اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ ایک کو چھوڑ کر گھر کے باقی تمام لوگوں کا کورونا وائرس ٹیسٹ نگیٹو آیا تھا۔ سرپنچ نے گاؤں والوں کی رضامندی سے ایک فرمان جاری کر دیا تھا۔ فیملی ایک مہینہ کے لیے اپنا گھر نہیں چھوڑ سکتی – حالانکہ لازمی کوارنٹائن کی مدت ۱۴ دن ہی تھی۔ ان میں سے ایک وائرس کی چپیٹ میں آ گیا تھا۔
عثمان آباد ضلع میں ان کا پہلا رپورٹ شدہ معاملہ ہونے کی وجہ سے حالات مزید بدتر ہو گئے۔ وہ تبلیغی جماعت کے ایک اجتماع میں شریک ہونے کے بعد پانی پت، ہریانہ سے لوٹے تھے۔
ایک طرف جہاں ان کا علاج مہاراشٹر میں عثمان آباد کے اُمرگا تعلقہ کے سرکاری اسپتال میں چل رہا تھا، وہیں دوسری طرف ان کی فیملی کو ایک طرح سے ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ ’’اس کا مطلب تھا کہ ہم اپنی فصل بھی نہیں کاٹ سکتے تھے،‘‘ ۳۱ سالہ محمد سلمان (بدلا ہوا نام) کہتے ہیں۔ ’’کاٹنے کے لیے تیار فصل سڑتی رہی کیوں کہ میری فیملی گھر کے اندر ہی بند تھی۔ ان میں سے کچھ فصلوں کو جانوروں نے برباد کر دیا اور باقی فصل سوکھ گئی۔ ہم کچھ بھی نہیں بچا سکے۔ ہمیں ۵۰ ہزار روپے کا نقصان ہوا۔‘‘
سلمان ۲۴ مارچ کو پانی پت سے لوٹے تھے – جس دن وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان میں کووڈ- ۱۹ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ملک گیر بند کا اعلان کیا تھا۔ اسی ہفتہ، دہلی میں اہلکاروں نے پایا کہ ۱۹۲۶ میں قائم کردہ، راجدھانی کی پرانی اسلامی تنظیموں میں سے ایک، تبلیغی جماعت کے ہیڈکوارٹر، مرکز حضرت نظام الدین میں ۲ ہزار لوگ قیام پذیر تھے۔ وہ ۱۳ سے ۱۵ مارچ تک دہلی میں ہونے والے ایک اجتماع میں شریک ہونے کے لیے جمع ہوئے تھے، جو وائرس کا ہاٹ اسپاٹ نکلا۔ اس پروگرام کے بعد، ایک منفی مہم شروع ہوئی، جس کے ذریعے پوری برادری کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ سلمان اور ان کی بیوی اس اجتماع میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ ’’گاؤں کے لوگ میری پیٹھ پیچھے باتیں کرنے لگے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میرے اندر کوئی علامت نہیں تھی۔ لیکن گرام پنچایت نے ہمیں ٹیسٹ کرانے کے لیے کہا۔ وہ کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ مسلمانوں کو پورے ہندوستان میں کورونا وائرس پھیلانے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ میرے گاؤں کے لوگ مجھے شک کی نظروں سے دیکھتے تھے۔‘‘
حالات جلد ہی خراب ہونے والے تھے۔ ٹیسٹ کے بعد ۲ اپریل کو پتہ چلا کہ سلمان کورونا وائرس پازیٹو ہیں۔ ’’خوش قسمتی سے، میری فیملی کے باقی تمام لوگوں کا ٹیسٹ نگیٹو آیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’مجھے اگلے دن اسپتال لے جایا گیا۔‘‘
حالانکہ، نقصان پہلے ہی ہو چکا تھا۔ ’’گاؤں کے لوگوں نے کورونا وائرس لانے کے لیے میری فیملی کو طعنہ دینا شروع کر دیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’سرپنچ نے کہا کہ میری فیملی ایک مہینہ کے لیے گھر سے باہر نہیں نکلے گی۔ اچھی بات یہ رہی کہ ہمارے پڑوسیوں سمیت، چند شریف لوگوں نے یہ یقینی بنایا کہ میری فیملی کو گھر میں کھانا ملتا رہے۔ لیکن ہمیں اپنی ربیع کی فصل کو بھولنا پڑا، جسے ہم نے پچھلے چھ مہینوں میں خون پسینے کی محنت سے تیار کیا تھا۔‘‘
سلمان کے پاس ۴ء۵ ایکڑ کھیت ہے، جو ان کے گاؤں سے تین کلومیٹر دور ہے۔ آٹھ رکنی فیملی – سلمان، ان کی بیوی، دو بچے، بھائی، بھابھی اور ان کے والدین – خریف کے موسم میں سویابین اور مونگ کی کھیتی کرتے ہیں اور ربیع میں جوار اور چنے اُگاتے ہیں۔ ’’ہم نے اپنی فصل کاٹنے کے لیے مزدوروں کو کام پر رکھنے کی کوشش کی، لیکن کوئی بھی ہمارے لیے کام کرنے کو تیار نہیں تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمارے کھیت میں دو بورویل اور ایک کنواں ہے۔ پھر بھی، کھیت سوکھ گئے کیوں کہ کسی کو ہماری پرواہ نہیں تھی۔‘‘
مہاراشٹر میں اب کورونا وائرس کے ۴ء۸ لاکھ سے زیادہ معاملے درج کیے گئے ہیں۔ لیکن لاک ڈاؤن کے ابتدائی دنوں میں لوگ بہت زیادہ خوفزدہ تھے۔ مستقبل خوفناک لگ رہا تھا۔ اطلاع کی کمی تھی اور گھبراہٹ بہت زیادہ۔
’’لاک ڈاؤن کے سبب ہر کوئی پریشان تھا،‘‘ سلمان کہتے ہیں۔ ’’کسانوں کو اپنی فصل منڈی تک لے جانے میں جدوجہد کرنی پڑ رہی تھی۔ ہمیں جو نقصان ہوا، اس کی وجہ سے ہم کافی فکرمند تھے، اوپر سے، وائرس کی چپیٹ میں آ جانے کا ڈر۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہمارا سماج اپنی تکلیفوں کے لیے کسی ولین کی تلاش کر رہا ہے۔ اور مسلمان نشانہ بن گئے۔‘‘
ٹیلی ویژن چینلوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے سلسلہ کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا، سلمان کہتے ہیں۔ ’’لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کے پاس کوئی کام نہیں تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’وہ دن بھر اپنے موبائل فون پر نیوز کلپ دیکھتے تھے۔ اور نیوز کلپ میں صرف مسلمانوں کو قصوروار ٹھہرایا جا رہا تھا۔‘‘
ایک مراٹھی چینل نے تو ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد سلمان کی فوٹو بھی دکھانی شروع کر دی۔ ’’وہ کلپ وہاٹس ایپ پر وائرل ہو گئی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’تعلقہ میں ہر کسی نے اسے دیکھا۔ لوگ مجھے الگ نظروں سے دیکھنے لگے۔ میری فیملی شرم محسوس کرنے لگی۔ یہ ذلت آمیز تھا۔‘‘
اسپتال میں چیزیں بہتر تھیں۔ سلمان اسپتال میں داخل ہونے والے پہلے مریضوں میں سے ایک تھے، اور انہوں نے پایا کہ ڈاکٹر پورا خیال رکھ رہے ہیں – اور اسپتال میں مریضوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی۔ ’’میرا چیک اَپ باقاعدگی سے ہوتا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میرا وارڈ صاف ستھرا تھا۔ اسپتال نے جب مجھے ۲۰ دنوں کے بعد چھٹی دی، تو انہوں نے جشن منانے کے لیے ایک چھوٹا پروگرام بھی منعقد کیا، کیوں کہ میں ٹھیک ہونے والا سب سے پہلا شخص تھا۔‘‘
شلپا اور تنوج بہیٹی اس معاملے میں کم خوش قسمت تھے۔ جالنہ ضلع کے یہ میاں بیوی جب جون کے آخری ہفتہ میں کووڈ- ۱۹ پازیٹو پائے گئے، تو اس وقت تک مہاراشٹر میں ۱ء۵ لاکھ سے زیادہ معاملے سامنے آ چکے تھے۔ یہ وائرس صرف شہری مراکز تک ہی محدود نہیں تھا۔ اور ریاست کے اندرونی علاقوں میں صحت کے کمزور بنیادی ڈھانچے مزید خستہ ہو رہے تھے۔
عثمان آباد سے ۲۲۰ کلومیٹر دور، جالنہ شہر کے رہائشی – شلپا اور تنوج نے شروع کے دو دن ضلع کے سول اسپتال میں گزارے، اور اس کے بعد ایک ہفتہ عارضی کوارنٹائن مرکز میں۔ وہ جس طرح سے دونوں جگہوں پر پہنچے، وہ اپنے آپ میں غیر معمولی تھا۔
تنوج اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی کے دوسرے لوگوں کو خوفزدہ نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لیے جب انہیں تیز بخار ہوا، تو ایمبولینس بلانے کی بجائے وہ خود سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اسپتال پہنچ گئے۔ ’’سول اسپتال کے ڈاکٹر مجھے اچھی طرح جانتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’وہ جانتے تھے کہ میں غیر ذمہ دار نہیں ہوں اور ان کے پاس سیدھے پہنچ جاؤں گا۔ میری بیوی رکشہ سے وہاں پہنچی۔‘‘
میاں بیوی کا ٹیسٹ جب پازیٹو آیا، تو انہوں نے اپنی ۱۳ سالہ بیٹی کو اس کی نانی کے گھر بھیج دیا، جو جالنہ شہر میں ہی ہے۔ اس کا ٹیسٹ نگیٹو آیا تھا۔
’’ہم دونوں کو ۱۰۲ ڈگری بخار تھا،‘‘ ۴۰ سالہ شلپا نے بتایا، جو سرکار سے امداد یافتہ جالنہ ایجوکیشنل سوسائٹی کالج میں ایک پروفیسر ہیں۔ ’’دو دن اسپتال میں رہنے کے بعد، ہمیں پاس کی ایک عمارت میں منتقل کر دیا گیا کیوں کہ انہیں زیادہ سنگین مریضوں کے لیے جگہ کی ضرورت تھی۔‘‘ جالنہ ضلع میں معاملوں کی تعداد بڑھنے کے بعد اس عمارت کو کوارنٹائن مرکز بنا دیا گیا تھا۔
۴۲ سالہ تنوج کے مطابق، مریضوں کو جب دو منزلہ کوارنٹائن مرکز میں منتقل کیا گیا، تو انہیں اپنا سامان ساتھ لیکر جانا پڑا تھا۔ ’’ہم بیمار تھے۔ ہمیں تیز بخار تھا۔ ہم کمزور محسوس کر رہے تھے۔ کوارنٹائن مرکز پہنچنے پر، میں نے ایک کمرہ کے لیے درخواست کی، جس میں ہم دونوں ساتھ رہ سکیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’نچلی منزل پر ایک مشترکہ وارڈ تھا، لیکن ہمیں دوسری منزل پر اپنے لیے ایک کمرہ ملا۔ جب ہم وہاں پہنچے، تو وہ گرد و غبار سے بھرا ہوا تھا۔ اس منزل پر بنا مشترکہ بیت الخلاء خستہ حالت میں تھا، بجلی نہیں تھی اور پانی بہہ رہا تھا۔‘‘
اسی منزل پر ایک دوسرے مریض نے تنوج – جو جالنہ میں ڈیٹال کی مصنوعات کے تقسیم کار ہیں – کو بتایا کہ جو کمرہ انہیں دیا گیا ہے، اس کی حالت کئی دنوں سے ویسی ہی تھی۔ ’’میں نے کلکٹر سے شکایت کی، بار بار فون کیا – تب جا کر ۲ یا ۳ دنوں کے بعد اسے صاف کیا گیا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں نے اس کا ایک ویڈیو بھی بنایا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔‘‘
شلپا کہتی ہیں کہ گندے بیت الخلاء، خاص کر عورتوں کے لیے برے ہوتے ہیں۔ ’’مرد تو ویسی حالت میں بھی کسی طرح کام چلا سکتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
اس کوارنٹائن مرکز میں ایک ہفتہ مریض کی ذہنی حالت کو خراب کر سکتی تھی، تنوج کہتے ہیں۔ ’’آپ کو ایسی جگہوں پر ملنے والا کھانا بھی درحقیقت کم معیاری ہوتا ہے۔ میرے ایک دوست کو جو خشک میوے دیے گئے تھے، اس میں کیڑے تھے۔ آپ کم از کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ مریض جب جذباتی طور پر جدوجہد کر رہا ہو اور تناؤ میں ہو، تو انہیں تسلی دیں۔ کورونا وائرس کو لیکر بہت ساری غلط فہمیاں ہیں۔ لوگ آپ کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے آپ نے کوئی جرم کیا ہو۔‘‘
دونوں نے کوارنٹائن مرکز میں تکلیف دہ مدت کو برداشت کیا اور جولائی کے دوسرے ہفتہ میں گھر واپس آ گئے۔ ’’اس کے بعد ہم ایک ہفتہ تک گھر سے باہر نہیں نکلے، جیسا کہ ہمارے ڈاکٹروں نے ہمیں ہدایت کی تھی،‘‘ تنوج کہتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ڈیٹال کے تقسیم کار ہونے کے ناطے، لاک ڈاؤن سے انہیں فائدہ ہوا ہے۔ بار بار ہاتھ دھونے پر زور دینے کی وجہ سے، وہ کہتے ہیں، جالنہ ضلع میں ڈیٹال کی مانگ پہلے کبھی اتنی زیادہ نہیں رہی۔ ’’کورونا وائرس سے پہلے اگر میں ایک مہینہ میں ۳۰ ہزار روپے کماتا تھا، تو اب یہ بڑھ کر ۵۰ ہزار روپے ہو گیا۔ جس مہینے میں، میں کام نہیں کر سکا اسے چھوڑ کر، میری اچھی کمائی ہوئی ہے۔‘‘ فیملی کے پاس ایک سرکاری کالج میں شلپا کی سرکاری نوکری بھی تھی۔
’’اب دو ہفتے ہو گئے ہیں اور ہماری زندگی آہستہ آہستہ بحال ہو رہی ہے۔ ’’ہمارے آس پاس کے لوگوں نے بھی واپسی پر ہمارا بہت ساتھ دیا ہے،‘‘ تنوج کہتے ہیں۔
حالانکہ، سلمان کے پاس یہ ساری آسانیاں نہیں ہیں۔ وائرس سے پاک ہونے کے تین مہینے بعد بھی، سڑک پر چلتے وقت لوگ انہیں شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ’’وہ [ان کے گاؤں کے دیگر لوگ] ہر جگہ بنا ماسک کے گھومتے رہتے ہیں – لیکن میرے گھر کے پاس سے گزرتے وقت اسے لگا لیتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’وہ اب بھی مجھے الگ طرح سے دیکھتے ہیں۔ میرے بعد، ممبئی اور پونہ سے کئی محنت کش عثمان آباد میں وائرس لیکر آئے تھے۔ انہیں اس طرح سے ذلیل نہیں کیا گیا، جیسے مجھے کیا گیا تھا اور اب بھی کیا جا رہا ہے۔‘‘
سلمان نے پچھلے سال نومبر میں موبائل فون بیچنے والی ایک دکان کھولی تھی۔ ’’دیوالی کے دن تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’کچھ نیا شروع کرنے کا اچھا وقت تھا۔‘‘ لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے تک، وہ ہر مہینے ۲۰ ہزار روپے کا اچھا منافع بھی کما رہے تھے۔ جون میں، جب انہوں نے دکان کو دوبارہ کھولا، تو لوگ ان سے خریدنے میں ہچکچانے لگے، وہ کہتے ہیں۔ کورونا سے پہلے جو لوگ ان کے ساتھ کاروبار کرتے تھے، انہوں نے ان سے بات چیت بند کر دی۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا کہ انہوں نے کورونا وائرس کے دیگر مریضوں کے علاج میں مدد کرنے کے لیے اپنا پلازمہ عطیہ کیا تھا۔ ’’میں اپنی دکان پر دو ہفتے تک بیٹھا رہا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن کوئی بھی اس کے پاس نہیں آتا۔ میں بیکار بیٹھا رہتا، ٹریفک کو دیکھتا، اور شام کو گھر واپس آ جاتا تھا۔ دو ہفتے بعد، میں نے ہار مان لی۔ مجھے اپنی دکان بند کرنی پڑی۔‘‘
کور کا خاکہ: انترا رمن، سرشٹی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ، ڈیزائن اینڈ ٹیکنالوجی، بنگلورو سے وژول کمیونی کیشن میں حالیہ گریجویٹ ہیں۔ ان کی خاکہ نگاری اور ڈیزائن پریکٹس پر تصوراتی فن اور داستان گوئی کی تمام شکلوں کا سب سے زیادہ اثر ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز