کڈلور ضلع کے کنجم پیٹئی گاؤں سے تعلق رکھنے والی کلا کہتی ہیں، ’’مچھلی کاٹنے والی عورتوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
کلا (۶۰)، سنگرتوپے پُل کے نیچے بیٹھی ہیں۔ کنکریٹ اور دھات کا یہ پُل کڈلور کے پرانے شہر کی بندرگاہ پر بنا ہوا ہے۔ یہاں پر تقریباً ۳۰-۲۰ لوگ مچھلی کاٹنے اور بیچنے کے کام میں مصروف ہیں، اور یہ سبھی خواتین ہیں۔
اس ضلع کا ۵ء۵۷ کلومیٹر علاقہ سمندری ساحل سے گھرا ہوا ہے اور یہ بندرگاہ مال گوداموں، کوٹھیوں، دکانوں اور مچھلی پکڑنے والی کشتیوں سے بھری ہوئی ہے۔
کلا (وہ صرف اسی نام کا استعمال کرتی ہیں) کہتی ہیں، ’’بندرگاہ پر چونکہ اور بھی تاجر اور ٹرک آنے لگے تھے، تو ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں بچی تھی۔ ہمیں وہاں سے باہر دھکیل دیا گیا، اس لیے ہمیں اس پُل کے نیچے موجود عوامی جگہ پر آنا پڑا۔ بندرگاہ کے باہر [ہے یہ جگہ]۔
مچھلی کی خرید و فروخت، اسے کاٹنے، سُکھانے اور مچھلی کی باقیات کو بیچنے کا کام کرنے والی کلا جیسی عورتوں کو دھیرے دھیرے وہاں سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ پڑھیں: مچھلیوں کی باقیات پر گزارہ کرنے والی ’پُلی‘
یہاں کی زیادہ تر عورتیں مچھلی بیچنے کا کاروبار کرتی ہیں، لیکن جن عورتوں کے پاس پیسے نہیں ہیں اور جو جسمانی امراض میں مبتلا ہیں، ویسی عورتیں ان کاروباریوں کے پاس بیٹھ کر مچھلی کاٹنے اور اس کی صفائی کرنے کا کام کرتی ہیں۔
کلا بتاتی ہیں، ’’ہمیں مچھلی بیچنے والی عورتوں کے پاس بیٹھنا پڑتا ہے، کیوں کہ جو لوگ ان سے مچھلیاں خریدتے ہیں، وہ ہمیں ان مچھلیوں کو کاٹنے اور انہیں صاف کرنے کے لیے دیتے ہیں۔ اگر ہم وہاں نہیں بیٹھیں گے، تو ہمیں کوئی کام نہیں ملے گا۔‘‘
کڈلور بندرگاہ، اُپّنار اور پَرَونار ندیوں کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ دونوں ندیاں خلیج بنگال میں جا کر مل جاتی ہیں۔ اب اسے، ہندوستان کے ۷۵۰۰ کلومیٹر میں پھیلے ساحلی علاقے کی جدیدکاری اور ترقیات سے متعلق مرکزی حکومت کے ساگر مالا پروجیکٹ کے حصہ کے طور پر وسیع و جدید بنایا جا رہا ہے۔
اس قسم کے ترقیاتی پروجیکٹوں سے مچھلی کا کاروبار کرنے والی کلا جیسی عورتوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں کئی بار اپنی جگہ بدل چکی ہوں اور اب مجھے نہیں لگتا کہ میں مزید ایسا کر پاؤں گی۔‘‘ ان کا اشارہ کڈلور بندرگاہ کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے کام کی طرف ہے جس کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ اب وہاں پر خواتین ماہی گیروں، خاص کر مچھلی کاٹنے کا کام کرنے والی عورتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں بچے گی۔
جدید کڈلور بندرگاہ پر تیل کی ایک ریفائنری، تھرمل پاور پلانٹ اور دیگر صنعتیں لگائے جانے کی امید ہے، جو کہ پومپوہر کوسٹل اکنامک ژون (سی ای زیڈ) کا ایک حصہ ہے۔ سی ای زیڈ کا مطلب ہے کسی ایک ضلع یا ساحلی ضلعوں کے ایک گروپ کا وہ بڑا علاقہ جو اس خطہ کی بندرگاہوں سے مضبوطی سے جڑا ہوا ہو اور جس کا مقصد مال بردار ٹریفک میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گھریلو اور درآمدی و برآمدی سامانوں کی ڈھلائی کی لاگت کو کم کرنا ہے۔
*****
کلا کی پیدائش تمل ناڈو کے ناگ پٹینم ضلع میں، تیرومولئی وسل گاؤں میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کٹّومرم سے مچھلی پکڑ کر لاتے تھے اور ماں بازار میں مچھلیاں بیچتی تھیں۔ ۱۷ سال کی عمر میں شادی ہونے کے بعد کلا ساحل پر شمال کی طرف واقع اپنے شوہر کے گاؤں، کنجم پیٹئی آ گئیں، جو کڈلور شہر کے قریب ہے۔
کلا یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’میری ساس، مُنی امّا نے مجھے مچھلی بیچنے کا کام سکھایا۔ ہم دونوں، ساتھ مل کر کنجم پیٹئی کے بازار میں گاہکوں کو مچھلیاں بیچتے تھے۔‘‘ وہ نتھولی [اینکووی]، کوڈوا [بارامنڈی]، سورا [شارک]، کیرا [ٹونا] وغیرہ جیسی جو بھی مچھلیاں مل جاتیں، انہیں بازار میں فروخت کیا کرتی تھیں۔
مُنی امّا کی طبیعت دھیرے دھیرے خراب ہونے لگی اور تقریباً دو دہائی قبل ان کا انتقال ہو گیا، جب کہ کلا آج بھی اپنے اس کام کو جاری رکھے ہوئی ہیں۔ کلا اور ان کے شوہر، رمن، کے چار بچے ہیں – دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ کلا اور ان کی فیملی کا تعلق پٹّن وَر کمیونٹی سے ہے، جو تمل ناڈو کے سب سے پس ماندہ طبقات (ایم بی سی) میں شامل ہے۔
سال ۲۰۰۱ میں، کلا کو پتہ چلا کہ انہیں دل کی بیماری ہے۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’مجھے سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی اور خود کو ہمیشہ تھکا ہوا محسوس کرتی تھی۔‘‘ اس کی وجہ وہ ۲۰ سے ۲۵ کلو مچھلی روزانہ ڈھونے کو بتاتی ہیں – جسے وہ اپنے سر پر اٹھا کر پہلے بندرگاہ سے بازار لے جاتیں، اور پھر وہاں سے گلیوں میں لے جا کر بیچتی تھیں۔ اسی سال، سمندر میں خراب موسم کے دوران مچھلی پکڑتے وقت ان کے ۴۵ سالہ شوہر، رمن کی موت ہو گئی۔
وہ یاد کرتی ہیں، ’’بہت مشکل دور سے گزرنا پڑا۔‘‘ سال ۲۰۰۵ میں گرنے کی وجہ سے جب ان کی ٹانگ زخمی ہو گئی، تو ان کے لیے حالات مزید خراب ہوتے چلے گئے۔ ایک طرف دل کی بیماری اور دوسری طرف ٹانگ کا زخم، ان دونوں نے ان کے لیے سر پر مچھلی لاد کر لمبی دوری طے کرنا کافی مشکل بنا دیا اور اسی لیے وہ کہتی ہیں، ’’میں نے بندرگاہ پر مچھلی کاٹنے کا کام کرنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
کلا نے ایک ساہوکار سے چار فیصد شرح سود پر ۲۰ ہزار روپے قرض لیے۔ اس پیسے میں سے انہوں نے ۸۰۰ روپے میں ایک ہنسوا، ۴۰۰ روپے میں ایک چاقو اور ۲۰۰ روپے میں ایک کرسی خریدی۔ باقی پیسہ انہوں نے گھر کے اخراجات میں لگایا اور وہ ابھی تک اس قرض کو چکا رہی ہیں۔
ریاستی پالیسیوں میں ان عورتوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جو مچھلی بیچنے کے کاروبار اور اس کی مارکیٹنگ میں مصروف نہیں ہیں۔ مچھلی کاٹنے کا کام کرنے والی کلا جیسی عورتوں کو سمندر میں ماہی گیری سے متعلق قومی پالیسی ۲۰۱۷ میں ضرور تسلیم کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ’’ماہی گیری کے شعبہ میں مچھلی پکڑنے کے بعد کی سرگرمیوں سے وابستہ کل افرادی قوت میں خواتین کی حصہ داری ۶۶ فیصد سے زیادہ ہے۔ گھر کو سنبھالنے کے علاوہ، عورتیں مچھلی کی خرید و فروخت، مچھلیوں کو سُکھانے اور دیگر متعلقہ کاموں میں اہم رول نبھاتی ہیں۔‘‘
افسوس کی بات یہ ہے کہ ان پالیسیوں کا نتیجہ زمینی سطح پر بہت کم دکھائی دیتا ہے۔
*****
اب کلا ایک کلو مچھلی صاف کرنے کے ۲۰ روپے اور اتنا ہی جھینگا صاف کرنے کے ۳۰ روپے لیتی ہیں، اور اس طرح ایک دن میں ۵۰۰ روپے کما لیتی ہیں۔ اس سے پہلے، وہ مچھلی بیچنے کا کام کرکے دو گنا کما لیتی تھیں، جو کہ موسم اور مچھلیوں کی دستیابی پر منحصر ہوا کرتا تھا۔
وہ سویرے ہی اٹھ جاتی ہیں اور بندرگاہ کے قریب بنے اس پل پر صبح کے ۴ بجے پہنچ جاتی ہیں۔ وہاں ۱۳ گھنٹے کام کرنے کے بعد، وہ شام کے ۵ بجے اپنے گھر لوٹتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’صبح کے وقت کافی گہما گہمی ہوتی ہے جب گاہک اور کچھ چھوٹے ہوٹل چلانے والے لوگ مچھلیاں خریدنے آتے ہیں اور اسے کٹواتے اور صاف کرواتے ہیں۔‘‘ شام کو جا کر انہیں تھوڑا آرام کرنے کا وقت ملتا ہے، جب کلا رات کا کھانا بناتے وقت ٹی وی پر ڈرامے دیکھتی ہیں۔
سال ۲۰۱۸ میں، جب مچھلیوں کی افزائش میں لگاتار کمی اور سمندری آب و ہوا کے خراب ہونے کی وجہ سے رنگ سین جال پر پابندی لگا دی گئی، تو کلا کی روزی روٹی مزید خطرے میں پڑ گئی۔ اس پابندی کی وجہ سے بہت سے مرد و خواتین کا ذریعہ معاش چھن گیا؛ کئی عورتوں کو مچھلی کاٹنے کا کام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے بعد نئے لوگ مچھلی کاٹنے کے کام سے جڑنے لگے۔ پہلے، یہ کام زیادہ تر پٹّن وَر کمیونٹی کی عورتیں ہی کیا کرتی تھیں۔ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب کام کے مواقع کم ہونے لگے، تو دیگر پس ماندہ طبقات (او بی سی) اور درج فہرست ذات (ایس سی) جیسی برادریوں کی عورتیں بھی یہاں کے لیبر مارکیٹ میں آ گئیں اور بندرگاہ پر ماہی گیری سے جڑے کام تلاش کرنے لگیں۔ کلا کہتی ہیں، ’’اس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو گئے۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں، ’’ہمارا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ لیکن ہم نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ جب تک جسم میں طاقت ہے، میں یہ کام کرتی رہوں گی۔ مجھے اپنے علاوہ اپنے دو پوتے پوتیوں کا بھی خیال رکھنا ہے۔ میں ابھی ہار ماننے والی نہیں ہوں۔‘‘
سنگیتا دھرم راجن اور یو دِویوتیرن کے تعاون سے۔
مترجم: محمد قمر تبریز