جب پہلی دفعہ ۱۸ سالہ سُمِت (تبدیل شدہ نام) ہریانہ کے روہتک کے ایک سرکاری ضلع ہسپتال میں سینے کو دوبارہ ترتیب دینے کی سرجری سے متعلق جانکاری کے لیے گئے، تو انہیں بتایا گیا کہ انہیں برن یعنی جلے ہوئے مریض کے طور پر داخل ہونا پڑے گا۔

یہ ایک ایسا جھوٹ ہے، جسے لال فیتہ شاہی سے نمٹنے کے لیے ہندوستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو پیدائشی جسم سے اپنی پسند کے جسم (جس میں وہ سکون محسوس کرتے ہیں) میں منتقل ہونے کے پیچیدہ طبی اور قانونی سفر کے دوران بولنا پڑتا ہے۔ پھر بھی، یہ جھوٹ کام نہیں آیا۔

روہتک سے ۱۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع حصار کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ’ٹاپ سرجری‘ (جیسا کہ مقامی طور پر سینے کی سرجری کو موسوم کیا جاتا ہے) کے عمل سے قبل سُمِت کو کاغذی کارروائی، لامتناہی نفسیاتی جائزے، اور طبی مشورے میں آٹھ سال لگ گئے۔ سرجری کے عمل میں ایک لاکھ روپے خرچ ہوئے (جس میں قرضے بھی شامل تھے)، اور انہیں کشیدہ خاندانی تعلقات اور سابقہ چھاتیوں کی مسلسل ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا۔

سرجری کے ڈیڑھ سال بعد بھی، ۲۶ سالہ سُمِت اپنے کندھوں کو جھکا کر چلتے ہیں۔ یہ ان کی سرجری سے قبل کے دنوں کی عادت ہے، جب ان کی چھاتیاں ان کے لیے شرم اور بے چینی کا سبب تھیں۔

ہندوستان میں سُمِت جیسے کتنے لوگ ہیں، جو پیدائش کے وقت تفویض کردہ جنس سے خود کو مختلف شناخت کرتے ہیں، اس کے کوئی تازہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ قومی حقوق انسانی کمیشن کے تعاون سے کی گئی ایک تحقیق مطابق، ۲۰۱۷ میں ہندوستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعداد ۸۸ء۴ لاکھ تھی۔

سال ۲۰۱۴ کے نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے میں ’’تیسری صنف‘‘ اور ان کی ’’ذاتی طور پر تعین کردہ‘‘ صنف کے ساتھ شناخت کرنے کے ان کے حق کو تسلیم کیا گیا، اور حکومتوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ ان کی صحت کی نگہداشت کو یقینی بنائیں۔ پانچ سال بعد، ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کے تحفظ کا قانون، ۲۰۱۹ نے اس کمیونٹی کو صحت کی نگہداشت کی مکمل خدمات فراہم کرنے میں حکومتوں کے کردار پر دوبارہ زور دیا، جن میں صنف کی تصدیق کرنے والی سرجری، ہارمون تھیراپی، اور دماغی صحت کی خدمات شامل ہیں۔

PHOTO • Ekta Sonawane

سُمِت، جنہیں پیدائش کے وقت مادہ صنف تفویض کی گئی تھی، ہریانہ کے روہتک ضلع میں پیدا ہوئے تھے۔ انہیں یاد ہے کہ تین سال کی عمر میں بھی فراک پہننے پر انہیں بے چینی محسوس ہوتی تھی

قانون سازی کی ان تبدیلیوں سے قبل کے سالوں میں بہت سے ٹرانس افراد کو تبدیلی جنس کی سرجری (جسے دوبارہ جنس تفویض کرنے والی سرجری یا جنس کی تصدیق کرنے والی سرجری بھی کہا جاتا ہے) کرنے سے منع کر دیا جاتا تھا۔ ان سرجریوں میں چہرے کی سرجری، اور ’ٹاپ‘ (اوپر کی) یا ’باٹم‘ (نیچے کی) سرجری، جس میں سینے یا اعضائے تناسل کے پروسیجر شامل ہوتے ہیں۔

سُمِت ایسے افراد میں شامل تھے جو آٹھ سال تک اور ۲۰۱۹ کے بعد بھی ایسی سرجری کا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔

ہریانہ کے روہتک ضلع میں ایک دلت کنبے میں لڑکی کے طور پر پیدا ہوئے سُمِت اپنے تین بہن بھائیوں کے لیے ماں کی طرح تھے۔ سُمِت کے والد خاندان میں پہلی نسل کے سرکاری ملازم تھے اور زیادہ تر باہر ہی رہتے تھے۔ ان کے والدین کے تعلقات کشیدہ تھے۔ دادا دادی یومیہ اجرت پر کام کرنے والے زرعی مزدور تھے، جو سُمِت کے بچپن میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ سُمِت کی گھریلو ذمہ داریوں کا بڑا حصہ لوگوں کے اس خیال سے ہم آہنگ تھا، جس کے تحت گھر کی سب سے بڑی بیٹی کو چھوٹوں کی نگہداشت کے فرائض انجام دینے پڑتے ہیں۔ لیکن یہ ذمہ داری سُمِت کی شناخت سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ ’’میں نے ایک مرد کے طور پر ان تمام ذمہ داریوں کو پورا کیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

تین سال کی عمر میں بھی فراک پہننے پر سُمِت کو محسوس ہونے والی بے چینی یاد ہے۔ شکر ہے کہ ہریانہ میں کھیلوں کی ثقافت نے انہیں کچھ مہلت دی۔ لڑکیوں کے لیے ہمہ جنسی، اور یہاں تک کہ کھیل کے مردانہ مبلوسات پہننا عام بات ہے۔ ’’میں نے ہمیشہ وہی پہنا جو میں نے بڑے ہوتے ہوئے چاہا۔ اپنی [ٹاپ] سرجری سے پہلے بھی میں ایک مرد کے طور پر جیتا تھا،‘‘ سُمِت کہتے ہیں، لیکن بقول ان کے، اس وقت بھی کچھ غلط محسوس ہوتا تھا۔

جب سُمِت کی عمر ۱۳ سال کی ہوئی، تو ان کے طبعی جسم میں ایک لڑکا ہونے کی مضبوط خواہش بیدار ہونا شروع ہوئی۔ ’’میرا جسم دبلا تھا اور چھاتی کے ٹشوز نہ ہونے کے برابر تھے۔ کراہیت محسوس کرنے کے لیے یہ کافی تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اس احساس سے بعید سُمِت کے پاس ایسی جانکاریاں نہیں تھیں، جو ان کے ڈسفوریا (کسی شخص کو ان کی حیاتیاتی جنس اور صنفی شناخت کے درمیان غیرمماثلت کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے چینی) کی وضاحت کر سکے۔

ایک دوست محافظ بن کر آئی۔

سُمِت اس وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ کرایے کے مکان میں رہتے تھے۔ مکان مالک کی بیٹی سے ان کی دوستی ہو گئی تھی۔ ان کی دوست کے پاس انٹرنیٹ کی رسائی تھی، اور انہوں نے سینے کی سرجری کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں سُمِت کی مدد کی۔ آہستہ آہستہ، سُمِت کو اسکول میں دوسرے ٹرانس لڑکوں کا ساتھ ملتا گیا، جنہوں نے ڈسفوریا کی مختلف سطحوں کا تجربہ کیا تھا۔ انہوں نے ہسپتال جانے کی ہمت جُٹانے سے پہلے اگلے چند سال آن لائن اور دوستوں کے ذریعہ معلومات جمع کرنے میں گزارے۔

یہ ۲۰۱۴ کا سال تھا، ۱۸ سالہ سُمِت نے ابھی ابھی اپنے گھر کے قریب لڑکیوں کے اسکول سے ۱۲ویں جماعت کی پڑھائی مکمل کی تھی۔ ان کے والد کام پر چلے گئے تھے، ان کی ماں گھر پر نہیں تھیں۔ ایسے میں جب انہیں روکنے، سوال کرنے یا ان کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں تھا، تو وہ تنہا ہی روہتک ڈسٹرکٹ ہسپتال گئے اور جھجکتے ہوئے چھاتی ہٹانے کے عمل کے بارے میں دریافت کیا۔

PHOTO • Ekta Sonawane

ٹرانس افراد کے اختیارات عموماً محدود ہوتے ہیں۔ ان کے معاملے میں جی اے ایس کے لیے انتہائی ہنر مند پیشہ ور افراد کی ضرورت ہوتی ہے، جن میں ماہر امراض نسواں، یورولوجسٹ اور ایک ریکنسٹرکٹیو پلاسٹک سرجن شامل ہیں

انہیں ملنے والے تاثرات میں بہت سی چیزیں نمایاں تھیں۔

انہیں بتایا گیا کہ وہ آگ میں جلے ہوئے مریض کے طور پر سینے کی ترتیب نو کی سرجری کروا سکتے ہیں۔ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ ایسے معاملوں، جن میں پلاسٹک سرجری کی ضرورت ہوتی ہے، کو سرکاری ہسپتالوں میں برنز ڈپارٹمنٹ کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے۔ ان معاملوں میں سڑک حادثات کے مریض بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن سُمِت کو واضح طور پر کاغذ پر جھوٹ بولنے اور جلے ہوئے مریض کے طور پر رجسٹر کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس سرجری کا کوئی ذکر نہیں تھا، جو دراصل وہ کروانا چاہتے تھے۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ سرجری کے لیے انہیں کوئی رقم ادا نہیں کرنی پڑے گی، حالانکہ کوئی ایسا ضابطہ نہیں ہے جو سرکاری ہسپتالوں میں چھاتی کی ترتیب نو کی سرجری یا جلنے سے متعلق کسی سرجری کے لیے ایسی چھوٹ تجویز کرتا ہو۔

اسی وجہ اور اسی امید پر سُمِت اگلے ڈیڑھ سال تک ہسپتال آتے جاتے رہے۔ اس دوران انہیں احساس ہوا کہ انہیں ایک مختلف قسم کی قیمت ادا کرنی پڑی تھی – وہ تھی نفسیاتی قیمت۔

’’[وہاں کے] ڈاکٹر بہت زیادہ مین میخ نکالنے والے تھے۔ وہ مجھے وہمی قرار دیتے اور ایسی باتیں کہتے کہ ’تم سرجری کیوں کرانا چاہتی ہو؟ اور ’تم جیسی ہو ویسے بھی کسی عورت کے ساتھ رہ سکتی ہو‘۔ میں چھ سات [لوگوں کے] سوالات کی بوچھار سے خوف زدہ محسوس کرتا تھا،‘‘ سُمِت یاد کرتے ہیں۔

’’مجھے یاد ہے کہ میں نے دو سے تین دفعہ ۵۰۰ سے ۷۰۰ سوالات پر مشتمل فارم بھرے تھے۔‘‘ سوالات مریض کی طبی اور خاندانی ہسٹری، نفسیاتی حالت، اور علتوں (اگر کوئی ہوں) سے متعلق ہوتے تھے۔ لیکن نوجوان سُمِت کو محسوس ہوتا تھا کہ انہیں خارج کیا جا رہا ہے۔ ’’انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ میں اپنے جسم میں خوش نہیں ہوں، اسی لیے میں ٹاپ سرجری کرانا چاہتا تھا،‘‘ وہ اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

ہمدردی کے کلمات سے قطع نظر، اگر ہندوستان کی ٹرانس کمیونٹی کے افراد جنسی تصدیق کی سرجری (جی اے ایس) کے ذریعے تبدیلی جنس کا انتخاب کرتے ہیں، تو ان ہسپتالوں میں ان کی مدد کے لیے درکار طبی مہارتوں میں ایک خلاء پہلے بھی موجود تھا اور بہت حد تک اب بھی ہے۔

مرد سے عورت کے جی اے ایس میں عام طور پر دو بڑی سرجریاں (بریسٹ امپلانٹس اور ویجائنو پلاسٹی) شامل ہوتی ہیں، جبکہ عورت سے مرد میں منتقلی میں سات بڑی اور زیادہ پیچیدہ سرجریاں شامل ہوتی ہیں۔ ان میں سے پہلی یعنی اوپری جسم یا ’ٹاپ‘ سرجری میں سینے کی ترتیب نو یا چھاتی کو ہٹانا ہوتا ہے۔

’’جب [۲۰۱۲ کے آس پاس] میں ایک طالب علم تھا، تو [طبی] نصاب میں ایسے طریقہ کار کا ذکر تک نہیں تھا۔ ہمارے پلاسٹک کے نصاب میں عضو تناسل کی تعمیر نو کے کچھ طریقہ کار موجود تھے، [لیکن] زخموں اور حادثات کے تناظر میں تھے۔ اب چیزیں بدل گئی ہیں،‘‘ نئی دہلی میں واقع سر گنگا رام ہسپتال میں پلاسٹک سرجری کے شعبے کے وائس چیئرمین ڈاکٹر بھیم سنگھ نندا یاد کرتے ہیں۔

PHOTO • Ekta Sonawane

سال ۲۰۱۹ کا ٹرانس جینڈر افراد کا قانون، ٹرانس جینڈر افراد سے متعلق معاملات میں طبی نصاب اور تحقیق پر نظرثانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ لیکن تقریباً پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی ہندوستانی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لیے جی اے ایس کو قابل رسائی اور کم خرچیلا بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر کوششیں نہیں کی گئی ہیں

سال ۲۰۱۹ کا ٹرانس جینڈر افراد کا قانون ایک سنگ میل ہے، جو ٹرانس جینڈر افراد کی ضروریات کو پورا کرنے والے طبی نصاب اور تحقیق پر نظرثانی کا مطالبہ کیا کرتا ہے۔ لیکن تقریباً پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی ہندوستانی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے لیے جی اے ایس کو قابل رسائی اور کم خرچیلا بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر کوششیں نہیں کی گئی ہیں۔ سرکاری ہسپتال بھی بڑی حد تک جی اے ایس سے دور رہے ہیں۔

ٹرانس مردوں کے اختیارات بطور خاص محدود ہیں۔ ان کے معاملے میں جی اے ایس کے لیے انتہائی ہنرمند پیشہ ور افراد کی ضرورت ہوتی ہے، جن میں ماہر امراض نسواں، یورولوجسٹ اور تعمیر نو کے پلاسٹک سرجن شامل ہیں۔ تلنگانہ ہجڑا انٹرسیکس ٹرانس جینڈر سمیتی کے ایک ٹرانس مرد اور کارکن کارتک بٹو کونڈیہ کہتے ہیں، ’’اس شعبے میں تربیت اور مہارت کے حامل طبی پیشہ ور افراد بہت کم ہیں، اور سرکاری ہسپتالوں میں تو اور بھی کم ہیں۔‘‘

ٹرانس افراد کے لیے ذہنی صحت عامہ کی خدمات کی حالت بھی اسی قدر مایوس کن ہے۔ مریضوں کی کاؤنسلنگ روزمرہ کے مسائل سے نمٹنے کا ایک حربہ تو ہے ہی، اس کے علاوہ یہ صنفی تصدیق کے عمل سے پہلے ایک قانونی ضرورت بھی ہے۔ ٹرانس افراد کو صنفی شناخت کے عارضہ کا سرٹیفکیٹ اور ماہر نفسیات یا سائکیاٹرسٹ سے ایک تشخیصی رپورٹ حاصل کرنی ہوتی ہے، جو اس بات کی تصدیق کرتی ہو کہ وہ اس کے اہل ہیں۔ اس کے بنیادی اصولوں میں باخبر رضامندی، توثیق شدہ صنف کے طور پر زندگی گزارنے کا دورانیہ، صنفی ڈسفوریا کی سطح، عمر کے تقاضے اور صحیح دماغ ہونے کی ضمانت کے طور پر ذہنی صحت کا مکمل جائزہ شامل ہیں۔ ماہر نفسیات یا سائکیاٹرسٹ کے ساتھ یہ عمل ہفتے میں ایک بار کم از کم ایک سیشن سے لے کر زیادہ سے زیادہ چار سیشنز تک پھیلا ہوا ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے ۲۰۱۴ کے فیصلے کے ایک دہائی بعد ٹرانس کمیونٹی اس بات پر متفق ہے کہ جامع اور ہمدردی پر مبنی ذہنی صحت کی خدمات، خواہ روز مرہ کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ہوں یا جنسی منتقلی کا سفر شروع کرنے کے لیے، ضروری ہیں، لیکن ابھی تک یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے ہیں۔

’’ضلع ہسپتال میں ٹاپ سرجری کے لیے میری کاؤنسلنگ تقریباً دو سال تک جاری رہی،‘‘ سُمِت بتاتے ہیں۔  بالآخر ۲۰۱۶ میں انہوں نے وہاں جانا چھوڑ دیا۔ ’’ایک پوائنٹ کے بعد آپ تھک جاتے ہیں۔‘‘

اپنے صنف کے اظہار کی مہم نے سُمِت کی تھکن کو قابو میں رکھا۔ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں، آیا یہ ایک عام تجربہ تھا، جی اے ایس میں کیا ہوتا ہے اور وہ ہندوستان میں کہاں سے مستفید ہو سکتے ہیں ان تمام امور کی تحقیق کی ذمہ داری انہوں نے خود اپنے سر لے لی۔

یہ سب کچھ خفیہ طور پر کیا گیا، کیونکہ وہ ابھی تک اپنے گھروالوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ انہوں نے مہندی فنکار اور درزی کے طور پر کام کرکے اپنی آمدنی کا کچھ حصہ ٹاپ سرجری کے لیے بچانا شروع کیا، جس کے لیے وہ پرعزم تھے۔

PHOTO • Ekta Sonawane
PHOTO • Ekta Sonawane

تین نوکریاں کرنے کے باوجود سُمِت کا گزارہ مشکل سے ہوتا ہے۔ انہیں باقاعدہ کام نہیں ملتا اور اب بھی ان پر ۹۰ ہزار روپے کا قرض ہے

سُمِت نے ۲۰۲۲ میں ایک دوست (ٹرانس جینڈر مرد) کے ساتھ روہتک سے ہریانہ کے حصار ضلع تک سو کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کر کے ایک بار پھر کوشش کی۔ جس پرائیویٹ ماہر نفسیات سے ان کی ملاقات ہوئی اس نے دو سیشن میں اپنی کاؤنسلنگ مکمل کی اور ۲۳۰۰ روپے وصول کیے۔ اس نے بتایا کہ سُمِت اگلے دو ہفتوں کے اندر ٹاپ سرجری کے لیے اہل ہو جائیں گے۔

وہ حصار کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں چار دن تک داخل رہے۔ ہسپتال کا بل تقریباً ایک لاکھ روپے تھا۔ اس میں قیام کے ساتھ ساتھ سرجری بھی شامل تھی۔ ’’ڈاکٹر اور دیگر عملہ بہت مہربان اور خوش اخلاق تھا۔ سرکاری ہسپتال میں میرے ساتھ جو کچھ ہوا یہ اس سے ایک بالکل مختلف تجربہ تھا،‘‘ سُمِت کہتے ہیں۔

یہ خوش باشی مختصر مدت کے لیے تھی۔

روہتک جیسے چھوٹے شہر میں ایل جی بی ٹی کیو آئی اے + کمیونٹی کے افراد کے لیے ٹاپ سرجری کروانا ’بند کوٹھری سے‘ باہر نکلنے کے مترادف ہے۔ سُمِت کا راز اب روز روشن کی طرح عیاں تھا، اور یہ ایسا راز تھا جسے ان کے گھر والے برداشت نہیں کر سکے۔ سرجری کے کچھ دن بعد جب وہ روہتک میں اپنے گھر واپس آئے، تو انہوں نے اپنا سامان گھر سے باہر پھینکا ہوا پایا۔ ’’میرے گھر والوں نے مجھے بغیر کسی مالی یا جذباتی مدد کے چلے جانے کو کہا۔ انہیں میری حالت کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔‘‘ اگرچہ ٹاپ سرجری کے بعد بھی سُمِت قانونی طور پر ایک عورت ہی تھے، لیکن جائیداد کے ممکنہ دعووں کے بارے میں خدشات سامنے آنے لگے۔ ’’کچھ لوگوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ مجھے کام کرنا چاہیے اور ایک مرد سے توقع کی جانے والی تمام ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے۔‘‘

جی اے ایس کے بعد مریضوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کچھ مہینوں کے لیے آہستہ روی اختیار کریں اور ترجیحاً ہسپتال کے قریب ہی قیام کریں، تاکہ پیچیدگیوں کی صورت میں وہاں جا سکیں۔ اس سے ٹرانس افراد، خاص طور پر کم آمدنی والے یا پسماندہ پس منظر والے افراد پر مالی اور انصرامی (لاجسٹک) بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔ سُمِت کے معاملے میں انہیں ہر دفعہ حصار آنے جانے میں ۷۰۰ روپے اور تین گھنٹے خرچ ہوتے تھے۔ انہوں نے یہ سفر کم از کم دس دفعہ طے کیا۔

ٹاپ سرجریوں کے بعد مریضوں کو اپنے سینے کو تنگ کپڑوں سے لپیٹنا پڑتا ہے، جسے بائنڈر کہا جاتا ہے۔ ’’ہندوستان کی گرم آب و ہوا میں، اور یہ دیکھتے ہوئے کہ [زیادہ تر] مریضوں کے پاس ایئر کنڈیشنگ نہیں ہہ، [لوگ] سردیوں میں سرجری کروانے کو ترجیح دیتے ہیں،‘‘ ڈاکٹر بھیم سنگھ نندا وضاحت کرتے ہیں کہ پسینہ سرجیکل ٹانکے کے ارد گرد انفیکشن کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔

شمالی ہندوستان میں مئی کی گرمی میں سُمِت کی سرجری ہوئی اور انہیں اپنے گھر سے باہر پھینک دیا گیا۔ ’’[اس کے بعد کے ہفتے] تکلیف دہ تھے، جیسے کسی نے میری ہڈیوں کو جکڑ لیا ہو۔ بائنڈر نے حرکت کرنا مشکل کر دیا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’میں اپنی ٹرانس شناخت چھپائے بغیر کوئی ٹھکانہ کرایے پر لینا چاہتا تھا، لیکن چھ مکان مالکان نے مکان دینے سے انکار کر دیا۔ میں اپنی سرجری کے بعد ایک ماہ تک بھی آرام نہیں کر سکا،‘‘ سُمِت کہتے ہیں۔ سرجری کے نو دن بعد اور والدین کے ذریعے گھر سے نکالے جانے کے چار دن بعد سُمِت اپنے بارے میں بغیر جھوٹ بولے دو کمروں کے ایک آزاد گھر میں چلے گئے۔

آج سُمِت مہندی آرٹسٹ، درزی، چائے کی دکان پر ایک معاون اور روہتک میں عارضی دستی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ بمشکل ۷-۵ ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں، جس کا بڑا حصہ کرایہ، کھانے کے اخراجات، کھانا پکانے کی گیس اور بجلی کے بلوں اور قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ جو ایک لاکھ روپے سُمِت نے سینے کی سرجری کے لیے خرچ کیے تھے، ان میں سے ۳۰ ہزار روپے انہوں نے خود ۲۰۱۶ اور ۲۰۲۲ کے درمیان بچائے تھے۔ باقی ۷۰ ہزار روپے کا انتظام ساہوکاروں سے پانچ فیصد کی شرح سود پر اور کچھ دوستوں سے قرض لے لیا تھا۔

PHOTO • Ekta Sonawane
PHOTO • Ekta Sonawane

بائیں: سُمِت نے حنا فنکار اور درزی کے طور پر کام کیا تاکہ اپنی سرجری کے لیے پیسے بچا سکیں۔ دائیں: سُمِت گھر میں مہندی کے ڈیزائن کی مشق کر رہے ہیں

جنوری ۲۰۲۴ میں سُمِت پر اب بھی ۹۰ روپے کا قرض تھا، جس پر ہر مہینے ۴۰۰۰ روپے کا سود جمع ہوتا ہے۔ ’’میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ اپنی معمولی کمائی کی رقم سے اپنے اخراجات کیسے پورے کروں اور قرض کے سود کو کیسے ادا کروں۔ مجھے باقاعدہ کام نہیں ملتا،‘‘ سُمِت حساب لگاتے ہیں۔ تقریباً ایک دہائی کے مشکل، تنہا اور مہنگے جنسی منتقلی کے سفر نے ان پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔ وہ بے چینی اور بے خوابی کی کیفیت میں راتیں گزارتے ہیں۔ ’’میں ان دنوں گھٹن محسوس کر رہا ہوں۔ جب بھی میں گھر میں تنہا ہوتا ہوں تو مجھے بے چینی، خوف اور تنہائی محسوس ہونے لگتی ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔‘‘

گھر سے باہر نکالنے کے ایک سال بعد اب ان کے گھر والوں نے ان سے بات کرنا شروع کر دیا ہے اور کبھی کبھی مدد مانگنے پر ان کی مالی مدد بھی کرتے ہیں۔

سُمِت ایک فخریہ اور اعلانیہ ٹرانس مرد نہیں ہیں – ہندوستان میں ایسا کرنا زیادہ تر ٹرانس افراد کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے، کسی دلت شخص کو تو چھوڑ ہی دیں۔ راز فاش ہونے یا ’غیر حقیقی مرد‘ کے طور پر نشان زد ہونے کا خوف ان کے لیے پریشان کن ہے۔ چھاتیوں کے بغیر مزدوری کا کام کرنا آسان ہے، لیکن دوسرے مردانہ نشانات کی کمی، جیسے چہرے کے بال یا گہری آواز، اکثر انہیں مشکوک بنا دیتی ہے۔ اس میں ان کے پیدائشی نام کا بھی عمل دخل ہے، جسے انہوں نے ابھی تک قانونی طور پر تبدیل نہیں کیا ہے۔

سُمِت ابھی تک ہارمون ریپلیسمنٹ تھیراپی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اس کے ضمنی اثرات (سائیڈ افیکٹ) کو لے کر پراعتماد نہیں ہیں۔ ’’لیکن جب میں مالی طور پر مستحکم ہو جاؤں گا، تو یہ تھیراپی ضرور کرواؤں گا،‘‘ سُمِت کہتے ہیں۔

وہ ایک وقت میں ایک ہی قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔

اپنی ٹاپ سرجری کے چھ ماہ بعد سُمِت نے سماجی انصاف اور تفویض اختیار کی وزارت میں ٹرانس مرد کے طور پر خود کو رجسٹر کیا ہے، جس نے انہیں قومی سطح پر تسلیم شدہ ٹرانس جینڈر سرٹیفکیٹ اور شناختی کارڈ بھی عطا کیا ہے۔ اب ان کے لیے دستیاب خدمات میں ایک اسکیم ہے، جسے معاش اور کاروبار کے لیے پسماندہ افراد کی معاونت ( اسمائل ) کہتے ہیں، اورجو ہندوستان کی پرچم بردار آیوشمان بھارت ہیلتھ انشورنس اسکیم کے تحت ٹرانس جینڈر افراد کے لیے صنفی تصدیق کی خدمات پیش کرتی ہے۔

’’مجھے ابھی تک نہیں معلوم کہ مکمل منتقلی کے لیے مجھے کن دیگر سرجریوں کی ضرورت ہے،‘‘ سُمِت کہتے ہیں۔ ’’میں انہیں آہستہ آہستہ کرواؤں گا۔ میں تمام دستاویزات میں اپنا نام [بھی] تبدیل کرواؤں گا۔ یہ تو ابھی شروعات ہے۔‘‘

یہ اسٹوری ہندوستان میں جنسی اور صنف پر مبنی تشدد (ایس جی بی وی) کا سامنا کر چکے لوگوں کی دیکھ بھال کی راہ میں آنے والی سماجی، ادارہ جاتی اور ساختیاتی رکاوٹوں پر مرکوز ملک گیر رپورٹنگ کے پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ اس پروجیکٹ کو ’ڈاکٹرز وِداؤٹ بارڈرز انڈیا‘ کا تعاون حاصل ہے۔

سیکورٹی کے لحاظ سے اسٹوری میں شامل کرداروں اور ان کے اہل خانہ کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Ekta Sonawane

একতা সোনাওয়ানে স্বাধীনভাবে কর্মরত সাংবাদিক। জাতি, শ্রেণি এবং লিঙ্গ মিলে পরিচিতির যে পরিসর, সেই বিষয়ে তিনি লেখালিখি করেন।

Other stories by Ekta Sonawane
Editor : Pallavi Prasad

পল্লবী প্রসাদ মুম্বই-ভিত্তিক একজন স্বতন্ত্র সাংবাদিক, ইয়ং ইন্ডিয়া ফেলো এবং লেডি শ্রী রাম কলেজ থেকে ইংরেজি সাহিত্যে স্নাতক। তিনি লিঙ্গ, সংস্কৃতি এবং স্বাস্থ্য ইত্যাদি বিষয়ের উপর লেখেন।

Other stories by Pallavi Prasad
Series Editor : Anubha Bhonsle

২০১৫ সালের পারি ফেলো এবং আইসিএফজে নাইট ফেলো অনুভা ভোসলে একজন স্বতন্ত্র সাংবাদিক। তাঁর লেখা “মাদার, হোয়্যারস মাই কান্ট্রি?” বইটি একাধারে মণিপুরের সামাজিক অস্থিরতা তথা আর্মড ফোর্সেস স্পেশাল পাওয়ারস অ্যাক্ট এর প্রভাব বিষয়ক এক গুরুত্বপূর্ণ দলিল।

Other stories by Anubha Bhonsle
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam