متھرا نِرگُڈے قہقہہ لگاتی ہیں اور اونچی آواز میں بڑبڑاتی ہیں، ’’انہوں نے ہمیں کچھ بھی نہیں سکھایا ہے۔‘‘ وہ ناسک ضلع کے تریمبکیشور تعلقہ کے ٹاکے ہرش گاؤں میں اپنے ایک کمرے کے گھر کے پاس بیل گاڑی سے ٹیک لگاکر بیٹھی ہیں۔ گاؤں کے تقریباً ۱۵۰۰ باشندے ٹھاکَر آدیواسی برادری سے ہیں۔
دسمبر ۲۰۱۷ تک، ۱۱ سالہ متھرا تقریباً آٹھ کلومیٹر دور، ڈہالیواڑی گاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں ۵ویں کلاس میں پڑھ رہی تھیں۔ لیکن تبھی ریاستی حکومت نے اسے بند کر دیا۔ وہ اب ٹاکے ہرش سے تقریباً چار کلومیٹر دور، آوہاٹے گاؤں میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے چلائے جا رہے اسکول میں کلاس ۶ میں پڑھتی ہیں۔
یہ پوچھنے پر کہ وہ کس اسکول کو ترجیح دیتی ہیں، وہ چہک کر کہتی ہیں: ’’پہلا والا۔‘‘
ڈہالیواڑی کا ضلع پریشد اسکول جب بند ہو گیا، تو آوہاٹے کے اسکول نے اس کی ۱۴ طالب علموں کو اپنے یہاں لے لیا، اسی تعلقہ کے واوی ہرش گاؤں میں واقع ایک تعلیمی کارکن، بھگوان مدھے کہتے ہیں۔ ’’ریاست سے اسے کوئی گرانٹ نہیں ملتی، اور وہ اسے سنجیدگی سے نہیں چلاتے ہیں،‘‘ وہ آگے کہتے ہیں۔ آوہاٹے کا اسکول – شری گجانن مہاراج وِدیالیہ – ہفتہ میں صرف دو بار کلاسیں کرواتا ہے۔
لیکن ڈہالیواڑی میں متھرا کے ضلع پریشد اسکول کا نقصان کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پورے مہاراشٹر کے ہزاروں بچوں نے اپنے اسکولوں کو بند ہوتے دیکھا ہے۔
حق اطلاع قانون کے تحت پوچھے گئے ایک سوال (جو میں نے جون ۲۰۱۸ میں پوچھا تھا) کے جواب میں موصول تعداد کے مطابق، وزیر اعلیٰ دیوندر پھڑنویس کی قیادت والی مہاراشٹر حکومت نے ۲۰۱۴-۱۵ اور ۲۰۱۷-۱۸ کے درمیان ۶۵۴ ضلع پریشد اسکولوں کو بند کر دیا تھا۔ مہاراشٹر پراتھمک شکشن پریشد کے جواب میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۱۴-۱۵ میں ریاست کے ۳۶ ضلعوں کے ۶۲۳۱۳ ضلع پریشد اسکولوں میں سے، ۲۰۱۷-۱۸ میں یہ تعداد گھٹ کر ۶۱۶۵۹ ہو گئی تھی۔
اور طلبہ کی تعداد ۲۰۰۷-۰۸ کے تقریباً ۶ ملین سے گھٹ کر ۲۰۱۴-۱۵ میں ۵ء۱ ملین سے تھوڑا کم ہو گئی، اور پھر ۲۰۱۷-۱۸ میں تقریباً ۴ء۶ ملین ہی رہ گئی۔
اپریل ۲۰۱۸ میں، وزیر تعلیم ونود تاوڑے نے کہا کہ سرکار نے صرف ۱۰ یا اس سے کم طلبہ والے اسکولوں کو ہی بند کیا ہے، کیوں کہ انہیں چلانا غیر ضروری تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ان طلبہ کو قریب کے ضلع پریشد اسکولوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ جنوری ۲۰۱۸ میں، ریاست نے مزید ۱۳۰۰ اسکولوں کو بند کرنے کی تجویز پیش کی تھی تعلیمی کارکنوں نے اس قدم کی سخت مخالفت کی ہے۔
متھرا اور ان کے گاؤں کے دیگر طالب علم حالانکہ ضلع پریشد کے روسٹر سے باہر ہو گئے۔ ان کی ماں بھیما کہتی ہیں کہ ضلع پریشد کا قریب ترین اسکول جو ابھی بھی کھلا ہوا ہے، وہ آوہاٹے سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور، سامُنڈی میں ہے۔ ’’لڑکیاں چونکہ بڑی ہو رہی ہیں، اس لیے ہم ان کے تحفظ کو لے کر فکرمند ہیں،‘‘ اپنے چھوٹے بچے کو گود میں لیے وہ کہتی ہیں۔
بھیما اور ان کے شوہر مادھو زرعی مزدور ہیں، جو کام دستیاب ہونے پر یومیہ مزدور کے طور پر کام کرکے ۱۵۰ روپے فی کس کماتے ہیں ’’ہمارے پاس زمین نہیں ہے۔ آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہیں ہے،‘‘ بھیما کہتی ہیں۔ ’’ہر صبح مجھے گھر سے نکل کر کام ڈھونڈنا پڑتا ہے، تاکہ شام کو چولہا جل سکے۔‘‘ پھر بھی، اگر بھیما کے پاس تھوڑا اضافی پیسہ ہوا، تو وہ متھرا کو گاؤں میں چلنے والے مشترکہ ٹیمپو یا جیپ سے اسکول جانے کے لیے ۲۰ روپے دیتی ہیں۔ ورنہ، لڑکی کو ۴۰ منٹ تک تریمبکیشور کی گھماؤدار سڑکوں پر پیدل چل کر جانا پڑتا ہے۔ ٹاکے ہرش ویترنا ندی پر بنے باندھ کے قریب واقع ہے، اس لیے متھرا کو پرائیویٹ یا ریاست کے ذریعے چلائے جا رہے اسکول جانے کے لیے اس باندھ کو پار کرنا پڑتا ہے۔ ’’مانسون کے دوران، یہ پل پانی میں ڈوب جاتا ہے،‘‘ بھیما کہتی ہیں۔ ’’کئی بار تو ہم کئی دنوں تک گاؤں میں ہی پھنسے رہتے ہیں۔‘‘
ٹاکے ہرش کے باشندوں کے لیے، ضلع پریشد کا قریب ترین اسکول جو ابھی بھی کھلا ہوا ہے، وہ آوہاٹے کے پرائیویٹ اسکول سے اور بھی آگے، تقریباً ۴ کلومیٹر دور ہے۔ یہ دوریاں لڑکیوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ ’وہ چونکہ بڑی ہو رہی ہیں، اس لیے ہمیں ان کے تحفظ کو لے کر تشویش ہے،‘ ایک سرپرست کا کہنا ہے
بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کا حق قانون، ۲۰۰۹ کے مطابق، ۵ویں کلاس تک کے طالب علموں کے لیے ریاست کے ذریعے چلائے جا رہے اسکول ایک کلومیٹر کے اندر، اور ۸ویں کلاس تک کے طالب علموں کے لیے تین کلومیٹر کے اندر دستیاب ہونا چاہیے۔ ’’لیکن کئی جگہوں پر اس پر عمل نہیں کیا جاتا،‘‘ مدھے کہتے ہیں۔
ضلع پریشد (ضلع کی کونسل) میں ریاستی حکومت کے ذریعے نامزد کلکٹر کی قیادت والے منتظمین ہوتے ہیں۔ مہاراشٹر میں، ضلع پریشد نے ۱۹۶۱-۶۲ میں اسکولوں کو ضلع بورڈوں سے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا، اور تبھی سے وہ انہیں چلا رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پرائمری اسکول ہیں، کلاس ۱ سے ۷ یا ۸ تک؛ کچھ کلاس ۹ اور ۱۰ کی ثانوی سطح تک ہیں؛ اور بہت کم میں ابھی بھی کلاس ۱۱ اور ۱۲ ہیں۔
ضلع پریشد اسکول مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں، اور زیادہ تر طالب علم کسانوں، زرعی مزدوروں اور دیگر لوگوں کے کنبے سے ہیں جو پرائیویٹ اسکولی تعلیم کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ (دیکھیں تھوڑا کھانا، بھوکے طالب علموں کا بڑا سہارا ) ان میں آدیواسی اور دلت بھی ہیں – درج فہرست قبائل مہاراشٹر کی کل آبادی کا ۹ء۴ فیصد ہیں، اور درج فہرست ذات ریاست کی آبادی کا ۱۱ء۸ فیصد (مردم شماری ۲۰۱۱)۔
حالانکہ، تمام بچوں کو یکساں تعلیم فراہم کرنے کے بجائے، مہاراشٹر کی یکے بعد دیگرے تمام حکومتوں نے عوامی تعلیم کو نظر انداز کیا ہے۔
مہاراشٹر کا اقتصادی سروے بتاتا ہے کہ ۲۰۰۷-۰۸ کے دوران ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم پر ریاستی حکومت کا خرچ ۱۱۴۲۱ کروڑ روپے یا مجموعی ریاستی گھریلو پیداوار (جی ایس ڈی پی) کا ۱ء۹۰ فیصد تھا۔ ایک دہائی بعد، ۲۰۱۸-۱۹ میں، اسکولی تعلیم (اور کھیل) کے لیے یہ بجٹ بڑھ کر ۵۱۵۶۵ کروڑ روپے ہو گیا ہے، لیکن یہ کل بجٹ کا صرف ۱ء۸۴ فیصد ہے – جو ریاست کی بے توجہی اور اسکولوں کے لیے کم رقم مختص کرنے کی جانب شارہ کرتا ہے۔
برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن کے ٹیچرس یونین کے جنرل سکریٹری، اور ۱۶ سال سے کارپوریشن کی تعلیمی کمیٹی میں رہ چکے ایک سابق کارپوریٹر، رمیش جوشی کا کہنا ہے کہ اس رقم میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ’’اصولی طور پر، تعلیم کا بجٹ جی ایس ڈی پی کے ۴-۶ فیصد کے درمیان ہونا چاہیے۔ تعلیم کے بارے میں بیداری بڑھنے سے زیادہ سے زیادہ طالب علم داخلہ چاہتے ہیں۔ بجٹ کم کر دینے پر ہم آر ٹی ای [حق تعلیم] کو یقینی کیسے بنا سکتے ہیں؟‘‘
’ٹیچرس انتخابی حلقہ‘ (اساتذہ کے ذریعے نامزد) سے مہاراشٹر قانون ساز کونسل کے رکن، کپل پاٹل کہتے ہیں، ’’وہ جان بوجھ کر بجٹ میں کمی کر رہے ہیں۔ یہ محروموں کو مؤثر طریقے سے بہتر تعلیم تک رسائی سے دور کر رہا ہے، سماج میں [بعض کے لیے] سہولیات کو مستحکم کر رہا ہے۔‘‘ (دیکھیں ’مجھے نہیں لگتا کہ میں ایک ٹیچر ہوں‘ )
اپنے بچوں کے لیے بہتر تعلیم کی تلاش میں، کچھ والدین انہیں پرائیویٹ اسکولوں میں منتقل کر رہے ہیں، اکثر فیملی کے لیے بڑی لاگت اور پریشانی کی قیمت پر۔ سولاپور ضلع کے ماڈھا تعلقہ کے موڈنِمب گاؤں میں، ۴۰ طالب علموں نے اسکول چھوڑ دیا اور ۲۰۱۷ میں قریب کے ایک پرائیویٹ اسکول میں شامل ہو گئے، ضلع پریشد اسکول کے ٹیچر پرمیشور سُروَسے کہتے ہیں۔
ان میں دتاتریہ سُروے کا ۱۱ سالہ بیٹا وویک بھی تھا، جو کلاس ۶ میں ہے۔ ’’ٹیچر شاید ہی کبھی کلاس میں موجود ہوتے تھے،‘‘ دتاتریہ کہتے ہیں۔ ’’دیگر ضلعوں کے کئی اسکولوں نے بجٹ سے متعلق تشویشوں کے سبب اپنی بجلی کٹوا دی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست کو ضلع پریشد کے اسکولوں میں پڑھنے والے طالب علموں کی پرواہ نہیں ہے۔‘‘
سُروے جو کہ ایک کسان ہیں، اپنے بیٹے کو سب سے اچھی تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ ’’کھیتی میں کوئی مستقبل نہیں ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ وہ اب سالانہ اسکول فیس کی شکل میں ۳۰۰۰ روپے دیتے ہیں۔ ’’میں نے اسے منتقل کر دیا کیوں کہ میں اس کے مستقبل کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
اس کے علاوہ، احمد نگر کے ماہر تعلیم ہیرمب کُلکرنی کہتے ہیں، کئی کنبے چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اچھی انگریزی جانیں، یہی وجہ ہے کہ والدین ضلع پریشد اسکولوں کی بجائے انگریزی میڈیم اسکولوں کو پسند کرتے ہیں، جب کہ مہاراشٹر میں تعلیم کا میڈیم مراٹھی ہے۔
تو، آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل کیے گئے ڈیٹا کے مطابق، ۲۰۰۷-۰۸ میں مہاراشٹر کے ضلع پریشد اسکولوں میں کلاس ۱ میں جن ۱ء۲ ملین طالب علموں نے داخلہ لے رکھا تھا، ۱۰ سال بعد، ۲۰۱۷-۱۸ میں، ان میں سے صرف ۳۰۲۴۸ طالب علم ہی باقی بچ گئے – یعنی صرف ۲ء۵ فیصد – جنہوں نے ان اسکولوں سے اپنے ۱۰ویں کلاس کے امتحان پاس کیے۔
اس بات کو بھی اگر ذہن میں رکھا جائے کہ زیادہ تر ضلع پریشد اسکول صرف ۷ویں یا ۸ویں کلاس تک ہی ہیں (اور ۱۰ویں کلاس تک نہیں)، پھر بھی یہ عدد اچھی نہیں ہے۔ سال ۲۰۰۹-۱۰ میں، ریاست کے ضلع پریشد اسکولوں میں کلاس ۱ میں ۱ء۱ ملین سے زیادہ طالب علم تھے۔ آٹھ سال بعد، ۲۰۱۷-۱۸ تک، ۸ویں کلاس میں صرف ۱۲۳۷۳۹ طالب علم تھے – یعنی اس مدت میں اسکول چھوڑنے والے کل طالب علموں کا ۸۹ فیصد۔
حالانکہ، مہاجرت کے سبب بھی ضلع پریشد اسکولوں میں طالب علموں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ کسان اور مزدور جب موسمی کام کے لیے مہاجرت کرتے ہیں، تو وہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ مراٹھواڑہ کے زرعی ضلعوں سے، مہاجرت بڑھ رہی ہے – اور کسانوں کے مشہور کمیونسٹ لیڈر، راجن چھیرساگر کے مطابق، نومبر سے مارچ کے درمیان کم از کم ۶ لاکھ کسان گنّے کی کٹائی کے لیے اسی علاقے کے اندر یا مغربی مہاراشٹر اور کرناٹک کی طرف مہاجرت کرتے ہیں۔
کیلاس اور شاردا سالوے، ہر سال پربھنی کے دیوے گاؤں سے ۶۰ کلومیٹر دور، بیڈ کے تیل گاؤں خورد کی ایک چینی فیکٹری میں مہاجرت کرتے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے ہرش وردھن، اور شاردا کی ۱۲ سالہ بھتیجی ایشوریہ وان کھیڑے کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ ’’غریبی کے سبب یہ تعلیم حاصل نہیں کر سکی،‘‘ کیلاس کہتے ہیں۔ وہ اور شاردا اپنے پانچ ایکڑ کے کھیت میں کپاس اور سویابین کی کھیتی کرتے ہیں، لیکن ایسا منافع نہیں کما پاتے جو سال بھر چلے۔ ’’دن میں جس وقت ہم کھیتوں میں کام کر رہے ہوتے ہیں، تب ہمارے بیٹے کی دیکھ بھال کرنے کے لیے اسے ہمارے ساتھ آنا پڑتا ہے۔‘‘ (دیکھیں دو ہزار گھنٹے تک گنّے کی کٹائی )
جب کسی طالب علم کو پڑھائی چھوڑنی پڑتی ہے، تو اکثر یہ فیملی کی لڑکیاں ہوتی ہیں۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ۲۰۱۵-۱۶ میں کہا گیا ہے کہ مہاراشٹر میں ۱۵-۴۹ سال کی عمر کی صرف ایک چوتھائی عورتوں نے ہی ۳۴ فیصد مردوں کے مقابلے اسکولی تعلیم کے ۱۲ یا اس سے زیادہ سال پورے کیے ہیں۔
واوی ہرش آدیواسی گاؤں کی ۱۳ سالہ منجولا لشکے نے ۲۰۱۷ میں اسکول چھوڑ دیا تھا کیوں کہ اس کی ماں سُمن بائی کو گھر پر ہاتھ بٹانے والی کی ضرورت تھی۔ ’’میرا شوہر شرابی ہے، وہ کام نہیں کرتا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں جب مزدوری کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہوں، تو مجھے اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے کسی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
سمن بائی اس بات سے انکار کرتی ہیں کہ وہ منجولا کی شادی کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ ’’وہ ابھی نوجوان ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ وہ اسکول چھوڑ دے۔ لیکن اس کی چھوٹی بہن پڑھ رہی ہے۔ ان میں سے صرف ایک ہی تعلیم حاصل کر سکتی تھی۔‘‘
حالانکہ ان کے پڑوسی کہتے ہیں کہ گاؤں کی زیادہ تر لڑکیوں کی شادی ۱۵ یا ۱۶ سال کی عمر میں ہو جاتی ہے۔ جانوروں کے باڑے میں، منجولا بیلوں کو کھولتی ہے اور دوپہر بعد کے لیے نکلنے کو تیار ہو جاتی ہے۔ ’’مجھے اسکول جانا پسند تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ (دیکھیں بجلی، پانی، ٹوائلیٹ کے بغیر چلتا ضلع پریشد اسکول )
حالانکہ، واوی ہرش اور ٹاکے ہرش جیسے چھوٹے گاؤوں اور بستیوں میں ریاست کے ذریعے چلائے جا رہے ضلع پریشد اسکول بڑی تعداد میں بند ہو رہے ہیں، تو تعلیم حاصل کرنے کا اتنا چھوٹا سا موقع بھی دیہی مہاراشٹر کے بچوں کے ہاتھوں سے چھِنتا جا رہا ہے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)