کے این مہیشا ایک تربیت یافتہ نیچری ہیں، جنہوں
نے پہلے کامرس کا مطالعہ کیا تھا۔ وہ اور ان کے والد کُناگ ہلّی گاؤں میں کھیتی
کرتے ہیں۔ اس مضمون کے لیے انھوں نے جب یہ تصویریں لیں، تب وہ باندی پور نیشنل
پارک میں تیزی سے پھیلنے والے خس و خاشاک کو ہٹانے کے لیے ایک مقامی این جی او کے
ساتھ کام کر رہے تھے۔
ان کا تصویری مضمون جنگلی جانوروں کے
ساتھ زندگی بسر کرنے کے بارے میں ایک بڑے شراکتی فوٹوگرافی پروجیکٹ کا حصہ اور
’پاری‘ پر شائع چھ تصویری مضامین کے سلسلہ کا چوتھا مضمون ہے۔ ’’جب مجھے کیمرہ دیا
گیا تھا، تو پہلے میں یہ نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا کلک کرنا ہے اور میں تصویریں
کھینچنے میں بہت شرماتا تھا،‘‘ ۲۷ سالہ مہیشا کہتے ہیں۔ ’’پھر میں نے ہر اُس چیز
کو کلک کرنا شروع کر دیا جو مجھے نئی اور دلچسپ لگی۔ مجھے یہ پروجیکٹ بہت پسند
آیا؛ اس کے توسط سے، گاؤوں میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم اسے دیکھ پا رہے ہیں۔‘‘
PHOTO •
K.N. Mahesha
مہیشا کو امید ہے کہ یہ پروجیکٹ
کرناٹک کے چامراج نگر ضلع میں باندی پور کے آس پاس کے گاؤوں کے مسائل کے بارے میں مزید
لوگوں کو بیدار کرے گا
PHOTO •
K.N. Mahesha
تربوز کے کھیت:
’’یہ
میرے پڑوسی کا کھیت ہے، اور عورتیں تربوز کے کھیت سے گھاس پھوس نکال رہی ہیں۔ کبھی
کبھی سور اور ہاتھی یہاں آ جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں، سور ایک بڑی پریشانی بن گئے
ہیں۔ ہاتھیوں کو روکنے کے لیے خندقیں اور باڑ ہیں، لیکن سور باڑ کے نیچے کی زمین
کھود کر کھیتوں میں آ جاتے ہیں اور تربوز کھاتے ہیں کیوں کہ وہ بہت ذائقہ دار ہیں۔
لوگ فصلوں کی حفاظت کے لیے رات میں بھی اپنے کھیتوں کی نگرانی کرتے ہیں، وہ سور کو
دور رکھنے کے لیے روشنی کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بجلی نہیں ہوگی، تو سور آ جائیں
گے۔ پچھلی بار، وہ آدھے ایکڑ میں لگے تربوز کو کھا گئے تھے‘‘
PHOTO •
K.N. Mahesha
ٹماٹر کے کھیت:
’’سور
اکثر آتے ہیں اور ٹماٹر کے کھیتوں کو بھی برباد کر دیتے ہیں۔ ہم شمسی توانائی والے
باڑ سے کھیت کی حفاظت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ قند کی تلاش میں آتے ہیں اور وہ
پودوں کو کھودتے ہیں – وہ ٹماٹر زیادہ نہیں کھاتے ورنہ اسے بھی کھا گئے ہوتے۔ ہمیں
اپنے ٹماٹروں کی اچھی قیمت نہیں مل رہی ہے۔ پچھلے سال، قیمت بہت کم تھی، ایک روپے
کلو، اس لیے ہمیں سبھی ٹماٹروں کو پھینکنا پڑا۔ لیکن اب ان کی قیمت ۴۰ روپے تک
پہنچ گئی ہے‘‘
PHOTO •
K.N. Mahesha
لڑتے ہوئے بیل:
’’یہ
عام بیل ہیں۔ پہلے لوگوں کے پاس آج سے زیادہ گائیں ہوا کرتی تھیں۔ انھیں چرنے کے
لیے جنگل بھیج دیا جاتا تھا، لیکن اب اس کی اجازت نہیں ہے۔ اب بہت سے لوگوں کے پاس
کچھ ہائبرڈ گائیں ہیں، یہ کافی مہنگی اور حساس ہیں، لیکن عام گایوں کے مقابلے
زیادہ دودھ دیتی ہیں۔ عام گایوں کو زیادہ تر ان کے گوبر کے لیے رکھا جاتا ہے۔
کیرالہ کے لوگ آتے ہیں اور گوبر خریدتے ہیں، لیکن اب بہت کم گائیں ہیں‘‘
PHOTO •
K.N. Mahesha
گائے کا جھُنڈ:
’’یہ
ہادِن کنیوے [گانوں کی وادی) میں ہے۔ تصویر میں موجود عورت جینو کروبا آدیواسی ہے،
جو جنگل میں اپنی گائیں چرا رہی ہے۔ میں انھیں روز دیکھتا ہوں۔ اس کے پاس شاید
۱۰۰-۱۵۰ گائیں ہیں۔ انھوں نے مجھ سے شکایت کی کہ حال ہی میں دو گایوں اور بچھڑے کا
جنگلی جانوروں نے شکار کر لیا تھا۔ اس لیے وہ اپنے مویشیوں کو چرانے کے لیے گروپ
میں جاتے ہیں۔ وہ جنگل کے کنارے پر رہتے ہیں – جنگل کے اندر چرانا غیر قانونی ہے،
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس چرائی کی زمین بہت زیادہ نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے
جانوروں کے ساتھ جنگل میں چلے جاتے ہیں‘‘
PHOTO •
K.N. Mahesha
باڑے میں گایوں کو چارہ کھلانا:
’’یہ
میرے پڑوسی ہیں، ان کے پاس تین ہائبرڈ مویشی ہیں۔ وہ اپنی گایوں کو ایک سال تک
کھلانے کے لیے بڑی مقدار میں چارے جمع کرتے ہیں۔ وہ کالا چنا، پھلیوں کی بھوسی اور
مکئی بھی جمع کرتے ہیں۔ گرمیوں کے دوران جب گھاس نہیں ہوگی، تب وہ اپنے جانوروں کو
یہ سب کھلا سکتے ہیں۔ ہائبرڈ گائے زیادہ گرمی برادشت نہیں کر سکتی، اسی لیے انھوں
نے ان کے لیے ایک باڑہ بنایا ہے، وہ بہت حساس ہوتی ہیں۔ انھیں پانی، باجرے کی
کھَلی اور دیگر سامان سیدھے ان کے باڑے میں پہنچا دیے جاتے ہیں‘‘
PHOTO •
K.N. Mahesha
بیلوں کی نعل:
’’یہ
بیلوں کے لیے ایک اہم عمل ہے۔ جس طرح ہم جوتے پہنتے ہیں، اسی طرح بیلوں کو بھی ایک
للا (نعل) چاہیے۔ وہ بہت سارے پتھروں والی ننگی زمین پر چلتے ہیں، اس لیے یہ بہت
ضروری ہے۔ ہر مہینے، گنڈلوپیٹ [قصبہ، تقریباً ۲۲ کلومیٹر دور]ف سے ایک آدمی آتا ہے
اور اس عمل کو کرتا ہے۔ ہم بیل کو لاتے ہیں اور وہ بیلوں کے نعل لگا دیتے ہیں۔ کچھ
لوگ گایوں کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں، لیکن یہ سبھی بیلوں کے لیے ہر چھ ہفتے میں
ایک بار ضروری ہے‘‘
PHOTO •
K.N. Mahesha
نِرائی:
’’جنگل میں مختلف قسم کے خس و خاشاک اُگ رہے ہیں، جس سے گھاس کو اُگنے کے لیے کم
جگہ ملتی ہے۔ یہاں گھنیری (شاہ پسند) اور یوپیٹوریم بھاری مقدار میں بڑھ رہے ہیں۔
اس وجہ سے باگھ جیسے شکاریوں کے چارے کی جگہ کم ہوتی جا رہی ہے، اور وہ جنگل سے
باہر آ رہے ہیں اور ہماری بھیڑ بکریوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ ہم [غیر سرکاری تنظیم
’جنگل اسکیپ‘، جہاں مہیشا کام کرتے ہیں] محکمہ جنگلات کے لیے نِرائی کا یہ کام کر
رہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ گھاس بڑھے گی اور ہرن، سانبھر اور دیگر جانوروں کے لیے
چارہ دستیاب ہوگا۔ تب باگھ، جنگلی کتے اور تیندوئے انھیں کھائیں گے اور جنگل سے
باہر نہیں آئیں گے۔ اس تصویر میں موجود لوگ جینو کروبا آدیواسی ہیں، جنہیں اس کام
کے ذریعے روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔ یہ کام جنگل اور لوگوں، دونوں کے لیے اچھا
ہے‘‘
PHOTO •
K.N. Mahesha
جنگل کی آگ:
’’یہ
صبح کی بات ہے، جب میں ییلاچٹّی کے پاس دونکی بیٹّا نامی جگہ پر کام کرنے جا رہا
تھا۔ محکمہ جنگلات آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ گاؤں کے کچھ لوگوں نے آگ لگائی
ہے۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کیوں کہ انھیں لگتا ہے کہ گھنی جھاڑیاں ختم ہوجانی
چاہئیں تاکہ گرمیوں میں، جب زیادہ گھاس نہیں ہوتی، ان کے مویشیوں کے چرنے کے لیے
گھاس اُگ سکے۔ وہ اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ آگ چھوٹے جانوروں اور پرندوں کو
بھی ہلاک کر دیتی ہے۔ یہاں پر آگ ہی بنیادی جھگڑا ہے۔‘‘
PHOTO •
K.N. Mahesha
مہاوت:
’’یہ
کرشن ہیں، وہ ایک مہاوت ہیں۔ میں انہیں ہر صبح دیکھتا ہوں۔ وہ ہاتھی کو جنگل میں
لے جا رہے ہیں۔ وہ ہر صبح ساڑھے نو بجے ہاتھی کو راگی کھلاتے ہیں اور شام کو اسے
واپس لاتے ہیں اور دوبارہ کھلاتے ہیں۔ یہ کُمکی [قید، تربیت یافتہ ہاتھی] ہے، جسے
محکمہ جنگلات کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دوسروں کے مقابلے ایک اچھا ہاتھی
ہے‘‘
PHOTO •
K.N. Mahesha
پرنس:
’’یہ
میرا پسندیدہ باگھ ہے، پرنس، وہ تقریباً ۱۱-۱۲ سال کا ہے۔ باندی پور میں پرنس ہر
کسی کا پسندیدہ باگھ ہے، میں نے اسے کئی بار دیکھا ہے۔ پرنس جب ایک بار نظر آ جاتا
ہے، تو وہ کم از کم ۱-۲ گھنٹے تک رکے گا۔ وہ آئے گا اور پاس ہی بیٹھ جائے گا۔ حال
ہی میں، اس سے میرا آمنا سامنا بہت قریب سے ہوا تھا۔ میں ایک سفاری پر گیا ہوا تھا
جب میری نظر اس پر پڑی، وہ بہت قریب آ گیا جہاں میں جیپ میں تھا۔ میں اُس دن بہت
ڈر گیا تھا!‘‘
PHOTO •
K.N. Mahesha
سانپ کھانے والی چیل:
’’یہ
ایک شکاری پرندہ ہے۔ یہ عام طور پر سانپوں کو کھاتی ہے۔ یہ اس علاقے میں اکثر نظر
آ جاتی ہے‘‘
اس کام کو جیئرڈ مارگلیز نے کرناٹک کے
منگلا گاؤں میں واقع مریَمّا چیریٹیبل ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا۔ یہ ۲۰۱۶۔ ۲۰۱۵ کے فل
برائٹ نہرو اسٹوڈنٹ ریسرچ گرانٹ کی وجہ سے ممکن ہو پایا، جو کہ یونیورسٹی آف میری
لینڈ بالٹی مور کاؤنٹی کا ایک گریجویٹ اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن ریسرچ گرانٹ ہے،
ساتھ ہی اسے مریما چیریٹیبل ٹرسٹ سے بھی مدد ملی۔ لیکن اس میں سب سے بڑی شراکت خود
فوٹوگرافرز کی رہی، جنہوں نے پوری تندہی اور محنت سے کام کیا۔ متن کا ترجمہ کرتے
وقت بی آر راجیو کا قیمتی تعاون بھی شامل حال رہا۔ تمام تصویروں کے کاپی رائٹس،
پاری کے کریٹو کامنس یوز اور ری پروڈکشن پالیسیوں کے مطابق، پوری طرح سے فوٹوگرافرز
کے پاس محفوظ ہیں۔ ان کے استعمال یا دوبارہ اشاعت سے متعلق کوئی بھی سوال پاری سے
کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلہ کے
دیگر تصویری مضامین:
جب جیمّا نے تیندوے کو دیکھا
’ہمارے پاس پہاڑیاں اور جنگل ہیں، ہم یہیں رہتے ہیں‘
باندی پور میں فصل والے گھر
’یہی وہ جگہ ہے جہاں تیندوا اور ٹائیگر حملہ کرتے ہیں‘
’میں نے جب یہ تصویر کھینچی اس کے بعد ہی یہ بچھڑا غائب ہوگیا‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)