’’یہ رہا اسکول،‘‘ اتُل بھوسلے اپنی شہادت کی انگلی سے مہاراشٹر کے گُنڈے گاؤں سے باہر خالی میدانوں کے درمیان کھڑے دو کمروں کے کنکریٹ کے چھوٹے سے ڈھانچے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ گاؤں کی کیچڑ بھری سڑک سے گزرتے ہوئے یہ اسکول آپ کی نگاہوں سے چھپ نہیں سکتا۔ پاردھیوں کی چھوٹی سی بستی یہاں سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔
اسکول، جس کی کھڑکیاں نیلے رنگ کی ہیں، جس کی دیواریں رنگ برنگے کارٹونوں اور ہندوستان کی آزادی کے جنگجوؤں کے پینٹ شدہ چہروں سے مزین ہیں اور جو ہلکے زرد رنگ کا کنکریٹ کا ایک ڈھانچہ ہے، آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتا ہے۔ عارضی جھونپڑیوں اور ترپال کی چھتوں والے مٹی کے مکانوں (جن میں ۲۰ پاردھی کنبے قیام کرتے ہیں) کے درمیان اسکول کی یہ عمارت مزید نمایاں ہوکر ابھرتی ہے۔
’’اتا امچیایکڈے وکاس مہنجے نی شالاچ آہے۔ وکاساچی نشانی [ہمارے یہاں ترقی کے نام پر صرف یہ اسکول ہے]،‘‘ احمد نگر ضلع کے نگر تعلقہ میں واقع پئوٹکا بستی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ۴۶ سالہ اتل بھوسلے کہتے ہیں۔
’’دوسرا کائے نہیں۔ وستیت یایلا راستہ نائے، پانی نائے، لائٹ نائے، پکی گھر نائیت [سڑکیں نہیں ہیں۔ پانی نہیں ہے۔ بجلی نہیں ہے۔ پکے مکان نہیں ہیں]۔ اسکول قریب ہے، اس لیے ہمارے بچے کم از کم پڑھنا لکھنا سیکھ رہے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اتل کو اس چھوٹے سے تعلیمی ادارہ پر فخر ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کے بچے ساحل اور شبنم ۱۶ دیگر طلباء (سات لڑکیاں اور نو لڑکوں) کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
یہ وہی اسکول ہے جسے ریاستی حکومت کسی اور مقام پر منتقل کرنے اور ضم کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ یہ اقدام خط افلاس سے نیچے زندگی بسرکرنے والی برادری کے لیے ایک صدمہ کی طرح ہے۔ پاردھی ایک خانہ بدوش گروہ اور ایک ڈی نوٹیفائیڈ (غیر شناخت شدہ) قبیلہ ہیں، جنہیں مہاراشٹر میں درج فہرست قبائل کے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔
یہ قبیلہ ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصے سے انتہائی قسم کے امتیازی سلوک اور محرومی کا شکار رہا ہے۔ سال ۱۸۷۱ میں برطانوی حکومت نے ایک قانون، ’مجرمانہ قبائل ایکٹ‘ (سی ٹی اے) نافذ کیا تھا۔ اس قانون کا مقصد تقریباً ۱۲۰ قبائلی گروہوں اور دیگر ذاتوں کو کچلنا تھا۔ ان میں زیادہ تر وہ گروہ تھے جو برطانوی تسلط کو قبول نہیں کرتے تھے۔ ان میں پاردھی بھی شامل تھے۔ اس قانون کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اگر آپ ان گروہوں میں سے کسی ایک میں پیدا ہوئے ہیں تو آپ پیدائشی مجرم ہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد سی ٹی اے کو ۱۹۵۲ میں منسوخ کر دیا گیا تھا، اور اس سے متاثرہ برادریوں کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا تھا، لیکن بدنامی کا داغ کبھی نہیں چھوٹا۔ پاردھیوں کو باقاعدہ روزگار حاصل کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ ان کے بچے، جو باقاعدہ اسکولوں میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں ڈرایا اور اکثر مارا پیٹا جاتا ہے۔
اس پسماندہ برادری کے لیے یہ اسکول ان کی بستی میں محض ایک پکے ڈھانچے کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ یہ انسانی ترقی (سرکاری ترقی کی علامت کے طور پر نہیں) کا ایک قیمتی ذریعہ ہے جو ان کے پاس ہے۔ یہ ان کے بچوں کے لیے معقول روزگار کا ممکنہ راستہ ہے۔ صرف وہی سماجی گروہ اسکول کے خاتمہ کا مطلب پوری طرح سمجھ سکتے ہیں، جنہیں اتنی بے رحمی سے تعلیم کے ’مرکزی دھارے‘ سے اتنے عرصے تک باہر رکھا گیا ہے۔
’’میرے بچے مراٹھی میں اچھی طرح سے بات کر سکتے ہیں۔ وہ پڑھ سکتے ہیں۔ ہم نہیں پڑھ سکتے،‘‘ اتل کی ۴۱ سالہ بیوی روپالی بھوسلے کہتی ہیں۔ ’’لیکن میں نے [اساتذہ سے] سنا ہے کہ حکومت اس اسکول کو یہاں سے منتقل کرنے والی ہے،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔
غیریقنی اور فکرمندی اتل کی آواز سے یکساں طور پر نمایاں ہے۔ ’’کیا وہ واقعی ایسا کریں گے؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔
افسوس کی بات ہے، وہ واقعی ایسا کریں گے۔ اگر مہاراشٹر حکومت اپنے موجودہ منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی ہے تو پئوٹکا بستی اسکول ہی نہیں، بلکہ ریاست کے ۱۴۰۰۰ سے زیادہ دیگر اسکول بند ہوسکتے ہیں، منتقل ہوسکتے ہیں اور دوسرے اسکولوں میں ضم ہو سکتے ہیں۔
*****
اسکول کے سامنے کی دیوار پر سرخ پینٹ سے مراٹھی میں لکھے گئے اس تعلیمی مقام کا نام – پئوٹکا وستی گنڈے گاؤں پرائمری ضلع پریشد اسکول – ۱۷ سال بعد اب بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ اس اسکول کی تعمیر ۲۰۰۷ میں حکومت ہند کے ایک اہم تعلیمی پروگرام سرو شکشا ابھیان کے تحت کی گئی تھی۔ اس وقت سے یہ اسکول اس بستی کے بچوں کو درجہ ۱ سے ۴ تک کی پرائمری سطح کی تعلیم فراہم کر رہا ہے۔ اسکول کا قیام جس نیت سے کیا گیا تھا اسے اسکول کی دیوار پر پینٹ کیا گیا ہے: پرتیک مل شالت جائیل، ایکی مل گھری نہ راہل (ہر بچہ اسکول جائے گا، ایک بھی بچہ گھر پر نہیں رہے گا)۔
اس وقت یہ بہت ہی غیرمعمولی خیال لگتا تھا۔
لیکن ۲۱ ستمبر، ۲۰۲۳ کے ایک تازہ ترین سکلر میں کہا گیا ہے کہ تعلیمی معیار، ’مجموعی ترقی، اور بچوں کے لیے مناسب تعلیمی سہولیات کی فراہمی‘ کی غرض سے بعض علاقوں کے ایسے اسکولوں کو بڑے کلسٹر اسکولوں یا سموہ شالاؤں کے ساتھ ضم کر دیا جائے گا جہاں ۲۰ سے کم طلباء ہوں گے۔ چھوٹی شالاؤں کو ایک کلسٹر اسکولوں میں ضم کرنے کا یہ عمل قومی تعلیمی پالیسی ۲۰۲۰ کی شق ۷ کے تحت نافذ کیا جا رہا ہے۔
پئوٹکا بستی جی زیڈ پی ایس کے پرنسپل کوسلکر گنگارام سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی نگہداشت میں موجود بچوں کی کل تعداد جمع کرائیں تاکہ ریاست اسے کلسٹر اسکول میں ضم کرنے کے امکان کا اندازہ لگا سکے۔ وہ بھی فکرمند ہیں۔ ’’بچے اچھی طرح پڑھائی کر رہے ہیں۔ وہ اعداد، انگریزی-مراٹھی حروف تہجی، نظمیں پڑھ سکتے ہیں۔
’’ہمارے اسکول میں نہ تو بیت الخلاء ہے اور نہ ہی پینے کے پانی کے نلکے ہیں،‘‘ وہ تقریباً معذرت آمیز لہجے میں گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ’’بالکل نئے اور بڑے ڈھانچے کی تعمیر کے مقابلے میں اس مد میں کم فنڈ کی درکار ہوگی۔ ایک مانیمالا بستی اسکول ہے اور کچھ دوسرے اسکول بھی ہیں، جن میں ۲۰ سے کم طلباء ہیں۔ ان سب کو ضم کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس اسکول کو بچوں کے نزدیک یہاں قائم رہنا ضروری ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اب ان کی آواز ان کے خیالات کی طرح واضح ہے۔
’’ان بچوں میں پڑھنے کی عادت ڈالنا ہم اساتذہ کے لیے مشکل امر رہا ہے،‘‘ گنگا رام کہتے ہیں۔ ’’اگر جی زیڈ پی ایس پیدل فاصلہ سے دور جاتا ہے، تو یہ بچے ابتدائی تعلیم سے محروم ہو جائیں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
سرکاری سرکلر میں کہا گیا ہے کہ نئے کلسٹر اسکولوں کی دوری ’’بس کے ذریعے ۴۰ منٹ سے کم‘‘ ہونی چاہیے اور بس سے سفر کے اخراجات حکومت اور سی ایس آر [کارپوریٹ سماجی ذمہ داری] کے فنڈ کے ذریعہ اٹھائے جائیں گے۔ ’’دوری کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ ۴۰ منٹ کا کیا مطلب ہے؟ اصل دوری کتنی ہے؟ یقینی طور پر یہ دوری ایک کلومیٹر سے زیادہ ہو گی،‘‘ کوسلکر بتاتے ہیں۔ مفت بس سروس کے وعدے کے وہ قائل نظر نہیں آتے۔
’’اس بستی سے ہائی اسکول کی دوری چار کلومیٹر ہے۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے بچوں کو سنسان سڑکوں سے گزرنا پڑتا ہے اور بہت سے بچے، خاص طور پر لڑکیاں، غیرمحفوظ ہونے کی وجہ سے اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ مفت بس سروس کہاں ہے؟‘‘ گنگارام پوچھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پچھلے سال سات یا آٹھ طلباء نے درجہ ۴ کے بعد اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھی۔ اب وہ اپنے والدین کے ساتھ کام پر جاتے ہیں۔
عوامی ٹرانسپورٹ کی کمی اور گھر اور اسکول کے درمیان کا فاصلہ آپ کو کافی دقت طلب لگ سکتے ہیں، لیکن اور بھی بہت سی دقتیں ہیں جو ان کے ساتھ جڑ جاتی ہیں۔ ان طلباء کے والدین کو کام پر جانا ہوتا ہے، اور اکثر کام کی تلاش میں ہجرت کرنی پڑتی ہے۔ مانسون کے دنوں میں ان میں سے زیادہ تر نزدیک کے کھیتوں میں زرعی مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ یہ کھیت بعض اوقات اتنے نزدیک بھی نہیں ہوتے۔ سال کے باقی دنوں میں وہ ۳۴ کلومیٹر دور احمد نگر قصبہ میں تعمیراتی مقامات پر کام کی تلاش کرتے ہیں۔
’’یہاں ایس ٹی بسیں یا شیئرنگ جیپیں نہیں چلتی ہیں۔ کام پر جانے کے لیے ہم ۸-۹ کلومیٹر پیدل چل کر مین روڈ سے کوئی گاڑی پکڑتے ہیں،‘‘ اتل کہتے ہیں۔ ’’آپ کو صبح وقت پر ۶ یا ۷ بجے تک اس لیبر ناکہ پر پہنچنا ہوتا ہے۔ اگر ہمارے بچوں کو کسی دور کے اسکول میں جانا پڑے تو یہ ہمارے لیے ایک مشکل فیصلہ ہوگا،‘‘ روپالی کہتی ہیں۔ ’’ہمیں ہر روز پورے سال کام تلاش کرنا پڑتا ہے۔‘‘ روپالی اور اتل دونوں مل کر ایک دن میں ۴۰۰-۴۵۰ روپے سے زیادہ نہیں کماتے ہیں، اور وہ بھی تقریباً ۱۵۰ دنوں تک۔ لہذا ان کے لیے سال کے باقی دنوں میں جہاں کہیں بھی ممکن ہوسکتا ہے اپنا گھر چلانے کے لیے مزید کام تلاش کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
این ای پی ۲۰۲۰ کے پالیسی دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چھوٹے اسکولوں کا انتظام و انصرام حکومت کے لیے مشکل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ان کے سائز انہیں ’’اساتذہ کی تعیناتی اور ضروری وسائل کی فراہمی کے لحاظ سے…معاشی طور پر غیرموافق اور عملی طور پر پیچیدہ بناتے ہیں۔‘‘ وہ نظم و نسق اور انتظام کے لیے ایک نظامی چیلنج کا باعث بنتے ہیں کیونکہ ’’جغرافیائی پھیلاؤ، رسائی کے مشکل حالات، اور اسکولوں کی بہت بڑی تعداد کی وجہ سے تمام اسکولوں تک یکساں طور پر پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
اگرچہ چھوٹے اسکول مختلف قسم کی پریشانیاں پیش کرسکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں لگتا کہ انضمام سے کوئی بہترین نتیجہ برآمد ہوگا۔ اگر مہاراشٹر حکومت کے پونے کے پان شیت گاؤں میں اس کے پہلے تجربے کو دیکھا جائے تو بالکل ہی نہیں لگتا۔ رپورٹ کے مطابق ویلہے تعلقہ میں کلسٹر اسکول کے طور پر دوبارہ تیار کیا جانے والا پہلا اسکول عملہ اور بنیادی ڈھانچے کی کمی اور دیگر بہت سے مسائل سے دوچار ہوا ہے، اس کے باوجود حکومت اس پروجیکٹ کی پوری ریاست میں توسیع پر زور دے رہی ہے۔
’’پہاڑی علاقوں اور دور افتادہ مقامات پر چھوٹے اسکول واقعی ایک گمبھیر مسئلہ ہیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان اسکولوں میں اچھی تعلیم فراہم کرنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے، خواہ بچوں کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو،‘‘ جندھیالا بی جی تلک کہتے ہیں، جو تعلیم کی معاشیات کے ماہر اور ایک نامور اسکالر ہیں۔ وہ ای میل کے ذریعہ بھیجے گئے پاری کے ایک سوالنامہ کا جواب دے رہے تھے۔
’’انضمام تعلیم کے حق (آر ٹی ای) کے اصولوں کے منافی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ اس قانون کے تحت درجہ ۱ سے ۵ تک کے بچوں کے لیے مثالی طور پر اسکول کی دوری ان کے گھر سے ایک کلومیٹر کے اندر ہونا لازمی ہے۔ اور ۶-۱۱ سال کی عمر کے گروپ میں کم از کم ۲۰ بچے ہو سکتے ہیں۔
’’اس کے علاوہ آر ٹی ای میں وعدہ شدہ تمام سہولیات اور ۲-۳ اساتذہ کے ساتھ ۵-۱۰ بچوں کے لیے ’مکمل‘ اسکول کا ہونا بھی غیرمعقول لگتا ہے۔ حکام اکثر اس مسئلہ کو اٹھاتے ہیں۔ ہمیں اختراعی اقدامات کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ انضمام، اگرچہ پرکشش ہے، لیکن ایک اچھا حل نہیں ہے،‘‘ تلک بتاتے ہیں۔
*****
لیکن مہاراشٹر کے ریاستی محکمہ تعلیم کے لیے سوال صرف پئوٹکا بستی اسکول تک ہی محدود نہیں ہے۔ سال ۲۰۲۳ کے سرکلر میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں ’۱ سے۲۰‘ طلباء والے ’۱۴۷۸۳ اسکول‘ ہیں، جن میں کل ایک لاکھ ۸۵ ہزار ۴۶۷ طلباء ہیں۔ ان اسکولوں کو بڑے کلسٹر اسکولوں میں ضم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام اسکول غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔
’’یہ اسکول مختلف وجوہات کی بناپر چھوٹے ہیں،‘‘ غیر منافع بخش تنظیم ’نو نرمیت لرننگ فاؤنڈیشن‘ کی ڈائرکٹر گیتا مہاشبدے چھوٹے شالوں (اسکولوں) کی تاریخ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
سال ۲۰۰۰ میں مہاراشٹر حکومت نے سرو شکشا ابھیان کے تحت وستی شالا یوجنا شروع کی تھی، جس کا مطلب تھا پئوٹکا وستی جیسی چھوٹی بستیوں میں اسکول قائم کرنا۔ گیتا کہتی ہیں، ’’اس حکومتی منصوبے کا مقصد ان بچوں کی نشاندہی کرنا تھا جو تعلیم سے دور تھے اور ان کے لیے ان کی اپنی بستیوں میں، یا دوسری صورت میں ناقابل رسائی پہاڑی علاقوں میں نئے اسکول قائم کرنا تھا۔ اس اسکیم کو مہاتما پھولے شکشن ہمی کیندر یوجنا کے نام سے بھی جانا جاتا تھا،‘‘ گیتا کہتی ہیں۔
اس اسکیم کے مطابق کسی وستی شالا میں درجہ ۱-۴ کے تقریباً ۱۵ طلباء ہوسکتے ہیں۔ ضلع پریشد یا میونسپل ایگزیکٹو کمیٹی کی منظوری کے بعد تعداد میں نرمی برتی جا سکتی ہے۔ غیرمعمولی حالات میں، طلباء کی تعداد ۱۰ تک بھی ہو سکتی ہے۔
لہٰذا، ریاست نے ۲۰۰۰ اور ۲۰۰۷ کے درمیان تقریباً آٹھ ہزار وستی شالاوں کا آغاز کیا۔
تاہم، مارچ ۲۰۰۸ میں حکومت نے اس اسکیم کو ’عارضی انتظام‘ قرار دیتے ہوئے بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
گیتا کہتی ہیں، ’’مہاراشٹر حکومت نے ان اسکولوں کی صورتحال کا مطالعہ کرنے اور اپنی سفارشات پیش کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔‘‘ گیتا اس کمیٹی کی ایک رکن تھیں۔ کمیٹی نے کچھ اسکولوں کو باقاعدہ پرائمری اسکولوں میں تبدیل کرنے کی سفارش پیش کی تھی۔ سال ۲۰۰۸ اور ۲۰۱۱ کے درمیان ریاستی حکومت نے ۶۸۵۲ وستی شالاؤں کو باقاعدہ پرائمری اسکولوں میں تبدیل کرنے اور ۸۶ دیگر کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔
وستی شالا یوجنا کے تحت ریاست نے ۲۰۰۰ اور ۲۰۰۷ کے درمیان تقریباً آٹھ ہزار وستی شالائیں قائم کیں۔ تاہم، مارچ ۲۰۰۸ میں حکومت نے اسے ’عارضی انتظام‘ قرار دیتے ہوئے اس اسکیم کو بند کرنے کا فیصلہ کیا
موجودہ دہائی میں اس فیصلے کو پلٹا جا سکتا ہے۔ این ای پی ۲۰۲۰ کے تحت ایسے باقاعدہ اسکولوں کو بھی بند کرنے پر بحث شروع ہوگئی ہے۔ گیتا کہتی ہیں کہ ’’باقاعدہ اسکولوں کو بند کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ طلباء کی تعداد کم ہونے کے باوجود وہیں بستی تو موجود ہے اور وہاں کے بچوں کو تعلیم تک رسائی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘‘
’’ڈھول پر ہے تھاپ جو بجتی، تڑم تتّڑ تڑم کی آواز ہے کرتی۔‘‘ اتل کی آٹھ سالہ بیٹی شبنم اپنی تعلیمی لیاقت کا مظاہرہ کرنے کا موقع پا کر خوش ہے۔ ’’مجھے نظمیں پڑھنا پسند ہے،‘‘ وہ کہتی ہے اور درجہ ۳ کی مراٹھی کی نصابی کتاب سے ایک نظم پڑھ کر ہمیں سناتی ہے۔
’’میں جوڑنا، گھٹانا، تقسیم سب کر سکتا ہوں۔ مجھے ۵ تک کا پہاڑا بھی یاد ہے۔ پانچ یکم پانچ، پانچ دونی دس…‘‘ ساحل اپنی بہن سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے مداخلت کرتا ہے۔
بہن بھائی اسکول جانا پسند کرتے ہیں، لیکن صرف شاعری اور ریاضی کے لیے نہیں۔ ساحل کہتا ہے، ’’مجھے اسکول پسند ہے کیونکہ میں وہاں اپنی بستی کے تمام بچوں سے ملتا ہوں اور ہم چھٹی کے وقت لنگڑی [ہاپسکوچ] اور کھوکھو کھیلتے ہیں۔‘‘ پئوٹکا بستی جی زیڈ پی ایس میں تمام بچے پہلی نسل کے طالب علم ہیں۔
اپنی مٹی کی جھونپڑی کے باہر بیٹھی ان کی ماں روپالی کہتی ہیں، ’’اسکول اور پڑھائی میں ان کی دلچسپی دیکھ کر ہم واقعی خوشی محسوس کرتے ہیں۔‘‘ اسکول بند ہونے کا خوف ان کے چہرے کی خوشی کو معدوم کر دیتا ہے۔ وہ یا ان کے شوہر اتل کبھی اسکول نہیں گئے۔ پاردھی برادری کے لیے تعلیم تک رسائی ہمیشہ ایک چیلنج رہی ہے۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق مہاراشٹر میں کل ۲۲۳۵۲۷ پاردھی ہیں۔ کئی دہائیوں کی متعدد پالیسی سازی کے بعد بھی پرائمری تعلیم بہت سے پاردھی بچوں کی پہنچ سے دور ہے۔
*****
’’یہاں کوئی بھی اسکول نہیں جاتا ہے،‘‘ ۱۰ سالہ آکاش برڈے بے فکری سے کہتا ہے۔ وہ پئوٹکا بستی سے تقریباً ۷۶ کلومیٹر دور شیرور تعلقہ کی ایک اور پاردھی بستی میں رہتا ہے۔ پرائمری اور سیکنڈری اسکول کوکڑی ندی کے کنارے اس شندوڈی کالونی سے تین کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، جہاں وہ پیدل چل کر نہیں جا سکتا۔ ’’میں کبھی کبھار مچھلی پکڑتا ہوں۔ مجھے مچھلیاں پکڑنا اچھا لگتا ہے،‘‘ وہ کہتا ہے۔ ’’میرے والدین اینٹوں کے بھٹوں اور تعمیراتی مقامات پر کام کرتے ہیں۔ وہ ۳ سے ۴ ماہ تک مزدوری کے سلسلے میں گھر سے باہر ہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے مجھے کبھی اسکول کے بارے میں بتایا ہو اور نہ ہی میں نے اس کے بارے میں سوچا تھا۔‘‘
اس بستی میں ۵ سے ۱۴سال کی عمر کے ۲۱ بچوں میں سے کوئی بھی اسکول نہیں جاتا ہے۔
مہاراشٹر کے خانہ بدوش اور ڈی نوٹیفائیڈ قبائل کی تعلیمی حیثیت پر ۲۰۱۵ کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۰۶-۰۷ اور ۲۰۱۳-۱۴ کے درمیان، ان گروہوں کے کل ۲۲ لاکھ سے زیادہ بچوں کا اسکولوں میں داخلہ نہیں ہوا۔
’’ان میں سے بہت سے بچوں کے والدین باہر ممبئی یا پونے میں کام کرتے ہیں۔ بچے گھر پر تنہا رہتے ہیں، ان میں سے کچھ اپنے والدین کے ساتھ سفر پر جاتے ہیں،‘‘ ۵۸ سالہ کانتا بائی برڈے کہتی ہیں۔ کانتا بائی اپنی پوتیوں، نو سالہ اشونی اور چھ سالہ ٹوئنکل، کو گھر پر چھوڑ کر اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ سانگلی میں گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے جاتی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی لڑکی اسکول نہیں جاتی۔
وہ کہتی ہیں کہ ٹوئنکل کی پیدائش ایک گنے کے کھیت میں ہوئی تھی۔ جب گھر والوں نے اسے اسکول میں داخل کروانے کی کوشش کی تو انہوں نے داخلہ (پیدائش سرٹیفکیٹ) مانگا۔ ’’یہاں کوئی آشا کارکن نہیں آتی۔ ہمارے بچے اور پوتے پوتیاں سب گھر میں پیدا ہوتے ہیں۔ کسی کا ’داخلہ‘ نہیں ہے،‘‘ کانتا بائی کہتی ہیں۔
’’میں زیادہ تر اپنی بہن کے ساتھ رہتی ہوں۔ تنہا،‘‘ ننھی اشونی بتاتی ہے۔ ’’موٹھی آئی (دادی) ہماری دیکھ بھال کی غرض سے چند ہفتوں کے لیے واپس آتی ہیں۔ میں ہر طرح کا کھانا بنا سکتی ہوں، بھاکری بھی۔ مجھے اسکول کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ میں نے لڑکیوں کو یونیفارم میں دیکھا ہے۔ وہ اچھی لگتی ہیں،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہے۔
نیشنل سیمپل سروے (این ایس ایس)، ۱۸-۲۰۱۷ کے مطابق شندوڈی میں آکاش، اشونی اور ٹوئنکل کی طرح دیہی ہندوستان کے ۳-۳۵ سال کی عمر گروپ کے تقریباً ۱۳ فیصد مرد اور ۱۹ فیصد خواتین نے کبھی بھی کسی تعلیمی ادارے کا منہ نہیں دیکھا۔
’’دوسرے لوگ ہمیں چور کہتے ہیں۔ وہ ہمیں گندا کہتے ہیں اور اپنے گاؤں میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ ہم بچوں کو اسکول کیسے بھیجیں گے؟‘‘ اپنی برادری کے بچوں کے لیے کانتا بائی اسکول کو ایک محفوظ جگہ خیال نہیں کرتیں۔
مجرمانہ قبائل ایکٹ کی منسوخی کے کئی دہائیوں بعد بھی پاردھی اس کے ذریعے ملی بدنامی کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ (پڑھیں: کوئی جرم نہیں، لیکن سزا لامتناہی )۔ اہم دستاویزات جیسے پیدائش سرٹیفکیٹ، آدھار کارڈ، ووٹنگ آئی ڈی کارڈ اور بہت سے دیگر دستاویز کی کمی، ان کے لیے سرکاری اسکیموں تک رسائی کو مشکل بناتی ہے (پڑھیں: پختہ مکان کی تلاش میں بھٹکتے خانہ بدوش قبائل اور سمردھی شاہراہ کے بلڈوزر تلے پاردھی اسکول )۔ اور یہ وہ بدنامی کا داغ ہے جس کی وجہ سے برادری کے بچے اسکول میں داخلہ کے باوجود اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔
مہاراشٹر کے ۲۵ اضلاع میں ڈی نوٹیفائیڈ خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش قبائل پر کونسل فار سوشل ڈیولپمنٹ، حیدرآباد کے سال ۲۰۱۷ کے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ اس میں شامل ۱۹۹ پاردھی گھرانوں میں سے ۳۸ فیصد میں بچوں نے پرائمری اسکول کے بعد پڑھائی چھوڑ دیی۔ وجہ تھی امتیازی سلوک، زبان کی رکاوٹیں، شادی اور تعلیم کی اہمیت کے بارے میں عدم بیداری۔
’’تعلیم ہمارے بچوں کے لیے نہیں ہے۔ معاشرہ آج بھی ہمیں حقیر سمجھتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کچھ بھی بدل سکتا ہے،‘‘ کانتا بائی شکایتی لہجے میں کہتی ہیں۔
ان کی باتیں خوفناک حد تک سچ معلوم ہوتی ہیں۔ سال ۱۹۱۹ میں مہاراشٹر کے عظیم سماجی مصلح اور ماہر تعلیم، کرم ویر بھاؤ راؤ پاٹل، تعلیم کو رعیت (عوام) تک پہنچانے کے لیے پرعزم تھے اور انہوں نے وستی تیتھے شالا (ہر بستی میں ایک اسکول) کی وکالت کی تھی۔ اس کے باوجود ۱۰۵ سال بعد بھی شندوڈی میں کوئی اسکول نہیں پہنچ سکا ہے۔ پئوٹکا بستی تک اسکول کو آنے میں ۹۰ کا وقت لگا – اور اب پالیسی کی تبدیلی کے نتیجہ میں اس پر بند ہونے کا خطرمنڈلا رہا ہے، جس کی وجہ سے برادری کے بچوں کو مکمل طور پر الگ تھلگ ہو جائیں گے۔
زیڈ پی پئوٹکا بستی اسکول کی دیوار پر پینٹ شدہ الفاظ یہ ہیں:
شکشن ہکاچی کِمیا نیاری،
شکشن گنگا آتا
گھروگھری۔
(تعلیم کے حق کے پرفتن جادو کے ساتھ
علم کی گنگا ہر گھر میں بہے گی۔)
ان الفاظ کے سچ ہونے میں کتنا وقت اور لگے گا؟
مترجم: شفیق عالم