دادا نے اُن کا نام پُلی رکھا تھا۔ تمل میں اس کا مطلب ’شیر‘ ہوتا ہے۔ ان کا یہ نام محنت کرنے کی ان کی بے پناہ صلاحیت کے سبب رکھا گیا تھا – اور آج بھی کے بانو متی، بندرگاہ پر اپنے اسی نام سے مشہور ہیں۔ اس سمندری ساحل پر وہ ۴۰ سال سے زیادہ عرصے سے کام کر رہی ہیں اور گزر بسر کے لیے مچھلیوں کے باقی بچے حصوں کو جمع کرنے، ان کی چھنٹائی کرنے اور پھر انہیں بیچنے کے کام پر منحصر ہیں۔ لیکن تمل ناڈو کے کڈلور کی مچھلیوں والی بندرگاہ پر کام کرنے والی پُلی اور دیگر خواتین کو سرکاری اسکیموں کی لازمی شرطوں کی وجہ سے مزدوروں کا درجہ نہیں ملا ہے، اور اسی لیے انہیں سرکار کی طرف سے فراہم کیا جانے والا کسی قسم کا سماجی یا مالی تحفظ بھی حاصل نہیں ہے۔
اب تقریباً ۷۵ سال کی ہو چکی پُلی بتاتی ہیں، ’’میں جب یہاں آئی تھی، تب میری عمر تقریباً ۳۵ سال رہی ہوگی۔ پھر میں نے مچھلیوں کی نیلامی کا کام شروع کر دیا۔‘‘ شہر کے مشرق میں آباد کڈلور اولڈ ٹاؤن بندرگاہ پر، نیلامی کرنے والے کارکن مچھلیوں کی کشتیوں کے ساحل پر پہنچنے پر تاجروں کی طرف سے بولی لگانے کا کام کرتے ہیں۔ کل فروخت کا ۱۰ فیصد انہیں بطور کمیشن حاصل ہوتا ہے، بشرطیکہ انہوں نے کشتی میں اپنا پیسہ بھی لگایا ہو۔ تقریباً ۲۰ سال پہلے تک، یہ کمیشن پانچ فیصد تھا۔ پُلی جب برسوں پہلے اس بندرگاہ پر آئی تھیں، تب ان کے رشتہ داروں نے انہیں اس کام کے بارے میں بتایا تھا، اور دو کشتیوں میں پونجی لگانے کے لیے انہیں ۵۰ ہزار روپے قرض بھی دیے تھے۔ بعد میں اس قرض کو انہوں نے روزانہ گھنٹوں محنت کرکے لوٹا دیا۔ عمر بڑھنے کے بعد پُلی نے نیلامی کا کام بند کردیا اور یہ کام اپنی بیٹی کو سونپ دیا۔
بندرگاہ کی گہماگہمی میں کئی آوازیں ایک ساتھ سنی جا سکتی ہیں – بولی لگانے کے لیے للکارتے کمیشن خور، مچھلیوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتے تاجر، پکڑی گئی مچھلیوں کے انبار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر پہنچاتے قلی، برف کو چھوٹے ٹکڑوں میں توڑتی مشینیں، آتی جاتی لاریاں، اور مول بھاؤ کرتے چھوٹے کاروباری وغیرہ۔ یہ کڈلور ضلع میں مچھلیوں کی ایک چھوٹی سی بندرگاہ ہے، جس کا استعمال پُلی کے گاؤں، سوتی کُپّم کے ساتھ ساتھ پڑوس کے چار اور ماہی گیروں کے گاؤوں بھی کرتے ہیں۔ دس سال پہلے سینٹرل مرین فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں درج اعداد و شمار کے مطابق، ان پانچ گاؤوں میں مشین سے چلنے والی کل ۲۵۶ اور موٹر سے چلنے والی ۸۲۲ کشتیاں ہیں۔ (حالیہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔)
کھال، سر اور پونچھ، اور مچھلیوں کے باقی بچے دیگر حصوں کو جمع کرنے اور فروخت کرنے کے اپنے کام کا حوالہ دیتی ہوئی پُلی کہتی ہیں، ’’میں نے کلار بیچنے کا کام بھی تب سے ہی شروع کیا تھا، جب سے میں بندرگاہ پر آئی تھی۔‘‘ ان باقی ماندہ حصوں میں سیپیاں، گھونگھے، اسکڈ، اور چھوٹی مچھلیاں شامل ہوتی ہیں۔ ان باقیات کو تمل میں ’ کلیوو مین‘ اور عام بول چال میں ’ کلار‘ کہتے ہیں۔ پُلی، بندرگاہ پر مچھلیوں کے باقی بچے حصوں کو چننے اور انہیں مرغیوں کا چارہ بنانے والوں کو بیچنے کا کام کرنے والی دس عورتوں میں سے ایک ہیں۔ مرغیوں کا چارہ تیار کرنے کا کام، پاس کے نامکّل جیسے ضلعوں میں ایک بڑی صنعت ہے۔ جب انہوں نے کام شروع کیا تھا، اس وقت کلار کی قیمت ۷ روپے فی کلو تھی۔ اب، بقول پُلی، یہ قیمت مچھلیوں کے لیے ۳۰ روپے فی کلو، اس کے سر والے حصہ کے لیے ۲۳ روپے فی کلو، اور کیکڑے کے کلار کے لیے ۱۲ روپے فی کلو ہو گئی ہے۔
پُلی جب ۱۶ سال کی تھیں، تب ان کی شادی ناگ پٹینم کے ایک ماہی گیر کے ساتھ کر دی گئی تھی۔ دونوں کے چار بچے بھی ہوئے، لیکن ان کا شوہر، کپوسامی انہیں مارتا پیٹتا تھا۔ اس لیے، ان کے شوہر، جو کہ سوتی کپم میں پنچایتی سطح پر ایک لیڈر تھے، نے انہیں بچوں کو لے کر گھر لوٹ آنے کے لیے کہا۔ اس کے تین سال بعد ہی پُلی کی ماں چل بسیں۔ وہ بھی گزر بسر کے لیے مچھلیوں کی نیلامی کا کام کرتی تھیں۔ پُلی بتاتی ہیں، ’’اس کے بعد میرے رشتہ داروں نے مجھے یہ کام شروع کرنے کے لیے کہا۔ بچوں کی پرورش کرنے کے لیے مجھے بھی پیسوں کی ضرورت تھی۔‘‘
وہ بندرگاہ پر صبح ۴ بجے سے لے کر شام کے ۶ بجے تک رہتی ہیں – اور مچھلیوں کی ان باقیات میں نمک ملانے کے کام سے لے کر اس کی پیکنگ اور فروخت کے کاموں میں مصروف رہتی ہیں۔ پہلے دن کلار میں نمک ملایا جاتا ہے، تاکہ اس کی بدبو کو کم کیا جا سکے۔ دوسرے دن اسے خشک کرکے جالی دار بیگ میں اس کی پیکنگ کی جاتی ہے، جنہیں وہ بندرگاہ پر ہی ۴ روپے ایک پیس کے حساب سے خریدتی ہیں۔ وہ جوٹ کی بنی، نمک کی بوریوں کا بھی دوبارہ استعمال کرتی ہیں، جنہیں وہ ۱۵ روپے ایک پیس کے حساب سے خریدتی ہیں۔
پُلی بتاتی ہیں کہ کلار سے بھری ایک بوری کا وزن ۲۵ کلوگرام ہوتا ہے۔ پہلے وہ ہفتے میں ۵-۴ بوریاں فروخت کر لیتی تھیں، لیکن کووڈ۔۱۹ وبائی مرض اور رِنگ سین جالیوں (مچھلیاں پکڑنے کا جال) پر پابندی لگائے جانے کے بعد سے مچھلیاں اب کم پکڑی جا رہی ہیں، اور پُلی کے کاروبار میں بھی کافی کمی آئی ہے۔ اب وہ بمشکل نامکل کے خریداروں کو ہفتے میں دو بوریاں ہی فروخت کر پاتی ہیں، جس سے ہر ہفتے انہیں تقریباً ۱۲۵۰ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔
کڈلور بندرگاہ پر عورتیں بولی لگانے سے لے کر بوجھ اٹھانے، مچھلیوں کو سُکھانے، اور کلار چھانٹنے جیسے سبھی کام کرتی ہیں، لیکن اپنی یومیہ کمائی کی غیر یقینی صورتحال کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ماہی گیروں کے ان گاؤوں کی زیادہ تر نوجوان عورتیں خود کو مچھلی پکڑنے کے کام سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔ نتیجتاً، بندرگاہ پر کام کرنے والی زیادہ تر عورتیں بزرگ ہی نظر آتی ہیں۔
پُلی کہتی ہیں، ’’ کلار کے عوض مجھے ایک بھی پیسہ نہیں دینا ہوتا ہے۔ میں اسے بندرگاہ پر مچھلی کاٹنے والی عورتوں سے اکٹھا کرتی ہوں۔‘‘ روزانہ صبح چار بجے سے وہ مچھلیوں کے چھوٹے کاروباریوں اور صارفین کی ضرورت کے مطابق، اس کی کھال اور آنتیں نکالنے والے دوسرے لوگوں سے باقیات کو جمع کرنے کے کام میں لگ جاتی ہیں۔ چونکہ پُلی کلار کے لیے پیسے نہیں دیتی ہیں، اس لیے کبھی کبھی وہ مچھلی بیچنے اور کاٹنے والوں کو کولڈ ڈرنگ خرید کر پلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں ان کی جگہ کی صفائی کرنے میں بھی مدد کرتی ہوں۔ میں ان کے ساتھ باتیں کرتی ہوں او ادھر ادھر کی گپ شپ بھی شیئر کرتی ہوں۔‘‘
کڈلور بندرگاہ پر کام کرنے والی عورتیں براہ راست مچھلیوں کے کاروبار اور پروسیسنگ کے ساتھ ساتھ، بالواسطہ طور پر اس تجارت اور تاجروں کے لیے ضروری برف کے ٹکڑے، پینے کے لیے چائے، اور مزدوروں کی بھوک مٹانے کے لیے پکی ہوئی غذائی اشیاء بیچنے جیسے کاموں میں بھی مصروف ہیں۔ قومی ماہی پروری پالیسی ۲۰۲۰ کے مطابق، ماہی پروری کی صنعت میں شامل محنت میں ۶۹ فیصد حصہ داری صرف عورتوں کی ہے۔ اگر بالواسطہ تجارت کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے، تو ماہی پروری بنیادی طور پر خواتین کی محنت پر منحصر رہنے والی صنعت ہے۔
سال ۲۰۲۰ کی یہ پالیسی، ماہی پروری کے شعبہ میں عورتوں کی حصہ داری کو بڑھانے کے مقصد سے کوآپریٹو اور ان کے لیے کام کے ماحول اور شرطوں کو موافق بنانے کی اسکیموں اور تقاضوں کو تسلیم کرتی ہے۔ بہرحال، بدقسمتی سے یہ تمام اسکیمیں عورتوں کی روزمرہ کی پریشانیوں سے نمٹنے کی بجائے ماہی گیری کی صنعت کو مشینی شکل عطا کرنے پر زیادہ مرکوز ہیں۔
مچھلیوں کے کاروبار میں لگی عورتوں کی مدد اور ان کے کردار کو فروغ دینے کے قدم اٹھانے کی بجائے ساحلی تبدیلیوں، سرمایہ کاری، اور برآمدات پر مرکوز پالیسی کی بنیاد پر انہیں اس کاروبار میں شراکت داری سے اور اس سے ملنے والے فائدے سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی اور پالیسیاں، اس شعبہ میں خواتین کے تعاون کو نظر انداز کرتی ہیں۔ عورتوں کو اس صنعت میں شامل ہونے دینے میں ایک بڑی رکاوٹ بڑے انفراسٹرکچر میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور ۱۹۷۲ میں قائم کردہ مرین پروڈکٹ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ہے، جس نے برآمدات میں اضافہ اور چھوٹی سطح پر ماہی پروری کو ترغیب دینے کا کام کیا ہے۔ سال ۲۰۰۴ میں سونامی آنے کے بعد یہ عمل مزید تیز ہو گیا ہے، کیوں کہ نئی کشتیوں اور اوزاروں میں زیادہ سرمایہ کاری ہونے لگی۔
وقت گزرنے کے ساتھ، زیادہ سے زیادہ تعداد میں عورتیں اس کاروبار سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، بلکہ باہر کی جا رہی ہیں۔ کڈلور بندرگاہ کی عورتوں کی یہ عام شکایت ہے کہ وہ مچھلی فروخت کرنے، کاٹنے، سُکھانے، اور بندرگاہ کی صاف صفائی کے کام سے دن بہ دن بے دخل کی جا رہی ہیں۔ کچھ ہی عورتیں مچھلی بیچنے کے کاموں میں ابھی بھی لگی ہوئی ہیں اور جنہیں سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے آئس باکس مہیا کرایا گیا ہے۔ اب کچھ ہی گاؤں اور شہروں کے بازاروں میں خاص ان کے لیے مختص جگہیں بچی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں مچھلی بیچنے کے لیے میلوں دور کی جگہ تک پیدل چل کر جانا پڑتا ہے۔
پُلی کہتی ہیں، ’’میں یہاں بندرگاہ کے قریب ہی ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتی ہوں، تاکہ اپنے کام کی جگہ سے زیادہ نزدیک رہوں۔‘‘ لیکن جب بارش ہوتی ہے، تب وہ اپنے بیٹے مُتو کے گھر پر رہنے، تقریباً تین کلومیٹر دور سوتی کپم چلی جاتی ہیں۔ ۵۸ سالہ متو جو خود بھی بندرگاہ کے مچھیرے ہیں، روز پُلی کو کھانا پہنچاتے ہیں۔ پُلی کو ہر مہینے بڑھاپے کی پنشن کے طور پر ۱۰۰۰ روپے بھی ملتے ہیں۔ پُلی مچھلی کے کام سے ہونے والی اپنی زیادہ تر کمائی اپنے بچوں – دو بیٹے اور دو بیٹیوں – کو دے دیتی ہیں۔ وہ سبھی ۴۰ اور ۶۰ سال کے درمیان کی عمر کے ہیں اور کڈلور ضلع میں ماہی گیری سے متعلق کام کرتے ہیں۔ پُلی گویا خود سے سوال کرتی، اور خود ہی اس کا جواب بھی دیتی ہیں، ’’مجھے اپنے ساتھ کیا لے جانا ہے؟ کچھ نہیں۔‘‘
یو دیویہ اوتیرن کے تعاون سے۔
مترجم: محمد قمر تبریز