کملا جب چوتھی بار حاملہ ہوئیں اور انہوں نے اپنے بچے کو نہیں رکھنے کا فیصلہ کیا، تو ان کی پہلی منزل تھی بینور پرائمری ہیلتھ سینٹر، جو ان کی بستی سے ۳۰ کلومیٹر دور ہے۔ ابھی تک وہ صرف ہفتہ واری ہاٹ تک ہی گئی تھیں، جو ان کے گھر سے چند قدم کی دوری پر ہے، اور کہتی ہیں، ’’میں تو اس جگہ کے بارے میں جانتی بھی نہیں تھی۔ میرے شوہر نے بعد میں پتہ لگایا۔‘‘
کملا، جو ابھی ۳۰ سال کی ہوئی ہیں، اور ان کے ۳۵ سالہ شوہر روی (بدلے ہوئے نام)، دونوں ہی گونڈ آدیواسی، نے پہلے ایک مقامی ’ڈاکٹر‘ سے رابطہ کیا، جو ان کی بستی سے زیادہ دور نہیں تھا۔ ’’ایک دوست نے ہمیں اس کے بارے میں بتایا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ کملا اپنے گھر کے پاس ہی واقع کھیت کے ایک ٹکڑے پر سبزیاں اُگاتی ہیں، جسے وہ ہاٹ (بازار) میں فروخت کرتی ہیں۔ جب کہ روی مقامی منڈی میں ایک مزدور ہیں، اور اپنے دو بھائیوں کے ساتھ تین ایکڑ میں گیہوں اور مکئی کی کھیتی کرتے ہےیں۔ وہ جس کلینک کا ذکر کر رہی ہیں، اسے شاہراہ سے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسا دعویٰ ہے کہ یہ ایک ’اسپتال‘ ہے، حالانکہ داخلی دروازہ پر ’ڈاکٹر‘ کے ساتھ کوئی نام نہیں لکھا ہے، بلکہ احاطہ کی دیواروں کو ڈھکنے والے فلیکس پینل پر اس کے نام سے پہلے وہ ٹائٹل لگا ہوا ہے۔
’ڈاکٹر‘ نے انہیں تین دنوں کے لیے پانچ گولیاں دیں، کملا بتاتی ہیں، ان سے ۵۰۰ روپے لیے، اور اگلے مریض کو بلایا۔ گولیوں کے بارے میں، اس کے ممکنہ منفی اثرات، اور سب سے اہم، کب اور کیسے وہ اسقاط کی امید کر سکتی ہیں، اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں فراہم کی گئی۔
دوا لینے کے کچھ گھنٹوں بعد، کملا کو خون بہنے لگا۔ ’’میں نے کچھ دنوں تک انتظار کیا لیکن یہ بند نہیں ہوا، اس لیے جس ڈاکٹر نے دوائیں تھیں ہم اس کے پاس واپس گئے۔ اس نے ہمیں پی ایچ سی جانے اور صفائی کروانے کے لیے کہا۔‘‘ اس کا مطلب ہے بچہ دانی کی ’صفائی‘ کروانا۔
ہلکی سردیوں کی دھوپ میں بینور پرائمری ہیلتھ سینٹر (پی ایچ سی) کے باہر ایک بینچ پر بیٹھی کملا اندر بلائے جانے کا انتظار کر رہی ہیں، جہاں پر ان کی حمل کو ختم کرنے (ایم ٹی پی) کی کارروائی کی جائے گی، جس میں تقریباً ۳۰ منٹ لگیں گے، لیکن اس سے پہلے اور بعد میں انہیں تین سے چار گھنٹے آرام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دن پہلے خون اور پیشاب کی جانچ پوری کر لی گئی تھی۔
چھتیس گڑھ کے نارائن پور ضلع کے اس سب سے بڑے پی ایچ سی کو ۲۰۱۹ کے آخر میں جدید بنایا گیا تھا۔ اس میں زچگی کے خصوصی کمرے ہیں جس کی دیواروں پر مسکراتی ہوئی ماؤں اور صحت مند بچوں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں، ۱۰ بستروں والا وارڈ، تین بستروں والا لیبر روم، آٹو کلیو مشین، حمل کی مدت پوری کر چکی اور بچے کو جنم دینے کا انتظار کر رہی خواتین کے لیے رہائش کی سہولت اور ساتھ ہی ایک کچن گارڈن بھی ہے۔ یہ بَستر کے آدیواسیوں کے غلبہ والے حصے میں عوامی صحت خدمات کی ایک امید افزا تصویر پیش کرتا ہے۔
’’بینور پی ایچ سی [نارائن بلاک میں] ضلع میں تمام سہولیات اور خدمات سے لیس ہے۔‘‘ ریاست کے سابق میٹرنل ہیلتھ ایڈوائزر، ڈاکٹر روہت بگھیل کہتے ہیں۔ ’’اس کے ۲۲ ملازمین میں ایک ڈاکٹر، ایک آیوش [دوا کا دیسی نظام] میڈیکل افسر، پانچ نرسیں، دو لیب ٹیکنیشین اور یہاں تک کہ ایک اسمارٹ کارڈ کمپیوٹر آپریٹر بھی شامل ہے۔‘‘
یہ پی ایچ سی ۳۰ کلومیٹر کے دائرہ میں موجود مریضوں کا احاطہ کرتا ہے، جن میں سے زیادہ تر اس ضلع کے آدیواسی ہیں، جہاں ۷۷ء۳۶ فیصد آبادی درج فہرست قبائل کے ہیں، جو بنیادی طور سے گونڈ، ابھوج ماریا، ہلبا، دھوروا، مُریا اور ماریا برادریوں سے ہیں۔
لیکن، اپنے چہرے کو پولکا ڈاٹ والی ایک پتلی شال سے ڈھکے ہوئے کملا کہتی ہیں، ’’ہمیں نہیں معلوم تھا کہ آپ یہاں ایسی چیزیں کرا سکتے ہیں۔‘‘ ان کے تین بچے – ۱۲ اور ۹ سال کی دو لڑکیاں اور ۱۰ سال کا ایک لڑکا – گونڈ آدیواسی ایک دائی کی مدد سے گھر پر پیدا ہوئے تھے۔ کملا کو زچگی سے پہلے یا بعد میں کوئی دیکھ بھال نہیں ملی۔ ادارہ جاتی افزائشی طبی خدمات کا یہ ان کا پہلا تجربہ ہے۔ ’’میں پہلی بار اسپتال آئی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں نے سنا تھا کہ وہ آنگن واڑی میں گولیاں دیتی ہیں، لیکن میں وہاں کبھی نہیں گئی۔‘‘ کملا دیہی طبی منتظمین (آر ایچ او) کا ذکر کر رہی ہیں جو فولک ایسڈ کی گولیاں تقسیم کرنے اور زچگی سے قبل جانچ کرنے کے لیے گاؤوں اور بستیوں میں جاتی ہیں۔
عوامی طبی نظام سے کملا کی علاحدگی یہاں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے - ۴ (۲۰۱۵-۱۶) میں بتایا گیا ہے کہ دیہی چھتیس گڑھ میں ۳۳ء۲ فیصد خواتین کی زچگی ادارہ جاتی نہیں ہوتی ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مانع حمل کا استعمال نہ کرنے والی صرف ۲۸ فیصد خواتین نے، جو کملا کی طرح ہی دیہی علاقوں میں رہتی ہیں، فیملی پلاننگ کے بارے میں کسی طبی ملازم سے بات کی ہے۔ سروے میں آگے کہا گیا ہے کہ ’غیر منصوبہ بند حمل نسبتاً عام ہے‘، اور ’اسقاط حمل کرانے والی تقریباً ایک چوتھائی خواتین نے اسقاط سے متعلق پریشانیوں کی شکایت کی ہے‘۔
نارائن پور کی تقریباً ۹۰ فیصد آبادی جو دیہی علاقوں میں رہتی ہے، خراب یا بغیر سڑک کے رابطہ کے، ان کی افزائشی طبی خدمات تک رسائی کم ہے۔ نارائن ضلع کے عوامی طبی نیٹ ورک میں حالانکہ پانچ پی ایچ سی، ایک عوامی طبی مرکز (سی ایچ سی) اور ۶۰ ذیلی طبی مراکز ہیں، لیکن ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ’’ماہر ڈاکٹروں کے ۶۰ فیصد عہدے [ضلع میں] خالی ہیں۔ ضلع اسپتال کے باہر کوئی خواتین کا ماہر ڈاکٹر نہیں ہے،‘‘ ڈاکٹر بگھیل بتاتے ہیں۔ اور دو پی ایچ سی – اورچھا بلاک میں گرپا اور ہندواڑہ – ایک ہی کمرے سے کام چلا رہے ہیں۔ وہاں نہ تو کوئی عمارت ہے اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر، وہ کہتے ہیں۔
یہ کملا اور کئی دیگر خواتین کو ان کی افزائشی طبی ضروریات کے لیے نا اہل طبیبوں پر بھروسہ کرنے کے لیے مجبور کرتا ہے، جیسا کہ وہ ’ڈاکٹر‘ جس سے کملا نے صلاح و مشورہ کیا تھا۔ ’’ہمارے کئی آدیواسی لوگوں کو اس بات کی جانکاری نہیں ہے کہ کون ایلوپیتھ ہے اور کون نہیں۔ ہمارے یہاں ’جھولا چھاپ ڈاکٹر‘ ہیں جو دراصل ’نیم حکیم‘ ہیں [دوائیں دینے کے لیے پوری طرح سے قابل]، لیکن انجیکشن، ڈرِپ اور دوائیں دیتے ہیں، اور کوئی بھی ان پر سوال نہیں اٹھاتا ہے،‘‘ پرمود پوٹائی بتاتے ہیں، جو ایک گونڈ آدیواسی ہیں، اور بَستر میں صحت اور تغذیہ پر یونیسیف امداد یافتہ پروگرام کے لیے اس ضلع میں واقع ایک این جی او، ساتھی سماج سیوی سنستھا کے اسسٹنٹ پروجیکٹ کوآرڈی نیٹر ہیں۔
اس کمی کو پورا کرنے کے لیے، ریاستی حکومت نے دیہی طبی معاونین (آر ایم اے) کا عہدہ بنایا۔ سال ۲۰۰۱ میں، جب چھتیس گڑھ ریاست بنی تھی، تب کل ۱۴۵۵ منظور عہدوں کی پی ایچ سی سطح پر صرف ۵۱۶ میڈیکل آفیسر ۔ چھتیس گڑھ چکِتسا منڈل ایکٹ، ۲۰۰۱ کا مقصد دیہی علاقوں کے لیے صحت کی نگرانی کرنے والے ڈاکٹروں کو تربیت دینا تھا۔ بنیادی طور سے ’پریکٹشنر اِن ماڈرن میڈیسن اینڈ سرجری‘ عنوان والے تین سالہ نصاب کا نام تین مہینے کے اندر بدل کر ’ڈپلومہ اِن الٹرنیٹو میڈیسن‘ کر دیا گیا۔ اس کے لیے میڈیکل کونسل آف انڈیا (ایم سی آئی) سے مشورہ نہیں کیا گیا تھا، اور ’ماڈرن میڈیسن‘ اور ’سرجری‘ جیسے الفاظ کے استعمال کو لے کر قانونی تشویشیں تھیں۔ نصاب میں بایو کیمک میڈیسن، ہربو مِنرل میڈیسن، ایکیو پریشر، فزیو تھیراپسٹ، میگنیٹو تھیراپی، یوگا اور پھول کے ذریعے علاج شامل تھے۔ آر ایم اے کی شکل میں قابل افراد کو ’معاون میڈیکل آفیسر‘ کے عہدہ کے ساتھ خاص طور سے دیہی اور آدیواسی علاقوں میں تعینات کیا جانا تھا۔
حالانکہ، ایم سی آئی نے یہ کہتے ہوئے ڈپلومہ کورس کو خارج کر دیا کہ اس سے میڈیکل پروفیشن کے معیاروں کے کمزور ہونے کا امکان تھا۔ تین رِٹ پٹیشن (پہلی ۲۰۰۱ میں انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کی چھتیس گڑھ ریاست کی شاخ کے ذریعے، اور دیگر صحت ملازمین کی یونینوں کے ذریعے، نرسوں کی تنظیموں، اور دیگر کے ذریعے) بلاس پور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھیں۔ عدالت نے ۴ فروری، ۲۰۲۰ کو کہا کہ ریاست نے آر ایم اے کے لیے ’معاون میڈیکل آفیسر‘ کے عہدہ کو ختم کرنے کا ایک ’پالیسی ساز فیصلہ‘ لیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ آر ایم اے ’ڈاکٹر‘ کے خطاب کا استعمال نہیں کر سکتے، آزادانہ طور پر کام نہیں کر سکتے بلکہ صرف ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی نگرانی میں کر سکتے ہیں، اور ’بیماری/سنگین حالات/ناگہانی حالات میں صرف بنیادی صحت/استحکام‘ کا کام کر سکتے ہیں۔
آر ایم اے نے حالانکہ ایک اہم خلیج کو پُر کیا ہے۔ ’’ڈاکٹروں کی کمی کو دیکھتے ہوئے، کم از کم جو لوگ ’نیم حکیم‘ کے پاس گئے تھے، اب وہ آر ایم اے سے رابطہ کر سکتے ہیں،‘‘ بگھیل کہتے ہیں۔ ’’ان کے پاس کچھ میڈیکل ٹریننگ ہے اور وہ مانع حمل کے بارے میں آسان صلاح دے سکتے ہیں، لیکن وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔ صرف ایک قابل ایم بی بی ایس ڈاکٹر اسقاط حمل سے متعلق دواؤں کی صلاح اور نسخہ دے سکتا ہے۔‘‘
سال ۲۰۱۹۔۲۰ میں، ریاست میں ۱۴۱۱ آر ایم اے کام کر رہے تھے، بگھیل کہتے ہیں۔ ’’ہمیں ماں کی شرح اموات اور نوزائیدوں کی شرح اموات میں گراوٹ کے لیے انہیں کچھ کریڈٹ ضرور دینا چاہیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں نوزائیدوں کی شرحِ اموات جو ۲۰۰۵-۰۶ میں ہر ایک ہزار پر ۷۱ تھی، وہ ۲۰۱۵-۱۶ میں گھٹ کر ۵۴ ہو گئی، جب کہ عوامی صحت مراکز میں ادارہ جاتی شرحِ پیدائش ۲۰۰۵-۰۶ میں ۶ء۹ فیصد سے بڑھ کر ۵۵ء۹ فیصد ہو گئی تھی (این ایف ایچ ایس- ۴)۔
کملا کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے شروع میں جس ’ڈاکٹر‘ سے مشورہ کیا تھا، وہ آر ایم اے تھا یا پوری طرح سے نااہل ڈاکٹر۔ دونوں میں سے کوئی بھی اسقاطِ حمل میں استعمال ہونے والے میسو پرسٹال اور میفی پریٹون دینے کے لیے قانونی طور پر مجاز نہیں ہے، جسے لینے کی کملا کو صلاح دی گئی تھی۔ ’’ان دواؤں کو دینے کے لیے اہل ہونے سے پہلے، ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کو بھی سرکاری اسپتالوں میں ایم ٹی پی کے بارے میں ۱۵ روزہ ٹریننگ کیمپ میں حصہ لینا پڑتا ہے،‘‘ بینور پی ایچ سی کی سربراہ، ۲۶ سالہ ایلوپیتھ ڈاکٹر پرم جیت کور بتاتی ہیں۔ ’’آپ کو مریض کی نگرانی کرنی پڑتی ہے تاکہ ان کا بہت زیادہ خون نہ بہہ جائے اور اس کی بھی جانچ کرنی پڑتی ہے کہ اسقاط کہیں ادھورا تو نہیں رہ گیا ہے۔ ورنہ، یہ خطرناک ہو سکتا ہے۔‘‘
کور کہتی ہیں کہ تقریباً دو سال پہلے جب ان کی تعیناتی بَستر کے اس حصے میں ہوئی تھی، تب سے انہوں نے کملا کی طرح کئی سنگین معاملے دیکھے ہیں۔ ان کے باہری مریضوں کے رجسٹر میں اوسطاً ۶۰ مریضوں کی فہرست ہے جو وہاں ایک دن میں مختلف شکایتوں کے ساتھ آتے ہیں، اور ہفتہ کے روز (جب اس علاقے میں بازار کا دن ہوتا ہے) ایسے مریضوں کی تعداد تقریباً ۱۰۰ ہو جاتی ہے۔ ’’میں او پی ڈی میں اس قسم کے ’مرمتی‘ کیس جیسے کئی [افزائشی صحت کے] معاملے، نا اہل طبی ملازمین کے ذریعے علاج کیے گئے لوگوں کو دیکھتی ہوں۔ اسقاط حمل غلطی سے کیے جانے پر انفیکشن ہو سکتا ہے، جس سے بانچھ پن، سنگین بیماری یا موت تک ہو سکتی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’یہاں آنے والی زیادہ تر عورتوں کو ان سب کی جانکاری نہیں ہوتی ہے،‘‘ وہ آگے کہتی ہیں۔ ’’انہیں صرف ایک گولی دے کر واپس بھیج دیا جاتا ہے، جب کہ دوائیں دینے سے پہلے ان کے اندر اینیما اور بلڈ شوگر کی جانچ کی جانی چاہیے۔‘‘
بینور سے تقریباً ۵۷ کلومیٹر دور، دھوڈئی کے ایک دیگر پی ایچ سی میں، ۱۹ سالہ ہلبی آدیواسی، سیتا (بدلا ہوا نام) اپنے دو سال کے بچے کے ساتھ آئی ہیں۔ ’’میرا بچہ گھر پر پیدا ہوا تھا اور میں نے اپنے حمل کے دوران یا بعد میں کبھی کسی سے صلاح نہیں لی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ قریبی آنگن واڑی – جہاں زچگی سے پہلے اور بعد میں جانچ کرنے کے لیے طبی ملازمین دستیاب ہوتے ہیں – ان کے گھر سے صرف ۱۵ منٹ کی پیدل دوری پر ہے۔ ’’وہ کیا کہہ رہے ہیں میری سمجھ میں نہیں آتاا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
جتنے بھی طبی پیشہ وروں سے میری ملاقات ہوئی، سبھی نے کہا کہ طبی صلاح دینے میں زبان ایک رکاوٹ ہے۔ دیہی بَستر کے زیادہ تر آدیواسی یا تو گونڈی بولتے ہیں یا ہلبی، اور چھتیس گڑھی تھوڑا بہت سمجھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ طبی پیشہ ور مقامی نہ ہو، یا ان زبانوں میں سے صرف ایک کو جانتا/جانتی ہو۔ کنیکٹیوٹی ایک اور مسئلہ ہے۔ دھوڈئی پی ایچ سی میں ۴۷ گاؤوں شامل ہیں، جن میں سے ۲۵ میں پہنچنے کے لیے کوئی سڑک نہیں ہے، دھوڈئی کے ۳۸ سالہ آر ایم اے، ایل کے ہرج پال کہتے ہیں۔ ’’اندرونی علاقوں تک پہنچنا مشکل ہے، اور زبان بھی ایک مسئلہ ہے، اس لیے ہم اپنا کام [حمل کی نگرانی] نہیں کر سکتے،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’ہماری معاون نرس دائیوں (اے این ایم) کو تمام گھروں کا احاطہ کرنا مشکل لگتا ہے، وہ ایک دوسرے سے کافی دوری پر ہیں۔‘‘ عوامی طبی خدمات تک پہنچے میں اور بھی خواتین کو اہل بنانے کے لیے، ریاستی حکومت نے ۲۰۱۴ میں بائک ایمبولینس کی شروعات کی تھی، اور اب ضلع میں ایسی پانچ بائک کام کر رہی ہیں۔
دشمتی یادو (۲۲) ان لوگوں میں شامل ہیں، جنہوں نے اس ایمبولینس کا استعمال کیا تھا۔ وہ اور ان کے شوہر، پرکاش، بینور پی ایچ سی سے کچھ کلومیٹر دور پانچ ایکڑ میں کھیتی کرتے ہیں، جہاں میں ان سے ان کی ایک مہینہ کی بیٹی کے ساتھ ملی تھی۔ ’’جب میں پہلی بار حاملہ ہوئی تھی، تو گاؤں کے سِرہا [روایتی حکیم] نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آنگن واڑی یا اسپتال نہ جاؤں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ میرا خیال رکھیں گے۔ لیکن گھر پر بچے کو جنم دینے کے فوراً بعد اس کی (بیٹے کی) موت ہو گئی تھی۔ اس لیے اس دفعہ میرے شوہر نے ایمبولینس کو فون کیا اور مجھے میری ڈلیوری کے لیے بینور لے جایا گیا۔‘‘ اس پی ایچ سی میں، ان کی بستی سے ۱۷ کلومیٹر دور، مہتاری ایکسپریس (چھتیس گڑھی میں ’مہتاری‘ کا مطلب ہے ’ماں‘) نامی ایک ایمبولینس ہے جسے ۱۰۲ پر فون کرکے بک کیا جا سکتا ہے۔ رینا کی بیٹی بچ گئی، اور ہم سے بات کرتے وقت ماں بھی مسکرا رہی ہیں۔
’’مزید خواتین کو اسپتال میں ڈلیوری کے لیے آمادہ کرنے کے لیے، ۲۰۱۱ میں [مرکزی حکومت کے ذریعے] جننی شیشو سرکشا کاریہ کرم کی شروعات کی گئی تھی، جس کے تحت اسپتال جانے کے لیے سفر کا خرچ، اسپتال میں مفت رہائش، مفت کھانا، اور ضرورت کے مطابق دوائیں مہیا کرانے کی سہولت دی جاتی ہے،‘‘ نارائن پور میں صحت کی ضلع صلاح کار، ڈاکٹر مینل اندورکر بتاتی ہیں۔ ’’اور پردھان منتری ماتر وندنا یوجنا کے تحت ان ماؤں کو ۵۰۰۰ روپے نقد دیے جاتے ہیں، جو زچگی سے قبل چار جانچ کرواتی ہیں، کسی ادارہ میں بچے کو جنم دیتی ہیں، اور اپنے نوزائیدہ بچے کو پورے ٹیکے لگواتی ہیں،‘‘ وہ آگے بتاتی ہیں۔
بینور پی ایچ سی میں، جہاں کملا اپنے ایم ٹی پی کا انتظار کر رہی ہیں، روی اپنی بیوی کے لیے ایک کپ چائے لے کر آتے ہیں۔ لمبے بازو کی شرٹ اور نیلی جینس پہنے، وہ انکشاف کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی فیملی کو یہ نہیں بتایا ہے کہ وہ طبی مرکز کیوں آئے ہیں۔ ’’ہم انہیں بعد میں بتائیں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہمیں تین بچوں کی پرورش کرنی ہے؛ ہم ایک اور کو نہیں سنبھال سکتے۔‘‘
کملا بچپن میں ہی یتیم ہوگئی تھیں، جس کے بعد ان کی پرورش و پرداشت ان کے ماما نے کی تھی اور انہوں نے ہی شادی بھی کرائی۔ شادی سے پہلے انہوں نے اپنے شوہر کو نہیں دیکھا تھا۔ ’’میرے پہلے حیض کے بعد ہی میری شادی کر دی گئی تھی۔ میری برادری میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ شادی میں کیا ہوتا ہے۔ میرے حیض کے بارے میں، میری مامی نے صرف یہی کہا تھا کہ ’ڈیٹ آئے گا‘۔ میں کبھی اسکول نہیں گئی اور میں پڑھ نہیں سکتی، لیکن میرے تینوں بچے اسکول میں پڑھ رہے ہیں،‘‘ وہ فخر سے کہتی ہیں۔
کملا نس بندی کرانے کے لیے، چند مہینوں کے بعد پی ایچ سی لوٹنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ان کے شوہر اپنی نس بندی کرانا نہیں چاہیں گے کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ ان کی مردانہ طاقت کو خراب کر دے گا۔ کملا نے صرف اس سفر پر مانع حمل اور نس بندی جیسی چیزوں کے بارے میں سنا ہے، لیکن انہوں نے ان سب کو جلدی سمجھ لیا ہے۔ ’’ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ اگر میں حاملہ نہیں ہونا چاہتی، تو یہ ایک متبادل ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ کملا کو فیملی پلاننگ کی تکنیکوں کا علم ۳۰ سال کی عمر میں ہوا ہے، جب ان کے تین بچے ہو چکے ہیں، اور جب ایک سرجری ان کے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کو پوری طرح سے ختم کر دے گی۔
نامہ نگار اس اسٹوری میں تعاون فراہم کرنے کے لیے بھوپیش تیواری، اویناش اوستھی اور وِدوشی کوشک کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
کور کا خاکہ: پرینکابورار نئے میڈیا کی ایک آرٹسٹ ہیں جو معنی اور اظہار کی نئی شکلوں کو تلاش کرنے کے لیے تکنیک کا تجربہ کر رہی ہیں۔ وہ سیکھنے اور کھیلنے کے لیے تجربات کو ڈیزائن کرتی ہیں، باہم مربوط میڈیا کے ساتھ ہاتھ آزماتی ہیں، اور روایتی قلم اور کاغذ کے ساتھ بھی آسانی محسوس کرتی ہیں۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گرہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)