وجے کوریتی اور ان کے دوستوں کو جب کوئی حل نظر نہیں آیا، تو انہوں نے پیدل ہی گھر جانے کا فیصلہ کیا۔

یہ ماہ اپریل کا وسط تھا۔ کووڈ- ۱۹ کے پیش نظر ملک بھرمیں سخت لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا تھا۔ وہ حیرت زدہ تھے کہ کب تک گھر سے دور عارضی جھگیوں میں پھنسے رہیں گے۔

’’گھر جانے کی کوشش کر رہے میرے دوستوں کوپولیس نے دو مرتبہ  بیچ راستےمیں روکا اور انہیں واپس بھیج دیا،‘‘ کوریتی یاد کرتے ہیں۔ ’’لیکن یکے بعد دیگر وہ سبھی  پیدل چلتے ہوئے گھر کے لیے روانہ ہو گئے۔‘‘

دوستوں کا یہ گروپ، جن کے پاس جی پی ایس والے اسمارٹ فون نہیں تھے، ممکنہ راستے پر چل پڑا تھا۔

تلنگانہ کے کومارام بھیم ضلع کا سِرپور– کاغذ نگر، جہاں وہ کپاس کی مِل میں کام کرتے تھے، حیدرآباد– ناگپور ریلوے لائن کے تحت آتا ہے۔

یہاں سے اگر وہ پٹریوں کے ساتھ چلتے، تو مہاراشٹر کے گونڈیا ضلع کی ارجنی مورگاؤں تحصیل میں واقع ان کے گاؤں، زاشی نگر تک کا فاصلہ ۷۰۰ سے ۸۰۰ کلومیٹر ہوتا۔ یہ بھلے ہی تھکا دینے والا تھا، لیکن کوشش کی جا سکتی تھی۔ اور ریلوے لائنوں کے ساتھ چلنے پر پولیس کے ذریعہ پکڑے جانے کا امکان کم تھا۔

اور اس لیے، ملک بھر کے لاکھوں مہاجر مزدوروں کی طرح، ۳۹ سالہ کوریتی، ایک گونڈ آدیواسی جن کے پاس ایک ایکڑ زمین ہے – اور زاشی نگر سے تعلق رکھنے والے دیگر – کاغذ نگر سے اُس مشکل راستے پر چل پڑے، جس کے ذریعہ انہیں اپنے اہل خانہ تک پہنچنے میں ۱۳ راتیں اور ۱۴ دن لگے۔

یہ فاصلہ ٹرین یا بس سے آدھے دن میں طے ہو سکتا تھا۔ لیکن وہ اسے پیدل طے کر رہے تھے۔

Vijay Koreti and his daughter, Vedanti, at their home in Zashinagar village, Gondia district
PHOTO • Sudarshan Sakharkar

وجے کوریتی اور ان کی بیٹی، ویدانتی، گونڈیا ضلع کے زاشی نگر گاؤں میں اپنے گھر پر

انہوں نے خود کو دو گروپ میں بانٹ لیا۔ ۱۷ افراد کا پہلا گروپ ۴۴ سالہ ہمراج بھویار کی قیادت میں ۱۳ اپریل کے آس پاس زاشی نگر کے لیے روانہ ہوا، جب کہ کوریتی اور دیگر دو افراد – ۳۰ سالہ دھن راج شہارے اور ۵۹ سالہ گیند لال ہوڈیکر پر مبنی دوسرا گروپ اس کے ایک ہفتہ بعد روانہ ہوا۔

سفر کے تمام دن اور رات، کوریتی اپنی سات سالہ بیٹی ویدانتا سے دوبارہ ملنے کو بے چین تھے۔ اس خواہش نے ان کا سفر جاری رکھا۔ وہ گھر پر اُن کا انتظار کر رہی ہوگی، وہ خود ہی بڑبڑاتے اور پیروں میں درد کے باوجود چلچلاتی دھوپ میں مسلسل  چلتے رہے۔ ’’ امہالے فقط گھری پوہچایچے ہوتے [ہم  بس اپنے گھر پہنچنا چاہتے تھے]،‘‘ درمیانے قد کے لیکن لحیم شحیم کوریتی  مسکراتے ہوئے اب یہ بات کہتے ہیں۔ ہم کوریتی اور ان کے دوستوں سے گرم اور مرطوب  موسم  میں زاشی نگر میں، جو نوے گاؤں وائلڈ لائف سینکچوری کے کنارے واقع ہے، ان کے لمبے مارچ کے چند ماہ بعد مل  رہے ہیں۔ گاؤں سے بیریکیڈز ہٹادیے گئے ہیں، جو باہری افراد کے داخلے کو روکنے کے لیے لگائے گئے تھے۔ لیکن گاؤں میں  کورونا وبا کا خوف اب بھی نظر آ رہا ہے۔

*****

کوریتی نے نویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اسکول چھوڑ دیا۔ وہ ۲۰۱۹ سے قبل  کام کاج کے لیے گاؤں سے باہر کبھی  نہیں نکلے۔ وہ اپنی ایک ایکٹر زمین پر کاشت کرتے، اطراف کے چھوٹے جنگلوں سے پیداوار جمع کرتے، کھیتوں میں مزدوری کرتے اور ضرورت پڑنے پر نزدیکی چھوٹے شہروں میں چھوٹا موٹا کام کرنے چلے جاتے۔ اُس کے گاؤں والوں کی  طرح اس نے کام کے لیے کبھی دوردراز کے علاقوں کا رُخ نہیں کیا تھا۔

لیکن ۲۰۱۶ میں نوٹ بندی کے بعد چیزیں بدل گئیں، چند ماہ کھیتوں میں مزدوری کے علاوہ گاؤں کے آس پاس انہیں کام ملنا دوبھر ہوگیا۔ معاشی لحاظ سے حالات مشکل ہوتے چلے گئے۔

یہ ۴۰ سالہ لکشمن شہارے تھے، ان کے بچپن کے ساتھی، ایک بے زمین دلت اورمزدور کی حیثیت سے نقل مکانی کے تجربہ کار، جنہوں نے کوریتی کو ۲۰۱۹ میں کاغذ نگر جانے کے لیے راضی کیا تھا۔

شہارے ۱۸ سال کی عمرسے ہی کام کاج کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر ہجرت کرتے رہے ہیں (ویڈیو دیکھیں)۔ جب کورونا وبا کا آغاز ہوا، اس وقت وہ کاغذ نگر میں ایک مِل میں سُپروائزر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ تین کپاس اوٹنے اور پریسنگ یونٹ میں تقریباً ۵۰۰ مزدور ان کے ماتحت تھے۔ ان مہاجر مزدوروں میں سے بیشتر ان کے گاؤں یا اطراف کے گاؤوں سے تعلق رکھتے تھے جبکہ درجنوں کا تعلق دوسری ریاستوں جیسے چھتیس گڑھ سے تھے۔

شہارے پیدل چل کر نہیں، بلکہ جون کے اوائل میں بذریعہ گاڑی گھر لوٹے تھے۔ بہرحال، انہوں نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو لمبی مسافت طے کرتے ہوئے دیکھا، جس میں خود ان کے بھائی، دھن راج جو کوریتی کی ٹیم میں تھے۔ شہارے خود مِلوں کے بیچ چکر لگاتے رہے، تاکہ مزدوروں کی اجرت کی ادائیگی ہوجائے، راشن کی پیکنگ کرتے اور ’’میں جو کچھ بھی کر سکتا تھا وہ کرنے کی کوشش کرتا تاکہ انہیں اپنی ضرورت کی چیزیں مل جائیں۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: ’میرا ارادہ اس سال واپس جانے کا نہیں ہے‘

کوریتی نے نومبر ۲۰۱۹ میں کاغذ نگر کا رخ کیا تھا اور جون ۲۰۲۰ میں انہیں واپس لوٹنا تھا، یہ ایام خریف کی بوائی کے ہوتے ہیں۔ کپاس اوٹنے کی فیکٹری میں وہ جتنے گھنٹے گزارتے اس کے حساب سے انہیں اجرت ملتی، وہ کسی طرح ۳ ہزار سے ۵ ہزار روپے ہفتہ واری کما لیتے تھے۔ اپریل ۲۰۲۰ میں جب وہ گھر لوٹے، تو اس وقت ان کی جیب میں تقریباً ۴۰ ہزار روپے تھے، یہ رقم انہوں نے پانچ مہینے میں کام کرتے ہوئے بچائی تھی۔

کوریتی کے مطابق، یہ رقم اس سے کہیں زیادہ تھی جو پورے سال وہ گاؤں میں کام کرکے بچا پاتے۔

انہوں نے کاغذ نگر میں اطمینان سے ۲۱ دنوں کے لاک ڈاؤن کے ختم ہونے اور نقل و حمل اور آمد ورفت کے  بحال ہونے کا انتظار کیا۔ لیکن، لاک ڈاؤن میں توسیع کر دی گئی۔

مِلوں کے مالک نے انہیں راشن فراہم کرایا اورضروری مدد کی، لیکن کام کاج ٹھپ تھے۔ ’’لاک ڈاؤن کے دوران ہم سب غیر یقینی صورتحال کا شکار تھے،‘‘ کوریتی کہتے ہیں۔ ’’ہماری جھونپڑی میں افراتفری تھی؛ ہر کوئی ہمارے بارے میں فکرمند تھا؛ کووڈ- ۱۹ کے پھیلنے کا خدشہ بھی ذہنوں میں گردش کر رہا تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہمیں رکنا چاہیے یا نہیں۔ میری خوفزہ بیوی واپس گھر آنے کے لیے اصرار کر رہی تھی۔‘‘ پھر، طوفانی ہوا فیکٹری کے احاطے میں بنی  جھونپڑیاں اڑا لے گئی، یہ ان کے لیے فیصلہ کُن ثابت ہوا۔

’’میرے خیال سے، ہم نے ۲۰ اپریل سے چلنا شروع کیا تھا۔‘‘ کوریتی اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے بتاتے ہیں، جو خود انہی کے ذریعہ تعمیر کردہ مٹی سے بنا خوبصورت مکان ہے۔

یہ لوگ شمال جنوبی ریلوے لائن کے ناگپور– حیدرآباد سیکشن کے ساتھ شمال کی جانب چل پڑے۔ مہاراشٹر کو عبور کرتے ہوئے وہ چندرا پور ضلع پہنچے، اور پھر گونڈیا میں اپنے گاؤں کے لیے انہوں نے مشرق کی سمت میں ریلوے کی نئی دوہری لائن کے ساتھ چلنا شروع کیا۔ اس دوران وہ گھنے جنگلوں سے بھی ہوکر گزرے۔

راستے میں انہوں نے وردھا ندی اور کئی چھوٹی ندیوں کو پار کیا۔ جہاں سے انہوں نے چلنا شروع کیا تھا، وہاں سے ان کا گاؤں کافی دور معلوم ہو رہا تھا، کوریتی کہتے ہیں۔

Vijay Koreti (in the red t-shirt), Laxman Shahare (in the green shirt) and others from Zashinagar who walked about 800 kilometres to get home from Telangana's Komaram Bheem district during the lockdown
PHOTO • Sudarshan Sakharkar

وجے کوریتی (لال ٹی شرٹ میں)، لکشمن شہارے (ہری شرٹ میں) اور دیگر جو لاک ڈاؤن کے دوران تلنگانہ کے کومارام بھیم ضلع سے ۸۰۰ کلومیٹر پیدل چل کر زاشی نگر پہنچے تھے

زاشی نگر گرام پنچایت کے ریکارڈ کے مطابق، ۱۷ افراد پر مشتمل  قافلہ دو گرپوں میں گاؤں پہنچا تھا، پہلا گروپ ۲۸ اپریل کو جب کہ ۵ افراد پر مشتمل دوسرا گروپ، جو اُن ۱۲ افراد سے الگ ہوا تھا، تین دن بعد یکم مئی کو پہنچا تھا۔ تھکان دور کرنے کے لیے وہ راستے میں کئی جگہوں پر رُکے تھے۔

کوریتی اور ان کے دو دوست ۳ مئی کو پہنچے تھے، ان کے پیر سُوج گئے تھے اور تھکان کے سبب ان کی صحت قابل رحم تھی۔

جب وہ زاشی نگر پہنچے، تو ان کے جوتے پھٹ چکے تھے۔ کئی روز سے ان کے موبائل فون بند پڑے تھے؛ اس دوران وہ اپنے اہل خانہ اور دوستوں کے رابطے میں نہیں تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دوران سفر انہوں نے کہیں انسانیت کی اعلیٰ مثال دیکھی، تو کہیں اُس کے برعکس۔ انہیں ریلوے کے افسران ملے، گاؤں کے لوگ بھی ملے، جنہوں نے انہیں کھانا پانی اور رہنے کی جگہ فراہم کی۔ لیکن ایسے لوگ بھی تھے، جنہوں نے انہیں گاؤں میں داخل ہونے سے منع کر دیا۔ وہ زیادہ تر ننگے پیر ہی چلے، ان کی چپل اورجوتے ہر لحاظ سے پَھٹ چکے تھے۔ چونکہ وہ موسم گرما تھا، اس لیے وہ رات کے وقت چلتے اور ہرروز دن میں سخت گرمی میں آرام کرتے تھے۔

اب، پس منظر میں، کوریتی کو لگتا ہے کہ اگر انہیں اور ان کے ساتھیوں کو لاک ڈاؤن سے قبل ۴ گھنٹے کی بجائے ۴۸ گھنٹے کا وقت دیا جاتا، تو شاید ان لوگوں کو اتنی تکلیفوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

’’ دون دیوس چا ٹائم بھیلتا استا، تار آمہی چُپ چاپ گھری پہوچلو استو [اگر ہمیں دو دنوں کا وقت دیا جاتا، تو ہم بحفاظت اپنے گھروں کو لوٹ سکتے تھے]۔‘‘ کوریتی نے کہا۔

*****

۲۴ مارچ ۲۰۲۰ کو وزیر اعظم نریندر مودی نے چار گھنٹوں کی مہلت کے بعد نصف شب سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کا اعلان کر دیا، اگرچہ یہ حفظ ماتقدم کے طور پر کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا، لیکن غیر متوقع اورمختصر مہلت  سے افراتفری اور خوف جیسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔

ملک بھر میں لاکھوں مہاجر مزدور سفر کے خطروں کے باوجود  اپنے گھروں کے لیے نکل پڑے۔ ان گنت ہزاروں مزدور پیدل ہی، سینکڑوں گاڑیوں کے ذریعے جوکھم بھرے راستوں پر، سائیکلوں پر، اور ٹرک یا دوسری بڑی گاڑیوں پر سوار ہو گئے، تاکہ گھر پہنچ سکیں – کیوں کہ تقریباً ہرطرح کے پبلک ٹرانسپورٹ بند ہو چکے تھے۔

بقیہ ہم سب وبا کو روکنے کے لیے  گھروں پر تھے۔

Millions of migrants walked long distances to return home during the lockdown; some came by trucks or other vehicles as there was no public transport
PHOTO • Sudarshan Sakharkar
Millions of migrants walked long distances to return home during the lockdown; some came by trucks or other vehicles as there was no public transport
PHOTO • Sudarshan Sakharkar

لاکھوں مہاجر مزدور اپنے گھروں کے لیے طویل فاصلہ طے کر رہے تھے۔ کچھ ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کے ذریعے، کیوں کہ پبلک ٹرانسپورٹ ندارد تھی

سڑکوں پر پیدل چل رہے اُن لاکھوں افراد کے لیے یہ ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ سوشل میڈیا پر دل کوجھنجھوڑنے والے واقعات سامنے آئے، اور کچھ رپورٹرز اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں شاید پہلی بار سڑکوں پر نکلے، تاکہ مہاجر مزدوروں کی مشقتوں کو پیش کر سکیں۔ کچھ تبصرہ نگاروں نے اس بحران کو الٹی ہجرت بتایا۔ وہ اس بات پر متفق تھے کہ یہ ہجرت ۱۹۴۷ میں تقسیم ہند کے وقت کی ہجرت سے زیادہ  بڑی تھی۔

لاک ڈاؤن کے اعلان کے وقت ملک میں کورونا کے تقریباً ۵۰۰ معاملوں کی نشاندہی ہوئی تھی۔ ایسے کئی اضلاع  اور خطے تھے، جہاں کورونا کا کوئی بھی معاملہ سامنے نہیں آیا تھا، بلکہ کووڈ- ۱۹ کی جانچ کا بھی آغاز نہیں ہوا تھا۔ ایسے فیصلہ کن وقت میں مرکزی حکومت پروٹوکال مرتب کرنے اور ٹیسٹنگ کِٹس کی خرید کے لیے ٹینڈر جاری کرنے اور کنٹریکٹ کے لیے وقت ضائع کر رہی تھی۔

اپریل کا مہینہ ختم ہونے تک ملک بھر میں کورونا کے ہزاروں معاملوں کی تصدیق ہوچکی تھی اور جون کے آخر تک یہ تعداد لاکھوں تک جا پہنچی۔ صحتی نظام کی قلعی کھل گئی تھی۔ رواں ہفتے کے آخر تک ہندوستان میں مجموعی کورونا مریضوں کی تعداد ۱۱ ملین سے تجاوز کر جائے گی اور ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے ہوں گے۔ معیشت  تھمی سی ہے – یہ لاکھوں غریبوں کے لیے مایوس کُن ہے، خصوصاً نقل مکانی کرنے والے مزدور طبقہ  کے لیے، جن کی حالت وبا سے پہلے بھی قابل رحم تھی اور وبا کے دوران بھی۔

*****

کوریتی کو یاد ہے کہ وہ کاغذ نگر سے شام کو ۴ بجے روانہ ہوئے تھے اور دیر رات تک چلتے رہے۔ ان کےسفر کے سامان میں کچھ جوڑے کپڑے، چند کلوگرام چاول، دالیں، نمک، شکر، مصالحے، کچھ بسکٹ کے پیکٹ، ضروری برتن اور پانی کی بوتلیں تھیں۔

کوریتی کو اب وقت، تاریخ اور مقامات کی پوری تفصیلات یاد نہیں ہیں۔ نقل صرف تھکان بھرا سفر ہی یاد رہ گیا ہے۔

دوران سفر وہ تینوں آپس میں کم ہی گفتگو کیا کرتے تھے۔ کوریتی کبھی آگے چلتے، تو کبھی اپنے دو ساتھیوں کے پیچھے۔ وہ اپنا سامان کبھی سَر پر تو کبھی پیٹھ  پر لاد کر چلتے۔ راستے میں جہاں کہیں انہیں بورویل یا کنواں نظر آتا، وہ پانی کی بوتلیں بھر لیتے تاکہ جسم کو درکار پانی کی مقدار فراہم کراتےرہیں۔

ان کا پہلا پڑاؤ ٹریک سے متصل بنے ریلوے کا شیلٹر تھا۔ پہلی شام وہ تقریباً پانچ گھنٹے پیدل چلے، انہوں نے کھانا بنایا اور وہیں گھاس پر سوگئے۔

دوسرے روز علی الصبح انہوں نے دوبارہ چلنا شروع کیا، اور اس وقت تک چلتے رہے جب تک سورج کی شعاعوں مدھم نہیں ہو گئیں۔ انہوں نے کھیتوں میں، درخت کے نیچے، ریلوے لائن کے کنارے پناہ لی۔ شام ہوتے ہی وہ پھر دوبارہ چل پڑے، خود سے بنایا ہوا دال چاول کھایا، کچھ گھنٹے سوئے، اور پھر صبح کی اولین ساعتوں میں دوبارہ اپنی راہ پر چل پڑے۔ اس وقت تک چلتے رہے جب تک سورج ان کے سروں پر نہیں آن پہنچا۔ سفر کی تیسری رات، وہ مہاراشٹر کی سرحد کے قریب، مکوڑی نامی جگہ پہنچ گئے۔

Left: Laxman Shahare has been migrating for work for more than 20 years. Right: Vijay Koreti with Humraj Bhoyar (centre) and Amar Netam (right) in Zashinagar
PHOTO • Sudarshan Sakharkar
Left: Laxman Shahare has been migrating for work for more than 20 years. Right: Vijay Koreti with Humraj Bhoyar (centre) and Amar Netam (right) in Zashinagar
PHOTO • Sudarshan Sakharkar

بائیں: لکشمن شہارے کام کے لیے گزشتہ ۲۰ سالوں سے ہجرت کر رہے ہیں۔ دائیں: زاشی نگر میں وجے کوریتی کےساتھ ہمراج بھویار (درمیان میں) اور امر نیتم (دائیں)

دو تین دنوں کے بعد، ان کے ذہن خالی تھے؛ وہ کچھ بھی سوچنے سے قاصر تھے، کوریتی بتاتے ہیں۔

’’ہم ریلوے ٹریک کے ساتھ چلتے رہے، گاؤوں، چھوٹی بستیوں، ریلوے اسٹیشنوں، ندیوں اور جنگلوں سے گزرتے رہے،‘‘ ہمراج بھویار نے کہا، جو ایک معمولی کسان ہیں، جنہوں نے ۱۷ لوگوں کے پہلے گروپ کی قیادت کی تھی۔

ان مزدوروں کی عمر ۱۸ سے ۴۵ سال کے بیچ تھی۔ وہ چل سکتے تھے، لیکن سخت گرمی ان کے لیے حوصلہ شکن تھی۔

مختصر سا سنگ میل کسی بڑی کامیابی کے حاصل کرنے جیسا تھا۔  راستے میں مراٹھی زبان میں لکھا کوئی سائن بورڈ نظر آتا، تو وہ خوش ہوجاتے کہ وہ مہاراشٹر میں ہیں!

’’ہم نےسوچا کہ اب ہمیں یہاں سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی،‘‘ ہمراج  یاد کرتے ہیں۔ کوریتی اور ان کے دیگر دو ساتھی انہی راستوں پر چلتے رہے، جن پر ہمراج کے گروپ نے کچھ روز قبل  سفر کیا تھا، پڑاؤ بھی انہی مقامات پر کرتے۔

’’ہم مہاراشٹر کی سرحد پر وِہیرگاؤں اور اسی روز مانِک گڑھ نامی جگہ پر رُکے – یہ جگہ چندرپور ضلع میں سمینٹ کی متعدد فیکٹریوں کے لیے مشہور،‘‘ کوریتی نے کہا۔

جب سے انہوں نے چلنا شروع کیا تھا، راتوں میں ان کے سفر کے ساتھی چاند اور ستارے تھے۔

چندرپور ضلع میں بلّرپور ریلوے اسٹیشن پر انہوں نے غسل کیا،  پورا دن سوئے اور سیر ہوکر کھانا کھایا۔ ریلوے انتظامیہ اور مقامی آبادی نے یہاں پہنچنے والے سینکڑوں مہاجر مزدوروں کے لیے کھانے کا انتظام کیا تھا۔

’’ آسے وتات ہوتے، پورا دیش چالون راہیلا [ایسا لگ رہا تھا گویا پورا ملک چل رہا ہو،‘‘ کوریتی کہتے ہیں۔ ’’ہم تنہا نہیں تھے۔‘‘ لیکن خواتین اور بچوں کو تھکان سے چور، خوفزدہ اور بے یار و مددگار دیکھ کر وہ غمزدہ ہو جاتے تھے۔ ’’میں خوش تھا کہ ویدانتی اور میری بیوی، شامکلہ گھر پر تھیں، محفوظ تھیں،‘‘ ہم سے بات کرتے وقت ان کی طرف دیکھتے ہوئے، انہوں نے کہا۔

اگلا پڑاؤ چندرپور شہر تھا۔ یہاں انہوں نے ریلوے کے پل کے نیچے آرام کیا اور پھر ٹریک کے ساتھ چلنے لگے، جو انہیں گونڈیا کی طرف لے گیا۔ انہوں نے کیلزار کو عبور کیا، یہ مفصل اسٹیشن شیروں کے علاقے میں واقع ہے، پھر مُل  سے گزرے، یہ  دونوں چندرپور ضلع میں آتے ہیں۔ ’’کیلزار اور مُل کے بیچ میں ہم نے ایک تیندوا دیکھا تھا۔ آدھی رات کو ہم ایک پانی کے جماؤ کے گرد بیٹھے ہوئے تھے، جہاں تیندوا اپنی پیاس بجھانے آیا تھا،‘‘ کوریتی بتاتے ہیں۔ جب کوریتی یہ بتا رہے تھے، تو پیچھے سے شامکلہ انہیں غور سے دیکھ رہی تھیں اور کچھ الفاظ دوہراکر بھگوان کا شکریہ ادا کر رہی تھیں کہ بھگوان نے اُن کے شوہر کو بحفاظت گھر پہنچا دیا۔ ’’تیندوا جھاڑیوں کی طرف بھاگ گیا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ اپنی جان کو خطرے میں پاکر وہ تیزی سے وہاں سے چل پڑے۔

کیلزارعبور کرنے کے بعد انہوں نے ریلوے ٹریک چھوڑ دیا اور سڑکوں پر چلنے لگے۔

Vijay with Shamkala and Vedanti. Shamkala says she was tense until her husband reached home
PHOTO • Sudarshan Sakharkar

وجے اپنی بیوی شامکلہ اور بیٹی، ویدانتی کے ساتھ۔ شامکلہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کی واپسی تک بے چین رہیں

تینوں آدمی – خاص کر ان میں سب سے بڑے، ہوڈیکر، چندرپور ضلع کے تحصیل ٹاؤن برمہاپوری پہنچنے تک تھکان کے سبب بری طرح نڈھال ہوچکے تھے۔ یہاں سے وہ گڑھ چرولی کے واڈسہ کے لیے چل پڑے اور پھر وہاں سے انہوں نے زاشی نگر کے لیے متبادل راستہ اختیار کیا۔ ستمبر کے مہینے میں جب ہم زاشی نگر پہنچے، تو ہوڈیکر وہاں موجود نہیں تھے۔ بعد ازاں، ہم اس گروپ کے مسلسل رابطے میں رہے۔

’’جب ہم مُل پہنچے، تو مقامی لوگوں نے ہم جیسے مہاجروں کے لیے عارضی کیمپ بنا رکھے تھے، جہاں پر ہم نے بہترین کھانا کھایا،‘‘ کوریتی بتاتے ہیں۔ سفر کے ۱۴ویں روز یعنی ۳ مئی کو با لآخر وہ زاشی نگر پہنچ گئے۔ گاؤں والوں نے گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا، انہیں لگا جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔

ان کے پیروں میں آئی سوجن ختم ہونے میں کئی روز لگ گئے۔

’’ جاوا پریَنت ہے لوک گھری پوہوچلے نوہتے، امہلے لاگت ٹینشن ہوتے [ہم اس وقت تک بیحد فکر مند تھے جب تک تمام مرد گھر واپس نہیں آگئے]،‘‘ کوریتی کی بیوی شامکلہ نے کہا۔ ’’ہم عورتیں ایک دوسرے سے اپنی فکرمندی کا اظہار کرتے اور ان کے دوستوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے، تاکہ ہم اُن کی خیر و عافیت کی خبر لے سکیں۔‘‘

’’جب میں نے ویدانتی کو دیکھا، تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے،‘‘ کوریتی یاد کرتے ہیں۔ ’’میں نے اسے اور اپنی بیوی کو دور سے دیکھ لیا تھا اور ان سے کہا کہ وہ گھر چلی جائیں۔‘‘ انہیں گھر والوں کے رابطہ میں آنے سے گریز کرنا تھا۔ دو اسکول، ایک بڑا مرکزی میدان اور گرام پنچایت کی تمام عمارتیں واپس آنے والے مہاجرین کے لیے مہیا کرائی گئیں، تاکہ لازمی ۱۴ دنوں کے لیے انہیں علحیدہ رکھا جا سکے۔ سرکاری احکامات میں تبدیلی کے مطابق، بعض معاملوں میں اسے کم کرکے ۷-۱۰ دن کر دیا گیا تھا۔ ایسا شاید اس لیے بھی کیا گیا تھا کیوں کہ اُن میں سے کئی لوگوں نے تنہا سفر کیا تھا۔

اُس رات، گاؤں کے جس اسکول میں انہوں نے علیحدگی میں ایک ہفتہ  گزارا تھا، کوریتی کئی ہفتوں کے بعد گہری نیند سوئے۔ یہ ایک طرح سے گھر واپسی سے کم نہیں تھا۔

*****

زاشی نگر، جسے پہلے تمبھورا کہا جاتا تھا، ایک بڑا گاؤں ہے جس کی آبادی اس وقت تقریباً ۲۲۰۰ (۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق ۱۹۲۸) ہے۔ یہ گاؤں ۱۹۷۰ میں اِٹیادوہ آبپاشی پروجیکٹ کے سبب بہہ گیا تھا، اور اب نئے مقام پر دوبارہ بسایا کیا گیا ہے۔ پانچ دہائیوں کے بعد نئی نسل شاید آگے بڑھ جائے، لیکن گاؤں کے پُرانے لوگ زبردستی نقل مکانی کے بعد بدستور بحالی اور باز آبادکاری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

The migrants walked through fields, forest pathways and along railway tracks
PHOTO • Sudarshan Sakharkar

مہاجر مزدور کھیتوں، جنگلوں اور ریلوے ٹریک کے ساتھ چلتے رہے

ضلع گونڈیا کی ارجنی مورگاؤں تحصیل میں نوے گاؤں سینکچوری اور آس پاس جنگلوں سے گِھرا زاشی نگر موسم گرما میں پانی کی قلت سے دوچار ہوتا ہے۔ یہاں کے کسان آبپاشی منصوبے کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ گاؤں میں دھان کی فصلیں، دالیں اور کچھ زرعی اجناس کی فصلیں اگائی جاتی ہیں۔

ہر سال زاشی نگر کے ۲۵۰ سے ۳۰۰ مرد و عورت کام کی تلاش میں دیگرجگہوں کا رخ کرتے ہیں۔ گاؤں کی کووڈ مینجمینٹ کمیٹی کے مطابق، اپریل مہینے میں کم از کم دو درجن مختلف مقامات سے مہاجر مزدروں کا پہلا گروپ گاؤں پہنچا تھا۔ یہ لوگ عام طور پر گوا سے چنئی، حیدر آباد سے کولہا پور اور اس سے آگے، سات ریاستوں  سے اپریل میں لاک ڈاؤن کے وقت گھر پہنچے تھے۔ گاؤں کے لوگ کھیتی باڑی، فیکٹریوں، دفتروں میں اور سڑکوں کی تعمیر جیسے کام کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے گھروں پر پیسے بھیجتے ہیں۔

مشرقی ودربھ کے دھان کی فصل کی کاشت کرنے والے اضلاع بھنڈارہ، چندرپور، گڑھ چرولی اور گونڈیا  باہر ہجرت  کرنے والوں کا مرکز ہے۔ ان اضلاع کے مرد و عورت کیرالہ میں دھان کے کھیتوں یا مغربی مہاراشٹر میں چینی یا کپاس کی مِلوں میں کام کرنے کے لیے نقل مکانی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو گزشتہ ۲۰ سالوں کے دوران پروان چڑھنے والے مزدوروں کے ٹھیکہ داروں کے ذریعے انڈمان تک ہجرت کرتے ہیں۔

گونڈیا اور بھنڈارہ سے لوگوں کی نقل مکانی کی کئی وجوہات میں ایک وجہ ایک ہی فصل کی کھیتی پر انحصار اور صنعتوں کی کمی ہے۔ خریف سیزن کے ختم ہوتے ہی، بے زمین اور چھوٹے کسان، جن کی تعداد سب سے زیاد ہے، مقامی سطح پر ہی چھوٹے موٹے کام ڈھونڈ لیتے ہیں تاکہ سال کے باقی دنوں میں گزارہ کر سکیں۔

’’اس خطہ سے کثیر تعداد میں لوگ ہجرت کرتے ہیں،‘‘ ۴۴ سالہ بھیم سین ڈونگروار بتاتے ہیں، جو پڑوس کےڈھابے- پاؤنی گاؤں میں ایک بڑے زمیندار ہیں اور جنگلات کے تحفظ کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ ’’ان خطوں میں نقل مکانی [وبائی مرض سے پہلے برسوں تک] عروج پر تھی۔‘‘ مہاجرت کرنے والے زیادہ تر لوگ بے زمین، چھوٹے اور غریب کسان تھے، جو بے روزگاری – اور دوسرے مقام پر نسبتاً بہتر معاوضہ کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور تھے۔

حیرت انگیز طور پر – اور خوش قسمتی سے – قریب اور دور دراز  سے تمام ہی تارکین وطن اپنے گھروں کو لوٹ رہے  ہیں، لیکن زاشی نگر کووڈ- ۱۹ کے ایک بھی کیس کے بغیر نئے سال میں داخل ہوا، تب سے اب تک کوئی بھی نیا کورونا کیس سامنے نہیں آیا۔

’’اپریل کے بعد سے ایسا کوئی دن نہیں گزرا جب ہمیں صعوبتیں نہ اٹھانی پڑی ہوں،‘‘ گاؤں میں کووڈ کوآرڈینیشن کمیٹی کے رکن وِکی اروڑہ کہتے ہیں۔ سابق سرپنچ کے بیٹے اور سرگرم سماجی و سیاسی کارکن، وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ گاؤں والوں نے آپس میں پیسے جمع کیے تھے تاکہ لوٹنے والے مہاجرین کے لیے لاک ڈاؤن کے دوران لازمی علیحدگی کے دن گزارنے میں کام آ سکیں۔

’’ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی بھی بیرونی شخص گاؤں میں بنا اجازت داخل نہ ہو۔ گاؤں والوں نے مہاجرین کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کی دیکھ بھال کی، جس میں ان کے قیام اور ان کی صحت کی جانچ اور کورونا کا ٹیسٹ کرنے کے انتظامات بھی شامل تھے،‘‘ اروڑہ ہمیں بتاتے ہیں۔ ’’حکومت کی طرف سے ہمیں ایک پیسے کی بھی مدد حاصل نہیں ہوئی۔‘‘

جو چندہ جمع کیا گیا تھا، اس سے گاؤں والوں نے علیحدگی کے مراکز میں رہنے والوں کے لیے سینی ٹائزرس، صابن، ٹیبل پنکھے، بستر اور دیگر سامان خریدے۔

Vicky Arora (left) says Zashinagar's residents collected money during the lockdown to look after the migrants spending time in isolation upon their return home (right)
PHOTO • Sudarshan Sakharkar
Vicky Arora (left) says Zashinagar's residents collected money during the lockdown to look after the migrants spending time in isolation upon their return home (right)
PHOTO • Sudarshan Sakharkar

وکی اروڑہ (بائیں) بتاتے ہیں کہ زاشی نگر والوں نے پیسے جمع کیے تاکہ مہاجرین کے گھر لوٹنے پر علیحدگی میں رہنے کے دوران (دائیں) ان کے قیام و طعام کا انتظام کیا جا سکے

ستمبر میں زاشی نگر کے ہمارے دورے کے دوران، گوا سے لوٹنے والے چار مہاجرین کے ایک گروپ کو گرام پنچایت کی لائبریری  کے سامنے ایک کھلے تھیئٹر میں رکھا گیا تھا۔

’’ہم تین دن پہلے آئے تھے،‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’ہم اپنے ٹیسٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

ٹیسٹ کون کرے گا، ہم نے پوچھا۔

’’گونڈیا کے محکمہ صحت کو مطلع کر دیا گیا ہے،‘‘ اروڑہ نے ہمیں بتایا۔ ’’یا تو گاؤں والے ان کا ٹیسٹ کرانے انہیں قریبی اسپتال لے جائیں گے یا محکمہ صحت اپنی ایک ٹیم بھیجے گا جو ان لوگوں کی کووڈ- ۱۹ جانچ کرے گا، اور جانچ رپورٹ کی بنیاد پر یہ لوگ گھر جا سکتے ہیں۔‘‘ یہ چاروں گوا کے مرگاؤ میں اسٹیل رولنگ مِل میں کام کرتے ہیں اور ایک سال بعد چھٹی ملنے پر گھر واپس آئے ہیں۔  لاک ڈاؤن کے دوران ان کا قیام فیکٹری میں ہی تھا اور وہ کام کر رہے تھے۔

*****

فی الحال زاشی نگرمیں کام کی قلت ہے۔ ہر روز پنچایت بلائی جاتی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں کوریتی اور دیگر مہاجرین کی واپسی کے بعد چند لوگ ہی کام کے لیے گاؤں سے باہر نکلے ہیں، لکشمن شہارے بتاتے ہیں۔

’’ہم یہاں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش میں لگے ہیں،‘‘ زاشی نگر کے گرام سیوک، ۵۱ سالہ سدھارتھ کھڑسے کہتے ہیں۔ ’’خوش قسمتی سے، اس سال اچھی بارش کے سبب  فصلوں کی اچھی پیداوار ہوئی۔ [اگرچہ کیڑے مکوڑوں کے حملے میں بہت سے لوگوں کی خریف کی اچھی فصلیں تباہ ہوگئیں]۔ لیکن گاؤں کی پنچایت کو کام کا انتظام کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ جو لوگ یہاں رکنے والے ہیں ان میں سے کچھ کو کام فراہم کیا جاسکے۔‘‘

کوریتی اور شہارے سمیت کچھ گاؤں والوں نے مشترکہ طور پر دوسرا راستہ کھوج نکالا۔ انہوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی زمینوں کو ملاکر، مجموعی طور پر ۱۰ ایکٹر، ربیع کی فصل کے لیے بیج بو دیا۔ ان کی یہ ترکیب کچھ حد تک کارآمد تھی، لیکن گاؤں میں اب بھی  مزید کام کی ضرورت ہے – اور اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ ۲۰۲۱ کے موسم سرما سے قبل کوئی بھی گاؤں سے باہر جائے۔

’’میں اس سال کام کے لیے باہر نہیں جاؤں گا، چاہے یہاں کتنی ہی مشقتیں کیوں نہ آئیں،‘‘ کوریتی کہتے ہیں۔ وبائی مرض کے بڑے پیمانے پر پھیلنے کے خوف کے ساتھ زاشی نگر کے تمام مہاجرین  کا یہی احساس ہے، ورنہ ان میں سے بیشتر لوگ اکتوبر ۲۰۲۰ سے ہی یہاں سے روانہ ہونے لگتے۔

’’اس سال کوئی بھی نہیں جا رہا ہے،‘‘ کرسی پر ٹیک  لگائے شہارے اعلان کرتے ہیں۔ ’’ہم اپنی بچت کی رقم سے گزارہ کریں گے اور مقامی کھیتوں میں کام کریں گے۔‘‘ پچھلے سال کی گرمی میں لگے زخم اب بھی تکلیف دیتے ہیں۔ ’’مِل کا مالک مجھ سے مسلسل اصرار کر رہا ہے کہ لوگوں کو کام کے لیے واپس لے آؤں، لیکن ہم نہیں جائیں گے۔‘‘

مترجم: ارشد رضا

Jaideep Hardikar

জয়দীপ হার্ডিকার নাগপুর নিবাসী সাংবাদিক এবং লেখক। তিনি পিপলস্‌ আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার কোর টিম-এর সদস্য।

Other stories by জয়দীপ হার্ডিকর