محمد مقبول مٹّو مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ڈل سے باہر کے لوگوں کو جیسے ہی پتہ چلتا ہے کہ انہیں تیرتے ہوئے باغات پر کام کرنا ہے، تو وہ ڈر جاتے ہیں کہ کہیں ڈوب نہ جائیں!‘‘

سرینگر میں واقع ڈل جھیل کے موتی محلہ خورد علاقہ سے تعلق رکھنے والے ۴۷ سالہ کسان، محمد مقبول مٹو بتاتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو ۷۰۰ روپے یومیہ مزدوری دیتے ہیں – جو کہ وادیٔ کشمیر میں، سرینگر کے گرد و نواح میں زرعی کام کے لیے ادا کی جانے والی اجرت سے ۲۰۰ روپے زیادہ ہے۔ مزدوری کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے، وہ بتاتے ہیں، ’’میں اور میری بیوی تسلیمہ اگر مصروف ہوں، تب بھی یہاں [کام کرنے کے لیے] روز آتے ہیں۔‘‘

ڈل میں اپنے ساڑھے سات ایکڑ میں پھیلے تیرتے ہوئے باغات – جنہیں مقامی زبان میں ڈل کے گارڈن کہا جاتا ہے – تک پہنچنے کے لیے محمد مقبول مٹو شکارے (کشتی) کا استعمال کرتے ہیں۔ ان باغات میں وہ سال بھر مختلف قسم کی سبزیاں اُگاتے ہیں، جیسے کہ شلجم اور ہاکھ (ایک قسم کا ساگ)۔ یہ کام وہ سردیوں میں بھی کرتے ہیں، جب درجہ حرارت منفی ۱۱ ڈگری سینٹی گریڈ پر پہنچ جاتا ہے، تب پانی سے اپنے شکارے کو لے جانے کے لیے انہیں جھیل کی اوپری سطح پر جمی برف کو توڑنا پڑتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’اب اس کام سے ہمیں زیادہ پیسے نہیں ملتے۔ پھر بھی میں اس کام کو صرف اس لیے جاری رکھے ہوا ہوں، کیوں کہ مجھے اس کے علاوہ کچھ اور کرنا نہیں آتا۔‘‘

ڈل جھیل ۱۸ مربع کلومیٹر میں پھیلی ہوئی ہے اور اپنے ہاؤس بوٹ، شکارے (کشتی) کی سیر، چار چنار کے قدیم درختوں والے جزیرہ، اور جھیل کے کنارے موجود مغلیہ دور کے باغات کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔ سرینگر کا یہ سب سے بڑا سیاحتی مقام ہے۔

تیرتے ہوئے مکان اور تیرتے ہوئے باغیچے جھیل کے اندر ہی موجود ہیں، جو کہ تقریباً ۲۱ مربع کلومیٹر پر مشتمل قدرتی آبگاہ کا ایک حصہ ہے۔ یہ تیرتے ہوئے باغات دو قسم کے ہیں: رادھ اور ڈیمب ۔ رادھ اُس تیرتے ہوئے باغ کو کہتے ہیں جو کسانوں کے ذریعے ہاتھ سے بُنا جاتا ہے۔ اسے بُننے کے لیے کسان دو قسم کی گھاس کا استعمال کرتے ہیں: پیچ (Typha angustata) اور نرگاسا ( Phragmites australis) بُنی ہوئی چٹائی جیسی شکل کا سائز ایک ایکڑ کے دسویں حصے سے لے کر اُس کے تین گنا تک ہو سکتا ہے۔ کاشتکاری سے پہلے اسے جھیل میں ۴-۳ سال تک سُکھایا جاتا ہے۔ خشک ہو جانے کے بعد، چٹائی پر گیلی مٹی کی تہہ چڑھائی جاتی ہے، جس کے بعد یہ سبزی اُگانے لائق ہو جاتی ہے۔ پھر کسان اُس رادھ کو جھیل کے مختلف حصوں میں لے جاتے ہیں۔

ڈیمب جھیل کے کنارے اور سروں پر پائی جانے والی دلدلی مٹی ہے۔ یہ بھی تیرتی ہے، لیکن اسے دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا۔

PHOTO • Muzamil Bhat

محمد مقبول مٹو اور ان کی بیوی تسلیمہ ڈل کے موتی محلہ خورد میں واقع اپنے تیرتے ہوئے باغیچہ میں ہاکھ (ایک طرح کی ساگ) کے پودے لگا رہے ہیں۔ جھیل کے اسی علاقے میں موجود اپنے گھر سے یہاں تک پہنچنے میں انہیں تقریباً آدھا گھنٹہ لگتا ہے۔ وہ صبح ۸ بجے سے شام کے ۴ بجے تک کام کرتے ہیں

اپنی عمر کے ۷۰ویں سال میں چل رہے غلام محمد مٹو، ڈل کے ایک دوسرے علاقہ، کوراگ میں اپنے فلوٹنگ گارڈن میں گزشتہ ۵۵ برسوں سے سبزیاں اُگا رہے ہیں۔ وہ موتی محلہ خورد میں رہتے ہیں، جو یہاں سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر دور ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم اپنے باغیچوں میں ’ہل‘ نام کی ایک مقامی کھاد کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم اسے جھیل کے پانی سے نکالتے ہیں اور دھوپ میں اسے ۳۰-۲۰ دنوں تک سُکھاتے ہیں۔ یہ قدرتی کھاد ہے، جس سے سبزیوں کا ذائقہ بڑھ جاتا ہے۔‘‘

ان کا اندازہ ہے کہ ڈل کے پانی اور دلدل کے تقریباً ۱۲۵۰ ایکڑ میں کاشتکاری ہوتی ہے، جہاں سردیوں میں شلجم، مولی، گاجر اور پالک اُگائی جاتی ہے، جب کہ گرمیوں میں تربوز، ٹماٹر، کھیرا اور لوکی کی کھیتی ہوتی ہے۔

غلام محمد مٹو بتاتے ہیں، ’’یہ کاروبار اب زوال پذیر ہے، کیوں کہ صرف ہم جیسے لوگ ہی یہاں کھیتی کر رہے ہیں۔ تیرتے ہوئے باغیچے کو زرخیز بنائے رکھنے کے لیے کافی محنت درکار ہے – ہمیں پانی کی سطح اور ہل کی مناسب مقدار چیک کرنی پڑتی ہے اور بھوکے پرندوں اور دیگر حملہ آوروں کو بھگانا پڑتا ہے۔‘‘

سینکڑوں کسان اپنے فلوٹنگ گارڈن میں اُگائی گئی سبزیاں تیرتے ہوئے سبزی بازار میں فروخت کرتے ہیں۔ اس تیرتے ہوئے سبزی بازار کو مقامی زبان میں ’گُوڈر‘ کہتے ہیں، جو ڈل کے کاراپورہ علاقہ میں واقع ہے۔ سورج کی پہلی کرن جیسے ہی جھیل کی سطح پر نمودار ہوتی ہے یہ بازار کھل جاتا ہے، اور ٹھہرے ہوئے پانی پر تازہ سبزیوں سے لدی سینکڑوں کشتیوں کی قطار لگ جاتی ہے۔

عبدالحمید جھیل کے دوسرے کنارے پر واقع اپنے گھر سے روزانہ صبح ۴ بجے شلجم، ہاکھ اور گاجر جیسی سبزیوں سے لدی کشتی لے کر روانہ ہوتے ہیں۔ ۴۵ سالہ کسان، عبدالحمید بتاتے ہیں، ’’میں اپنی سبزیاں گوڈر میں فروخت کرتا ہوں اور روزانہ ۴۰۰ سے ۵۰۰ روپے کماتا ہوں۔‘‘

غلام محمد مٹو بتاتے ہیں کہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے یہ بازار سرینگر کے باشندوں کے لیے ضروری سبزیاں حاصل کرنے کا ذریعہ رہا ہے۔ زیادہ تر پیداوار نزدیک کے سرینگر شہر سے آنے والے تھوک خریداروں کو فروخت کی جاتی ہیں، جو وہاں صبح سویرے پہنچ جاتے ہیں۔ باقی جو چھوٹی مقدار بچ جاتی ہے، اسے یہ کسان چاول اور گندم جیسے خشک راشن، اور جھیل میں نہ اُگنے والی سبزیاں، جیسے آلو کے بدلے دوسرے کاروباریوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔

PHOTO • Muzamil Bhat

محمد عباس مٹو اور ان کے والد غلام محمد مٹو حال ہی میں لگائی گئی ہاکھ کو نم رکھنے کے لیے اس پر پانی کا چھڑکاؤ کر رہے ہیں

شہر کے ایک بڑے سبزی فروش، شبیر احمد گوڈر سے روزانہ سبزیاں خریدتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس بازار میں ہر روز ۳ سے ساڑھے تین ٹن پیداوار کا کاروبار ہوتا ہے۔ ۳۵ سالہ احمد کہتے ہیں، ’’میں اپنے ٹرک سے صبح کو ۵ بجے یہاں آتا ہوں اور کاشتکاروں سے ۸ سے ۱۰ کوئنٹل (صرف اعشاریہ ۸ سے ایک ٹن) تازہ سبزیاں خریدتا ہوں۔ اس کے بعد میں اسے گلی کے سبزی فروشوں کو بیچتا ہوں اور ان میں سے کچھ منڈی میں سپلائی کرتا ہوں۔‘‘ وہ ایک دن میں ۱۰۰۰ سے ۲۰۰۰ روپے تک کماتے ہیں، جو مانگ پر منحصر ہے۔

کئی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ڈل میں اُگائی گئی سبزیوں کا ذائقہ بہتر ہوتا ہے۔ سرینگر کے نواکدل علاقہ میں رہنے والی خاتون خانہ، فردوسہ (جن کی عمر ۵۰ سے ۶۰ سال کے درمیان ہے) کہتی ہیں، ’’مجھے ڈل کی ندر [کمل کی جڑ] پسند ہے۔ اس کا ذائقہ دوسری جھیلوں میں اُگائی گئی ندر سے مختلف ہوتا ہے۔‘‘

مانگ کے باوجود، ڈل کے سبزیوں کے کاروبار پر منحصر کاشتکاروں اور تھوک فروشوں کو اس بات کا ڈر ہے کہ ان کے اوپر بحران کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

ڈل میں کھیتی کرنے والے اور سرینگر کے رینا واڑی علاقہ سے تعلق رکھنے والے ۳۵ سالہ کاشتکار، شبیر احمد کہتے ہیں، ’’حکومت نے جب سے کسانوں کو بیمنہ کے قریب واقع رکھِ آرتھ علاقے میں منتقل کر دیا ہے، تب سے جھیل میں سبزیوں کی کاشت کم ہونے لگی ہے۔‘‘ ڈل کو بچانے کی طویل مدتی حکمت عملی کے حصہ کے طور پر، جموں و کشمیر جھیل اور آبی گزرگاہ ترقیاتی اتھارٹی (ایل اے ڈبلیو ڈی اے) نے ڈل کے مکینوں کی ’باز آبادکاری‘ کا کام شروع کیا۔ ۲۰۰۰ کی دہائی کے آخر سے ہی، اُس وقت کی ریاستی حکومت نے جھیل کے ایک ہزار سے زیادہ کنبوں کو رکھ آرتھ میں نو تعمیر رہائشی بستی میں منتقل کرنا شروع کر دیا تھا، جو کہ جھیل سے ۲۰ کلومیٹر دور واقع موجودہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ کے بڈگام ضلع میں ایک آبگاہی علاقہ ہے۔

شبیر بتاتے ہیں کہ بوڑھے کسان ڈل جھیل میں اب بھی کھیتی کر رہے ہیں، لیکن کم آمدنی کی وجہ سے نوجوان کسان یہاں سے جا چکے ہیں۔

جھیل میں آدھا ایکڑ سے بھی کم ڈیمب کے مالک ۵۲ سالہ کسان، غلام محمد کہتے ہیں، ’’ڈل جھیل کسی زمانے میں بالکل صاف ہوا کرتی تھی، لیکن اب پوری طرح سے آلودہ ہو چکی ہے۔ ۲۵ سال پہلے، ہم لوگ زیادہ سبزیاں اُگاتے تھے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ اب اس سے اتنی کمائی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی چار رکنی فیملی کا خرچ اٹھا سکیں۔ ان کی فیملی میں ان کی بیوی، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ ’’میں ایک دن میں ۴۰۰ سے ۵۰۰ روپے کماتا ہوں، اور اسی پیسے سے مجھے اسکول کی فیس، کھانا، دواؤں وغیرہ کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔‘‘

وہ سوال کرتے ہیں، ’’حکومت [ڈل کی] آلودگی کے لیے ہمیں قصوروار ٹھہراتی ہے، لیکن یہاں پر اس کے اصلی مکینوں میں سے صرف آدھے ہی رہ گئے ہیں۔ جب یہاں پر تمام باشندے رہا کرتے تھے، تب یہ جھیل کیسے صاف تھی؟‘‘

PHOTO • Muzamil Bhat

کسان جھیل سے ہل (کھاد) نکال رہے ہیں، جسے وہ پہلے سُکھائیں گے اور اس کے بعد اپنی فصلوں پر بطور کھاد استعمال کریں گے

PHOTO • Muzamil Bhat

ایک خاتون کسان ڈل کے نگین علاقے سے ہل لے جاتے ہوئے

PHOTO • Muzamil Bhat

کسان موتی محلہ خورد میں اپنے تیرتے ہوئے باغیچوں میں ہاکھ لگاتے ہوئے

PHOTO • Muzamil Bhat

غلام محمد جھیل میں اپنے ڈیمب گارڈن میں کام کرتے ہوئے۔ وہ کہتے ہیں، ’۲۵ سال پہلے ہم لوگ زیادہ سبزیاں اُگاتے تھے‘

PHOTO • Muzamil Bhat

ایک خاتون کسان موتی محلہ خورد کے اپنے باغیچہ میں شلجم کی بوائی کر رہی ہیں

PHOTO • Muzamil Bhat

نظیر احمد (سیاہ لباس میں) اُن کسانوں میں سے ایک ہیں جنہیں ڈل سے کہیں اور منتقل کر دیا گیا ہے۔ وہ جھیل سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر، سرینگر کے لال بازار علاقے میں واقع بوٹا کدل میں رہتے ہیں

PHOTO • Muzamil Bhat

کسان عبدالمجید موتی محلہ خورد کے اپنے فلوٹنگ گارڈن سے ہاکھ اُکھاڑ رہے ہیں

PHOTO • Muzamil Bhat

کسان اپنی پیداوار کو ڈل کے تیرتے ہوئے سبزی بازار، گوڈر میں بیچنے کے لیے کشتی پر لاد کر لے آتے ہیں، یہاں سے یہ سبزیاں سرینگر شہر کے بازاروں میں پہنچیں گی

PHOTO • Muzamil Bhat

گوڈر کے سبزی فروش۔ اس بازار میں سبزیوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ علی الصبح ہوتا ہے، سردیوں میں صبح ۵ بجے سے ۷ بجے تک، اور گرمیوں میں صبح ۴ بجے سے ۶ بجے تک

PHOTO • Muzamil Bhat

کسان اپنی سبزیاں شہر کے تاجروں کو بیچتے ہیں، جس کے بعد یہ تاجر ان سبزیوں کو منڈی میں اور گلی کے سبزی فروشوں کو فروخت کرتے ہیں

PHOTO • Muzamil Bhat

محمد مقبول مٹو ڈل کے گوڈر میں سردی کی ایک صبح کو سبزیاں بیچتے ہوئے

مترجم: محمد قمر تبریز

Muzamil Bhat

মুজামিল ভট শ্রীনগর-কেন্দ্রিক ফ্রিল্যান্স ফটোজার্নালিস্ট ও চলচ্চিত্র নির্মাতা, ২০২২ সালে তিনি পারি ফেলো ছিলেন।

Other stories by Muzamil Bhat
Translator : Qamar Siddique

কমর সিদ্দিকি পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার উর্দু অনুবাদ সম্পাদক। তিনি দিল্লি-নিবাসী সাংবাদিক।

Other stories by Qamar Siddique