کولہاپور کی راجا رام شوگر فیکٹری (چینی مل) میں فروری کی یہ ایک گرم اور پرسکون دوپہر ہے۔ فیکٹری کے احاطہ میں بنے زیادہ تر کھوپیا (گنّا مزدوروں کی پھوس سے بنی جھونپڑیاں) خالی ہیں۔ مہاجر مزدور یہاں سے پیدل ایک گھنٹے کی دوری پر، وڈنگے گاؤں کے قریب گنّا کی کٹائی کر رہے ہیں۔

دور سے آ رہی برتنوں کی آواز بتا رہی ہے کہ گھر پر اب بھی کوئی نہ کوئی ہے۔ جہاں سے آواز آ رہی تھی وہاں جانے پر ہم نے دیکھا کہ ۱۲ سال کی سواتی مہارنور اپنی فیملی کے لیے رات کا کھانا بنانے کی تیاری کر رہی ہے۔ زرد چہرہ اور بری طرح سے تھک چکی سواتی، اپنی جھونپڑی کے سامنے بالکل اکیلی بیٹھی ہوئی تھی۔ کھانا پکانے والے برتن اس کے چاروں طرف بکھرے ہوئے تھے۔

جمائی لیتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’’میں صبح کے ۳ بجے سے جگی ہوئی ہوں۔‘‘

یہ چھوٹی سی لڑکی مہاراشٹر کے باوڑا تعلقہ میں گنّے کی کٹائی کرنے کے لیے اپنے ماں باپ، چھوٹے بھائی اور دادا کے ساتھ بیل گاڑی میں بیٹھ کر صبح سویرے ہی روانہ ہو گئی تھی۔ پانچ رکنی اس فیملی کو ایک دن میں ۲۵ مولی (بنڈل یا گٹھر) گنّے کاٹنے کے پیسے دیے جاتے ہیں، اور اس ٹارگیٹ کو پورا کرنے کے لیے گھر کے سبھی لوگوں کو ہاتھ بٹانا پڑتا ہے۔ دوپہر میں کھانے کے لیے، یہ لوگ پچھلی رات کو پکائی گئی بھاکری (ایک قسم کی روٹی) اور بینگن کی سبزی اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔

دوپہر میں ایک بجے، فیکٹری کے احاطہ میں بنی اپنی اس جھونپڑی میں صرف سواتی ہی لوٹ کر آئی ہے، جس کے لیے اسے چھ کلومیٹر پیدل چلنا پڑا ہے۔ ’’بابا [دادا] مجھے یہاں چھوڑنے کے بعد واپس چلے گئے تھے۔‘‘ گھر کے دوسرے لوگوں سے پہلے، وہ یہاں اس لیے آئی ہے تاکہ ان کے لیے رات کا کھانا پکا سکے۔ باقی لوگ بھی ۱۵ گھنٹے تک گنّے کی کٹائی کرنے کے بعد، بھوکے اور تھکے ماندے جلد ہی لوٹنے والے ہیں۔ سواتی کہتی ہے، ’’ہم [فیملی] نے صبح کو صرف ایک کپ چائے پی تھی۔‘‘

ان کا گھر بیڈ ضلع کے سکُند واڑی گاؤں میں ہے، جہاں سے یہ لوگ پانچ مہینے پہلے، نومبر ۲۰۲۲ میں کولہاپور آئے تھے۔ سواتی تبھی سے کھانا پکانے کا کام کر رہی ہے اور گنے کی کٹائی کے لیے روزانہ گھر سے کھیت اور کھیت سے گھر کے چکر لگاتی ہے۔ یہاں پر یہ لوگ فیکٹری کے اسی احاطہ میں الگ الگ جگہوں پر بنی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ ہیومن کاسٹ آف شوگر نام سے ۲۰۲۰ میں جاری کی گئی آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق، مہاراشٹر کے اندر زیادہ تر مہاجر مزدور ترپال سے ڈھکی عارضی جھونپڑیوں والی بڑی بڑی بستیوں میں رہتے ہیں۔ ان بستیوں میں نہ تو پانی کا کوئی انتظام ہوتا ہے اور نہ ہی بجلی یا بیت الخلاء کا۔

Khopyas (thatched huts) of migrant sugarcane workers of Rajaram Sugar Factory in Kolhapur district
PHOTO • Jyoti Shinoli

کولہاپور ضلع میں راجا رام شوگر فیکٹری کے مہاجر گنّا مزدوروں کے کھوپیا (پھوس کی جھونپڑی)

سواتی کہتی ہے، ’’مجھے گنّے کی کٹائی کرنا اچھا نہیں لگتا۔ میں گاؤں میں رہنا چاہتی ہوں کیوں کہ وہاں میں اسکول جاتی ہوں۔‘‘ ان کا گھر پٹودا تعلقہ کے سکُند واڑی گاؤں میں ہے، جہاں وہ ضلع پریشد مڈل اسکول میں ۷ویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ اس کا چھوٹا بھائی کرشنا بھی اسی اسکول میں تیسری جماعت میں پڑھتا ہے۔

سواتی کے والدین اور دادا کی طرح، تقریباً ۵۰۰ مہاجر مزدور بھی گنّے کی کٹائی کے سیزن میں راجا رام شوگر فیکٹری کے لیے ٹھیکہ پر کام کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہوتے ہیں۔ سواتی کہتی ہے، ’’مارچ [۲۰۲۲] میں ہم لوگ سانگلی میں تھے۔‘‘ سواتی اور کرشنا، دونوں ہی سال میں تقریباً پانچ مہینے اسکول سے دور رہتے ہیں۔

اسکول سے اتنے دنوں تک غائب رہنے کے باوجود ان کا نام کٹا کیوں نہیں؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سواتی کہتی ہے، ’’ہر سال مارچ کے مہینہ میں بابا [دادا] ہمیں گاؤں چھوڑ آتے ہیں، تاکہ ہم اپنا امتحان دے سکیں۔ پھر، امتحان ختم ہوتے ہی ہم اپنے والدین کے پاس لوٹ جاتے ہیں۔‘‘

لیکن، نومبر سے مارچ تک اسکول سے غائب رہنے کی وجہ سے فائنل امتحان پاس کرنا ان کے لیے کافی مشکل ہوتا ہے۔ سواتی کہتی ہے، ’’مراٹھی اور تاریخ جیسے مضامین میں تو ہم اچھے نمبر لاتے ہیں، لیکن ریاضی کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔‘‘ ایسے میں، گاؤں کے کچھ دوست اس کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جو کلاسز چھوٹ گئی ہیں ان کی بھرپائی نہیں ہو پاتی۔

’’کیا کیا جا سکتا ہے؟ میرے ماں باپ کو تو کام کرنا ہی ہے،‘‘ سواتی کہتی ہے۔

سواتی کے ماں باپ، ورشا (۳۵ سالہ) اور بھاؤ صاحب (۴۵ سالہ) اکتوبر سے جون تک گاؤں میں ہی رہتے ہیں؛ تب وہ سکُند واڑی گاؤں کے آس پاس کے کھیتوں میں بطور زرعی مزدور کام کرتے ہیں۔ ورشا بتاتی ہیں، ’’مانسون کے موسم میں، کپانی [فصل کی کٹائی] تک، ہمیں اپنے گاؤں کے ہی کھیتوں پر ہفتے میں ۵-۴ دن کا کام مل جاتا ہے۔‘‘

اس فیملی کا تعلق دھنگر برادری سے ہے، جسے مہاراشٹر میں خانہ بدوش قبیلہ کا درجہ حاصل ہے۔ میاں بیوی، دونوں ایک دن میں ۳۵۰ روپے کما لیتے ہیں – ورشا کو ۱۵۰ روپے اور بھاؤ صاحب کو ۲۰۰ روپے ملتے ہیں۔ گاؤں کے آس پاس جب انہیں کام ملنا بند ہو جاتا ہے، تو وہ گنّے کی کٹائی کا کام کرنے کے لیے باہر چلے جاتے ہیں۔

Sugarcane workers transporting harvested sugarcane in a bullock cart
PHOTO • Jyoti Shinoli

کاٹے گئے گنّے کو بیل گاڑی سے لے جاتے ہوئے گنا مزدور

*****

بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کے حق کا قانون (آر ٹی ای)، ۲۰۰۹ کے تحت، ’’چھ سے ۱۴ سال کے سبھی بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کا حق‘‘ دیا گیا ہے۔ لیکن، سواتی اور کرشنا جیسے مہاجر گنّا مزدوروں کے (۶ سے ۱۴ سال کے) تقریباً ایک لاکھ ۳۰ ہزار بچے اپنے والدین کے ساتھ مہاجرت کے دوران اسکولی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔

مہاراشٹر حکومت اسکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد کو کم کرنے کے لیے ’ایجوکیشن گارنٹی کارڈ‘ (ای جی سی) لے کر آئی ہے۔ تعلیم کا حق، ۲۰۰۹ کے تحت سال ۲۰۱۵ میں پاس کی گئی ایک قرارداد کے ذریعے ای جی سی متعارف کرایا گیا تھا۔ کارڈ جاری کرنے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ بچے اپنی نئی جگہ پر بھی اسکولی تعلیم کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھ سکیں۔ اس میں طالب علم کی اسکولی تعلیم سے جڑی تمام تفصیلات درج ہوتی ہیں اور یہ بچوں کو ان کے گاؤں کے اسکول کے ٹیچروں کے ذریعے جاری کیا جاتا ہے۔

بیڈ ضلع کے سماجی کارکن اشوک تانگڑے بتاتے ہیں، ’’بچہ جس ضلع میں ہجرت کرکے جا رہا ہے، وہاں اسے یہ کارڈ لے کر جانا پڑتا ہے۔‘‘ نئے اسکول میں یہ کارڈ لے جانے پر، ’’والدین کو نئے سرے سے اپنے بچے کا داخلہ نہیں کرانا پڑتا، بلکہ وہ جس کلاس میں پہلے پڑھ رہا تھا اسی میں اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکتا ہے،‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں۔

لیکن، حقیقت کچھ اور ہے۔ اشوک کہتے ہیں، ’’ابھی تک ایک بھی بچے کو ای جی سی کارڈ نہیں ملا ہے۔‘‘ یہ کارڈ اس اسکول کے ذریعے جاری کیا جانا چاہیے جہاں پر اس مہاجر بچے کا داخلہ ہے۔

اپنے اسکول سے کئی مہینوں تک دور رہنے والی سواتی کہتی ہے، ’’ضلع پریشد (زیڈ پی) مڈل اسکول کے ہمارے ٹیچر نے مجھے اور میرے کسی دوست کو ایسا کوئی بھی کارڈ جاری نہیں کیا ہے۔‘‘

سواتی اور کرشنا جس شوگر فیکٹری کے قریب ٹھہرے ہوئے ہیں، وہاں سے تین کلومیٹر دور ایک مقامی ضلع پریشد مڈل اسکول تو ہے، لیکن مذکورہ کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے یہ بچے وہاں پڑھنے نہیں جا سکتے۔

ویڈیو دیکھیں: اسکول سے دور ہوتے جا رہے مہاجر مزدوروں کے بچے

آر ٹی ای ۲۰۰۹ کے ذریعے مفت اور لازمی تعلیم کا حق حاصل ہونے کے باوجود، مہاجر گنّا مزدوروں کے تقریباً ایک لاکھ ۳۰ ہزار بچے اپنے والدین کے ساتھ مہاجرت کے دوران اسکولی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے

تاہم، پونے میں ڈائریکٹوریٹ برائے ابتدائی تعلیم کے ایک افسر کا دعویٰ ہے کہ ’’یہ اسکیم اچھی طرح چل رہی ہے۔ اسکول کے حکام مہاجرت کرنے والے طلباء کو یہ کارڈ دے رہے ہیں۔‘‘ لیکن جب ان سے کارڈ حاصل کر چکے بچوں کی کل تعداد کا ڈیٹا مانگا گیا، تو انہوں نے کہا، ’’اس کا سروے چلتا رہتا ہے؛ ہم لوگ ای جی سی کا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں اور اسے ابھی اکٹھا کیا جا رہا ہے۔‘‘

*****

کولہاپور ضلع کے جادھو واڑی علاقے میں دو ایکڑ میں پھیلے اینٹ بھٹے پر کام کر رہی اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہے ۱۴ سالہ ارجن راجپوت کا کہنا ہے، ’’مجھے یہاں رہنا بالکل بھی پسند نہیں ہے۔‘‘

اس کی سات رکنی فیملی کولہاپور-بنگلور شاہراہ کے کنارے واقع اس اینٹ بھٹے پر کام کرنے کے لیے اورنگ آباد ضلع کے وڈگاؤں سے آئی تھی۔ اینٹ بھٹے پر زور شور سے کام چل رہا ہے۔ یہاں ایک دن میں اوسطاً ۲۵ ہزار اینٹیں تیار کی جاتی ہیں۔ ارجن کی فیملی اُن ۲۳-۱۰ ملین لوگوں میں شامل ہے جو ہندوستان کے اینٹ بھٹوں پر کام کرتے ہیں، جہاں کام کا ماحول کافی غیر محفوظ ہوتا ہے۔ انہیں شدید گرمی میں جی توڑ محنت کرنی پڑتی ہے۔ دوسری جگہوں پر ان لوگوں کو بہت کم مزدوری ملتی ہے، جس کی وجہ سے انہیں اکثر مجبوری میں آخری متبادل کے طور پر ان اینٹ بھٹوں پر کام کرنا پڑتا ہے۔

اپنے والدین کے ساتھ ہونے کی وجہ سے، ارجن کو نومبر سے مئی تک اسکول چھوڑنا پڑتا ہے۔ ارجن کہتا ہے، ’’میں اپنے گاؤں کے زیڈ پی اسکول میں ۸ویں جماعت میں پڑھتا ہوں۔‘‘ تبھی وہاں سے گرد و غبار اڑاتی ہوئی ایک جے سی بی مشین گزرتی ہے، جس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔

Left: Arjun, with his mother Suman and cousin Anita.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: A brick kiln site in Jadhavwadi. The high temperatures and physically arduous tasks for exploitative wages make brick kilns the last resort of those seeking work
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: اپنی ماں سمن اور ممیری بہن انیتا کے ساتھ ارجن۔ دائیں: جادھو واڑی کا ایک اینٹ بھٹہ۔ حد سے زیادہ گرمی، جی توڑ محنت اور بہت ہی کم اجرت ملنے کی وجہ سے کام تلاش کرنے والے مزدوروں کے لیے اینٹ بھٹے روزگار کے آخری ٹھکانے ہیں

ادھر وڈگاؤں میں، ارجن کے ماں باپ – سمن اور آبا صاحب – گنگا پور تعلقہ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ جُتائی اور کٹائی کے موسم میں انہیں عام طور پر ایک مہینہ میں ۲۰ دن کام مل جاتا ہے۔ ایک دن کی مزدوری کے طور پر انہیں ۳۰۰-۲۵۰ روپے ملتے ہیں۔ ان مہینوں میں ارجن، گاؤں کے اپنے اسکول بھی جا پاتا ہے۔

پچھلے سال اس کے ماں باپ نے اُچل (مزدوری کی پیشگی رقم) لے لیا تھا، تاکہ اپنی جھونپڑی کے بغل میں ایک پختہ مکان بنا سکیں۔ سمن بتاتی ہیں، ’’ہم نے مزدوری کی پیشگی رقم کے طور پر ڈیڑھ لاکھ روپے لیے تھے، اور اس سے اپنے گھر کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس سال ہم نے دیوار کھڑی کرنے کے لیے پیشگی رقم کے طور پر ایک لاکھ روپے مزید لیے ہیں۔‘‘

ہجرت کرنے کی وجوہات کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ہم کسی بھی طرح سے سال بھر میں ایک لاکھ روپے نہیں کما سکتے ہیں۔ یہ [اینٹ بھٹے پر کام کرنے کے لیے ہجرت کرنا] ہمارے لیے واحد راستہ ہے۔‘‘ انہیں یقین ہے کہ وہ اگلے سال قرض اتار کر اپنے گاؤں لوٹ سکیں گی۔ ’’اگلے سال ہمیں دیواروں پر پلاسٹر کرانے کے لیے بھی پیسوں کا انتظام کرنا ہے۔‘‘

دریں اثنا، دو سال گزر چکے ہیں اور ابھی دو سال مزید لگیں گے – اس درمیان ارجن کی پڑھائی ہمیشہ رکتی رہی ہے۔ سُمن کے پانچ بچوں میں سے چار کی اسکولی تعلیم بیچ میں ہی چھوٹ گئی تھی اور ۲۰ کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی چاروں کی شادی کردی گئی۔ اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر ناخوش اور نا امید ہو چکیں سُمن کہتی ہیں، ’’میرے دادا دادی بھی اینٹ بھٹے پر کام کرتے تھے، اس کے بعد یہی کام میرے ماں باپ نے کیا، اور اب میں بھی اینٹ بھٹے پر ہی کام کر رہی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ سلسلہ کب رکے گا؟‘‘

ارجن اکیلا ہے، جو ابھی تک پڑھ رہا ہے، لیکن وہ کہتا ہے، ’’چھ مہینوں تک اسکول سے دور رہنے کی وجہ سے، گھر لوٹنے کے بعد مجھے پڑھنے کا دل نہیں کرتا۔‘‘

ارجن اور اس کی ممیری بہن انیتا روزانہ چھ گھنٹے ڈے کیئر میں گزارتے ہیں، جسے ’اَونی‘ نام کی ایک غیر سرکاری تنظیم چلاتی ہے، اور یہ بھٹے کے قریب ہی ہے۔ اَوَنی، کولہاپور اور سانگلی کے اینٹ بھٹوں اور گنّے کے کھیتوں کے ارد گرد تقریباً ۲۰ ڈے کیئر سنٹر چلاتی ہے۔ اس تنظیم کے زیادہ تر طلباء کاتکری برادری کے ہیں، جسے خاص طور پر کمزور آدیواسی گروپ (پی وی ٹی جی) کا درجہ حاصل ہے؛ یا بیلدار برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جو خانہ بدوش قبیلہ کے طور پر درج ہے۔ تقریباً ۸۰۰ کے قریب رجسٹرڈ اینٹ بھٹے ہونے کی وجہ سے، کولہاپور میں کام کی تلاش میں بڑی تعداد میں مہاجر مزدور آتے ہیں۔ یہ جانکاری ’اَونی‘ کے پروگرام کوآرڈینیٹر ساتّاپّا موہتے دیتے ہیں۔

Avani's day-care school in Jadhavwadi brick kiln and (right) inside their centre where children learn and play
PHOTO • Jyoti Shinoli
Avani's day-care school in Jadhavwadi brick kiln and (right) inside their centre where children learn and play
PHOTO • Jyoti Shinoli

جادھو واڑی کے اینٹ بھٹے پر ’اَونی‘ کا ڈے کیئر سنٹر اور (دائیں) اس کا اندرونی حصہ جہاں بچے کھیلتے اور پڑھتے ہیں

انیتا مسکراتے ہوئے کہتی ہے، ’’میں یہاں ڈے کیئر سنٹر میں کلاس ۴ کی کتابیں نہیں پڑھتی ہوں۔ ہم یہاں بس کھاتے اور کھیلتے ہیں۔‘‘ اس سنٹر میں ۳ سے ۱۴ سال کے ۲۵ مہاجر بچے اپنا وقت گزارتے ہیں۔ مڈ ڈے میل (دوپہر کے کھانے) کے علاوہ بچوں کو یہاں کھیلنے کودنے اور کہانیاں سننے کا بھی موقع ملتا ہے۔

سنٹر میں جب ان کا وقت ختم ہو جاتا ہے، تب ’’ہم [اینٹوں کو بنانے میں] آئی-بابا (ماں باپ) کا ہاتھ بٹاتے ہیں،‘‘ ارجن تھوڑا جھجکتے ہوئے کہتا ہے۔

سنٹر میں آنے والے بچوں میں سے ایک، سات سالہ راجیشوری نینے گیلی بھی ہے۔ وہ کہتی ہے، ’’میں بھی کبھی کبھی رات کو اپنی ماں کے ساتھ اینٹیں بناتی ہوں۔‘‘ کرناٹک کے اپنے گاؤں میں دوسری کلاس میں پڑھنے والی راجیشوری کو بچپن سے ہی اپنے کام کو صحیح طریقے سے انجام دینے کی عادت رہی ہے، ’’آئی اور بابا دوپہر میں ہی مٹی تیار کر دیتے ہیں، اور رات کے وقت اس سے اینٹیں بناتے ہیں۔ جو وہ کرتے ہیں، میں بھی وہی کرتی ہوں۔‘‘ وہ مٹی کو سانچے میں بھرتی ہے اور لگاتار پیٹ پیٹ کر اسے درست کرتی ہے۔ اس کے بعد، اس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک ان اینٹوں کو سانچے سے باہر نکالتا ہے، کیوں کہ وزنی ہونے کی وجہ سے بچے یہ کام نہیں کر سکتے۔

راجیشوری بتاتی ہے، ’’مجھے نہیں معلوم کہ میں ایک دن میں کتنی اینٹیں بنا لیتی ہوں، لیکن تھک جانے کے بعد میں سو جاتی ہوں۔ آئی-بابا میرے سونے کے بعد بھی کام کرتے رہتے ہیں۔‘‘

اَونی کے ۲۵ بچوں میں سے ایک کے پاس بھی ای جی سی کارڈ نہیں ہے، جس سے وہ کولہاپور سے مہاجرت کرنے کے بعد اپنی پڑھائی جاری رکھ سکیں، جب کہ زیادہ تر بچے مہاراشٹر کے ہی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اینٹ بھٹے سے سب سے قریب کا اسکول پانچ کلومیٹر دور ہے۔

ارجن سوال کرتا ہے، ’’اسکول بہت دور ہے۔ ہمیں وہاں کون لے کر جائے گا؟‘‘

ای جی سی کارڈ، ماں باپ اور بچے کو یہ بھی بھروسہ دلاتا ہے کہ اگر نزدیکی اسکول ایک کلومیٹر سے زیادہ دور ہو، تب ’’مہاجر بچوں کی تعلیم کے لیے کلاس لگوانے اور آمد و رفت سے متعلق سہولیات مہیا کرانے کی ذمہ داری مقامی محکمہ تعلیم، ضلع پریشد اور میونسپل کارپوریشن کی ہے۔‘‘

لیکن جیسا کہ این جی او ’اَونی‘ کی بانی اور ڈائرکٹر انورادھا بھوسلے کہتی ہیں، ’’یہ سب صرف کاغذوں پر ہے۔‘‘ انورادھا اس علاقے میں گزشتہ ۲۰ برسوں سے کام کر رہی ہیں۔

Left: Jadhavwadi Jakatnaka, a brick kiln site in Kolhapur.
PHOTO • Jyoti Shinoli
Right: The nearest state school is five kms from the site in Sarnobatwadi
PHOTO • Jyoti Shinoli

بائیں: کولہاپور کا ایک اینٹ بھٹہ – جادھو واڑی جکات ناکہ۔ دائیں: یہاں سے سب سے قریب کا سرکاری اسکول سرنوبت واڑی میں ہے، جو تقریباً پانچ کلومیٹر دور ہے

احمد نگر ضلع سے آئیں ۲۳ سالہ آرتی پوار بھی کولہاپور کے اینٹ بھٹے پر کام کرتی ہیں۔ ’’میرے ماں باپ نے ۲۰۱۸ میں ہی میری شادی کر دی تھی۔‘‘ انہیں ۷ویں جماعت کے بعد اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی تھی۔

آرتی کہتی ہیں، ’’پہلے میں اسکول جایا کرتی تھی، لیکن اب میں اینٹ بھٹے پر کام کرتی ہوں۔‘‘

*****

’’پچھلے دو سالوں سے میں نے کچھ بھی نہیں پڑھا ہے۔ ہمارے پاس اسمارٹ فون بھی نہیں ہے،‘‘ مارچ ۲۰۲۰ سے جون ۲۰۲۱ تک کے دور کو یاد کرتے ہوئے ارجن کہتا ہے، جب کووڈ۔۱۹ کے سبب تعلیم پوری طرح سے آن لائن ہونے لگی تھی۔

ارجن نے بتایا، ’’یہاں تک کہ وبائی مرض سے پہلے بھی میرے لیے اپنی کلاس میں پاس کر پانا مشکل تھا، کیوں کہ میں مہینوں تک اسکول نہیں جا پاتا تھا۔ مجھے ۵ویں جماعت کی پڑھائی دوبارہ کرنی پڑی۔‘‘ وہ اب ۸ویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ مہاراشٹر کے زیادہ تر دوسرے طلباء کی طرح ارجن کو بھی وبائی مرض کے دوران دو بار (۶ویں اور ۷ویں جماعت میں) اپنی کلاس سے سیدھے اگلی کلاس میں بھیج دیا گیا، جب کہ وہ اسکول جا بھی نہیں پاتا تھا، لیکن سرکار کا یہی حکم تھا۔

سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، ملک کے اندر مہاجرت کرنے والے کل لوگوں کی تعداد ہندوستان کی مجموعی آبادی کا تقریباً ۳۷ فیصد (۴۵ کروڑ) ہے، اور ایک اندازہ کے مطابق ان میں ایک بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ یہ بڑی تعداد کارگر پالیسی بنانے کو متاثر کرتی ہے اور ان پالیسیوں کو مناسب طریقے سے نافذ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ سال ۲۰۲۰ میں شائع آئی ایل او کی ایک رپورٹ میں ایسے ضروری قدم اٹھانے کی سفارش کی گئی ہے، جس سے مہاجر مزدوروں کے بچے بغیر کسی رکاوٹ کے پڑھائی جاری رکھ سکیں۔

اشوک تانگڑے کہتے ہیں، ’’مرکزی اور ریاستی سطحوں پر حکومتیں مہاجر بچوں کی تعلیم کو یقینی بنانے والی پالیسیوں کو نافذ کرنے میں تھوڑی بھی سنجیدگی نہیں دکھا رہی ہیں۔‘‘ ایسے میں مہاجر بچوں کو نہ صرف تعلیم کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے، بلکہ انہیں ایک انتہائی غیر محفوظ ماحول میں رہنے کے لیے بھی مجبور کیا جا رہا ہے۔

اوڈیشہ کے برگڑھ ضلع کے سُلن رمبھا گاؤں کی ایک چھوٹی لڑکی، گیتانجلی سونا نومبر ۲۰۲۲ میں اپنے ماں باپ اور بہن کے ساتھ لمبا سفر طے کرکے کولہاپور کے اینٹ بھٹے پر آئی تھی۔ مشینوں کے ہنگامے کے دوران ۱۰ سال کی گیتانجلی، اَونی کے ڈے کیئر سنٹر میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتی ہے۔ اور، ان بچوں کی ہنسی اُتنی دیر کے لیے کولہاپور کے اُس اینٹ بھٹے کے آس پاس کی دھول بھری ہواؤں میں گھل مل جاتی ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Jyoti Shinoli is a Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India; she has previously worked with news channels like ‘Mi Marathi’ and ‘Maharashtra1’.

Other stories by Jyoti Shinoli
Illustration : Priyanka Borar

Priyanka Borar is a new media artist experimenting with technology to discover new forms of meaning and expression. She likes to design experiences for learning and play. As much as she enjoys juggling with interactive media she feels at home with the traditional pen and paper.

Other stories by Priyanka Borar
Editors : Dipanjali Singh

Dipanjali Singh is an Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also researches and curates documents for the PARI Library.

Other stories by Dipanjali Singh
Editors : Vishaka George

Vishaka George is Senior Editor at PARI. She reports on livelihoods and environmental issues. Vishaka heads PARI's Social Media functions and works in the Education team to take PARI's stories into the classroom and get students to document issues around them.

Other stories by Vishaka George
Video Editor : Sinchita Maji

Sinchita Maji is a Senior Video Editor at the People’s Archive of Rural India, and a freelance photographer and documentary filmmaker.

Other stories by Sinchita Maji
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique