جولائی سے نومبر ۲۰۱۷ تک، ودربھ کے کپاس پیدا کرنے والے ضلع، خاص طور سے یوت مال، میں دیکھنے کو ملا کہ گھبراہٹ، چکر آنا، نظر نہ آنا اور پیٹ میں درد کی شکایت کے ساتھ لوگ اچانک بھاری تعداد میں اسپتالوں میں بھرتی ہونے لگے۔ وہ سبھی کپاس کی کھیتی کرنے والے کسان یا مزدور تھے، جو اپنے کھیتوں میں حشرہ کش ادویات کو چھڑکتے وقت زہر کے رابطہ میں آئے تھے۔ کم از کم ۵۰ کی موت ہو گئی، ایک ہزار سے زیادہ بیمار ہو گئے، کچھ تو مہینوں کے لیے۔ اس تباہی نے کپاس اور سویابین کی فصلوں پر حشرہ کش کے بے لگام اور بے انتہا استعمال کی پول کھول دی، جس سے ودربھ کے زرعی نظام پر دور رس اثر پڑے گا۔
تین حصوں پر مشتمل اس سیریز کی پہلی اسٹوری میں، پاری یہ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس مدت میں اس علاقے میں کیا ہوا اور مہاراشٹر حکومت کے ذریعہ تشکیل کردہ خصوصی جانچ ٹیم نے کیا پایا۔
آگے کی رپورٹ میں، ہم اس بڑی کہانی کا پتہ لگائیں گے کہ ودربھ میں اتنی مقدار میں حشرہ کش کی کھپت کیوں ہو رہی ہے۔ اور بی ٹی کاٹن – جینیاتی طور پر ایک ترمیم شدہ جنس جس کا دعویٰ ہے کہ اس پر کیڑوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا – پر پرانے کیڑوں نے کیوں حملہ کر دیا۔ دراصل، گلابی رنگ کے کیڑے انتقام کے ساتھ واپس آ گئے ہیں۔ انھوں نے بھاری تباہی مچائی ہے۔
*****
نام دیو سویم پریشان تھے، دھیرے دھیرے چل رہے تھے، سوالوں کا جواب جھجھکتے ہوئے دے رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا کہ بہت دور سے دے رہے ہوں۔ ان کی بیوی ونیتا نے انھیں دور سے خاموشی سے دیکھا۔ ’’وہ صدمے میں ہیں،‘‘ ان کے ایک رشتہ دار نے دھیرے سے کہا۔
فیملی ارکان سے بھرے گھر میں وہ منڈے ہوئے سر اور پیشانی پر تلک لگائے بیٹھے تھے اور ان کی سرخ آنکھیں خوفزدہ نظر آ رہی تھیں۔ ان کی بزرگ ماں اور والد، جن کے دونوں پیر بہت پہلے کاٹ دیے گئے تھے، ۲۵ سالہ نام دیو کے پیچھے بیٹھے تھے، اور ان کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں۔ ان کے مہمانوں نے، جن میں سے زیادہ تر رشتہ دار اور گاؤں والے تھے، تھوڑی دیر پہلے ہی دوپہر کا کھانا کھا کر اٹھے تھے – لیکن ہر کوئی خاموش تھا۔
نام دیو کے بغل میں پلاسٹک کی ایک کرسی پر، ان کے گھر کی پھوس والی چھت کے نیچے، ایک جوان آدمی کی نئی فریم لگی تصویر رکھی ہوئی تھی، جس پر گیندا اور گلابوں کی مالا چھڑی ہوئی تھی۔ پنکھڑیاں چاروں طرف بکھری ہوئی تھیں۔ اگربتیوں کو جلا کر فریم کے پاس رکھا گیا گیا تھا۔
یہ تصویر اس تباہکاری کا اعلان کر رہی تھی، جو کہ تیمبھی میں پردھان آدیواسیوں کے زرعی گھروں پر پڑی تھی۔ یہ گاؤں مہاراشٹر کے یوت مال ضلع کی کیلا پور تحصیل میں، کپاس کاروبار کے شہر، پنڈھار کوڑا سے ۴۰ کلومیٹر جنوب میں ہے۔
پروین سویم (عمر صرف ۲۳ سال) کی موت ہوئے، ۲۷ ستمبر کی دیر رات کو ۴۸ گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے۔ ہم ۲۹ ستمبر، ۲۰۱۷ کو دشہرہ تہوار سے ایک دن پہلے ان کے گھر پہنچے تھے۔
پروین نام دیو کے چھوٹے بھائی تھے – اور ان کے دوست بھی۔ یہ (نام دیو) بھی آسانی سے موت کے شکار ہو سکتے تھے، غم زدہ بھیڑ میں سے کسی نے زور سے کہا۔ چونکہ نام دیو بیمار تھے، اس لیے ان کے والد نے ان کی جگہ پروین کو ان کی موت سے دو دن پہلے ہی حشرہ کش کا چھڑکاؤ کرنے کے لیے کھیت میں بھیجا تھا۔ ’’پیر کا دن تھا، تاریخ تھی ۲۵ ستمبر،‘‘ ان کے والد بھاؤراو نے ہمیں بتایا۔ نام دیو کے مقابلے پروین زیادہ صحت مند تھا، انھوں نے پروین کی مالا چڑھی تصویر کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’انھوں نے کیا چھڑکاؤ کیا تھا؟‘‘ ہم نے سوال کیا۔ نام دیو کھڑے ہوئے، اپنے گھر کے اندر گئے، اور مختلف حشرہ کش کے تھیلے اور ڈبوں کے ساتھ باہر نکلے: اَسٹاف، روبی، پولو، پروفیکس سپر، اور مونوکروٹو فوس۔ انھوں نے پلاسٹک کی جس کرسی پر پروین کا اے۔۴ سائز والا فوٹو فریم رکھا ہوا تھا، اس کے بغل میں، دالان کے کچے فرش پر ان سامانوں کو لا کر رکھ دیا۔
’’یہ کس لیے ہیں؟‘‘ ہم نے پھر پوچھا۔ نام دیو نے خاموشی سے ہماری طرف دیکھا۔ ’’کس نے آپ کو اسے استعمال کرنے کے لیے کہا تھا؟‘‘ وہ پھر خاموش تھے۔ ان کے والد نے کہا کہ پنڈھار کوڑا کا وہ ڈیلر، جو بیج، کھاد اور دیگر سامان بیچتا ہے، اس نے انھیں کھیتوں پر چھڑکاؤ کرنے میں استعمال کرنے کے لیے کہا تھا۔ اس فیملی کے پاس ۱۵ ایکڑ زمین ہے، جو پوری طرح سے بارش پر منحصر ہے، جس پر وہ عام طور سے کپاس اُگاتے ہیں، اور کچھ سویابین، مسور اور جوار بھی۔
حشرہ کش کا کاک ٹیل، پانی سے بھرے پلاسٹک کے ایک بڑے نیلے ڈرم میں ملایا گیا، جسے پروین نے اس حبس بھرے دن میں چھڑکا تھا، مہلک ثابت ہوا۔ ان کی موت حشرہ کش کو پینے سے نہیں ہوئی، بلکہ ان میں حادثاتی طور پر سانس لینے سے ہوئی تھی، جس کا چھڑکاؤ وہ فیملی کی فصلوں پر کر رہے تھے۔ کسان اپنے کھیتوں پر کیڑوں کے اچانک حملے کے بعد اس کا چھڑکاؤ کر رہے تھے۔
پروین کی اچانک موت سے جہاں ان کی فیملی صدمے میں تھی، وہیں ودربھ حشرہ کش سے ہونے والی تباہی کا سامنا کر رہا تھا۔
*****
یوت مال اور مغربی ودربھ کے دیگر حصوں میں، ستمبر سے نومبر ۲۰۱۷ کے درمیان تقریباً ۵۰ کسانوں کی موت ہوئی، اور ایک ہزار سے زیادہ بیمار پڑ گئے۔ (یہ اعداد و شمار ریاستی حکومت کے ذریعہ سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں سے جمع کیے گئے تھے۔) کچھ نے اپنی بینائی کھو دی، لیکن حشرہ کش کے کاک ٹیل کے اچانک رابطہ میں آنے یا سانس لینے کے بعد مرنے سے بچ گئے۔
صحت اور ضلع انتظامیہ اس بحران پر ردِ عمل دکھانے کے معاملے میں افسوسناک طور پر دھیمی تھی، لیکن اس کے پھیلاؤ اور سنگینی نے آخرکار سرکار کو اس معاملے کی جانچ کے لیے خصوصی جانچ ٹیم کی تشکیل کرنے کے لیے مجبور کر دیا (دیکھیں کیڑوں کے حملے پر ایس آئی ٹی رپورٹ )۔
یوت مال میں، ان تین مہینوں میں، سرکاری اور پرائیویٹ دونوں اسپتالوں میں بھاری تعداد میں کسان بھرتی ہوئے، ان کی شکایتیں تھیں آنکھوں سے دکھائی نہ دینا، اعصابی نظام کا کام نہ کرنا، سانس لینے میں پریشانی، وغیرہ (دیکھیں یوت مال میں دھواں اور خوف )۔
’’یہ بہت ہی غیر معمولی واقعہ ہے اور ایسا میں نے کبھی نہیں دیکھا ہے،‘‘ یوت مال کے وسنت راو نائک گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ ہاسپیٹل (جی ایم سی ایچ) کے ڈین، ڈاکٹر اشوک راٹھوڑ نے کہا۔ ’’ہم نے پہلی بار جولائی کے آخری ہفتہ میں ایسے مریضوں میں اچانک اضافہ دیکھا تھا،‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’وہ سبھی پریشان تھے، متلی، چکر آنا، گھبراہٹ، سانس لینے میں پریشانی، اچانک بینائی کا چلا جانا، گھبراہٹ جیسی شکایتوں کے ساتھ یہاں آئے تھے۔‘‘ ضلع اسپتال کے تین وارڈ – ۱۲، ۱۸ اور ۱۹ – زہریلے چھڑکاؤ سے بیمار ہونے والے کسانوں اور مزدوروں سے بھر گئے تھے۔
ڈاکٹر راٹھوڑ نے بتایا کہ جولائی ۲۰۱۷ میں، ۴۱ مریض جی ایم سی ایچ میں آئے۔ یہ تعداد اگست میں ۱۱۱ ہو گئی، لیکن ستمبر میں ۳۰۰ سے زیادہ مریض بھرتی ہو گئے – ان میں سے سبھی کی ایک جیسی شکایتیں تھیں۔ یہ بحران اکتوبر اور نومبر میں بھی جاری رہا، جب اکیلے یوت مال ضلع کے مختلف اسپتالوں میں ایک ہزار سے زیادہ کسانوں کو بھرتی کرایا گیا۔ اکولا، امراوتی، ناگپور، وردھا اور واشم ضلعوں سے بھی اسی طرح کی شکایتیں ملیں۔
ریاست کے زرعی اہلکار پریشان تھے۔ یہی حال محکمہ صحت کے اہلکاروں کا بھی تھا۔ اس بحران کے تئیں فوری ردِ عمل دکھانے میں ناکام رہے ڈاکٹر راٹھوڑ کو ریاستی حکومت نے زبردستی چھٹی پر بھیج دیا، اور سرکاری میڈیکل کالج اور اسپتال، ناگپور کے فورنسک محکمہ کے صدر ڈاکٹر منیش شری گریوار کو جی ایم سی ایچ کا نیا کارگزار ڈین بنا دیا۔
سردیوں کے شروع ہونے کے ساتھ، نومبر کے اخیر تک معاملوں میں گراوٹ آئی اور کسانوں نے ڈر کے مارے حشرہ کش دواؤں کا چھڑکاؤ کرنے سے پوری طرح منع کر دیا۔ لیکن تب تک، کافی نقصان ہو چکا تھا – انسانوں کا اور کپاس کی فصل کا، جس پر کیڑوں نے ایک انوکھا حملہ کر دیا تھا۔
*****
جس کھیت پر ۲۱ سالہ نکیش سالانہ ٹھیکہ پر کام کرتا ہے، وہاں حشرہ کش کا چھڑکاؤ کرنے کے ٹھیک ساتویں دن وہ، اکتوبر کے پہلے ہفتہ میں دوپہر کے وقت زمین پر گر گیا۔
’’میرا سر بہت بھاری تھا، میں کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا تھا،‘‘ یوت مال شہر کے جی ایم سی ایچ کی انتہائی نگہداشت اکائی (آئی سی یو) میں بیماری سے صحت یاب ہوتے انھوں نے وسط اکتوبر میں کہا، ان کے والدین پاس ہی تناؤ کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’ہم اسے اسی شام کو اسپتال لے گئے،‘‘ ان کے بھائی لکشمن نے بتایا۔ اس سے مدد ملی۔ تھوڑی سی بھی دیری مہلک ثابت ہو سکتی تھی۔ نکیش، جنہوں نے دوبارہ کبھی حشرہ کش نہ چھڑکنے کا عزم کیا، کے عضلات اکڑ گئے تھے۔ وہ خطرے سے باہر تھے – لیکن آئی سی یو میں اُن نو مریضوں سے گھرے ہونے کے سبب خوفزدہ تھے، جو وہاں اپنی زندگی کی لڑائی لڑ رہے تھے۔ ہم نے جس وقت ان سے بات کی، تب وہ آئی سی یو میں ایک ہفتہ سے بھرتی تھے۔
انھوں نے چین کے ذریعہ تیار کردہ بیٹری سے چلنے والے اسپرے پمپ کا استعمال کیا تھا – جو چھڑکاؤ کو آسان اور تیز بناتا ہے – اور ساتھ ہی زیادہ خطرناک بھی۔ ’’اس پمپ سے آپ کم وقت میں زیادہ چھڑکاؤ کرتے ہیں،‘‘ نکیش نے بتایا۔
کتھانے فیملی یوت مال شہر سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور، رالیگاؤں تحصیل کے دہے گاؤں سے ہیں۔ لکشمن نے بتایا کہ اسی گاؤں کے پانچ اور مریض اسپتال کے دیگر وارڈوں میں بھرتی ہیں؛ ان کی حالت نازک نہیں تھی، لیکن وہ بھی زہر کے اثرات کو جھیل رہے تھے۔
اسپتال کے وارڈ ۱۸ میں اندر راٹھوڑ (۲۹) بھرتی تھے، جو دیگراس تحصیل کے وڈگاؤں کے ایک کسان ہیں، جن کی فیملی کے پاس چار ایکڑ زمین ہے۔ وہ اسپتال میں تقریباً ۱۰ دنوں سے بھرتی تھے، ان کے چھوٹے بھائی انل نے ہمیں بتایا، اور وہ ابھی بھی پریشان تھے۔
خوف و دہشت کا ماحول نہ صرف اس بھیڑ والے اسپتال کے وارڈوں میں تھا، بلکہ ضلع بھر کا یہی حال تھا۔
اس رپورٹر نے ستمبر سے نومبر ۲۰۱۷ کے درمیان جن کسانوں سے بات کی، ان سبھی نے ڈر سے حشرہ کش کا چھڑکاؤ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ منولی گاؤں کے نارائن کوٹ رنگے نے بھی یہی کیا، جب انھیں گاؤں کے ہی ایک دوسرے شخص سے پٹہ پر لی گئی ۱۰ ایکڑ زمین پر ایک دن پروفیکش سپر چھڑکنے کے بعد چکر آنے لگا۔ ’’میں پہلے ہی نو چھڑکاؤ کر چکا تھا،‘‘ انھوں نے کہا، ’’اور دسویں بار، میں نے رک جانے کا فیصلہ کیا؛ میں اگلے پورے ایک ہفتہ تک کام نہیں کر سکا، میں بیمار تھا۔‘‘
ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی ایسا آدمی تھا، جو چھڑکاؤ کے بعد بیمار ہوا۔ ’’مریضوں کے خون کی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ زہر نے ان کے اعصابی نظام کو متاثر کیا ہے،‘‘ آئی سی یو میں نکھل اور دیگر مریضوں کا علاج کرنے والے ایک جونیئر رہائشی ڈاکٹر پراگ منپے نے بتایا۔ انھوں نے کہا کہ اثر ویسا ہی تھا جیسا زہر کھانے سے ہوتا ہے، لیکن اس کا علاج مشکل تھا کیوں کہ زہر کے نشان کو ہٹانے کے لیے ’پیٹ دھونا‘ ممکن نہیں تھا – دھوئیں میں سانس لینے کے سبب سانس کا نظام سیدھے متاثر ہوا تھا، انھوں نے سمجھایا۔
اسپتال میں بھرتی کیے گئے کسانوں کی گواہی دو وسیع رجحانوں کی طرف اشارہ کرتی ہے: پاؤڈر کی شکل میں بنائے گئے ایک مخصوص حشرہ کش کا جن لوگوں نے استعمال کیا تھا، انھیں آنکھوں سے دیکھنے میں دقت آنے لگی۔ اور جن لوگوں نے اس سے ایک مخصوص سیال تیار کیا تھا، ان کا اعصابی نظام خراب ہو گیا۔
انھیں بنانے میں، مختلف فصلوں پر کیڑوں کے حملے کے خلاف استعمال کے لیے متعینہ پروفینوفوس (ایک آرگینو فاسفیٹ)، سائپر میتھرن (ایک سنتھیٹک پائریتھرائڈ) اور ڈائفین تھیوران کا آمیزہ استعمال کیا جاتا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ایک ساتھ مل کر وہ ایک مہلک آمیزہ بناتے ہیں، جس میں کسی شخص کو مارنے کی پوری صلاحیت ہوتی ہے۔
*****
تیمبھی گاؤں میں سویم کی فیملی میں، پروین کی صحت دھیرے دھیرے خراب ہوئی۔ سب سے پہلے انھوں نے سینے کے درد کی شکایت کی، پھر اُلٹی اور متلی، اور اس کے بعد گھبراہٹ کی۔ چوبیس گھنٹے کے اندر ان کی حالت نازک ہو گئی۔ ان کی موت ایک دن بعد ہوئی، پانڈھر کوڑا کے ایک چھوٹے اسپتال میں پہنچنے کے تین گھنٹے بعد۔ دو دنوں کے اندر ہی سب ختم ہو گیا۔
اسپتال کے ڈاکٹروں نے اندازہ لگایا کہ چھڑکاؤ کے دوران پروین نے معقول حفاظتی احتیاط نہیں برتا تھا، اور زہر کے رابطہ میں آنے سے ان کی موت ہوئی۔ اس علاقے میں کوئی بھی، مہلک حشرہ کش کا چھڑکاؤ کرتے وقت دستانے، ماسک اور جسم کو بچانے والے کپڑے نہیں پہنتا ہے۔
’’میں نے ان سے کپاس کے پودوں پر چھڑکاؤ پورا کرنے کے لیے کہا، کیوں کہ نام دیو بیمار پڑ گئے تھے،‘‘ بھاؤ راو نے کہا۔ اس سال، اپنے گاؤں اور علاقہ کے دیگر کسانوں کی طرح، سویم نے جولائی ۲۰۱۷ سے اپنی فصلوں پر کیڑوں کے حملوں کو دیکھا تھا، جس کی وجہ سے انھیں حشرہ کش کے مختلف آمیزوں کا کئی بار استعمال کرنا پڑا۔
چھڑکاؤ کے بعد، پروین نے کمزوری کی شکایت کی، لیکن ڈاکٹر کو دکھانے سے انکار کر دیا ۔ ’’ہم نے سوچا کہ یہ گرمی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ موسم حبس بھرا تھا اور سال کے اس وقت ہمارے گاؤں میں بخار بہت عام ہے،‘‘ بھاؤ راو نے بتایا۔ اگلی شام کو جب پروین کی حالت خراب ہو گئی، تو نام دیو اور ان کی ماں بیبی بائی انھیں اگلے گاؤں کے پرائمری ہیلتھ سنٹر لے گئے۔ وہاں کے ایک ڈاکٹر نے، ایمرجنسی کو بھانپتے ہوئے، انھیں ۴۰ کلومیٹر دور پانڈھر کوڑا اسپتال بھیج دیا۔
وہ شام کو ۷ بجے کے آس پاس اسپتال پہنچے، بیبی بائی نے بتایا۔ نوجوان پروین کی موت ۱۰ بجے رات میں ہوئی۔ ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کہتی ہے: ’’آرگینوفاسفیٹ زہر کی وجہ سے موت۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)