ان سرگرمیوں کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حکومت گھوٹالوں کو کیسے دیکھتی ہے؟

میں گھوٹالوں کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتا، میرے اختیارات محدود  ہیں۔ مجھے یہ یقینی بنانا ہے کہ قوانین کی خلاف ورزی نہ ہو۔ آپ کانکنی اور سیاست کے گٹھ جوڑ کے بڑے سوالات پوچھ رہے ہیں، میں اس میں نہیں جا سکتا، میرے پاس اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

لیکن وزارت ماحولیات کانکنی کی لیز کی راہ ہموار کرنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے…

وزارت ماحولیات کو تینوں قوانین کی تعمیل کو یقینی بنانے کی ہدایت ملی ہے۔ ہم کرپشن ایکٹ، منی لانڈرنگ وغیرہ میں نہیں آسکتے، یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ہمارے تینوں قوانین حرف بہ حرف عمل میں لائے جا رہے ہیں۔

وزارت ماحولیات کس قسم کی پیش رفت چاہتی ہے؟

کسی بھی منصوبے کے لیے میرے پاس تین جوابات ہوں گے- پہلا ہاں، دوسرا ہاں لیکن، تیسرا نہیں ہوگا۔ یہ ’ہاں ہاں‘ کی وزارت نہیں ہوسکتی، اور نہ ہی ’نہیں نہیں‘ کی وزارت ہو سکتی ہے، اس میں ایک اہم توازن ہونا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ آج منصوبوں کی ایک خاطر خواہ تعداد ’ہاں‘ کے زمرے میں ہے، لیکن کچھ ’نہیں‘ کے زمرے میں بھی ہیں۔ سرخیاں صرف ’نہیں‘ زمرے کو ملتی ہیں، میڈیا دو وزارتوں کے درمیان تصادم پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وزارت نے ۹۵ فیصد منصوبوں کو ماحولیاتی نقطہ نظر سے، اور ۸۵ فیصد سے زیادہ کو جنگلات کے نقطہ نظر سے منظوری دی ہے…

پھر کچھ منصوبوں کو زیادہ تیزی سے منظوری کیسے مل جاتی ہے؟

کچھ پروجیکٹس میں کشاکش ہے۔ آج نظام شفاف ہے۔ میں نے مفادات کے تمام ٹکراؤ کو ختم کر دیا ہے۔ میں نے ماحولیاتی جائزہ کمیٹیوں کے چیئرمین تبدیل کر دیے ہیں۔ آج ہر زیر التوا پروجیکٹ کی تمام معلومات ویب سائٹ پر موجود ہیں، ہم اسے جس قدر ممکن ہو سکتا ہے فعال بنا رہے ہیں۔

آپ غیر قانونی کانکنی کے منصوبوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا منصوبہ کیسے بنا رہے ہیں؟

ہم زیادہ محتاط رہیں گے…

ریاستوں میں محکمہ جنگلات کی خلاف ورزیوں سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے؟

ہم جوازیت کے مطالعہ کے بغیر منصوبوں کو منظوری نہیں دے رہیں۔ خلاف ورزی ہوئی تو ہم کارروائی کریں گے۔ ان پر مزید غور کریں گے۔ میں نے جنگلاتی مشاورتی کمیٹیوں کی تجویز کردہ بہت سی تجاویز کو ٹھکرا دیا ہے۔ ہم مزید مطالعہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ سب اوپر سے شروع ہوتا ہے؛ مجھے صحیح پیغام دینے ہیں۔

پائیدار اقتصادی ترقی کے بارے میں کیا خیال ہے؟

کوئی جادوئی فارمولا نہیں ہے۔ تینوں کو توازن تلاش کرنے میں حصہ داری ادا کرنی ہوگی، بہترین ذریعہ تلاش کرنا ہوگا۔ آپ رہبانیت اختیار نہیں کر سکتے، آپ کو ترقی چاہیے، آپ کو منصوبوں کی ضرورت ہے، یہ روزگار پیدا کرتے ہیں۔

ہندوستان اپنے جنگلات کے رقبے کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے باوجود یہاں بڑے پیمانے پر کانکنی ہو رہی ہے۔ ہم ان دونوں میں مطابقت کیسے پیدا کریں گے؟

ہم نے خاص طور پر نو بڑے کول فیلڈز میں کوئلے کی کانکنی کے معاملے میں آگے بڑھنے اور آگے نہ بڑھنے والے علاقوں کی نشاندہی کی ہے۔ تقریباً ۳۵ فیصد کوئلہ بلاک آگے نہیں بڑھنے والے علاقوں میں واقع ہیں جہاں درختوں اور جنگل کی کثافت زیادہ ہے۔ ہم نے ابھی تک لوہے کے لیے ایسا نہیں کیا ہے۔ کوئلہ سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ ہمیں اگلے ۷-۸ سالوں میں کوئلے کی پیداوار کو دوگنا کرنا ہے۔ بڑھتی ہوئی مانگ کے لیے کوئلہ – اڑیسہ، جھارکھنڈ، ایم پی، چھتیس گڑھ کے – جنگلاتی علاقوں سے آنے والا ہے …

آپ غیر قانونی کانکنی کو کیسے دیکھیں گے؟

غیر قانونی کانکنی بند کرو۔ عدالتیں ایسا کرنے کا واحد طریقہ ہیں۔ قانون کی حکمرانی قائم ہے۔

------

اس وقت کے کانوں کے وزیر بی کے ہانڈک کا انٹرویو

’کانکن کمپنیاں سب کچھ مفت میں حاصل نہیں کر سکتیں‘

پچھتر سالہ بیجوئے کرشنا ہانڈک کانوں کی وزارت اور شمال مشرقی علاقہ (ہندوستان) کی ترقی کی وزارت میں کابینہ کے وزیر ہیں۔ انہوں نے مئی ۲۰۰۹ میں ان  وزارتوں کا عہدہ سنبھالا۔ گزشتہ سال انہوں نے کانکنی پر ادا کیے گئے ٹیکس کے لحاظ سے رائلٹی متعارف کرائی، جس کی وجہ سے ریاستی حکومتوں کی کانکنی سے ہونے والی آمدنی تقریباً دوگنی ہو گئی۔ ریڈی برادران کے گھوٹالے کے بعد بیلاری میں گزشتہ ہفتے ۱۸ کانکنی لائسنس منسوخ کر دیے گئے تھے۔ وہ پھیپھڑوں میں انفیکشن کی وجہ سے بیمار تھے، لیکن ہندوستان ٹائمز سے بات کرنے کے لیے وقت نکالا۔ کانوں کے مرکزی وزیر، بیجوئے کرشنا ہانڈک نے ہندوستان ٹائمز کی نامہ نگار شالنی سنگھ سے بات چیت کی۔

وزارت کی جانب سے کانوں اور معدنیات پر ایک نیا بل آیا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ مائننگ لابی اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ اس کے مطابق کانکنی سے حاصل ہونے والے منافع کا ۲۶ فیصد مقامی لوگوں کو دینا اور انہیں اسٹیک ہولڈر بنانا ہے۔ ان کی شناخت کیسے ہوگی؟ اسے کیسے تقسیم کیا جائے گا؟

ہم سالانہ وظیفہ کو نئے قانون کا حصہ بنانے جا رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ ہم نے لوگوں کو ان کی زمین اور بہت سی دوسری چیزوں سے محروم کر دیا ہے۔ اس کے لیے انہیں کچھ ملنا چاہیے۔ سالانہ وظیفہ کو پرکشش پایا گیا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ اس سے انصاف ہوگا۔ ہم ایسا انصاف چاہتے ہیں جو مقامی لوگوں کے کام آئے۔ قانون میں یہ تمام تفصیلات ہوں گی، جن پر آنے والے دنوں میں کام کیا جائے گا۔ ہم ان علاقوں کی نشاندہی کرنے جا رہے ہیں جہاں کانکنی ہونے جا رہی۔ ہم یہ معلوم کرنے جا رہے ہیں کہ وہاں کس قسم کے احتجاج، کاشت کاری وغیرہ چل رہی ہے۔ ہر چیز کے لیے ایک نظام ہو گا۔ ہم میزبان آبادی کی فلاح و بہبود میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔

حکومت نے مقررہ فی ٹن محصول کی جگہ ۱۰ فیصد رائلٹی کے ضابطہ کو نافذ کرنے میں اتنی تاخیر کیوں کی؟ ۱۰ فیصد کی سطح کیسے طے کی گئی؟

ہم قانون بدلنے جا رہے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں معاملہ اٹکا ہوا ہے۔ وزارت قانون کو بھی اس کے لیے وقت نکالنا ہوگا۔ ہم ۲-۳ دن پہلے ملے تھے۔ ہم حتمی فیصلہ لیں گے کہ نئے قانون کا دائرہ کار کیسا ہوگا۔ جب تک آپ کے پاس کوئی نیا قانون نہیں ہوگا، آپ ان تمام پرانی چیزوں کے لیے گنجائش نہیں نکال سکتے۔ آپ کو صحیح چیزوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ کانوں اور معدنیات (ترقی اور ضابطہ) ایکٹ، ۱۹۵۷ ایک پرانا قانون ہے۔ اس کے اندر کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک نیا قانون ہو، نئی سوچ ہو، جو سب سے اہم ہے۔ عوام کے لیے، مقامی میزبان آبادی کے لیے اور ان کے فائدے کے لیے نئی سوچ ہونی چاہیے۔

پالیسی کے مسودہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ میزبان آبادی اور قبائلی آبادی کا خاص خیال رکھا جائے گا اور منصوبے سے متاثرہ افراد کو مخصوص پیکجز کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں۔

ایسا کرنا ہی ہوگا۔ پیکجز دیے جانے چاہئیں۔ یہ سالانہ وظیفہ ہماری تجویز ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو شاید اسے اتنا پسند نہ کریں، لیکن ہم اس کے لیے پرعزم ہیں۔

کیا یہ کانکن کمپنیاں ہیں جو اسے ناپسند کرتی ہیں؟

پیسہ کانکن کمپنیوں کو دینا ہوگا۔ انہیں ہر چیز مفت نہیں مل سکتی۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سالانہ وظیفہ وغیرہ دینا پسند نہیں ہے، لیکن آپ ہمیشہ کے لیے ان کی جائیداد لے رہے ہیں اور آپ انہیں کچھ نہیں دیں گے؟ نکسلیوں نے اس بارے میں بات کرنا شروع کر دیا ہے۔ لوگوں کو انصاف دینا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ سب کچھ اپنے پاس رکھ لیں اور انہیں کچھ نہ دیں۔

کیا ہم زیادہ عوام  رخی کانکنی کی پالیسی کو اپنا رہے ہیں؟

جی ہاں، بالکل۔ اس کا رخ ترقی کی جانب ہوگا، عام لوگوں کی جانب ہوگا جن کی زمین کو وہ اپنی جائیداد بناتے ہیں۔ یاد رکھیں، یہ ان کی زمین پر ہو رہا ہے، اور بدلے میں انہیں کچھ نہیں مل رہا ہے۔ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا۔ اب چیزیں بدل رہی ہیں۔ یہاں تک کہ کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے بیرونی ممالک بھی عوام کے ساتھ انصاف کرنے کی فکر کرنے لگے ہیں۔ یہ نیچر ہے، آپ کے پاس نیچر کو تباہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس کی بازیافت کون کرے گا؟ کانکن کمپنیوں کے لیے نیچر کی بحالی لازمی ہے۔ نئے قانون کے مسودہ میں پائیدار ترقی کا فریم ورک شامل کیا گیا ہے۔ یہ اہتمام پرانے قانون  میں نہیں تھا…

کیا ہم کانکنی کے تعلق سے ترقی کی نئی تعریف کر رہے ہیں؟

ہاں، نئے قانون میں ہم نے چیزوں کو پرعزم طریقے سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عوام کو انصاف فراہم کرنا اولین ترجیح ہے۔

دوسرے ممالک میں کچ دھات کی تلاش اور کانکنی کے لیے الگ الگ کمپنیاں ہیں۔ ہندوستان میں ایک ہی کمپنی دونوں کام کرتی ہے۔ کیا ہم کوئی نیا طریقہ تلاش کر رہے ہیں جس کے تحت کانکنی کے لائسنس دیے جائیں گے؟

نہیں، لائسنس ویسے ہی دیے جائیں گے جیسے دیے جاتے ہیں۔ ہم بغیر رکاوٹ ترقی کے خواہاں ہیں۔ بار بار کوئی کانکن کمپنی آکر اپنا پیسہ ضائع نہیں کرسکتی- اگلے مرحلہ کے حقوق خودکار طور پر جاری ہونے چاہئیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ غیرملکی کمپنیاں ہندوستان نہیں آنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے ۲۰۰۸ میں بنائی گئی پالیسی کو قبول نہیں کیا۔ تب میں کانکنی کا وزیر مملکت تھا۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ لوگ مختلف ممالک سے آئے اور کہا کہ ہمیں آپ کے ملک سے وعدہ ملا ہے کہ لوگوں کو انصاف دیا جائے گا۔

کانکنی کے لیے ماحولیاتی منظوری حاصل کرنے کے لیے فی الحال کوئی متحد طریقہ کار نہیں ہے۔ کیا ہم مستقبل میں ماحولیات اور کانوں کی وزارت کے درمیان زیادہ ہم آہنگی کی توقع کر سکتے ہیں؟

ہاں، دونوں کے درمیان زیادہ ہم آہنگی ہوگی۔ ایک بار جب ہم پرانے قانون میں چیزوں کو درست کر لیں گے، جو کہ بہت پرانا ہے، تو ہم نئے قانون کے ساتھ شروعات کریں گے۔ ہم نے پرانے قانون میں ترمیم کے بجائے ایک نیا قانون نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئی قانون سازی ہونی چاہیے۔

آپ کو ایک نئے قانون کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

چیزوں کو ان کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ شفافیت ایک اہم پہلو ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ غیر ملکی کمپنیاں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کے ذریعے ہندوستان میں سرمایہ کاری کریں۔ اگر انہیں یقین نہیں ہوگا کہ ہم شفاف ہیں تو وہ کیوں آئیں گے؟ ان کا پیغام واضح ہے کہ آپ اپنی پالیسی تبدیل کریں ورنہ ہم نہیں آئیں گے۔ ایف ڈی آئی سے بڑی رقم آتی ہے، جب تک آپ کے پاس زیادہ پیسہ نہیں ہوگا، آپ نئی ٹیکنالوجی نہیں لا سکتے اور ہم نئی ٹیکنالوجی لانا چاہتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ، ہم بہتری لا سکتے ہیں۔

جہاں تک کانکنی کا تعلق ہے آج زمین کا حصول سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ قبائل کانکنی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کرے گا۔ وزارت ان پہلوؤں کو کیسے دیکھ رہی ہے؟

ابھی تک سرمایہ کاروں نے کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا ہے۔ جنوبی کوریا کی کمپنی  پوسکو ۴-۵ سال سے لڑ رہی ہے۔ وہ اب بھی کہتے ہیں کہ وہ پرامید ہیں اور یہ کہ مقامی آبادی کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ اراضی کا حصول ۴-۵ سال سے جاری ہے۔ اگر لوگوں کو یقین ہو جائے گا کہ اس سے انہیں فائدہ ہوگا، تو مائننگ کمپنیاں جو کام ۴-۵ سال میں کر رہی ہیں، وہ ایک سال میں مکمل کرسکتی ہیں۔ یہ کمپنیاں غیر رسمی/غیر قانونی طریقوں سے نکسل وغیرہ کو ادائیگی کر رہی ہیں، ان سب میں کمی آئے گی۔ روزانہ کے آپریشن میں کمی آئے گی۔ لوگ کانکنی کی سرگرمیوں میں خلل نہیں ڈالنا چاہیں گے۔ پوسکو کا ماننا ہے کہ لوگ ہمارے ساتھ ہیں لیکن اگر آپ انہیں لوٹنا چاہتے ہیں اور انہیں سالانہ وظیفہ نہیں دینا چاہتے، تو وہ کہیں گے کہ جو چیز ہماری ہے اسے لینے کا آپ کو کیا حق ہے؟ اگر مقامی لوگ آپ کے عزم کو سمجھتے ہیں تو وہ کانکنی انتظامیہ کے خلاف کیوں جائیں؟

وزارت غیر قانونی کانکنی کو کیسے دیکھ رہی ہے؟

غیر قانونی کانکنی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے نمٹنا بہت مشکل ہے۔ اب تک تمام کانیں ریاستوں کی ملکیت ہیں اور اسی وجہ سے سب کچھ ہوتا ہے۔ اصل حقوق ریاست کو جاتے ہیں۔ تمام منظوری ریاستی حکومتیں کانکنی کمپنیوں کو دیتی ہیں۔ ہم نے نامیبیا کے ساتھ کچھ مفاہمت نامہ پر دستخط کیے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ انہیں غیر قانونی کانکنی کے انہی مسائل کا سامنا ہے – لوگوں کا استحصال کیا گیا ہے وغیرہ۔ ہم اس سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کرناٹک میں ریڈی برادران، جھارکھنڈ میں مدھو کوڈا وغیرہ کے حالیہ کانکنی گھوٹالوں پر آپ کا کیا خیال ہے؟

کرناٹک میں غیرقانونی کانکنی کی بڑی رپورٹ ہے۔ ہم کوئی نیا قانون بنائیں یا نہ بنائیں، اگر آپ اس معاشرے میں امن اور ہم آہنگی چاہتے ہیں تو کسی نہ کسی طرح کانکنی کے غیر قانونی کام سے نمٹا جانا چاہیے۔ یہی واحد مہذب طریقہ ہے۔

کچھ فوری اقدامات کیا ہوں گے؟ کوئی کس طرح گھوٹالوں کو روکے؟

انڈین بیورو آف مائنز نے معائنہ کیا ہے۔ نئے ایکٹ میں غیرقانونی کانکنی کو روکنے کی دفعات ہوں گی۔ اس میں افراد اور معاشرہ مجموعی طور پر غیرقانونی کانکنی کے خلاف رپورٹ درج کرا سکتے ہیں۔ ابھی تک صرف ریاستی حکومت کے نمائندے ہی شکایت درج کر اسکتے ہیں۔ نیا قانون ہمیں ایسا کرنے میں مدد دے گا۔ ریاستی حکومتیں ٹھیکے دیتی اور لیتی ہیں، اس میں کوئی زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔ اب ہمارے پاس آئی بی ایم موجود ہے جس نے اضافی اقدام کیے ہیں – انہوں نے ۱۲۰ غیر قانونی کانوں کی نشاندہی کی ہے اور کئی کو معطل کر دیا ہے۔

گوا اس فہرست میں شامل نہیں ہے، حالانکہ وہاں غیر قانونی کانکنی کے کئی معاملے سامنے آئے ہیں؟

گوا ایک ہائی پروفائل ریاست ہے۔ اڑیسہ میں شاید ۸۰ فیصد مقامات پر کانکنی جاری ہے، لیکن اس کی اطلاع نہیں ہے، اس لیے زیادہ ردعمل نہیں ہے۔ گوا میں آبادی کی کثافت زیادہ ہے، خواندگی زیادہ ہے، یہاں تک کہ میڈیا میں بھی کچھ معاملے اجاگر ہوئے ہیں۔ کانکنی غیرقانونی اس وقت ہے جب بغیر لائسنس یا بلا اجازت کانکنی ہوتی ہے۔ گوا میں زیادہ تر آلودگی کے مسائل ہیں اور آلودگی کو غیر قانونی کانکنی کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ مجھے اپنی وزارت پر فخر ہے کہ غیرقانونی کانکنی کا پتہ لگانے کے لیے ریموٹ سینسنگ ایجنسی کی نئی اسکیم لے کر آئی ہے۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اگر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص غیر قانونی کانکنی میں ملوث ہے، تو ان کا ہمارے نظام سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

نئے قانون پر کانکنی کی صنعت کا کیا ردعمل رہا ہے؟

ملا جلا ردعمل ہے۔ وہ نگرانی سے معدن کی دریافت اور کانکنی  کی لیز  تک کی منتقلی سے خوش ہیں۔ دوسرے، ٹھیکے کی منتقلی کی صلاحیت ہے۔ وہ اب اپنی لیز فروخت سکتے ہیں، جیسا ابھی چل رہا ہے ویسے نہیں جہاں کوئی اور کسی کے نام پر کانکنی کر رہا ہے۔ ذمہ داری طے ہوگی۔ آپ اپنی لیز باضابطہ طور پر منتقل کر سکتے ہیں جیسا کہ آپ اپنا گھر یا اپنی پراپرٹی منتقل کرتے ہیں۔ تیسرا، ہم ٹربیونلز قائم کر رہے ہیں۔ اگر آپ ریاستی حکومت کے سامنے درخواست دیتے ہیں اور دو ماہ تک اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو آپ ٹریبونل میں جاسکتے ہیں جو معاملے کو نمٹا دے گا۔ کمپنیاں قدرے ناراض ہیں کیونکہ کوئی بھی کاروباری شخص سالانہ وظیفہ، معاوضہ، سی ایس آر وغیرہ جیسی چیزوں کا پابند نہیں ہونا چاہتا ہے۔

پائیدار کانکنی سے وزارت کا کیا مطلب ہے؟ اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟

پائیدار ترقی کے فریم ورک کے تین اجزاء ہوں گے۔ ایک، سماجی پائیداری سے براہ راست لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ دو، ماحولیاتی پائیداری اور تین، کانکنی کی اقتصادی سرگرمیوں میں پائیداری۔ ہم صفر کچرے کے ساتھ کانکنی کے خواہاں ہیں۔ آپ جو کچھ بھی دھرتی ماتا سے لے رہے ہیں، آپ کو اس عمل میں اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی/مشینری لگائیں اور منصوبہ بندی بھی اس طرح کریں کہ وسائل کی زیادہ سے زیادہ بازیافت ہو، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جو بھی معدنیات موجود ہیں آپ انہیں ۳۰ سال میں ختم کر دیں اور پھر درآمد کرنے کی کوشش کریں۔ ایک نظام قائم کیا جائے گا، وزارت نے ایک کنسلٹنٹ کو شامل کیا ہے۔ کانکنی میں پائیدار ترقی کے لیے دنیا کے بہترین معیارات پر عمل کیا جائے۔ جو بھی ہندوستان کے لیے ضروری ہوگا اسے اپنایا جائے گا۔ پائیدار ترقی کو کانکنی کے منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے۔ سماجی پائیداری کی کسی بھی قسم کی خلاف ورزی لیز کی خودکار منسوخی کا باعث بنے گی۔ آئی بی ایم نے گزشتہ ۶ ماہ میں ۴۰ لائسنس منسوخ کیے ہیں۔ ریاستی حکومتیں بہت سے کام نہیں کر رہی ہیں، اس لیے آئی بی ایم کو یہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ بیلاری میں ۱۸ کانوں کو ایک ہفتہ قبل منسوخ کر دیا گیا تھا۔

کانکنی میں ریاست اور مرکز کے اعداد و شمار کیا ہیں؟

کانیں اور معدنیات ریاستوں کی دولت ہیں، جن سے رائلٹی ملتی ہے۔ پہلے تمام ریاستوں کے لیے یہ رائلٹی ۲۰۰۰ کروڑ روپے سالانہ تھی۔  ہم نے ایڈ ویلیرم رائلٹی متعارف کرائی، جس میں یہ بڑھ کر ۴۰۰۰ کروڑ روپے ہو گئی اور اب اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ گوا میں تقریباً ۳۰۰ کروڑ کا اضافہ دیکھا گیا اور گوا جیسی چھوٹی ریاست کے لیے اس رقم سے وہ خوش تھے۔ پہلے صرف کانکن کمپنیوں کو فائدہ ہوتا تھا، اب اس کا فائدہ سب کو ہونا چاہیے۔

----------

ویب لنکس:

- یہ رپورٹ ۲۰۱۰ میں سی ایس ای میڈیا فیلوشپس کے زیراہتمام تیار کی گئی تھی۔ مکمل ورژن یہاں دستیاب ہے: https://cdn.cseindia.org/userfiles/goa%20mining.pdf

- اس رپورٹ کے کچھ حصے ہندوستان ٹائمز میں شائع ہوئے: http://www.hindustantimes.com/india-news/mine-or-yours/article1-544184.aspx

- اس وقت کے وزیر ماحولیات کا انٹرویو: http://www.hindustantimes.com/News-Feed/India/Cannot-deny-links-between-forest-depts-amp-mining-lobbies/Article1-544119.aspx

- اس وقت کے کانوں کے وزیر کا انٹرویو: http://www.hindustantimes.com/News-Feed/India/Mining-companies-can-t-get-everything-for-free-Handique/Article1-544123.aspx

مترجم: شفیق عالم

Shalini Singh

শালিনী সিং পারি-র পরিচালনের দায়িত্বে থাকা কাউন্টারমিডিয়া ট্রাস্টের প্রতিষ্ঠাতা অছি-সদস্য। দিল্লি-ভিত্তিক এই সাংবাদিক ২০১৭-২০১৮ সালে হার্ভার্ড বিশ্ববিদ্যালয়ে নিম্যান ফেলো ফর জার্নালিজম ছিলেন। তিনি পরিবেশ, লিঙ্গ এবং সংস্কৃতি নিয়ে লেখালিখি করেন।

Other stories by শালিনী সিং
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam