نوشّیہ کُوَرا نے جنوبی ممبئی کے آزاد میدان میں تقریباً ۴۰ مظاہرین کے لیے اپنی دھُمسی (ڈھول) بجانا ابھی ابھی ختم کیا تھا۔ رات کے تقریباً ۱۱ بجے وہ جیسے ہی آرام کرنے کے لیے بیٹھے، تین آدمی ان کے پاس پہنچے۔
’’کیا شادی ہے؟ کس تاریخ کو؟‘‘ نوَشّیہ نے پوچھا۔ انہوں نے آپس میں بات کی، ایک دوسرے کے فون نمبر لیے، پھر تینوں وہاں سے چلے گئے۔ اس کے بعد نوَشّیہ کسانوں کے اس گروپ کے پاس گئے، جو ۲۵ جنوری کو آزاد میدان کے احتجاجی مظاہرہ میں ان کے ساتھ موجود تھے، اور مسکراتے ہوئے ان سے کہا: ’’مجھے ابھی ایک سُپاری [کام] ملی ہے۔‘‘
ڈہانو تعلقہ کے اپنے گاؤں، کِنہوَلی میں نوَشّیہ اور ان کی بیوی، بجلی تقریباً پانچ ایکڑ جنگلاتی زمین پر جوار، چاول اور ارہر اُگاتے ہیں۔ جب وہ کھیت پر نہیں ہوتے، تو ۵۵ سالہ کسان اپنا فن پیش کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ مہینہ میں ۱۰-۱۵ شادیوں میں مفت میں ڈھول بجاتے ہیں، اور منتظمین ان کے سفر، قیام و طعام کا خرچ اٹھاتے ہیں۔ ’’زیادہ تر ناسک میں [فن کا مظاہرہ کرتا ہوں]، اور باہر بھی۔ میں تھانے اور گجرات بھی گیا ہوں،‘‘ نوَشّیہ نے کہا۔
وہ ۴۰ سال سے دھُمسی بجا رہے ہیں۔ ’’میں نے اپنے گاؤں میں دیگر موسیقاروں کو دیکھا اور سنا، اور اس طرح بجانا سیکھ لیا،‘‘ انہوں نے کہا۔
’’اگر کوئی شادی ہے، کوئی تہوار ہے، تو ہم یہ رقص کرتے ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’ہم لگاتار کئی دنوں تک رقص کر سکتے ہیں، ہمیں تھکان نہیں ہوتی ہے۔‘‘ اس بار کے جشن کا سبب مرکز کے نئے زرعی قوانین کے خلاف پورے مہاراشٹر سے تقریباً ۱۵ ہزار احتجاجیوں کا جمگھٹ تھا۔ سنیُکت شیتکری کامگار مورچہ کے ذریعہ منعقد اس احتجاجی مظاہرہ میں، ۲۱ ضلعوں کے کسان گاڑیوں کے جتھے میں آئے تھے، جس کے لیے وہ ۲۳ جنوری کی شام کو ناسک سے روانہ ہوئے اور تقریباً ۱۸۰ کلومیٹر کی دوری دو دنوں میں طے کرکے ممبئی پہنچے تھے۔
۲۵ جنوری کو دن کے آخر تک، نوَشّیہ دو دنوں سے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ ۲۳ جنوری کو پالگھر ضلع میں واقع اپنے گھر سے چلے تھے، لیکن ابھی تک تھکے نہیں تھے: ’’مجھے اس کی عادت ہے۔ میں شادیوں میں بھی رات بھر بجاتا ہوں،‘‘ انہوں نے کہا۔
’’میری برادری میں ہر کوئی اس رقص کو جانتا ہے،‘‘ وارلی آدیواسی برادری، ایک درج فہرست قبیلہ، کے نوَشّیہ نے کہا۔ ان کے بغل میں بیٹھی تھیں، ڈہانو تعلقہ کے دھمن گاؤں کی ۵۳ سالہ وارلی آدیواسی کسان، تائی ککڑے تھاپڑ۔ ’’تہواروں کی شروعات دسہرہ کے آس پاس ہوتی ہے۔ اسی وقت بوائی بھی کی جاتی ہے،‘‘ تھاپڑ نے کہا۔ ’’دسہرہ سے لیکر [نومبر میں] دیوالی تک، ہم اس رقص کے ساتھ مناتے ہیں۔ اسی طرح میں نے بھی سیکھا تھا۔‘‘
آزاد میدان میں رقص کرنے والے احتجاجی مظاہرین ڈہانو اور آس پاس کے تعلقہ کی مختلف آدیواسی برادریوں سے تھے۔ وہ جن قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ہیں۔ انہیں سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔
کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ نئے قوانین کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔
’’سرکار کے تین قوانین اُن لوگوں کے خلاف ہیں جو کھیتوں پر کام کرتے ہیں،‘‘ نارائن گورکھانا نے کہا، جو صبح سے ہی رک رک کر تارپا – مستحکم اور کم آواز والا ساز – بجا رہے تھے۔ ’’اسی لیے ہم یہاں ہیں۔‘‘ گورکھانا جن کا تعلق کولی ملہار برادری، ایک درج فہرست قبیلہ، سے ہے، پالگھر کے اوسرویرا گاؤں میں ایک ایکڑ سے زیادہ جنگلاتی زمین پر چاول، نچنی ، جوار اور دیگر فصلیں اُگاتے ہیں۔
ڈہانو کے ایک اور تارپا بجانے والے، ۶۰ سالہ نوجی ہاڈل بھی آزاد میدان میں تھے۔ وہ گزشتہ ۴۰ برسوں سے تارپا بجا رہے ہیں۔ ’’میں پانچ ایکڑ میں کھیتی کرتا ہوں۔ لیکن مجھے صرف ایک ایکڑ زمین کا مالکانہ حق ملا،‘‘ وہ اُس زمین کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، جس کا مالکانہ حق حاصل کرنے کے لیے وہ حق جنگلات قانون، ۲۰۰۶ کے تحت حقدار ہیں۔ اس قانون کے تحت اپنے حقوق کی مانگ مہاراشٹر کے آدیواسی کسان اپنے احتجاجی مظاہروں میں لگاتار کرتے رہے ہیں۔ ’’ان تین بلوں کے سبب، اور بھی کئی کمپنیاں زراعت میں داخل ہوں گی۔ اور وہ ہمارے لیے قیمتیں طے کریں گی۔ ہم ایسا نہیں چاہتے ہیں۔‘‘
کور فوٹو: اورنا راؤت
مترجم: محمد قمر تبریز