’’شام کو، تمام جانور یہیں آرام کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ برگد کا درخت ہے۔‘‘

سریش دھروے پوسٹر سائز کے ایک کاغذ پر پوری مہارت سے پینٹ کرتے ہوئے ہم سے بات کر رہے ہیں۔ ’’یہ پیپل کا درخت ہے اور ابھی مزید پرندے آ کر یہاں بیٹھیں گے،‘‘ وہ اس بڑے درخت کی مزید شاخیں بناتے ہوئے پاری کو بتاتے ہیں۔

گونڈ فنکار سریش (۴۹) مدھیہ پردیش کے بھوپال میں اپنے گھر کے اندر فرش پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مکان کی اوپری منزل کے اس کمرے میں دروازے اور کھڑکیوں سے پاس ہی کے ایک درخت سے چھن کر روشنی اندر آ رہی ہے۔ زمین پر ہی ان کے بغل میں سبز رنگ کے پینٹ سے بھرا ایک چھوٹا جار رکھا ہوا ہے، جس میں وہ بار بار اپنے برش کو ڈبوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پہلے ہم برش کے طور پر بانس کی چھڑی اور گلہری کے بال کا استعمال کرتے تھے۔ اب اس [گلہری کے بال] پر پابندی ہے، جو کہ اچھی بات ہے۔ اس لیے اب ہم پلاسٹک کے برش استعمال کرتے ہیں۔‘‘

سریش کہتے ہیں کہ ان کی پینٹنگز کہانیاں بیان کرتی ہیں اور ’’جب میں پینٹنگ کرتا ہوں، تو مجھے دیر تک یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا بناؤں۔ مان لیجئے کہ دیوالی آ رہی ہے، تو مجھے اس تہوار سے جڑی بہت سی چیزوں جیسے گائے اور دیوں کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔‘‘ گونڈ فنکار اپنے آرٹ میں جانداروں، جنگل اور آسمان، قدیم اور مقامی کہانیوں، کاشتکاری اور سماجی تانے بانے کو بیان کرتے ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: زمین سے جڑی کہانیاں

یہ جنگر سنگھ شیام تھے جو بھوپال آئے، اور پہلے کپڑے پر اور پھر کینوس اور کاغذ پر پینٹنگ بنانی شروع کیں۔ گونڈ فنکار اپنے آرٹ میں جانداروں، جنگل اور آسمان، قدیم اور مقامی کہانیوں کو بیان کرتے ہیں

سریش کی پیدائش پاٹن گڑھ مال گاؤں میں ہوئی تھی – بھوپال میں رہنے والے ان کے جیسے تمام گونڈ فنکار اسی گاؤں سے اپنا آبائی رشتہ جوڑتے ہیں۔ یہ علاقہ نرمدا ندی کے جنوب میں پڑتا ہے اور امرکنٹک-اچنکمر ٹائیگر ریزرو کے جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔ تمام گونڈ پینٹنگز میں اس علاقے کے جنگلی جانوروں، مختلف قسم کے درختوں، پھولوں، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کی تصویریں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔

’’ہم جنگل میں پائی جانے والی چیزوں – سیمل (درخت) کے سبز پتوں، سیاہ پتھروں، پھولوں، لال مٹی وغیرہ سے پینٹ بنایا کرتے تھے۔ انہیں ہم گوند میں ملا دیا کرتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’اب ہم ایکریلک کا استعمال کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اُن قدرتی رنگوں کا استعمال کرنے پر ہمارے کام کی زیادہ قیمت ملے گی، لیکن ہم انہیں کہاں سے لائیں؟‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، کیوں کہ جنگل اب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

گونڈ پینٹنگ دراصل گاؤں میں آدیواسیوں کے گھروں کی دیواروں پر تہواروں اور شادیوں کے دوران بنائی جاتی تھی۔ لیکن ۱۹۷۰ کی دہائی میں مشہور گونڈ فنکار جنگر سنگھ شیام ریاست کی راجدھانی بھوپال آئے، اور پہلے کپڑوں پر اور پھر کینوس اور کاغذ پر پینٹنگ کرنے لگے۔ انہیں کاغذ اور کینوس پر ایک نئے آرٹ کی شروعات کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ اس فن کے شعبے میں ان کی بیش بہا خدمات کی وجہ سے، ۱۹۸۶ میں انہیں ریاست کے سب سے بڑے شہری اعزاز – شکھر سمّان سے نوازا گیا۔

لیکن اپریل ۲۰۲۳ میں، جب گونڈ آرٹ کو آخرکار جغرافیائی نشان (جی آئی) کا ٹیگ ملا، تو جنگر کی فنکاروں کی برادری کو نظر انداز کر دیا گیا اور جی آئی بھوپال کے یُوا پریاوَرَن شکشن ایوم ساماجک سنستھان اور ڈنڈوری ضلع کی تیجسونی میکل سوت مہا سنگھ گورکھپور سمیتی کو سونپ دیا گیا۔ اس سے بھوپال کے فنکاروں، جنگر سنگھ کے اہل خانہ اور ان کے پیروکاروں کو کافی تکلیف ہوئی۔ جنگر کے بیٹے مینک کمار شیام کہتے ہیں، ’’ہم چاہتے ہیں کہ جی آئی درخواست گزاروں کے ناموں میں جنگر سنگھ کا نام شامل کیا جائے۔ ان کے بغیر گونڈ آرٹ زندہ نہیں رہے گا۔‘‘

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: گونڈ آرٹ کو اپریل ۲۰۲۳ میں دیا گیا جغرافیائی نشان والا سرٹیفکیٹ۔ دائیں: بھوپال کے فنکار ننکوشیا شیام، سریش دھروے، سبھاش ویام، سکھنڈی ویام، ہیرامن اُرویتی، مینک شیام، جن کی شکایت ہے کہ انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے

اس کا فوری جواب دیتے ہوئے، ڈنڈوری کے ڈسٹرکٹ کلکٹر وکاس مشرا، جنہوں نے جی آئی کے لیے سب سے زیادہ کوشش کی تھی، فون پر کہا، ’’جی آئی ٹیگ تمام گونڈ فنکاروں کے لیے ہے۔ آپ کہاں رہتے ہیں، ہم اس کی بنیاد پر امتیاز نہیں کر رہے ہیں۔ بھوپال کے فنکار اپنے آرٹ کو ’گونڈ‘ کہہ سکتے ہیں کیوں کہ وہ سب یہیں کے رہنے والے ہیں۔ سبھی لوگ ایک جیسے ہیں۔‘‘

جنوری ۲۰۲۴ میں، بھوپال میں جنگڑھ کے پیروکاروں کے گروپ – جنگڑھ سموَردھن سمیتی نے چنئی میں جی آئی آفس کو ایک خط لکھ کر اپنا نام جی آئی درخواست گزاروں میں شامل کرنے کے لیے کہا، لیکن اس اسٹوری کے شائع ہونے تک، کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا تھا۔

*****

پاٹن گڑھ میں پرورش پانے والے سریش، جو اس خاندان کے سب سے چھوٹے اور واحد لڑکے ہیں، انہوں نے اپنے والد سے تربیت حاصل کی، جو ایک ماہر فنکار تھے اور مختلف قسم کے مواد پر کام کر سکتے تھے۔ ’’وہ ٹھاکر دیو کے مجسمے بنا سکتے تھے، دروازوں پر سجاوٹ کے طور پر رقص کرتی ہوئی تصویریں کندہ کر سکتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہیں یہ سب کس نے سکھایا، لیکن وہ راج مستری سے لے کر بڑھئی تک مختلف قسم کے کام کر سکتے تھے۔‘‘

بچپن میں وہ اپنے والد کے ساتھ گھوما کرتے، اور انہیں دیکھ کر اس فن کی باریکیاں سیکھتے۔ ’’مٹی کا کام ہوتا تھا۔ میرے والد گاؤں کے لوگوں کے لیے لکڑی پر بھی کام کرتے تھے۔ لیکن وہ شوق کے طور پر ہوتا تھا، اس لیے انہوں نے اس کام سے کچھ کمایا نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا تھا کہ انہیں کچھ کھانا مل جاتا تھا – اناج ہی اس زمانے کی کرنسی تھی۔ یعنی آدھا یا ایک پسیری [پانچ کلو] گیہوں یا چاول،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

سریش (بائیں) کی پیدائش پاٹن گڑھ مال گاؤں میں ہوئی تھی – بھوپال میں رہنے والے ان کے جیسے تمام گونڈ فنکار اسی گاؤں سے اپنا آبائی رشتہ جوڑتے ہیں۔ یہ علاقہ نرمدا ندی کے جنوب میں پڑتا ہے اور امرکنٹک-اچنکمر ٹائیگر ریزرو کے جنگلات سے گھرا ہوا ہے۔ تمام گونڈ پینٹنگز (دائیں) میں اس علاقے کے جنگلی جانوروں، مختلف قسم کے درختوں، پھولوں، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کی تصویریں دیکھنے کو مل جاتی ہیں

فیملی کے پاس زمین کا صرف ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا جس پر وہ بارش کے پانی کی مدد سے اپنے کھانے کے لیے دھان، گیہوں اور چنا اُگاتے تھے۔ چھوٹی عمر میں سریش دوسرے کے کھیتوں پر کام کرتے تھے: ’’میں کسی دوسرے کے کھیت یا زمین پر کام کر کے ایک دن میں ڈھائی روپے کما سکتا تھا، لیکن یہ کام روزانہ نہیں ملتا تھا۔‘‘

سال ۱۹۸۶ میں، ۱۰ سال کی چھوٹی سی عمر میں وہ یتیم ہو گئے۔ ’’میں بالکل تنہا رہ گیا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ان کی تمام بڑی بہنوں کی شادی ہو چکی تھی، اس لیے انہیں اپنے کھانے پینے کا خود ہی انتظام کرنا پڑتا تھا۔ ’’ایک دن جنگر کی ماں، جنہوں نے گاؤں میں دیواروں کے اوپر میرا کام دیکھا تھا، انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اسے اپنے ساتھ [بھوپال] لے جایا جائے۔ ’وہ کچھ کما سکتا ہے‘،‘‘ سریش بتاتے ہیں۔ لہٰذا مشرقی مدھیہ پردیش سے راجدھانی شہر تک انہوں نے ۶۰۰ کلومیٹر سے زیادہ کا سفر کیا۔

جنگر سنگھ اُس وقت بھوپال کے بھارت بھون میں کام کرتے تھے۔ ’’جنگر جی کو میں ’بھیا‘ کہتا تھا۔ وہ میرے گرو (استاد) تھے۔ انہوں نے مجھے کام پر لگایا۔ میں نے کینوس پر اس سے پہلے کبھی کام نہیں کیا تھا، میں نے صرف دیواروں پر کام کیا تھا۔‘‘ ان کا شروعاتی کام ’’پتھروں اور دیگر مواد کی گھسائی کر کے‘‘ صحیح رنگ کو نمایاں کرنا تھا۔

یہ چار دہائی پہلے کی بات ہے۔ تب سے سریش اپنی ایک الگ پہچان ’سیڑھی پیڑھی‘ ڈیزائن کی شکل میں بنا چکے ہیں۔ ’’یہ آپ کو میرے تمام کاموں میں دیکھنے کو مل جائے گا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’آئیے میں آپ کو اس پینٹنگ کی کہانی دکھاتا ہوں…‘‘

مترجم: قمر صدیقی

Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Editor : Vishaka George

Vishaka George is Senior Editor at PARI. She reports on livelihoods and environmental issues. Vishaka heads PARI's Social Media functions and works in the Education team to take PARI's stories into the classroom and get students to document issues around them.

Other stories by Vishaka George
Video Editor : Sinchita Maji

Sinchita Maji is a Senior Video Editor at the People’s Archive of Rural India, and a freelance photographer and documentary filmmaker.

Other stories by Sinchita Maji
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique