چلئے، بالکل شروع سے بات کرتے ہیں…

پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری)، سال ۲۰۱۴ سے ہی ہندوستانی تنوع کی کہانی بیان کرتا آ رہا ہے۔ یہ کہانی ہندوستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والے اُن ۸۳۳ ملین (یعنی ۸۳ کروڑ ۳۰ لاکھ) لوگوں کے ذریعے بیان ہوتی ہے، جو ۷۰۰ سے زیادہ زبانوں میں بات کرتے ہیں اور ۸۶ الگ الگ رسم الخط کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ تمام زبانیں ہندوستان کے ثقافتی تنوع کی مثال ہیں۔ ان میں کئی ایسی زبانیں بھی شامل ہیں جن کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں ہے۔ ان زبانوں کے بغیر عوام پر مرکوز کسی علمی ذخیرہ (آرکائیو) کا تصور کرنا تو دور، اسے حقیقی جامہ پہنانا بھی مشکل ہے۔ ہندوستان کی ان زبانوں میں ترجمے کا کام پاری کی ہر ایک اسٹوری میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے۔

’’صحافت کی دنیا میں یہ آرکائیو اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے؛ اس میں ترجمے کو سماجی انصاف کے چشمے سے دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے،‘‘ اسمتا کھٹور کہتی ہیں۔ ’’یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ علم کا دائرہ صرف انگریزی تعلیم یافتہ، یا انگریزی بولنے والے طبقوں تک ہی محدود نہیں ہے، خاص کر ایسے میں جب دیہی ہندوستان میں رہنے والی اکثریتی آبادی انگریزی سے ابھی ہزاروں سال دور ہے۔‘‘

زبان کے ایڈیٹروں اور ترجمہ نگاروں پر مشتمل ہماری یہ ٹیم الفاظ کے ثقافتی سیاق و سباق، جملوں اور محاوروں کی درستگی وغیرہ کے بارے میں ہمیشہ آپس میں بات کرتی رہتی ہے۔ ایسی ہی ایک گفتگو ملاحظہ کریں…

اسمتا: پرشوتم ٹھاکر کی وہ اسٹوری یاد ہے، جس میں وہ بتاتے ہیں کہ تلنگانہ کے اینٹ بھٹوں پر کام کرنے والے کرومپوری پنچایت کے مزدور انہیں دیکھ کر کتنے خوش ہو گئے تھے؟ ان میں سے ایک بزرگ نے ان سے کہا تھا، ’بہت دنوں کے بعد کسی اڑیہ بولنے والے شخص سے ملاقات ہو رہی ہے۔ آپ کو دیکھ کر کافی خوشی ہوئی!‘

اور جیوتی شنولی کے ذریعے مہاراشٹر کی وہ اسٹوری ، جو مہاجر مزدوروں کے ایک لڑکے رگھو کے بارے میں ہے، جس کا سب سے بڑا چیلنج خود کو اس نئے اسکول کے مطابق ڈھالنا تھا جہاں پڑھانے والے ٹیچر اور اس کے دوست ایک ایسی زبان بولتے ہیں جو اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اس اسٹوری میں لڑکے کی ماں گایتری کہتی ہیں، ’’تین ہفتے تک چنئی کے اسکول میں جانے کے بعد، ایک دن وہ روتے ہوئے گھر لوٹا۔ اس نے کہا کہ اب وہ اسکول نہیں جائے گا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہاں کے لوگ جو بھی بولتے ہیں اسے وہ سمجھ نہیں پاتا ہے۔ اور اسے لگتا ہے کہ ہر کوئی اس سے غصے میں بات کر رہا ہے۔‘‘

دیہی ہندوستان کے باشندوں کے لیے لسانی شناخت کافی اہمیت رکھتی ہے، خاص کر تب جب انہیں معاش کی تلاش میں دور دراز علاقوں میں مہاجرت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

PHOTO • Labani Jangi

شنکر: لیکن اسمتا، بعض دفعہ الفاظ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے ہیں۔ جب میں سینتلیر کی اسٹوری پر کام کر رہا تھا جو ہاتھ سے زیرگی کرنے والوں کے بارے میں ہے، تو میں نے محسوس کیا کہ کھیت میں کام کرنے والی عورتیں ہاتھ سے زیرگی کرنے کے لیے انگریزی لفظ ’کراس‘ یا ’کراسنگ‘ کا استعمال کر رہی ہیں۔ انگریزی کا یہ لفظ اب ان کی بول چال کا حصہ بن چکا ہے۔ دیہی علاقوں میں آپ کو ایسے بہت سے الفاظ سننے کو مل جائیں گے۔

یہ بات پرجوش کرنے والی تو ہے، لیکن ساتھ ہی یہ ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے، جب میں اپنی ریاست کرناٹک کی انگریزی میں درج کی گئی اسٹوری پڑھتا ہوں، تو اسٹوری میں شامل کرداروں کی باتیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ وہاں کے ہیں ہی نہیں۔ وہ کسی کتاب کے خیالی کرداروں کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی میں رنگ و آہنگ کی کمی نظر آتی ہے۔ لہٰذا، جب میں ترجمہ کرنا شروع کرتا ہوں، تو اکثر یہی کوشش کرتا ہوں کہ ان لوگوں کی باتیں سنوں، جس طرح وہ بات کرتے ہیں اسے جانوں، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ میرا ترجمہ ان کی زندگی کی حقیقت کو بیان کرے، ’فنکارانہ‘ رپورٹنگ کا نمونہ بن کر نہ رہ جائے۔

پرتشٹھا: یہ ہمیشہ کوئی آسان یا سیدھا کام نہیں ہوتا ہے۔ مجھے اکثر اپنی مادری زبان میں لکھنے والے نامہ نگاروں کی کاپی کے ساتھ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ گجراتی یا ہندی میں لکھی گئی اسٹوری پڑھنے میں واقعی اچھی لگتی ہے۔ لیکن جب میں اسے ایمانداری سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں، تو الفاظ کا مجموعہ، جملے کی ساخت، لب و لہجہ بالکل مختلف محسوس ہونے لگتے ہیں۔ اور تب میں سوچتی ہوں کہ ایسے میں مجھے کس کے تئیں وفادار ہونا چاہیے۔ کیا مجھے اسٹوری کی روح کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے، اور ترجمے میں حاشیہ پر پڑی برادریوں کے تجربے کو نمایاں کرنا چاہیے، یا پھر مجھے اصلی اسکرپٹ، اس میں استعمال کیے گئے الفاظ، جملے کی ساخت وغیرہ کے تئیں وفاداری دکھانی چاہیے؟ کیا مجھے ہندوستان زبان میں لکھی گئی اسٹوری کو ایڈٹ کرنا چاہیے، یا پھر اسے انگریزی میں ایڈٹ کرنا چاہیے؟ آخر میں، یہ ایک لمبا پروسیس بن جاتا ہے، جہاں دونوں طرف سے خیالات کا تبادلہ اور بعض دفعہ بحث و مباحثہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔

ترجمہ اس لیے ممکن ہے کیوں کہ زبانوں کے درمیان رابطہ اور ترسیل کے کئی طریقے ہیں۔ لیکن تصویروں، آوازوں، بول چال، کسی زبان میں علم کا ذخیرہ اور اس کی ثقافتی کائنات، اس کے انوکھے کردار کے درمیان جو قریبی رشتے ہوتے ہیں – ان سب سے میری واقفیت پاری کے ساتھ کام کرنے کے بعد ہی ہو پائی۔ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے جب ہم نے ایک ہی اسٹوری دو زبانوں میں شائع کی – الگ الگ اسٹوریز کے طور پر نہیں، لیکن وہ اتنی مختلف تھی کہ اسے ترجمہ کہنا میرے لیے کافی مشکل تھا۔

جوشوا: پرتشٹھا دی ، کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ترجمے کا مطلب دوبارہ تخلیق ہے؟ یعنی پہلے سے کہی گئی بات کو ایک نئے انداز میں کہنے کا طریقہ ہے؟ بنگالی میں جب میں گرائنڈ مل سانگس (چکّی کے گانوں) پر کام کرتا ہوں، تو مجھے درحقیقت اس کی دوبارہ تخلیق کرنی پڑتی ہے۔ اپنی مادری زبان میں اووی کی دوبارہ تخلیق کرتے وقت مجھے عروض اور اصطلاح کے بارے میں بار بار سیکھنا اور پھر اسے بھلانا پڑتا ہے۔ مجھے لگتا تھا کہ شاعر ہونا مشکل ہے، لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ شاعری کا ترجمہ کرنا تو اور بھی مشکل کام ہے!

مراٹھی کے زبانی ادب کا ترجمہ کرتے وقت آپ اس کے پیرایہ اظہار، خیال، تصور، بول چال، آہنگ، بحر، اور استعاروں کو کیسے برقرار رکھیں گے؟ اس کے لیے مجھے دیہی گلوکاروں اور گیت لکھنے والوں سے حوصلہ ملتا ہے۔ میں نے بھی اپنی شاعری میں کسی خاتون کی طرح سوچنے کی کوشش شروع کی ہے، جو کسی اناج کی طرح ذات پات، پدرانہ نظام، اور طبقاتی کشمکش کی چکّی میں پستی رہتی ہیں۔ ایسا کرتے وقت میں ہر بار بنگال میں رائج ٹوشو، بھادو، کولو جھاڑا گان، اور بروتو کوتھا جیسی بول چال کی منظوم نسائی روایات کو دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

اس دوران، مایوسی اور حیرت دونوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

PHOTO • Labani Jangi

میدھا: میں آپ کو بتاتی ہوں کہ اس سے بھی بڑا چیلنج کیا ہوتا ہے؟ مزاحیہ متن کا ترجمہ کرنا۔ خاص کر سائی ناتھ کے مضامین! جب میں ’ ہاتھی کا مالک اور جانور کا پیٹ ‘ پڑھ رہی تھی، تو میں مسکرا بھی رہی تھی اور اپنا سر بھی کھجلا رہی تھی۔ ان کے ذریعے لکھی گئی ہر ایک لائن، ہر لفظ کمال کی تصویر پیش کر رہے تھے، جہاں تین لوگ پاربتی نام کے ایک گھریلو ہاتھی کے اوپر بیٹھے تھے، اور اس کے مہاوت پربھو سے باتیں کر رہے تھے۔ تمام کوششوں کے بعد بھی وہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ اس ہاتھی کا پیٹ آخر کیسے بھر پاتا ہے، اسے کھانا کہاں سے ملتا ہے۔

مجھے اس کا ترجمہ مراٹھی میں کرنا تھا، وہ بھی اس کی تفصیلات سے کوئی سمجھوتہ کیے بغیر اور ہاتھی کی سواری کے لطف اور رفتار کو برقرار رکھتے ہوئے۔

چیلنج کی شروعات اس کے عنوان سے ہی ہونے لگی، جیسا کہ پاری کی اسٹوریز کا ترجمہ کرتے وقت اکثر ہوتا ہے۔ آخر میں، اس بڑے جانور کو لگاتار چارہ کھلانے کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے میری توجہ ’بکاسُر‘ نام کے ایک مشہور کردار کی طرف گئی جسے پورا گاؤں ہر دن کھانا کھلاتا تھا۔ لہٰذا، میں نے مراٹھی میں اس عنوان کا ترجمہ یوں کیا: हत्ती दादा आणि बकासुराचं पोट ۔

مجھے لگتا ہے کہ ’بیلی آف دی بیسٹ‘ یا ’ پینڈورا باکس‘ ، یا ’تھیٹر آف دی آپٹکس‘ جیسے الفاظ کا ترجمہ کرتے وقت ہمیں اپنی زبان کے قارئین کے ذریعے استعمال کی جانے والی اصطلاحات، تصورات، کرداروں وغیرہ کو تلاش کرنا ضروری ہے۔

پرتشٹھا: میں بھی دوسری ثقافتوں سے آنے والی نظموں کا ترجمہ کرتے وقت یہی طریقہ اختیار کرتی ہوں۔ لیکن میں اس بات کو بھی بخوبی سمجھتی ہوں کہ پاری کی اسٹوری میں ہمیں ایسا کیوں کرنا پڑتا ہے۔ میرے خیال سے ترجمے کا معنی اس قاری کے حساب سے طے ہونا چاہیے جس کے لیے ہم اس اسٹوری کا ترجمہ کر رہے ہیں۔

PHOTO • Labani Jangi

’سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاری کے ترجمے صرف لسانی عمل یا ہر ایک چیز کو انگریزی میں پیش کرنے تک ہی محدود نہیں ہیں۔ بلکہ یہ ہماری جانی پہچانی دنیا میں پوشیدہ سیاق و سباق تک پہنچنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے‘ – پی سائی ناتھ

کمل جیت: میں آپ کو بتاتی ہوں کہ پنجابی میں کیا ہوتا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت مجھے کئی بار اپنی زبان کے طے شدہ ضابطوں سے انحراف کرتے ہوئے خود اپنے ضابطے بنانے پڑتے ہیں! اس کے لیے لوگ اکثر میری تنقید کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر، انگریزی کی تمام اسٹوریز میں سبھی افراد کے لیے ایک جیسے اسم ضمیر (پروناؤن) کا استعمال ہوتا ہے اور کسی سماجی امتیاز کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ لیکن ہندوستان کی زیادہ تر زبانوں کی طرح پنجابی میں بھی ’اسم ضمیر‘ اُس فرد کے رتبہ، عمر، طبقہ، سماجی حیثیت، صنف، اور ذات کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا، پاری کی اسٹوری کا انگریزی سے پنجابی میں ترجمہ کرتے وقت اگر میں اپنی زبان کے سماجی و لسانی ضابطوں پر عمل کروں، تو یہ ہمارے نظریاتی عقائد سے متصادم ہو جائے گا۔

اسی لیے، ہم نے شروع میں ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ خواہ کوئی گرو (استاد) ہو، سیاست داں، سائنس داں، صفائی ملازم ہو، مرد ہو، یا ٹرانس خاتون – ترجمہ کرتے وقت تمام انسانوں کے ساتھ ہم عزت سے پیش آئیں گے۔

لہٰذا، ہم نے جب ترن تارن میں زمینداروں کے گھروں سے گوبر اٹھانے والی ایک دلت خاتون منجیت کور کی اسٹوری پنجابی میں شائع کی، تو قارئین مجھ سے یہ شکایت کرنے لگے کہ ’’آپ اپنی زبان میں منجیت کور کو اتنی عزت کیوں دے رہی ہیں۔ منجیت کور اِک مذہبی سکھ ہن۔ اوہ زمینداراں دے گھراں دا گوہا چُکدی ہن؟ ‘‘ کئی قارئین کو لگا کہ میرا ترجمہ مشین سے کیا گیا ہے کیوں کہ میں نے ضابطوں کا خیال نہیں رکھا اور ’ہے‘ کی بجائے ’ہن‘ کا استعمال کیا تھا۔

دیویش: ارے، ہندی کا بھی یہی حال ہے۔ جب بھی حاشیہ پر پڑے لوگوں کی بات آتی ہے، تو ہندی میں بھی ان کے تئیں عزت آمیز الفاظ کی شدید کمی نظر آنے لگتی ہے۔ ایسے الفاظ ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے جو ان کے حقائق کا مذاق نہ اڑاتے ہوں۔ لیکن ترجمے کے عمل میں اس مسئلہ کا حل نکل پاتا ہے، اور دوسری زبانوں سے سیکھ کر ہم نئے الفاظ گڑھ پاتے ہیں۔

ہندی میں ترجمہ کرتے وقت مجھے کچھ موقعوں پر بڑے مسائل پیش آتے ہیں، جب مسئلہ فطرت یا سائنس سے جڑا ہو یا پھر صنف یا جنسیت سے جڑا ہو یا پھر جب بات کسی معذور شخص کی ہو۔ ہندی کے لغت میں ایسے موقعوں پر صحیح لفظ تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے۔ ایک طرف ہم نے ایسا ہوتے بھی دیکھا ہے کہ قصیدہ خوانی کے ذریعے بنیادی سوالوں کو غائب کر دیا جاتا ہے، جیسے عورتوں کو ’دیوی‘ بتا دیا جانا یا پھر جسمانی طور سے معذور لوگوں کو ’دِویانگ‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم زمینی حقیقت پر نظر ڈالیں، تو ان کی حالت سماج میں پہلے سے بھی بدتر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

جب ہم کویتا ایئر کی لکھی اسٹوری کا ترجمہ کرتے ہیں، ‘मैं नलबंदी कराने के लिए घर से अकेली ही निकल गई थी’ تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہندی میں ادب کا اتنا وسیع ذخیرہ ہونے کے باوجود لوگوں کی تکلیفوں سے متعلق غیر ادبی انداز بیان شاید ہی کہیں نظر آتا ہے۔ علم، سائنس، طب اور صحت، اور معاشرے کے مسائل کو بیان کرنے والے الفاظ اتنے نہیں تیار کیے گئے ہیں جتنے ہونے چاہئیں۔

PHOTO • Labani Jangi

سُوَرن کانتا: بھوجپوری کے ساتھ بھی یہی دقت ہے۔ یا اس سے بھی بدتر حالت ہے، کیوں کہ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد اس میں لکھنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تعلیم کا باقاعدہ ذریعہ (میڈیم) نہ ہونے کی وجہ سے، بھوجپوری میں طب، انجینئرنگ، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا وغیرہ جیسے نئے پیشوں سے متعلق اصطلاحات نہیں ملتی ہیں۔

دیویش، جیسا کہ آپ نے کہا کہ اس کے لیے نئی اصطلاحات بنائی جا سکتی ہیں، لیکن یہ الجھن پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ’ٹرانس جینڈر‘ کے لیے ہم لوگ روایتی طور پر ہجڑا، چھکہ، لونڈا جیسے الفاظ استعمال کرتے آ رہے ہیں، جو کہ انگریزی کے مقابلے بیحد نا پسندیدہ الفاظ ہیں۔ اسی طرح، ہم چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں، ویمنز ڈے (یوم خواتین)، مینٹل ہیلتھ (دماغی صحت) جیسے ناموں کا ترجمہ، قوانین اور قواعد و ضوابط (حفظان صحت کا قانون) جیسے نام، اسپورٹس ٹورنامنٹس (مردوں کا انٹرنیشنل ورلڈ کپ) جیسے ناموں وغیرہ کا بھوجپوری میں ترجمہ کرنا ایک طرح سے ناممکن ہے۔

مجھے بہار کے سمستی پور ضلع کی رہنے والی ۱۹ سال کی ایک مہادلت لڑکی، شیوانی کی اسٹوری کا ترجمہ کرنا یاد ہے، جس میں وہ ذات اور صنفی امتیاز کے خلاف خود اپنے اہل خانہ اور باہر کی دنیا سے لڑتی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ بھلے ہی مجھے سماج میں اس قسم کے امتیازی رویے کی جانکاری پہلے سے ہو، لیکن حقیقی زندگی میں اس قسم کی اسٹوریز پڑھنے کے لیے دستیاب نہیں ہیں۔

میرے خیال سے ترجمہ سماج کو بیدار کرنے اور اسے آگے بڑھانے کا ہتھیار بن سکتا ہے۔

نرمل: اس سے اُس زبان کی بھی ترقی ہوتی ہے جہاں معیار بندی کا کام ابھی ٹھیک طریقے سے نہیں ہوا ہے۔ چھتیس گڑھ کے پانچ حصوں – شمال، جنوب، مشرق، مغرب اور وسط میں چھتیس گڑھی زبان کی دو درجن سے زیادہ الگ الگ شکلیں موجود ہیں۔ لہٰذا، چھتیس گڑھی میں ترجمہ کرتے وقت، کسی معیاری شکل کا موجود نہ ہونا ایک بڑا چیلنج ہے۔ کسی خاص لفظ کا انتخاب کرتے وقت مجھے اکثر کافی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے میں اپنے صحافی دوستوں، ایڈیٹروں، قلم کاروں، اساتذہ، اور کتابوں سے مدد حاصل کرتا ہوں۔

سائی ناتھ کی اسٹوری، تحفہ دینے والے ٹھیکہ داروں سے ہوشیار! پر کام کرتے وقت میرا سامنا چھتیس گڑھی کے ایسے کئی الفاظ سے ہوا جو عام استعمال میں نہیں ہیں۔ چھتیس گڑھ کا سرگوجا علاقہ جھارکھنڈ کی سرحد سے متصل ہے، جہاں اوراؤں آدیواسیوں کی اکثریت رہتی ہے۔ ان کے ذریعے بولی جانے والی چھتیس گڑھی میں جنگلات سے متعلق الفاظ کا استعمال عام ہے۔ چونکہ یہ اسٹوری اسی برادری کی ایک خاتون پر مرکوز ہے، لہٰذا میں نے ترجمے کو آدیواسیوں سے جوڑنے کی کوشش کی، اُن الفاظ کا سہارا لیا جسے یہ لوگ اپنے علاقے میں روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ، کمیونٹی کے لوگ ’کروکھ‘ بولتے ہیں۔

یہ جان کر کافی حیرانی ہوئی کہ کیسے سُکُڑ دُم ، کوّا ، ہانکا ، ہانکے ، لاندا ، پھاندا ، کھیدا ، الکرہا جیسے الفاظ جو کبھی روزمرہ زندگی کا حصہ ہوا کرتے تھے، اب استعمال میں نہیں رہے کیوں کہ اس کمیونٹی کو اب اپنے پانی، جنگلات اور زمین تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

PHOTO • Labani Jangi

’زبانوں کے مستقبل سے ہماری ماحولیات، معاش اور جمہوریت کا رشتہ کافی گہرا ہے۔ ان کے وسیع تنوع کو دیکھ کر ان کی قدر و قیمت کا احساس پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پھر بھی، ان کی حالت آج سے پہلے اتنی نازک کبھی نہیں تھی‘ – پی سائی ناتھ

پنکج: مجھے لگتا ہے کہ ترجمہ نگار کے لیے ان لوگوں کی دنیا سے واقف ہونا بہت ضروری ہے جن کے بارے میں وہ ترجمہ کر رہا ہے۔ آروش کی اسٹوری پر کام کرتے وقت مجھے نہ صرف ایک ٹرانس جینڈر مرد اور عورت کے درمیان بے پناہ محبت کا علم ہوا، بلکہ یہ بھی پتہ چلا کہ انہیں کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کی صحیح اصطلاحات استعمال کرنے کے لیے مجھے کافی احتیاط برتنا پڑا۔ مثال کے طور پر، میں نے ’ری اسائنمنٹ سرجری‘ کو قوسین (بریکیٹ) میں رکھ کر ’جینڈر افرمیشن سرجری‘ (جنس کی تصدیق سے متعلق سرجری) کو نمایاں کیا۔

میں نے ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ایسے الفاظ تلاش کیے جو ہتک اور توہین آمیز نہ ہوں، جیسے کہ روپانتور کامی پروش یا روپانتور کامی ناری ، یا اگر جنس کی تصدیق ہو گئی ہے، تو ہم لوگ اسے روپانتوریٹو پروش یا روپانتوریٹو ناری کہتے ہیں۔ یہ خوبصورت لفظ ہے۔ اسی طرح ہم جنس پرست عورت (لیسبین) یا ہم جنس پرست مرد (گے) کے لیے آسامی زبان میں سومو کامی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ’کوئیر‘ یا دوہری صنف کے افراد کے لیے آج تک ہمارے پاس کوئی معیاری اصطلاح نہیں ہے، اس لیے ہم اسے ٹرانس لٹریٹ کر دیتے ہیں۔

راجہ سنگیتن: پنکج، میں ایک اور اسٹوری کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے دوران سیکس ورکرز کی حالت سے متعلق ہے۔ اسے پڑھ کر میں کافی متاثر ہوا۔ جب دنیا اس نئی بیماری سے لڑنے کی کوشش کر رہی تھی، اور غریبوں کے ساتھ لوگ انتہائی تکبر سے پیش آ رہے تھے اور ان کے ساتھ امتیاز برتا جا رہا تھا، تب عام ہندوستانیوں کی مصیبتیں مزید بڑھ گئی تھیں۔ ایسے وقت میں جب کہ مالی طور پر خوشحال لوگوں کی زندگی بھی مشکل ہو گئی تھی، تو معاشرہ کے حاشیہ پر پڑے لوگوں کی خبر لینے والا کون تھا؟ کماٹھی پورہ پر آکانکشا کی اسٹوری نے ہمیں ایسے لوگوں کی تکلیفوں سے روبرو کرایا، جن کے بارے میں ہم نے پہلے کبھی سوچا نہیں تھا۔

یہ عورتیں جس چھوٹے سے تنگ کمرے میں رہتی تھیں اور جہاں ان کے گاہک آتے تھے، اب اسی کمرے میں انہیں اپنے اُن چھوٹے بچوں کو بھی رکھنا پڑا جو ملک گیر لاک ڈاؤن کے بعد اسکول بند ہونے کی وجہ سے گھر واپس آ گئے تھے۔ فیملی کی اس حالت کو دیکھ کر بچوں پر کیا اثر پڑا ہوگا؟ سیکس ورکر اور ایک ماں ہونے کے ناطے، پریہ کو خود اپنے جذبات سے لڑنا پڑا اور زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔ دوسری طرف، ان کا بیٹا وکرم آس پاس کے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی زندگی میں کچھ معنی تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس اسٹوری میں فیملی، محبت، امید، خوشی اور پرورش کے بارے میں جو خیالات پیش کیے گئے وہ کافی افسوسناک شکل اختیار کر لیتے ہیں، لیکن ان کے سماجی معنی تبدیل نہیں ہوتے۔ اس قسم کی اسٹوریز کا ترجمہ کرنے کے بعد ہی مجھے پتہ چلا کہ ناامیدی کے ماحول میں امید کی تلاش ہی تمام انسانوں کی اندرونی فطرت ہے۔

سُدھامئی: میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں۔ میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ ان پر لکھی گئی اسٹوریز کا ترجمہ کرنے کے بعد ہی مجھے ان کے بارے میں پتہ چلا۔ سچ کہوں، تو مجھے ان لوگوں اور اس موضوع سے ڈر لگتا تھا۔ جب میں سڑکوں پر، یا ٹریفک سگنلوں پر ٹرانس کمیونٹی کے لوگوں کو دیکھتی تھی، یا جب وہ ہمارے گھروں میں آتے تھے، تو مجھے ان کی طرف دیکھنے میں بھی ڈر لگتا تھا۔ میں بھی یہی سوچتی تھی کہ وہ غیر فطری طریقے سے برتاؤ کرتے ہیں۔

لہٰذا، اس کمیونٹی کے بارے میں لکھی گئی اسٹوریز کا ترجمہ کرتے وقت مجھے ان لوگوں کا سہارا لینا پڑتا تھا جو اس موضوع سے واقف تھے، تاکہ میں اصطلاحات کے ساتھ انصاف کر سکوں۔ اور اُن اسٹوریز کو پڑھنے، سمجھنے اور پھر بعد میں انہیں ایڈٹ کرنے کے دوران مجھے مزید معلومات حاصل ہوئیں اور تب جا کر میں ٹرانس فوبیا سے باہر نکل پائی۔ اب، میں جب بھی اور جہاں بھی انہیں دیکھتی ہوں، تو ان کے ساتھ بڑے پیار سے بات چیت کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

میں یہی کہوں گی کہ ترجمہ نگاری خود آپ کے اندر کی بدگمانی کو دور کرتا ہے، اور آگے بڑھنے کا راستہ بتاتا ہے۔

PHOTO • Labani Jangi

پرنتی: مجھے اس قسم کا احساس کئی ثقافتی اسٹوریز کا ترجمہ کرتے وقت ہوا۔ جب آپ مختلف قسم کے ثقافتی ذرائع سے آنے والی اسٹوریز کا غور سے مطالعہ کرتے ہیں اور احتیاط کے ساتھ ان کا ترجمہ کرتے ہیں، تو آپ کو کئی قسم کے ثقافتی طور طریقوں کا پتہ چلتا ہے۔ آپ کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ اُس زبان کے متن میں پیش کیے گئے ثقافتی تناظر کو اچھی طرح سمجھیں، پھر اس کا ترجمہ کریں۔

ہندوستان جیسی سابقہ برطانوی نوآبادیات میں، انگریزی ایک رابطہ کی زبان بن گئی تھی۔ ہم بعض دفعہ لوگوں کی اصلی زبان کو نہیں جانتے ہیں اور اپنے کام کے لیے ہمیں انگریزی پر منحصر ہونا پڑتا ہے۔ لیکن ایک باشعور ترجمہ نگار، جو پوری محنت اور تحمل کے ساتھ الگ الگ ثقافتی طور طریقوں، تواریخ، اور زبانوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرے، وہ اپنا کام اچھی طرح کر سکتا ہے۔

راجیو: میں چاہے جتنا بھی متحمل مزاج ہو جاؤں، مجھے اپنی زبان میں ہم معنی الفاظ تلاش کرنے میں کافی پریشانی ہوتی ہے، خاص کر جب میں کسی مخصوص پیشہ کے بارے میں لکھی گئی اسٹوری کا ترجمہ کر رہا ہوتا ہوں۔ ان کی تفصیلات بیان کرنا اور اوزار کے صحیح نام ڈھونڈ کر لانا میرے لیے ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ کشمیر کے بنُکروں پر مبنی افق فاطمہ کی اسٹوری پر کام کرتے وقت، مجھے ’چار خانہ‘ اور ’چشمِ بلبل‘ جیسے بُنائی کے پیٹرن کا ترجمہ کرنے میں کافی دقت پیش آئی۔ ان الفاظ کے لیے ملیالم میں کوئی ہم معنی اصطلاح نہیں ہے، اس لیے مجھے بیانیہ جملوں کا استعمال کرنا پڑا۔ ’پٹّو‘ جیسا لفظ بھی کافی دلچسپ تھا۔ کشمیر میں یہ بُنا ہوا اونی کپڑا تھا، جب کہ ملیالم میں ’پٹّو‘ ریشم کے کپڑے کو کہتے ہیں۔

قمر تبریز: اردو میں بھی ذخیرہ الفاظ کی کمی ہے، خاص کر جب آپ پاری پر ماحولیاتی تبدیلی اور خواتین کے تولیدی حقوق سے متعلق اسٹوریز کا ترجمہ کر رہے ہوں۔ ہندی کا معاملہ تھوڑا الگ ہے۔ اس زبان کو مرکزی حکومت کا تعاون حاصل ہے؛ اسے ریاستی حکومت سے بھی مدد ملتی ہے۔ اس کے لیے خود مختار ادارے موجود ہیں۔ اس لیے ہندی زبان میں نئی اصطلاحیں فوراً سامنے آ جاتی ہیں، لیکن اردو میں ایسا نہیں ہے۔ اردو میں ترجمہ کرتے وقت ہمیں اکثر انگریزی اصطلاحوں کو ہی استعمال کرنا پڑتا ہے۔

کسی زمانے میں اردو کو کافی اہمیت دی جاتی تھی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دہلی کالج اور حیدر آباد کی عثمانیہ یونیورسٹی میں بڑے پیمانے پر ترجمے کا کام ہوتا تھا، اور یہ ادارے اُس زمانے میں کافی مشہور تھے۔ کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج کا بھی بنیادی مقصد یہی تھا کہ انگریز افسران کو ہندوستانی زبانیں سکھائی جائیں، اور ترجمے کے کام کو آگے بڑھایا جائے۔ اب یہ تمام ادارے تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے اردو اور ہندی کی لڑائی بھی دیکھی ہے، جو ۱۹۴۷ کے بعد بھی جاری رہی اور اردو کو پوری طرح نظر انداز کر دیا گیا۔

PHOTO • Labani Jangi

کمل جیت: کیا آپ کو لگتا ہے کہ ملک کے بٹوارے کی وجہ سے زبان بھی تقسیم ہو گئی؟ مجھے نہیں لگتا کہ زبان آپس میں پھوٹ ڈال سکتی ہے۔ ہاں، لوگوں کی بات الگ ہے۔

قمر تبریز: اردو کسی زمانے میں پورے ملک کی شان ہوا کرتی تھی۔ یہ جنوبی ہندوستان میں بھی بولی جاتی تھی۔ وہاں کے لوگ اسے دکنی کہتے تھے۔ بہت سے شعراء اس زبان میں لکھ رہے تھے اور ان کی تخلیقات اردو کے کلاسیکی نصاب کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ لیکن، مسلمانوں کی حکومت ختم ہوتے ہی سب کچھ بدلنے لگا۔ اور آج کے ہندوستان میں اردو صرف اتر پردیش، بہار سمیت ہندی بیلٹ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

پہلے اسکولوں میں اردو پڑھائی جاتی تھی۔ اور اس بات کا ہندو یا مسلم ہونے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ میں ایسے کئی سینئر (ہندو مذہب کے) کو جانتا ہوں جو میڈیا میں کام کرتے ہیں اور مجھے بتاتے ہیں کہ وہ اردو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسے انہوں نے بچپن میں اپنے اسکولوں میں سیکھا تھا۔ لیکن اب کہیں بھی اردو نہیں پڑھائی جاتی ہے۔ اگر آپ بچوں کو پڑھائیں گے ہی نہیں، تو یہ زبان زندہ کیسے رہے گی؟

پہلے تو اردو جاننے والوں کو نوکری مل جایا کرتی تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ کچھ سال پہلے تک اردو کے بہت سے اخبارات نکلتے تھے، اور ایسے لوگ بھی تھے جو اردو میڈیا کے لیے لکھتے تھے۔ لیکن ۲۰۱۴ کے بعد بہت سے اخبار بھی بند ہو گئے ہیں، کیوں کہ انہیں فنڈ ملنے بند ہو گئے۔ اردو بولنے والے لوگ تو کافی مل جاتے ہیں، لیکن اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

دیویش: زبان اور سیاست کی یہ بالکل سچی اور المناک کہانی ہے، قمر بھائی۔ یہ بتائیے کہ پاری کے لیے آپ جن اسٹوریز کا اردو میں ترجمہ کرتے ہیں پھر انہیں کون پڑھتا ہے؟ اور آپ کے لیے اس کام کے کیا معنی ہیں؟

قمر تبریز: پاری کا حصہ بننے کے بعد، جب پہلی بار اس کی سالانہ میٹنگ میں شریک ہوا تھا، میں نے تب بھی یہی بتایا تھا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ پاری میں موجود لوگ میری زبان کو بچانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں آج بھی پاری کے ساتھ جڑا ہوا ہوں۔ بات صرف اردو کی نہیں ہے، بلکہ پاری اُن تمام زبانوں کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے جو خاتمہ کے دہانے پر ہیں یا خطرے کا سامنا کر رہی ہیں۔

یہ اسٹوری ’پاری بھاشا‘ ٹیم کے دیویش (ہندی)، جوشوا بودھی نیتر (بنگالی)، کمل جیت کور (پنجابی)، میدھا کالے (مراٹھی)، محمد قمر تبریز (اردو)، نرمل کمار ساہو (چھتیس گڑھی)، پنکج داس (آسامی)، پرنتی پریدا (اڑیہ)، پرتشٹھا پانڈیہ (گجراتی)، راجہ سنگیتن (تمل)، راجیو چیلاناٹ (ملیالم)، اسمتا کھٹور (بنگالی)، سورن کانتا (بھوجپوری)، شنکر این کینچنورو (کّنڑ)، اور سدھامئی ستین پلّی (تیلگو) کے ذریعے لکھی گئی ہے۔ اسمتا کھٹور، میدھا کالے، جوشوا بودھی نیتر، پریتی ڈیوڈ کی ادارتی مدد سے پرتشٹھا پانڈیہ نے اسے ایڈٹ کیا ہے۔ بنائیفر بھروچا نے فوٹو ایڈٹنگ کی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

PARIBhasha Team

PARIBhasha is our unique Indian languages programme that supports reporting in and translation of PARI stories in many Indian languages. Translation plays a pivotal role in the journey of every single story in PARI. Our team of editors, translators and volunteers represent the diverse linguistic and cultural landscape of the country and also ensure that the stories return and belong to the people from whom they come.

Other stories by PARIBhasha Team
Illustrations : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique